سفر کربلا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سفر کربلا امام حسین اور ان کے ساتھیوں کا سفر جو مدینہ سے مکہ اور وہاں سے کربلا اور واقعہ کربلا کے بعد شام اور پھر کربلا سے ہوتے ہوئے مدینہ واپسی کا سفر تھا۔

431 ﻛﻠﻮ میٹر ‏(ﻣﺪﯾﻨﻪ سے ﻣﻜّﻪ‏) + 1447 ﻛﻠﻮ میٹر (ﻣﻜّﻪ سے ﻛﺮﺑﻼ‏) + 70 ﻛﻠﻮ میٹر (ﻛﺮﺑﻼ سے ﻛﻮﻓﻪ‏) + 1545 ﻛﻠﻮ میٹر (ﻛﻮﻓﻪ سے ﺩﻣﺸﻖ براہ سلطانی‏) + 853 ﻛﻠﻮ میٹر (ﺩﻣﺸﻖ سے ﻛﺮﺑﻼ براہ بادیہ‏) + 1209 ﻛﻠﻮ میٹر (ﻛﺮﺑﻼ سے ﻣﺪﯾﻨﻪ‏) = 5555 ﻛﻠﻮ میٹر قافلہ حسینی نے مجموعی طور پر مسافت طے کی ہے ۔ (مدينہ سے مدينہ تک کا سفر براہ مکہ، كربلا، كوفہ ، دمشق اور کربلا)

سفر کی وجہ[ترمیم]

15 رجب سنہ 60 ہجری کو معاویہ کی موت کے بعد، لوگوں سے یزید کی بیعت لی گئی۔[1] یزید نے بر سر اقتدار آنے کے بعد ان چیدہ چیدہ افراد سے بیعت لینے کا فیصلہ کیا جنھوں نے معاویہ کے زمانے میں یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔[2] اسی بنا پر اس نے مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کے نام ایک خط ارسال کر کے معاویہ کی موت کی خبر دی اور ساتھ ہی ایک مختصر تحریر میں ولید کو "حسین بن علی، عبد الرحمن بن ابو بکر، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر سے زبردستی بیعت لینے اور نہ ماننے کی صورت میں ان کا سر قلم کرنے کی ہدایت کی"۔ [3]

اس کے بعد یزید کی طرف سے ایک اور خط لکھا گیا جس میں حامیوں اور مخالفین کے نام اور حسین بن علی کا سر بھی اس خط کے جواب کے ساتھ بھجوانے کی تاکید کی گئی تھی۔[4] چنانچہ ولید بن عتبہ نے مروان سے مشورہ کیا؛[5] اور اس کی تجویز پر مذکورہ افراد کو دارالامارہ بلوایا گیا۔[6]

امام اپنے 30[7] عزیز و اقارب کے ہمراہ دارالامارہ پہنچے۔[8] ولید نے ابتدا میں معاویہ کی موت کی خبر سنائی اور پھر یزید کا خط پڑھ کر سنایا جس میں اس نے "حسین سے اپنے لیے بیعت لینے کی تاکید کی تھی"۔ اس موقع پر امام حسینؑ نے ولید سے کہا: "کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ میں رات کی تاریکی میں یزید کی بیعت کروں؟ میرا خیال ہے کہ تمھارا مقصد یہ ہے کہ میں لوگوں کے سامنے یزید کی بیعت کروں"۔ ولید نے کہا: "میری رائے بھی یہی ہے"۔ [9] امامؑ، نے فرمایا: "پس، کل تک مجھے مہلت دو تا کہ میں اپنی رائے کا اعلان کروں"۔[10]

حاکم مدینہ نے دوسرے روز عصر کے وقت اپنے افراد کو امامؑ کے یہاں بھجوایا تاکہ آپؑ سے جواب وصول کرے؛۔[11] تاہم امامؑ نے ایک اور رات کی مہلت مانگی جسے ولید نے قبول کیا اور امامؑ کو مہلت دے دی۔[12] امام عالی مقام نے دیکھا کہ مدینہ مزید پر امن نہ رہا، چنانچہ امام حسینؐ نے مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔[13]

