زندہ پیر کوہاٹ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
زندہ پیر کوہاٹ
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1912ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جنگل خیل ،  کوہاٹ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 22 مارچ 1999ء (86–87 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گھمکول شریف ،  کوہاٹ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

خواجہ زندہ پیر (پیدائش: 1912ء — وفات: 22 مارچ 1999ء) جن کانام پیر حضرت شاہ المعروف سرکار زندہ پیر ہے جو بانی گھمکول شریف کے نام سے شہرت رکھتے ہیں۔

ولادت[ترمیم]

زندہ پیر 1912ء میں پیر غلام رسول شاہ کے ہاں جنگل خیل کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سلسلہ قادریہ کے مقتدر اولیاء اﷲ میں سے ہیں۔ آپ کا سلسلہ طریقت حضرت آخوند صاحب سوات اڈے شریف سے ملتا ہے ان کا مزار مبارک اجمیر شریف انڈیا میں ہے ۔

ذوق عبادت[ترمیم]

قبلہ عالم خواجہ زندہ پیر سرکار شروع ہی سے دن کو روزہ اور رات کو قیام و عبادت و ریاضت کے پابند تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے رشد و ہدایت آپ کو عطا فرمایا تو آغاز شعو ر ہی سے آپکو تمام محاسن و مکارم بھی عطا کر دیے تھے۔ ذکر الہٰی کی نعمت سے دامن کمسنی ہی سے مزین و آراستہ رہا ہے ۔

علم باطن[ترمیم]

