سراج الدین بلقینی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سراج الدین بلقینی
معلومات شخصیت
پیدائش 3 اگست 1324ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بلقینہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 1 جون 1403ء (79 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاہرہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مفسرِ قانون  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

امام الحافظ شیخ الاسلام سراج الدین بلقینی (پیدائش: 4 اگست 1324ء— وفات: یکم جون 1403ء) کبارشافعی علما میں سے ہیں۔ شیخ بلقینی کو آٹھویں صدی ہجری کے نادر روزگار علما کرائے میں شمار کیا جاتا ہے۔ علمائے اسلام کی اُن کے متعلق رائے یہ ہے کہ وہ آٹھویں صدی ہجری کے مجدد ہیں۔

ابتدائی حالات[ترمیم]

نام و نسب[ترمیم]

امام بلقینی کی کنیت ابوحفص، لقب سراج الدین اور نام عمر بن رِسْلان ہے جبکہ نسب یوں ہے:  عمر بن رِسلان بن نصیر بن صالح الکنانی العسقلانی البلقینی الشافعی۔ عموماً اپنے عہد میں امام الائمہ اور علم الائمہ کے القاب سے بھی یاد کیے جاتے رہے۔ صالح وہ پہلے شخص تھے جو بلقینہ نامی گاؤں میں آباد ہوئے۔

پیدائش[ترمیم]

امام بلقینی کی پیدائش بلقینہ نامی ایک قدیمی گاؤں میں شبِ جمعہ 12 شعبان 724ھ مطابق 3 اگست 1324ء کو ہوئی۔[1]

تحصیل علم[ترمیم]

امام بلقینی نے سات سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا اور بعد ازاں فقہ شافعی کی مشہور کتب المحرر، علم نحو میں کتاب الکافیہ لابن مالک، ابن حاجب کی المختصر (اُصول کی کتاب جو فقہ شافعی میں پڑھائی جاتی ہے)، قرأت میں کتاب الشاطبیہ بھی حفظ کی۔ 736ھ میں 12 سال کی عمر میں اپنے والد کے ہمراہ بلقینہ سے قاہرہ آگئے اور قاہرہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ قاہرہ میں اپنے عہد کے تمام علمائے شوافع سے اکتسابِ علم کیا۔ پندرہ سال کی عمر میں فتویٰ دینے لگے تھے۔ علاوہ ازیں صدر الدین ابی الفتح المیدومی سے بھی علم حاصل کیا۔ شمس الدین اصفہانی سے اُصول ہائے قرأت، ابی حیان سے علم نحو کے متعلق تعلیم حاصل کی جبکہ حافظ حافظ جمال الدین المزی (متوفی742ھ) اور مؤرخ اسلام علامہ شمس الدین الذہبی (متوفی 748ھ) سے سندِ اِجازہ حاصل کی۔[2]

سلاطین سے تعلقات اور قاہرہ میں آمد[ترمیم]

736ھ کے بعد امام بلقینی قاہرہ میں ہی مستقل سکونت اختیار کیے رہے۔ 740ھ اور 747ھ میں حج بیت اللہ اداء کیا۔ 769ھ میں دمشق میں دارالعدل و قضاۃ آپ کے سپرد کی گئی اور 793ھ میں سلطان الظاہر سیف الدین برقوقکی دعوت پر حلب چلے گئے اور وہیں مقیم رہے۔ سلطان سیف الدین برقوق نے آپ کو قاضی القضاۃ مقرر کر دیا تھا۔ بعد ازاں بلاد الشام کی سکونت ترک کرکے قاہرہ چلے آئے اور تا وفات یہیں مقیم رہے۔ اِس تمام مدت میں آپ کو  سرکاری وظیفہ ملتا رہا۔[2] قاہرہ میں باب الشعریہ کے قریب ایک مدرسہ قائم کیا اور وہیں تفسیر، حدیث اور فقہ کی تعلیم دینے لگے۔

اولاد[ترمیم]

امام بلقینی کا عقد بہاء الدین ابومحمد ابن عقیل (متوفی 769ھ) کی دختر سے ہوئی تھی اور اِس عقد سے امام بلقینی کے تین بیٹے پیدا ہوئے۔

تلامذہ[ترمیم]

