سلیمان اول

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سلیمان اول
(عثمانی ترک میں: سليمان اول ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 6 نومبر 1494ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ترابزون   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 6 ستمبر 1566ء (72 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات پیچش   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش توپ قاپی محل   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت عثمانیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ خرم سلطان (1531–15 اپریل 1558)
ماہ دوراں سلطان (1514–7 ستمبر 1566)
فولان خاتون
گلفام خاتون   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ساتھی فولان خاتون
گلفام خاتون   ویکی ڈیٹا پر (P451) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد شہزادہ مصطفیٰ ،  شہزادہ محمد ،  مہر ماہ سلطان ،  سلیم دوم ،  شہزادہ بایزید ،  شہزادہ مراد ،  رضیہ سلطان ،  شہزادہ جہانگیر ،  شہزادہ عبداللہ   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد سلیم اول   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ عائشہ حفصہ سلطان   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
خاندان عثمانی خاندان   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
سلطان سلطنت عثمانیہ   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
10 اکتوبر 1520  – 17 ستمبر 1566 
سلیم اول  
سلیم دوم  
دیگر معلومات
پیشہ شاعر ،  حاکم ،  قانون ساز ،  عسکری قائد [2]،  سیاست دان [2]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان ترکی [3]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل سیاست [4]  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
وفاداری سلطنت عثمانیہ   ویکی ڈیٹا پر (P945) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 

سلیمان اول (المعروف سلیمان قانونی ، سلیمان اعظم اور سلیمان الیشان) (عثمانی ترکی زبان: سلطان سلیمان اول، ترکی زبان: I. Süleyman یا Kanunî Sultan Süleyman) سلطنت عثمانیہ کے دسویں فرمانروا تھے جنھوں نے 1520ء سے 1566ء تک 46 سال تک حکمرانی کے فرائض انجام دیے۔ وہ بلاشبہ سلطنت عثمانیہ کے بلکہ اس وقت پوری دنیا کے سب سے عظیم حکمران تھے جنھوں نے اپنے بے مثل عدل و انصاف اور لاجواب انتظام کی بدولت پوری مملکت اسلامیہ کو خوش حالی اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر دیا۔ انھوں نے مملکت کے لیے قانون سازی کا جو خصوصی اہتمام کیا اس کی بنا پر ترک انھیں سلیمان قانونی کے لقب سے یاد کرتے ہیں جبکہ مغرب ان کی عظمت کا اس قدر معترف ہے کہ مغربی مصنفین انھیں سلیمان ذیشان یا سلیمان عالیشان اور سلیمان اعظم کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان کی حکومت میں سرزمین حجاز، ترکی، مصر، الجزائر، عراق، کردستان، یمن، شام، بیت المقدس، خلیج فارس اور بحیرہ روم کے ساحلی علاقے، یونان اور مشرقی و مغربی ہنگری شامل تھے۔

ابتدائی زندگی[ترمیم]

سلطان سلیمان کا طغرہ

سلیمان 6 نومبر 1494ء (900ھ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سلیم اول دولت عثمانیہ کے نویں سلطان تھے جبکہ والدہ کا نام عائشہ حفصہ سلطان تھا۔ سلیم اول نے 8 سال تک (918ھ تا 926ھ) حکومت کی تھی۔ سلیمان نے اپنے والد سے 16 سال تک جنگی فنون کی تربیت حاصل کی۔ سلیم اول نے اپنے بیٹے کو دینی و دنیاوی تعلیم دلوانے کا بھی اہتمام کیا تھا۔ سلیمان کی انتظامی صلاحیتوں کو اس وقت جلا ملی جب انھیں مختلف صوبوں میں حاکم مقرر کیا گیا۔ سب سے پہلے انھوں نے اپنے دادا سلطان بایزید ثانی کے زمانے میں کفہ کی سنجق (صوبے) میں حکمرانی کے فرائض انجام دیے۔ انھوں نے مغنیسیا، ادرنہ اور صاروخان کی حکمرانی کی ذمہ داریاں بھی انجام دیں۔ سلیم اول نے جب ایران پر حملہ کیا تو سلیمان ہی نائب کی حیثیت سے قسطنطنیہ میں موجود تھے۔