قبلہ عالم کسی درس گاہ سے فارغ التحصیل نہ تھے۔ حافظ پیر سید جماعت علی شاہ علی پور سیداں شریف ،حافظ محمد عبد الکریم آستانہ عالیہ عید گاہ شریف راولپنڈی اور دیگر مشہور ہستیوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا دربار عالیہ موہڑہ شریف (مری) کے باواجی سرکار نے اپنی صد سالہ کمائی کا نچوڑ جناب زندہ پیر کو عطاء فرمایا۔ یہ واقع 1938ء کا ہے۔ 1938ء سے 1949ء تک بارہ سال کا عرصہ حضور قبلہ عالم نے فوج کے ساتھ منسلک رہے۔ بالآخر آپ امر ربی کے مطابق 1949ء میں گیارہ بلوچ رجمنٹ ایبٹ آباد چھاؤنی میں پردۂ حالتِ راز سے بے نقاب ہوئے ایبٹ آباد کے نزدیک گاؤں لساں نواب کے نام سے مشہور تھا۔ وہاں آپ کے پیر بھائی محمد شاہ المعروف طوری بابا کے نام سے مشہور تھے۔ حضور قبلہ عالم کا ان کے ساتھ الفت اور محبت کا رشتہ تھا ۔ طوری بابا بھی موہڑہ شریف کے خلیفہ مجاز تھے آپ اپنے گاؤں میں ایک ہزار کنال رقبہ کے مالک تھے۔ آپ نے مراتب اور فقیری کمال دیکھتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو پانچ سو کنال زمین آپ کے نام کرتا ہوں آپ میرے پاس مخلوق خدا کی رشد و ہدایت اور فیض یابی کے لیے مسند نشین ہو جائیں ۔ حضور قبلہ عالم 1952ء میں پہلا حج ادا فرمانے کے لیے بذریعہ بحری جہاز ایبٹ آباد سے تشریف لے گئے - فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد حضور قبلہ عالم زندہ پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے گنبد خضرا ء کے سامنے کهڑے ہوکر سید عالم صل اللہ علیہ و سلم کی بارگاہِ معلیٰ میں درخواست پیش کی کہ میرے لیے کیا فرمان ہے - گنبدِ خضرا سے جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ مبارک کا اشارہ ان پہاڑوں کی طرف ہوتا ہے - ساتھ ہی فرمان ہوتا ہے آپ پہاڑ پر دیکهیں - گنبدِ خضرا کے سامنے کهڑے ہوئے آپ جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کے حکم سے ان پہاڑوں کی طرف دیکہتے ہیں - اللہ کریم نے درمیان میں سے سارے حجاب اور پردے ہٹا دیے - آپ گنبدِ خضرا کے سامنے کهڑے ہیں - پہاڑی کا وہ حصہ جو آپ کے حجرہ مقدسہ کے ساتھ ملحقہ اور پیوست ہے، اس پر آپ کا نام زندہ پیر اور دربار عالیہ گهمکول شریف لکھا ہوا دیکہتے ہیں - آپ کو زندہ پیر کا نام مبارک حضور نبی پاک صل اللہ علیہ و سلم سے اسی وقت عطا کیا گیا - اور حکم ہوا کہ جا کہ وہاں بیٹھ جائیں ۔ اور تب سے آپ نے اس پتھریلی پہاڑی کو اپنا مسکن بنایا اور آپ کی سب سے بڑی کرامت دربار گهمکول شریف کا قیام ہے ۔ آپ نے کم و بیش 47 سال کے عرصے میں اپنی کمر کو زمین پر نہیں لگایا کہ دربار رسالت ﷺ سے تو مجھے بیٹھنے کا حکم ملا ہے اللہ اکبر کبیرہ اور 1400 سال میں آپ دوسری شخصیت ہیں جنہیں دربار رسالت مآب ﷺ سے برائے راست حکم ہوا کہ فلاں مقام پر تشریف لے جائیں اور پہلے جنہیں یہ سعادت نصیب ہوئی خواجہ معین الدین چشتی اجمیر شریف والے ہیں ۔ آپ نے اللہ تعالٰی کے ذکر کی برکت سے اس وادی گهمکول کو سر سبز بنا دیا جہاں پر پانی کا نشان تک نہ تھا نہ ہی راستہ جہاں اب مریدین کا جمِ غفیر دنیا کے کم و پیش تمام ہی ممالک سے مختلف تقریبات کے موقع پر موجود نظر آتا ہے بالخصوص عُرس مبارک کے موقع پر جو ہر سال 21'22'23' اکتوبر کو ہوتا ہے ۔ پاکستان کے علاوہ برطانیہ میں بھی آپ کا فیض جاری و ساری ہے پیر صاحب کے خلیفہ مجاز صوفی عبد اللہ صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) جنھوں نے برمنگھم میں مسجد گهمکول شریف کی بنیاد رکھی جو اس خطے کی سب سے بڑی مسجد ہونے وجہ سے نمایاں حیثیت رکھتی ہے اور جو ساتھ ہی ساتھ مدرسہ کی شکل میں دینی تعلیمات کو عام کرنے کا ذریعہ ہے ۔

وفات[ترمیم]

پیرصاحب گھمگول نے 3ذوالحج 1419ھ بمطابق 22مارچ 1999ء بروز سوموار 87سال کی عمر مبارکہ میں وفات پائی۔[1]

شجرہ شریف[ترمیم]