مدینے سے خروج[ترمیم]

حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے امام حسین ہفتہ کی رات 28 رجب اور بعض دوسرے اقوال کی بنا پر 3 شعبان سنہ60ہجری قمری [14] کو اپنے اہل بیت اور اصحاب کے 84 افراد کے ساتھ مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔[15] بعض مصادر کے مطابق آپؑ نے رات بھر اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ(س) اور اپنے بھائی امام حسنؑ کی قبر مبارک پر حاضری دی وہاں نماز پڑھی اور وداع کیا اور صبح سویرے گھر لوٹ آئے۔ [16] بعض دیگر مصادر میں آیا ہے کہ آپ نے دو راتیں پے در پے اپنے نانا رسول خداؐ کے قبر مبارک پر گزاریں۔[17]

اس سفر میں سوائے محمد بن حنفیہ[18] کے اکثر عزیز و اقارب منجملہ آپؑ کے فرزندان، بھائی بہنیں، بھتیجے اور بھانجے آپؑ کے ساتھ تھے۔[19] بنی ہاشم کے علاوہ آپ کے اصحاب میں سے 19 افراد بھی اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھے۔[20]

آپ کے بھائی محمد بن حنفیہ کو جب امام حسینؑ کے سفر پر جانے کی اطلاع ملی تو آپ سے خداحافظی کے لیے آئے۔ اس موقع پر امامؑ نے بھائی کے نام تحریری وصیتنامہ لکھا جس میں درج ذیل جملے بھی مذکور ہیں:

إنّی لَم اَخْرج أشِراً و لا بَطِراً و لا مُفْسداً و لا ظالماً وَ إنّما خرجْتُ لِطلب الإصلاح فی اُمّة جدّی اُریدُ أنْ آمُرَ بالمعروف و أنْهی عن المنکر و اسیرَ بِسیرة جدّی و سیرة أبی علی بن أبی طالب[21]

ترجمہ:میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لیے مدینہ سے نہیں نکلا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ میں صرف اپنی جد کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ارادہ رکھتا ہوں، میں اپنے جد اور باپ علی ابن ابی طالب کی سیرت پر چلوں گا۔۔

مدینہ تا کربلا سفر کے ایام[ترمیم]

امام حسین کا قیام، ـ 26 رجب 60 ھ میں یزید کی بیعت کے انکار سے 10 محرم الحرام 60 ھ عاشور کے دن آپ کی شہادت تک ـ 162 دن تک جاری رہا:

اگر سفر اسراء اور قیام شام نیز 20 صفر 61 ھ تک واپس کربلا آمد کے مجموعی کم از کم 40 دن اور واپس مدینہ پہنچنے کے 20 ایام اضافہ کیے جائیں تو قافلہ حسینی کا کل سفر کم از کم 222 دن سے زیادہ کا ہو گا۔

مدینہ تا مکہ کی منازل[ترمیم]

امام حسینؑ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مدینہ سے خارج ہوئے اور اپنے بعض عزیز و اقارب کے مرضی کے برخلاف مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔[22] مدینہ سے مکہ کے اس سفر کے دوران میں آپ نے درج ذیل منازل کو عبور کیا:

1-ذوالحلیفہ، 2-ملل، 3-سیالہ، 4-عرق ظبیہ، 5-زوحاء، 6-انایہ، 7-عرج، 8-لحر جمل، 9-سقیا، 10-ابواء، 11-رابغ، 12-جحفہ، 13-قدید، 14-خلیص، 15-عسفان اور 16-مرالظہران۔