تعلیم[ترمیم]

سات سال کی عمر میں سلیمان کو سائنس، تاریخ، ادب، الہیات اور جنگی فنون سیکھنے کے لیے توپ کاپی محل، قسطنطنیہ میں بھیجا گیا تھا۔ جوانی کے دور میں اس کی دوستی پارگلی ابرہیم سے ہو گئی تھی، جو ایک غلام تھا اور بعد ازاں اس کا سب سے بااعتماد مشیر بنا۔

ذاتی اوصاف و اخلاق[ترمیم]

سلطان سلیمان چھبیس سال کی عمر میں تخت نشین ہوا، بایزید ثانی کے عہد میں جب اس کی عمر بہت کم تھی، وہ مختلف صوبوں کا حاکم رہ چکا تھا، پھر جب سلیم اول نے ایران پر حملہ کیا تو سلیمان کو نائبِ سلطنت کی حیثیت سے قسطنطنیہ میں چھوڑ گیا، اس کے بعد جنگِ مصر کے دوران میں وہ ادرنہ کا حاکم تھا اور پھر سلیم اول کے عہد کے آخری دو سالوں میں ولایت صادر خان کا انتظام اسی کے سپرد تھا، چنانچہ جب سلیم اول کی وفات کے بعد وہ تخت پر آیا تو ایک کامیاب مدبر اور لائق فرمان روا کی شہرت حاصل کرچکا تھا، ذاتی عظمت میں وہ اپنے تمام پیش روؤں سے بڑا تھا اور فتوحات اور وسعتِ سلطنت کے لحاظ سے ان سب پر فوقیت لے گیا، اس عہد میں سلطنت عثمانیہ اپنی انتہائی حد کمال تک پہنچ گئی، اس کی خانگی زندگی بالکل بے داغ تھی، وہ اپنے رحم و کرم کے لیے خاص طور پر مشہور تھا، انصاف اس کا مخصوص شیواہ تھا اور اس کی عدالت میں نسل، رنگ و مذہب کی کوئی تفریق نہ تھی، رعایا کی فلاح و بہبود اس کا مطمح نظر تھا، چنانچہ جب وہ تخت نشین ہوا تو تمام رعایا نے اس نوجوان سلطان کا جو اپنے اخلاق، شجاعت، انصاف، رحم دلی اور دانش مندی کی بنا پر حد درجہ ہر دل عزیز تھا، نہایت مسرت کے ساتھ استقبال کیا، اپنی حکومت کے پہلے ہی سال میں اس نے انصاف اور رحم دلی کی ایسی مثالیں پیش کیں جس سے اس کے آئندہ طرزِ عمل سے متعلق نہایت خوش آئند توقعات قائم کی جانے لگی۔ اس کے حکم سے سلطنت کے بعض اعلٰی حکام بددیانتی اور ظلم کے جرم میں گرفتار کیے گئے اور ان کو سخت سزائیں دی گئیں، ان واقعات کی خبریں تمام سلطنت میں پہنچیں اور رعایا کو اپنی جان و مال کی طرف سے اطمینان ہو گیا، سلیمان نے تمام صوبہ داروں کے پاس احکام بھیجے کہ رعایا کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی روا نہ رکھی جائے اور امیر وغریب، مسلم و غیر مسلم کے ساتھ یکساں طور پر انصاف کیا جائے، ان احکام کے نفاذ سے ہر طرف امن و امان قائم ہو گیا۔

بحیثیت سلطان[ترمیم]

