سائنٹولوجی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سائنٹولوجی

صدر دفتر گولڈ بیس
ریورسائیڈ کاؤنٹی، کیلی فورنیا[1]
تاریخ تاسیس مئی 1952[2]
ریلیجیس ٹیکنالوجی سینٹر
کا چیئرمین
ڈیوڈ مسکیوج
باضابطہ ویب سائٹ www.scientology.org

سائنٹولوجی یا سائنس مت مذہبی عقائد و معمولات کا مجموعہ ہے، جس کا آغاز امریکی مصنف ایل رون ہبرڈ نے 1952ء میں کیا۔ ہبرڈ نے ابتدائی طور پر تصورات کا ایک پروگرام ترتیب دیا جسے ڈایانیٹکس کا نام دیا گیا۔ اس پروگرام کو ڈایا نیٹکس فاؤنڈیشن کی جانب سے تقسیم کیا گیا۔ فاؤنڈیشن بہت جلد دیوالیہ ہو گئی اور ہبرڈ بنیادی اشاعت Dianetics: The Modern Science of Mental Health کے حقوق سے محروم ہو گئے۔ انھوں نے اس موضوع کو مذہب کے طور پر نئی شکل دی اور اس کو سائنٹولوجی کے طور پر نیا نام دیا[4] اور اس حوالے سے اصطلاح، نظریات، ای-میٹر اور عملِ تنقیح یا آڈیٹنگ کو رائج کیا۔[5][6] ایک برس کے اندر ہی انھوں نے ڈایانیٹکس کے حقوق حاصل کر لیے اور دونوں موضوعات کی چرچ آف سائننٹولوجی کی چھتری تلے آبیاری کی۔[7][8][9][10][11][12]

تشریح[ترمیم]

ہبرڈ نے سائنٹولوجی کی تشریح اس طرح کی کہ یہ اصطلاح لاطینی لفظ “scio” سے متاثر ہے، جس کے معنی جاننا یا موازنہ کرنا ہے؛ اور کے ساتھ یونانی لفظ “logos” یعنی کوئی بیرونی شکل، جس کے ذریعے اندرونی کیفیات و خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ لہٰذا ہبرڈ لکھتے ہیں کہ جاننے کے بارے میں جاننا یا علم کی سائنس۔[13]

تنازعات[ترمیم]

ہبرڈ کے گروہوں کو قابل غور طور پر مزاحمت اور تنازعات کا سامنا ہے۔[14] جنوری 1951ء میں نیوجرسی بورڈ آف میڈیکل ایگزامنرز نے ڈایا نیٹکس فاؤنڈیشن کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی تھی، جس میں لائسنس کے بغیر طبی ادویات کی تعلیم دینے کا الزام تھا۔[15] ہبرڈ کے پیرو کار مجرمانہ طور پر امریکی حکومت کے رازوں تک رسائی میں ملوّث رہے ہیں۔[16][17]

بین الممالک قانون سے تصادم کا موقف[ترمیم]

ہبرڈ سے متاثرہ اداروں اور ان کی زمرہ بندی اکثر و بیشتر تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ جرمنی نے سائنٹولوجی گروہوں کو غیر آئینی فرقہ قرار دیا ہے۔[18][19] فرانس میں پارلیمانی رپورٹس کے مطابق سائنٹولوجی کو خطرناک فرقوں کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔[20]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Associated Press (13 اگست 1991)۔ "Rural studio is Scientology headquarters"۔ San Jose Mercury News۔ صفحہ: 6B 
  2. Cusack 2009, p. 400
  3. "L Ron Hubbard's Birthday: Who was he and what is Scientology? | Metro News"۔ metro.co.uk۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مارچ 2017 
  4. "Scientology glossary"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 اگست 2013 
  5. Melton 2000, pp. 28
  6. Melton, J. Gordon (1992)۔ Encyclopedic Handbook of Cults in America۔ New York: Garland Pub۔ صفحہ: 190۔ ISBN 978-0-8153-1140-9 
  7. Guiley, Rosemary (1991)۔ Harper's Encyclopedia of Mystical & Paranormal Experience۔ [San Francisco]: HarperSanFrancisco۔ صفحہ: 107۔ ISBN 978-0-06-250365-7 
  8. DeChant & Jorgenson 2003, p. 227
  9. Stephen A. Kent (July 1999)۔ "Scientology – Is this a Religion?" (PDF)۔ Marburg Journal of Religion۔ 4 (1): 1–23۔ 3 جون 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ March 3, 2013 
  10. David Cohen (October 23, 2006)۔ "Tom's aliens target City's 'planetary rulers'"۔ Evening Standard۔ June 3, 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 مارچ 2013۔ As Miscavige begins to crescendo "our next step is eradicating psychiatry from this planet, we will triumph!" 
  11. Dorthe Refslund Christensen (June 24, 2016)۔ "Rethinking Scientology A Thorough Analysis of L. Ron Hubbard's Formulation of Therapy and Religion in Dianetics and Scientology, 1950–1986"۔ Alternative Spirituality and Religion Review۔ 7: 155–227۔ doi:10.5840/asrr201662323 
  12. Janet Reitman (2011)۔ Inside Scientology: The Story of America's Most Secretive Religion۔ Houghton Mifflin Harcourt۔ ISBN 9780547549231 
  13. Robyn E Lebron (2012)۔ Archived copy۔ ISBN 9781462712618۔ 3 ستمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جنوری 2016 
  14. "Hubbard's Church 'Unconstitutional': Germany Prepares to Ban Scientology - SPIEGEL ONLINE"۔ spiegel.de۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مارچ 2017 
  15. "National Assembly of France report No. 2468"۔ assemblee-nationale.fr۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مارچ 2017 
  16. Le point sur l'Eglise de Scientologie آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ tempsreel.nouvelobs.com (Error: unknown archive URL), Le Nouvel Observateur