مکہ کے راستے میں عبداللہ بن مطیع سے ملاقات ہوئی، اس نے امامؑ کے ارادے کے بارے میں سوال کیا تو امام نے فرمایا:"فی الحال مکہ جانے کا ارادہ کر چکا ہوں وہاں پہنچنے کے بعد خدا سے آئندہ کی خیر و صلاح کی درخواست کروں گا"۔ عبد اللہ نے کوفہ والوں کے بارے میں انتباہ کرتے ہوئے امامؑ سے مکہ ہی میں رہنے کی درخواست کی۔[23]

امام حسینؑ 5 دن بعد یعنی 3 شعبان سنہ 60 ہجری قمری کو مکہ پہنچ گئے۔[24] جہاں اھل مکہ اور بیت اللہ الحرام کی زیارت پر آئے ہوئے حاجیوں نے آپ کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔[25]

امام مکہ میں[ترمیم]

امام حسین 3 شعبان سے 8 ذوالحجہ تک یعنی چار مہینے سے زیادہ مکہ میں قیام پزیر رہے۔ مکہ میں آپؑ کی تشریف آوری کی خبر سن کر مکہ کے لوگ نہایت خوش ہوئے اور صبح و شام آپ کے وجود مبارک سے فیضاب ہوتے تھے جو عبداللہ بن زبیر پر نہایت سخت گذرتا کیونکہ وہ اس امید میں تھا کہ مکہ والے اس کی بیعت کریں گے اور اسے یہ معلوم تھا کہ جب تک امام حسین مکہ میں ہیں کوئی اس کی بیعت نہیں کریں گے۔[26]

مکہ تا کوفہ منازل کی تعداد[ترمیم]

ذو الحجہ 60 ھ میں امام حسین نے احرام حج توڑ کر عمرہ انجام دیا اور مکہ مکرمہ سے روانگی ہوئی۔

امام حسین نے مکہ سے کوفہ تک کئی منزلیں طے کیں۔ ایک منزل یا منزلگاہ سے دوسری منزل تک کا فاصلہ 3 فرسخ (= 18.72 کلومیٹر) تھا۔

مکہ سے کربلا منزل بہ منزل کی تفصیل بہت سی کتب میں موجود ہے۔ جو 18 سے 40 منازل تک کے اختلاف کو پیش کرتی ہیں۔

1-بستان بنی عامر،

2-تنعیم (یمن میں یزیدی کارگزار بحیر بن ریسان حمیری کی طرف سے شام کی طرف بھیجے ہوئے صفایا کے منتخب جنگی غنائم کے قافلے کو اپنی تحویل میں لیا نیز کچھ اونٹ کرائے پر لیے)،

3-صفاح (امام علیہ السلام کی فرزدق شاعر سے ملاقات)،

4-ذات العرق (امام علیہ السلام کی بشر بن غالب نیز عون بن عبد اللہ بن جعفر سے ملاقات)،

5-وادی عقیق،

6-غمرہ،

7-ام خرمان،

8-سلح،

9-افیعیہ،

10-معدن فزان،

11-عمق،

12-سلیلیہ،

13-مغیثہ ماوان،

14-نقرہ،

15-حاجز (امام علیہ السلام نے یہیں سے قیس بن مسہر صیداویکو کوفہ روانہ کیا)،

16-سمیراء،

17-توز،

18-اجفر ( یہاں امام علیہ السلام کا سامنا عبد اللہ بن مطیع عدوی سے ہوا جس نے امام علیہ السلام کو واپسی کا مشورہ دیا)،

19-خزیمیہ،

20-زرود ( اس مقام پر، زہیر بن قین کا قافلہ، قافلۂ حسینی سے جا ملا اور مسلم ع اور عروہ کی شہادت کی خبر کی ملی،

21-ثعلبیہ،

22-بطان،

23-شقوق،

24-زبالہ ( اس منزل پر امام علیہ السلام کو قیس بن مسہر کی شہادت کی خبر موصول ہوئی اور نافع بن ہلال سمیت چند افراد کا قافلہ، حسینی قافلے میں شامل ہوا)،