امام بلقینی نے اپنے لاتعداد تلامذہ پیچھے چھوڑے جن میں سرفہرست اُن کے بیٹے جلال الدین بلقینی بھی شامل تھے۔ ابن حجر عسقلانی اور ابن ناصر الدین (متوفی 842ھ) نے امام بلقینی کو اپنا شیخ تسلیم کیا ہے۔

وفات[ترمیم]

امام بلقینی بروز جمعہ 11 ذِیقعد 805ھ مطابق یکم جون 1403ء کو چاشت کے وقت قاہرہ میں انتقال کرگئے۔آپ کے بیٹے جلال الدین بلقینی نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ کے اپنے قائم کردہ مدرسہ میں تدفین کی گئی۔[3] مدتِ حیات 81 سال 2 ماہ 28 دن بلحاظ قمری تھی۔

تصانیف و تالیفات[ترمیم]

امام شمس الدین سخاوی نے الضوء اللامع میں امام بلقینی کی 42 کتب کی یہ فہرست درج کی ہے:[4]

  • اظہار المستند فی تعدد الجمعۃ فی البلد۔
  • الاجوبۃ المرضیۃ عن المسائل المکیۃ۔
  • ارتیاح الارواح فی المواعید من انشائہ کلہ۔
  • التادیب مختصر التدریب۔
  • التدریب فی الفقہ الشافعی۔
  • تراجم البخاری۔
  • ترتیب الاقسام علی مذہب الامام فی الفروع۔
  • ترتیب الام للامام الشافعی۔
  • ترجمان شعب الایمان۔
  • تصحیح المہناج للنووی۔
  • تصنیف لطیف فیما یدخل العبد المسلم فی ملک الکافر ابتدا۔
  • تکذیب مدعی الاجماع مکابرۃ علیٰ منع تعدد الجمعۃ فی القاہرہ۔
  • تنقیح القول المعلوم فی تحقیق عموم المفہوم۔
  • جلا المعمیٰ فی الاسم والمسمیٰ۔
  • الجواب الوجیہ عن تزویج الوصی السفیہ۔
  • الدلالات المحققۃ فی الوقف طبقۃ بعد طبقۃ۔
  • رفع الضمان عمن لم یجد خیانۃ اذا نصبہ الحاکم للامانۃ۔
  • صورت ثبوت المھر بالشاھد والیمین۔
  • صورۃ سؤال سئل عنہ سراج الدین البلقینی فی حدیثی القرض والصدقۃ۔
  • الطریقۃ الواضحۃ فی تمییز الصنابحۃ۔
  • عرف الشذا فی مسالۃکذا۔
  • الفوائد المحضۃ علیٰ الرافعی والروضۃ۔
  • الفتح المقدر فی شرح المحرر۔
  • الفیض الجاری علیٰ صحیح البخاری۔
  • فتح اللہ بما لدیہ فی بیان المدعی والمدعیٰ علیہ۔
  • الفتح الموھب فی الحکم بالصحۃ والموجب۔
  • فوائد الحسام علیٰ قواعد ابن عبد السلام۔
  • فتاویٰ البلقینی۔
  • قطر السیل فی امر الخیل۔
  • الکشاف علیٰ الکشاف۔
  • المسؤول فی علم الاصول۔
  • محاسن الاصطلاح و تضمین کتاب ابن الصلاح۔
  • الملمات برد المہمات۔
  • مناسبۃ ابواب الفقہ علیٰ طریقۃ علما الشافعیۃ۔
  • مناسبات تراجم ابواب البخاری۔
  • المنصوص والمنقول عن الشافعی فی الاصول۔
  • منہج الاصلین۔
  • نشر العبیر لطی الضمیر۔
  • واضح المستندین فی رفع الدین۔
  • الینبوع فی اکمال المجموع۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. البلقینی: التدریب فی فقہ الشافعی، ترجمۃ المصنف، جلد 1، صفحہ 44۔ مطبوعہ ریاض۔
  2. ^ ا ب ابن العماد الحنبلی:  شذرات الذھب،  جلد 9، صفحہ 80۔
  3. ابن العماد الحنبلی:  شذرات الذھب،  جلد 9، صفحہ 81۔
  4. البلقینی: التدریب فی فقہ الشافعی، ترجمۃ المصنف، جلد 1، صفحہ 48 تا 51 ۔ مطبوعہ ریاض۔