’’اولیائے کرام کے سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ کے سالار، بانی اور پیش رو سیدنا ابوبکر صدیق ہیں جو بوجہ محبت اور اتباع کامل حضور سید عالم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک ممتاز درجہ رکھتے ہیں اور جنہیں جناب رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خلوت و جلوت کی صحبتوں کا فخر حاصل ہے اور جن سے حضور کے غلام بے دام سلمان فارسی نے فیض اخذ کیا ہے وہ عاشق صادق اس قافلے کے امیرکارواں ہیں۔ امام قاسم جس قافلے کے حُدی خواں ہوں، امام جعفر جیسے جواں مرد جس قافلے کے ہم نوا ہوں، بایزید بسطامی جیسے سرفروش سالارِ کارواں ہوں اس قافلے کی سج دھج کا کیا کہنا۔ عارفوں کی جس سلکِ مروارید کے گوہرِ تابناک ابوالحسن خرقانی جیسے جانباز ہوں، ابو قاسم گورگانی، بو علی فارمدی جیسے دُرِنایاب، خواجہ یوسف ہمدانی و عبد الخالق غجدوانی جیسے بیش بہا موتی جس کی زینت ہوں، بندگانِ خدا کی جس مجلس بااخلاص و باوقار کے خواجہ عارف ریواگری جیسے مردباصفا صدر ہوں، محمودالخیر فغنوی، خواجہ علی رامیتنی جیسے بزرگ نیک خو جس مجلس کے رکن ہوں اور خواجہ بابا سماسی، خواجہ سید میر کلال جیسے کاملین روحِ رواں ہوں، صوفیائے کرام عالی مقام کی جس جماعت کے امیر خواجہ بہاؤالدین نقشبند جیسے صاحبِ طریقت اور ولیٔ کامل ہوں، خواجہ علاؤ الدین یعقوب چرخی جیسے فاضلِ اجل پاسباں ہوں، خواجہ عبید ﷲ احرار اور محمد زاہد جیسے نیکوکار جس جماعت میں شامل ہوں اور محمد درویش خواجہ امکنگی جیسے منزل آشنا راہنماؤں کے ہاتھوں میں جس کی باگ ڈور ہو ایسی جماعت کی استقامت فتح و نصرت میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہو سکتی۔ بزرگانِ دین کی جس بزمِ انجم کے شہابِ ثاقب خواجہ باقی باﷲ صاحب جیسے شیخ المشائخ ہوں اور جس میں مجدد الف ثانی صاحب بدرِ کامل بن کر چمک رہے ہوں، خواجہ شاہ حسین، سید عبد الباسط، خواجہ عبد القادر خواجہ سید محمود جیسے روشن ستارے ہالہ کیے ہوں وہ بزمِ انجم بھلا بھولے بھٹکوں کی کیسے راہنمائی نہیں کرے گی۔ رشدوہدایت کے جس گروہ پُرشکوہ کے خواجہ عبد ﷲ جیسے فیض یافتہ بزرگ تبلیغِ دین کی خدمت پر مامور ہوں، شاہ عنایتﷲ خواجہ حافظ احمد جیسے کہنہ مشق اور جہاں دیدہ ولی جس کے سرپرست ہوں اس گروہ پاک کی کوششیں کیونکر بروئے کار نہ ہوں گی۔ کاملین کی جس ولایت کے حکمران عبد الصبور جیسے سلطانِ ذیشان ہوں خواجہ گل محمد صاحب جیسے سالکان جس کے مہروماہ ہوں اس ولایت کی دنیا میں کیوں دھوم نہ مچے گی۔ فیوض و برکات کے جس خزینۂ عالیہ کے ناظمِ اعلٰی عبد المجید اور خواجہ عبد العزیز صاحب جیسے مقتدر ولیِ قاسم ہوں بھلا اس بحر زخار سے کوئی پیاسا رہ سکتا ہے۔ جس سپہرِ طریقت کے آفتاب شاہ عبد الملوک صاحب جیسے ہادیٔ کامل ہوں اور جن کی ضیاء شاہ نظام الدین صاحب، جامع بقا غوثِ صمدانی خواجہ محمد قاسم صاحب اور غوثِ یزداں پیرِ کامل جناب زندہ پیر صاحب جیسے درخشاں سورج جگمگاتے ہوں تو پھر دنیا میں کیونکر تاریکی رہ سکتی ہے۔ خواجہ پیر بادشاہ صاحب اور جناب پیر حبیب اللہ شاہ صاحب جیسے ان نفوسِ قدسیہ کی ضیاءباریاں دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہی ہیں‘‘۔[حوالہ درکار]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. کنز العرفان فی شانِ خواجہ زندہ پیر