25-بطن العقبہ (امام علیہ السلام کی عمرو بن لوزان سے ملاقات اور عمرو کا آپ (علیہ السلام) کو واپسی کا مشورہ)

26-عمیہ،

27-واقصہ،

28-شراف،

29-تالاب ابومسک،

30-جبل ذو حسم (امام عالی مقام علیہ السلام کا حُر کے لشکرّ سے سامنا ہوا)

31-بیضہ ( اس مقام پرامام علیہ السلام نے اپنے اصحاب اور حر کو مشہور خطبہ دیا)،

32-مسیجد،

33-حمام،

34-مغیثہ،

35-ام قرون،

36-عذیب الہیجانات (کوفہ کا راستہ عذیب سے قادسیہ اور حیرہ کی جانب تھا۔ لیکن امام علیہ السلام نے راستہ بدل دیا اور کربلا کی طرف سے گئے)

37-قصر بنی مقاتل (امام علیہ السلام کی عبید اللہ بن حرّ جعفی سے ملاقات ابن حر نے امام کی طرف سے نصرت کی دعوت رد کردی)

38-قطقطانہ،

کربلائے معلی یعنی نینوا (وادی طَفّ) آخری منزل تھی۔

دو محرم الحرام 61 ہجری کو امام عالی مقام علیہ السلام اپنے اصحاب و عیال کو لے کر کربلا میں اترے۔۔!!!

سفر اسیری کی منزلیں[ترمیم]

10 محرم کو اسیر ہونے والا عورتوں اور بچوں اور سر ہائے بریدہ کا قافلہ کربلا سے روانہ ہوا اور 12 محرم کو کوفہ پہنچا۔ یہاں تین دن قید اسیری کاٹی اور چوتھے دن 15 محرم کو کوفہ سے روانہ ہوئے۔20 دن بعد 25 شہروں سے گزرتا ہوا یہ ستم دیدہ اسراء کا قافلہ یکم صفر شام پہنچا۔

کوفہ سے شام تک کی ان منزلوں کی تعداد 14 تھی جو اہل بیت علیہم السلام نے اسیری کی حالت میں طے کیں۔

کوفہمسکنسامراءتکریتوادی نخلہموصلسنجارنصیبیندعواترقہحلبشیزرحماہحمصبعلبکصومعہ راہبہدمشق

شام میں قیام اور عزاداری کے دن[ترمیم]