سلیمان اعظم اس کے بعد کی فتوحات، 1683ء میں سلطنت اپنے عروج پر

سلیمان اعظم کا عہدِ حکومت نہ صرف تاریخِ عثمانیہ بلکہ تاریخِ عالم کا ایک نہایت اہم دور ہے ،1520ء میں سلیم اول کے انتقال کے بعد عثمانی سلطنت کی باگ ڈور سلیمان اول کے ہاتھوں میں آئی اور یہیں سے دولت عثمانیہ کے اس دور کا آغاز ہوتا ہے جو اپنی خوش حالی، استحکام اور وسعت کے اعتبار سے یادگار ہے۔ سلیمان نے اپنے 46 سالہ دور حکومت میں خلافت عثمانیہ کو سیاسی برتری دلوانے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے جو کوشش کی وہ بلاشبہ لائق صد تحسین ہے ان کا یہ کارنامہ اس لحاظ سے بھی بے حد ممتاز ہے کہ اس دور میں مسیحی و مغربی طاقتیں بیدار اور متحد ہو رہی تھیں، مغربی یورپ کی سلطنتیں قرونِ وسطیٰ کے خلفشار سے نکل کر عہدِ جدید کی معرکہ آرائیوں کے لیے تیار ہو رہی تھیں، سلطنتِ عثمانیہ اور ان کے درمیان چالیس سال سے کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی تھی، یورپ میں بایزید ثانی کی لڑائیاں چھوٹی چھوٹی مسیحی ریاستوں کے ساتھ محدود تھیں، سلیم اول کی توجہ تمام تر اسلامی سلطنتوں کی جانب مبذول رہی، اس مدت میں یورپ کی سلطنتوں نے بہت نمایاں طور پر ترقی کر لی تھی، اسپین سے مورس کا اخراج ہو چکا تھا اور وہاں کی مختلف مسیحی ریاستیں متحد ہو کر ایک فرمان روا کے زیرِ حکومت آچکی تھیں، فرانس اپنی خانہ جنگیوں کو ختم کرکے دوسرے ملکوں کی فتوحات کے لیے نکل چکا تھا، انگلستان اور سلطنتِ آسٹریا میں بھی قوت و استحکام کی علامتیں ظاہر تھیں، من جملہ دیگر فنون کے فنِ حرب میں خصوصیت کے ساتھ بہت زیادہ ترقی ہو گئی تھی، باقاعدہ تنخواہ دار پیدل فوجیں بڑی تعداد میں رکھ لی گئیں تھیں، آتشیں اسلحوں کا استعمال کثرت سے کیا جارہا تھا، عیسائی سلطنتوں میں اپنی قوت کا احساس اور مسلمانوں سے تازہ مقابلے کا حوصلہ شدت سے پیدا تھا، یورپ مذہبی جوش سے لبریز تھا اور باہمی عداوتوں کے باوجود تمام مسیحی سلطنتیں دولت عثمانیہ کے مقابلے کے لیے آمادہ و مستعد تھیں اور بڑی بڑی شخصیات عثمانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں آگئی تھیں مثلا شہنشاہ چارلس پنجم جو یورپ کے نصف سے زائد حصے پر حکمران تھا جس میں موجودہ اسپین، بیلجیئم، ہالینڈ اور جرمنی شامل تھے، ادھر انگلستان میں ملکہ ایلزبتھ اول حکمران تھی اور ہنگری پر شاہ لوئی کا سکہ چل رہا تھا۔ یہ یورپ کی بیداری کا زمانہ تھا۔ فرانس، انگلستان اور آسٹریا نے اپنے اختلافات ختم کر لیے تھے اور مسیحی طاقت متحد ہونے کی فکر میں تھیں۔ دولت عثمانیہ کے لیے چارلس اور اس کے معاونین سے قوت آزمائی کرنا آسان نہ تھا، خصوصاً ایسی حالت میں کہ ایران کی وسیع سلطنت دشمنی پر آمادہ تھی اور شام و مصر میں ہر وقت بغاوت کا خطرہ تھا، چنانچہ حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے 26 سالہ دور حکومت میں سلیمان کسی نہ کسی جنگ یا مہم میں مصروف رہے اگرچہ درمیان میں مختصر وقفے بھی آئے لیکن جہاد کا جو جذبہ سلیمان کے سینے میں موجزن تھا اس نے انھیں آخر وقت تک میدان عمل میں مصروف رکھا حتی کہ جنگ کے دوران ہی انھوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ انھوں نے ذاتی طور پر 13 بڑی جنگوں میں شرکت کی جن میں سے تین ایشیا میں اور 10 یورپ میں لڑی گئی اور اس طرح سلطنت عثمانیہ کی حدود میں 13 مرتبہ توسیع کی۔ اس میں شبہ نہیں کہ سولہویں صدی میں ترکوں کی عظیم الشان کامیابی کا سبب ان کی زبردست فوجی قوت اور اپنی قومی عظمت کا احساس تھا لیکن اس کامیابی کا اصل سبب یہ تھا کہ عنانِ سلطنت ایک ایسے فرمان روا کے ہاتھ میں تھی جو دولت عثمانیہ کا سب سے بڑا تاج دار اور اس وقت دنیا کا سب سے بڑا شہنشاہ تھا۔

