خودکش حملہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکی بحری جہاز پر جاپانی خودکش بمبار ہواباز (کامیکازی) کے حملے کے بعد آگ لگی ہوئی ہے۔ مئی 1945ء

خود کُش حملہ ایسے حملہ کو کہتے ہیں جس میں حملہ آور کا مقصد دوسروں کو مارنا یا بہت نقصان کرنا ہوتا ہے یہ جانتے ہوئے کہ وہ خود اس عمل میں یقیناً یا غالب امکانی ہلاک ہو جائے گا۔

جدید تاریخ میں خود کُش حملہ کی ابتدا مسیحی باغیوں نے اندلس حکومت کے خلاف کی، جس میں جانثار قصداً کھلے عام تجدیف کرتے تاکہ اندلسی قاضی سزا نافذ کرنے مجبور ہو اور بغاوت آبادی میں تقویت پائے۔ جنگوں میں بھی سپاہی اس طرح کے حملے کرتے ہیں جس کی مشہور مثال جاپانی کامیکازی ہوابازوں کی ہے۔ بری فوج میں اس کی مثالیں تمام ممالک کی فوجوں میں ملتی ہے۔ کسی خودکش حملے سے پہلے سالار اپنے سپاہیوں سے رضاکار مانگتا ہے جنہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس معرکہ میں ہلاک ہونا ان کا مقدر ہے۔ بڑے حریفوں کے خلاف جنگوں میں کمانڈو مشن اکثر خودکش نوعیت کے ہوتے تھے۔

اقتباس[ترمیم]

  • "ہم میں سے بہت سے لوگ یہ سمجھ نہیں پاتے کہ کوئی دہشت گرد کیوں بنتا ہے خاص طور پر خودکش بمبار کیوں بنتا ہے۔ یہ امریکا کا مشرق وسطیٰ کو جبراً پامال کرنے کا نتیجہ ہے۔ تصور کریں کہ آپ کا بچپن صرف اس لیے ضائع ہو گیا ہو کہ باہر نکلنے میں امریکی ڈرون سے مارے جانے کا خطرہ تھا۔ تصور کریں کہ آپ کے گھر والوں کو ہنستے ہوئے فوجیوں نے ہلاک کر دیا ہو۔ ذرا تصور کریں کہ آپ کی ساری امیدیں اور خواہشیں پلک جھپکتے تباہ ہو گئی ہوں۔ لیکن آج بہت سے لوگوں کے لیے یہ تصور نہیں، سچ حقیقت ہے"
Many of us are baffled by why someone would become a terrorist, especially a suicide bomber. Again, this is the coercion the Middle East is smothered in by the USA. Imagine losing your childhood because you could not go outside because of the American drones. Imagine family members having been murdered by laughing soldiers. Imagine all your hopes and dreams bombed away in the blink of an eye. Again, this is the unfortunate reality for many people today.[1]

حوالہ جات[ترمیم]