شام میں ایک مہینہ یا 45 دن تک قیام پر مبنی روایات میں کچھ زیادہ قوت نہیں ہے کیونکہ ان اقوال کے قائلین متفرد (اور تنہا) ہیں اور چونکہ خاندان معاویہ کی عورتوں نے اہل بیت علیہم السلام کی عزاداری کو دیکھا اور ان کی حقانیت کا ادراک کیا تو انھوں نے بھی پانچویں دن عزاداری کی اس مجلس میں شرکت کرنا شروع کردی چنانچہ یہی نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام نے دمشق پہنچنے سے لے کر مدینہ واپس روانگی تک، شام میں 10 روز سے زیادہ قیام نہیں کیا۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ابن سعد، الطبقات الکبری، خامسہ1، ص442؛ بَلاذُری، انساب الاشراف، ج3، ص155؛ مفید، الارشاد، ج2، ص32۔
  2. محمد بن جریرالطبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج5، ص338۔
  3. ابومخنف الازدی، مقتل الحسینؑ، ص3؛ الطبری، وہی، ص338؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، صص9-10؛ الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسینؑ، ج1، ص180 اور علی بن ابی الکرم ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج4، ص14۔
  4. شیخ صدوق؛ الامالی، ص152؛ ابن اعثم؛ وہی ماخذ، ص18 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص185۔
  5. ابومخنف؛ وہی ماخذ، صص3-4؛ الدینوری، وہی ماخذ، ص227 و الطبری، وہی ماخذ، صص338-339 اور رجوع کریں: ابن اعثم، وہی ماخذ، ص10؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص181 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص14۔
  6. الطبری، وہی ماخذ، ج5، صص338-339؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص10؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص181 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص14۔
  7. ابن اعثم؛ مقتل الحسینؑ، وہی ماخذ، ص18 و سید بن طاوس؛ اللہوف، تہران، جہان، 1348ش، ص17۔
  8. الخوارزمی، وہی ماخذ، ص183۔الدینوری، وہی ماخذ، ص227؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص183 و ابن شهرآشوب؛ وہی ماخذ، ص88
  9. الدینوری، وہی ماخذ، ص228؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص32 و عبد الرحمن بن علی ابن الجوزی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، ج5، ص323۔
  10. ابومخنف، وہی ماخذ، ص5؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص33 و ابن اعثم؛ مقتل الحسینؑ، وہی ماخذ، ص19۔
  11. شیخ مفید، وہی ماخذ، ص34۔
  12. الطبری، وہی ماخذ، ص341 و شیخ مفید؛ وہی ماخذ، ص34۔
  13. ابن اعثم؛ الفتوح، وہی ماخذ، ص19 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص187۔
  14. ابن‌اعثم، الفتوح، ج5، صص21-22؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، ص189۔
  15. بَلاذُری، انساب‌الاشراف، ج3، ص160؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج5، ص341؛ مفید، الارشاد، ج2، ص34۔
  16. ابن‌اعثم، الفتوح، ج5، صص19-20؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، ص187۔
  17. ابن‌اعثم، الفتوح، ج5، صص18-19۔
  18. دینوری، اخبارالطوال، ص228؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج5، ص341؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج4، ص16۔
  19. ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص228؛ صدوق، امالی، صص152-153۔
  20. صدوق، امالی، ص152۔
  21. ابن‌اعثم، الفتوح، ج5، ص21؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، صص188-189۔
  22. ابن‌اعثم، الفتوح، ج5، ص22؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، ص189۔
  23. ابن‌اعثم، الفتوح، ج5، ص23۔
  24. بلاذری؛ انساب‌الاشراف، ص160؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج5، ص381؛ مفید، الارشاد، ج2، ص35۔
  25. بلاذری، انساب‌الاشراف، ج3، ص156؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج5، ص23؛ مفید، الارشاد، ج2، ص36۔
  26. بلاذری، انساب‌الاشراف، ج3، ص156؛ مفید، الارشاد، ج2، ص36؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج4، ص20؛ خوارزمی، مقتل‌الحسینؑ، ج1، ص190۔
  27. ابن اعثم، کتاب الفتوح، ج5، ص133۔
  28. شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص122۔
  29. طبرسی، اعلام الوری۔۔۔، ج1، ص475۔
  30. ابن سعد، وہی مآخذ، ص192۔
  31. طبری، وہی مآخذ، ج4، ص353۔
  32. خوارزمی، وہی مآخذ، ج2، ص81۔
  33. ابن عساکر، ترجمۃ الامام الحسین(علیہ‌السلام)، ص338۔
  34. سبط ابن جوزی، وہی مآخذ، ج2، ص199۔
  35. ابن کثیر، البدایۃ و النہایہ، ج8، ص212۔
  36. محمد باقر مجلسی، جلا العیون، ص405۔
  37. ابوحنیفہ نعمان بن محمد تمیمی مغربی، شرح الاخبار فی فضائل الائمۃ الاطہار، ج3، ص269۔
  38. سید بن طاؤوس، الاقبال بالأعمال، ج3، ص101۔
  39. طبری، الکامل للبہائی فی السقیفہ، ج2، ص302۔
  40. مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص196۔
  41. مجلسی، جلا العیون، ص409۔

سانچے[ترمیم]