فتح بلغراد[ترمیم]

سلیم اول کے آخری دورِ حکومت میں سلطنت عثمانیہ اور سلطنت ہنگری کے درمیان آویزش پیدا ہو گئی تھی اور سرحدی علاقہ میں برابر چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں، اس خلش کو دور کرنے کے لیے سلیمان کو بلغراد اور زباکز (Szabacez) کے سرحدی قلعوں کو فتح کرنا ضروری ہو گیا، ان قلعوں کی فتح سرحد کے استحکام کے لیے بھی ضروری تھی اور یورپ میں مزید فتوحات حاصل کرنے کے لیے بھی، چنانچہ سلیمان نے ہنگری کے بادشاہ لوئی ثانی کے پاس اپنے سفیر بھیجے اور اس سے خراج کا مطالبہ کیا، لوئی نے اس مطالبہ کے جواب میں عثمانی سفراء کو قتل کرا دیا، سلیمان کو جب یہ خبر پہنچی تو وہ فوراً ہنگری کی فتح کے لیے روانہ ہو گیا، اس کے فوجی سرداروں نے زباکر اور دوسرے قلعوں کا محاصرہ کرکے قبضہ کر لیا، اس کے بعد سلیمان خود بلغراد کی طرف بڑھا اور اس شہر کے گرد جس نے محمد فاتح جیسے سلطان کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا تھا، اپنے خیمے نصب کردئے، سات روز کی گولہ باری کے بعد 25 رمضان 927ھ (21 اگست 1521ء) کو بلغراد فتح ہو گیا، فتح کے بعد نہ قلعہ کے فوجی دستے کا قتلِ عام ہوا اور نہ شہر کے باشندے قتل کیے گئے، سلیمان نے وہاں کے سب سے بڑے گرجا میں نماز ادا کی اور تثلیث کے اس عظیم الشان معبد کو خدائے واحد کی پرستش کے لیے مخصوص کر دیا، اس کے بعد اس نے بلغراد میں ایک ترکی دستہ متعین کیا اور قلعہ کو ازسرِ نو مضبوط اور مستحکم کرکے قسطنطنیہ واپس ہوا، بلغراد کے علاوہ سرحد کے دوسرے قلعوں پر بھی عثمانیوں نے قبضہ کر لیا اور ہنگری میں داخل ہونے کے تمام دروازے ان کے لیے کھل گئے۔

جمہوریہ وینس کا باج گزار ہونا[ترمیم]

بلغراد کی فتح کا ایک اثر یہ ہوا کہ جمہوریہ وینس نے ازسرِنو اپنے کو سلطنتِ عثمانیہ کا باج گزار تسلیم کر لیا اور جزائر قبرص (سائپرس) وزانطہ کا خراج دو چند کر دیا.

فتح رودوش[ترمیم]

