رنبیر ضابطہ تعزیرات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
رنبیر ضابطہ تعزیرات، 1932
ڈوگرا شاہی خاندان
Territorial extentجموں و کشمیر
تاریخ نفاذ1932
تاریخ رضامندی1932
تاریخ آغاز1932
صورت حال: نامعلوم

جموں و کشمیر ریاستی رنبیر ضابطہ تعزیرات یا رنبیر ضابطہ تعزیرات بھارتی ریاست جموں و کشمیر میں نافذ جرائم کا ضابطہ قانون ہے۔ اس کا نفاذ 1932ء میں ہوا اور تاحال نافذ ہے۔[1]

اس ضابطے کو اس وقت روشناس کرایا گیا تھا جب یہاں ڈوگرا خاندان کی حکومت تھی اور رنبیر سنگھ حکمران تھے۔[2]

رنبیر قانون تعزیرات ہند کے خطوط پر بنایا گیا ہے جسے تھامس بابنگٹن میکالے نے تیار کیا تھا۔[3]

تعزیرات ہند اوررنبیر ضابطہ تعزیرات کا تقابلی مطالعہ[ترمیم]

تعزیرات ہند میں شامل امور جنھیں رنبیر ضابطہ تعزیرات میں شامل یا حذف کیے جانے چاہیے[ترمیم]

  • تعزیرات ہند کی دفعہ 4 ان جرائم کا بھی احاطہ کرتی ہے جو کمپیوٹر کے ذریعے بھارت میں انجام پاتے ہیں، لیکن رنبیر ضابطہ تعزیرات اس معاملے میں یکسر خاموش ہے۔
  • تعزیرات ہند کی دفعہ 153 اے اے کی رو سے عوامی پیش قدمی کے دوران دانستہ اسلحہ لانا قابل سزا جرم ہے، تاہم رنبیر ضابطہ تعزیرات اس اہم موضوع پر خاموش ہے۔
  • تعزیرات ہند کی دفعہ 195 اے کے تحت اگر کوئی کسی شخص کو جھوٹی گواہی یا بیان دینے کے لیے دھمکاتا ہے تو وہ سزا کا مستحق ہے مگر رنبیر ضابطہ تعزیرات میں اس سلسلے میں کوئی ہدایت نہیں ملتی۔
  • تعزیرات ہند کی دفعہ 281 کے تحت جو شخص کسی ملاح کو روشنی، نشان یا پیراکی میں کام آنے والے پہیے سے گمراہ کرتا ہے تو وہ سزا کا حقدار ہے، تاہم رنبیر ضابطہ تعزیرات میں ایسا کچھ بھی نہیں ملتا۔
  • تعزیرات ہند کی دفعہ 304 بی جہیز کی وجہ سے ہونے والی اموات کے متعلق ہے، لیکن رنبیر ضابطہ تعزیرات میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
  • رنبیر ضابطہ تعزیرات کی دفعہ 303 ہر حالت میں اسیری کی زندگی گزار رہے قاتل کی سزائے موت کا حامی ہے، اس میں قتل کے تجزیے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس لیے اسے حذف کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
  • رنبیر ضابطہ تعزیرات کی دفعہ 190 اے کی رو سے حکومت ایسے کسی بھی شخص کو سزا دے سکتی ہے جو ایسا مواد شائع یا تقسیم کرے جسے حکومت کی جانب سے ضبط کیا گیا ہو۔ یہ وزیر اعلٰی کا اختیار ہے کہ وہ اسے غداری پر محمول کریں یا نہیں۔ اس مخصوص دفعہ سے صحافت، سوچ اور اظہار خیال کی آزادی بری طرح سے متاثر ہوتی ہے۔[4]

رنبیر ضابطہ تعزیرات کی خصوصیات جو تعزیرات ہند کا حصہ بن سکتی ہیں[ترمیم]

  • رنبیر ضابطہ تعزیرات کی دفعہ 167 اے کی رو سے جو بھی عوامی خدمت گزار کسی ٹھیکیدار کو اس کے ناکردہ کام کے لیے ادائیگی منظور کرتا ہے، وہ قانونی طور پر سزا کا مستحق ہے۔ رشوت ستانی سے جڑی یہ اہم دفعہ تعزیرات ہند میں موجود نہیں۔
  • رنبیر ضابطہ تعزیرات کی دفعہ 420 اے حکومت اور ارباب مجاز کی جانب سے کسی معاہدے میں دھوکا دہی کی سزا کا تعین کرتی ہے۔ ایسی صراحت تعزیرات ہند میں نہیں ہے۔
  • رنبیر ضابطہ تعزیرات کی دفعہ 204 اے ثبوت کے مٹانے یا بگاڑنے کی سزا کا تعین کرتی ہے۔ ایسی صراحت تعزیرات ہند میں نہیں ہے۔
  • رنبیر ضابطہ تعزیرات کی دفعہ 21 عوامی خدمت گزار کا دائرہ وسیع کرتی ہے جبکہ تعزیرات ہند میں اس کا دائرہ محدود ہے۔[4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Arijit Pasayat۔ "Kunti Devi vs Som Raj And Ors on 23 ستمبر، 2004"۔ Supreme Court of India۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2014 
  2. Bhim Singh (6 فروری 2010)۔ "Bitter realities of political history of J&K"۔ vijayvaani.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2014 
  3. Krishan Lal Kalla۔ The Literary Heritage of Kashmir۔ Jammu and Kashmir: Mittal Publications۔ صفحہ: 75۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2014 
  4. ^ ا ب Differences between RPC & IPC