رودوش کی فتح مختلف وجوہ سے ضروری تھی، بلغراد اور رودوش یہی دو معرکے تھے جن میں سلطان محمد فاتح نے شکست کھائی تھی، بلغراد کی فتح نے سلطنت عثمانیہ کے دامن سے ایک شکست کا داغ تو دھودیا، سلیمان کی عالی حوصلگی دوسرے دھبے کے دھونے کے لیے بے قرار تھی، علاوہ بریں رودوش کے جہاز بحر روم کے مشرقی حصہ میں اور مجمع الجزائر اور اناطولیہ کے ساحلوں پر لوٹ مار مچائے رہتے تھے، رودوش کی فتح اس وجہ سے بھی ضروری تھی کہ قسطنطنیہ اور شام و مصر کے درمیان جو تعلقات اب قائم ہو گئے تھے ان میں مبارزینِ رودوش اپنے جہازوں کے ذریعے رخنہ انداز ہوتے رہتے تھے، ان اسباب کی بنا پر سلیمان نے اس جزیرہ پر قبضہ کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا اور تین سو جہازوں کا عثمانی بیڑا قسطنطنیہ سے رودوش کی جانب روانہ کیا، ساتھ ہی وہ خود بھی ایک لاکھ فوج لے کر ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل کی طرف بڑھا، بحری اور بری فوجوں کے جمع ہونے کی جگہ خلیج مارمریس قرار پائی، جو رودوش کے محاذ میں واقع ہے، 4 رمضان 928ھ (28 جولائی 1522ء) کو سلطان رودوش کے ساحل پر اترے اور 8 رمضان 928ھ (یکم اگست 1528ء) کو رودوش کا محاصرہ شروع ہوا، جو تقریباً 5 ماہ تک جاری رہا۔ رودوش کے راہب مبارزین نے نہایت شجاعت کے ساتھ مدافعت کی لیکن محاصرین کی قوت سے مجبور ہوکر بالآخر انھیں 6 صفر 929ھ (25 دسمبر 1522ء) کو ہتھیار ڈال دینے پڑے، سلیمان نے ان کے ساتھ جو مراعات برتیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کی شجاعت کا کس درجہ قدردان تھا، اس نے مبارزین کو اجازت دے دی کہ بارہ روز کے اندر اپنے تمام اسلحوں اور سامانوں کو لے کر اپنے ہی جہازوں پر رودوش سے چلے جائیں اور اگر ضرورت سمجھیں تو عثمانی جہازوں کو بھی کام میں لائیں، رودوش کے باشندوں کو سلطان کی رعایا بننے کے بعد پوری مذہبی آزادی دے دی گئی، سلطان نے صراحت کے ساتھ وعدہ کیا کہ ان کے کلیساؤں سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا، ان کے بچے والدین سے چھینے نہ جائیں گے اور پانچ سال تک ان سے کسی قسم کے ٹیکس یا محصول کا مطالبہ نہ ہوگا، سلیمان نے اپنی فوجیں قلعہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہٹالیں تاکہ مبارزین امن و سکون کے ساتھ قلعہ سے نکل جائیں لیکن ینی چری باوجود سخت روک تھام کے بے قابو ہو گئے اور شہر میں داخل ہوکر تھوڑی دیر تک لوٹ مار کرتے رہے، تاہم اور تمام شرائیط سلیمان کی طرف سے نہایت دیانتداری کے ساتھ پورے کیے گئے، مبارزینِ رودوش نے وہاں سے نکلنے کے بعد آٹھ سال تک جزیرہ کریٹ میں قیام کیا اور پھر مستقل طور پر جزیرہ مالٹا میں جاکر آباد ہو گئے۔

مصر اور ینی چری کی بغاوت[ترمیم]

بلغراد اور رودوش کی فتح کے بعد ہنگری، سسلی اور اٹلی کے راستے سلیمان کے لیے کھل گئے لیکن مصر کی بغاوت اور ایشیائے کوچک کی شورش کے باعث اسے پہلے مشرق کی جانب متوجہ ہونا پڑا اور یورپین سلطنتوں کو دو سال کی مہلت مل گئی، احمد پاشا نے جو خیربے کے انتقال کے بعد 928ھ (1522ء) میں مصر کا حاکم مقرر تھا، علمِ بغاوت بلند کیا، اس بغاوت کو فرو کرنے کے لیے سلیمان نے ایک فوج مصر روانہ کی، احمد پاشا کو شکست ہوئی اور قتل کر دیا گیا، اس کے بعد سلیمان نے صدرِ اعظم ابراہیم پاشا کو حکومتِ مصر کے انتظام و استحکام کے لیے مامور کیا اور خود سلطنت کے داخلی انتظامات کی طرف متوجہ ہوا، 931ھ (1525ء) کے اوائل سرما میں وہ شکار کی غرض سے قسطنطنیہ سے ادرنہ چلا گیا، رودوش کی فتح کو ڈیڑھ سال کی مدت گذر چکی تھی، ینی چری کو امن کا یہ زمانہ نہایت گراں گذر رہا تھا، چنانچہ سلیمان کی عدم موجودگی میں انھوں نے قسطنطنیہ میں بغاوت برپا کردی اور وزراء اور دوسرے بڑے بڑے عہدہ داروں کے مکانات لوٹ لیے، یہ خبر سن کر سلیمان ادرنہ سے قسطنطنیہ لوٹا اور اس شورش کو فرو کرنے کی کوشش کی، اس نے باغیوں کے بعض سرداروں کو قتل کرادیا، دو کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا اور پھر عام سپاہیوں کو انعام و اکرام دے کر بغاوت کا خاتمہ کر دیا۔

ہنگری کی فتح[ترمیم]

وزیرِ اعظم ابراہیم پاشا اس وقت مصر میں تھا، سلیمان نے اسے واپس بلالیا اور ہنگری کی مہم کی تیاری شروع کردی، ینی چری کی بغاوت سے اس کو تجربہ ہو گیا تھا کہ سلطنت کے امن کے لیے اس فوج کو جنگ میں مصروف رکھنا ضروری ہے، بلغراد کی فتح کے بعد سے اگرچہ کوئی بڑی جنگ ہنگری کے ساتھ پیش نہیں آئی تھی تاہم چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کا سلسلہ قائم تھا، علاوہ بریں فرانسس اول شاہِ فرانس نے جسے شہنشاہ چارلس پنجم نے پیویا کی جنگ 1521ء میں شکست دے کر قید کر لیا تھا، سلیمان سے ہنگری پر حملہ کرنے کی بہ منت استدعا کی تاکہ چارلس پنجم کو اپنی توجہ فرانس سے ہٹاکر ہنگری کی جانب مبذول کرنی پڑے، جس کی سرحد آسٹریا سے ملی ہوئی تھی، پھر اسی زمانہ میں شاہِ ایران نے شہنشاہ چارلس پنجم اور شاہِ ہنگری کے ساتھ سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف ایک جارحانہ اور مدافعانہ اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی، ان وجوہ سے سلیمان نے ہنگری پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا، ایک لاکھ فوج اور تین سو توپوں کے ساتھ روانہ ہوا، قسطنطنیہ سے روانہ ہونے کے پانچ ماہ بعد 20 ذی قعدہ 932ھ (28 اگست 1526ء) کو موباکز کے میدان میں ہنگری کی فوج سے مقابلہ ہوا، عثمانی لشکر کو اپنی کثرتِ تعداد اور توپ خانوں کی بنا پر بہت کچھ فوقیت حاصل تھی، دو گھنٹہ سے کم ہی میں جنگ اور ساتھ ہی ہنگری کی قسمت کا بھی فیصلہ ہو گیا، شاہ لوئی، اس کے آٹھ اسقف، اعیانِ ہنگری کی ایک بڑی تعداد اور چوبیس ہزار سپاہی مارے گئے، لوئی بھاگتا ہوا دریا میں ڈوب کر مرا، 30 ذی الحجہ 932ھ (10 ستمبر 1526ء) کو سلیمان ہنگری کے پایہ تخت بودا بڈاپسٹ پہنچا، باشدگانِ شہر نے ہتھیار ڈال کر دروازے کھول دئے، ہنگری کے جو امرا موباکز کی تباہی سے بچ گئے تھے انھوں نے سلیمان کی خدمت میں حاضر ہوکر اطاعت کا حلف لیا، چوں کہ شاہ لوئی لاولد مرگیا تھا، اس لیے سلیمان کی تحریک سے ان امرا نے ہنگری کے تخت کے لیے کانٹ زاپولیا (Count Zapulya) کا انتخاب کیا، جو ٹرانسلوینیا کا امیر اور ہنگری کے اکابر میں تھا، اس کے چند دنوں بعد سلیمان کو اطلاع ملی کہ ایشیائے کوچک میں کچھ بغاوت کی صورتیں رونما ہو رہی ہیں، چنانچہ وہ فوراً بودا سے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہو گیا، ہنگری کے بعض سرحدی قلعوں میں ترکی دستے متعین کردئے گئے۔

ہنگری میں خانہ جنگی[ترمیم]

ہنگری کے تخت کے لیے زاپولیا کا انتخاب خانہ جنگی کا باعث ثابت ہوا، آرک بوک فرڈیننڈ جو شہنشاہ چارلس پنجم کا بھائی تھا اور جسے چارلس پنجم نے آسٹریا کی آرچ ڈچی منتقل کردی تھی، ایک صلح نامہ کی رو سے جو چارلس پنجم اور سابق شاہ لوئی کے درمیان ہو چکا تھا، ہنگری کے تخت کا دعوے دار ہوا، دوسری طرف زاپولیا اور اس کے حامیوں نے اپنی موافقت میں ہنگری کا ایک قدیم قانون پیش کیا، جس کی رو سے ہنگری کے باشندے کے علاوہ کوئی دوسرا شخص وہاں کا بادشاہ منتخب نہیں ہو سکتا تھا لیکن باوجود اس قانون کے مغربی ہنگری کے امرا نے فرڈیننڈ کو منتخب کر لیا، اس کے بعد جنگ ناگزیر ہو گئی، فرڈیننڈ کے ساتھ آسٹریا کی مدد شامل تھی، اس نے زاپولیا کو شکست دے کر ملک کے باہر بھگا دیا، زاپولیا نے پولینڈ میں پناہ لی اور وہاں سے سلیمان کی خدمت میں مدد کی درخواست بھیجی، یہ سن کر فرڈیننڈ نے بھی اپنا ایک سفیر سلیمان کے دربار میں بھیجا اور نہ صرف ہنگری کے تخت کے لیے حمایت کی استدعا کی بلکہ بلغراد اور ہنگری کے دوسرے شہروں کی واپسی کا بھی جو سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو چکے تھے، مطالبہ کیا، سلیمان نے فرڈیننڈ کے مطالبہ سے برافروختہ ہو کر اس کے سفیر کو رخصت کر دیا اور زاپولیا کے سفیر کو اطمینان دلایا کہ وہ ضرور اس کی مدد کرے گا۔

فرڈیننڈ کی شکست[ترمیم]

10 مئی 1529ء کو سلیمان قسطنطنیہ سے روانہ ہوا اور ڈھائی لاکھ فوج اور تین سو توپوں کے ساتھ ہنگری میں داخل ہوکر 3 ستمبر 1529ء کو پایہ تخت بودا پہنچا اور اس کا محاصرہ کر لیا، چھ روز میں بودا فتح ہو گیا اور زاپولیا دوبارہ تخت پر بٹھا دیا گیا، اس کے بعد سلیمان آسٹریا کے مشہور دار السلطنت ویانا کی طرف بڑھا۔

محاصرۂ ویانا[ترمیم]

زاپولیا کو اس کے عہدے پر بحال کیا اور فتنے کی جڑ کاٹنے کی غرض سے آسٹریا کا رخ کیا۔ 27 ستمبر کو دار الحکومت ویانا کا محاصرہ شروع کیا۔ یہ محاصرہ طویل ہو گیا، موسم بہت خراب تھا، رسد کی کمی تھی، راستوں کی خرابی کی وجہ سے سلطان کو بڑی توپیں ہنگری میں ہی چھوڑنی پڑی تھیں، اس لیے یہ محاصرہ بے نتیجہ رہا اور سلطان کو واپس آنا پڑا لیکن یورپ کے قلب تک مسلمانوں کے قدم پہنچنے کے باعث ان کی اہل یورپ پر بڑی دھاک بیٹھ گئی۔ تین سال بعد سلطان نے پھر آسٹریا کا رخ کیا لیکن صرف ایک مقام گونز کو فتح کرنے میں تین ماہ کا عرصہ لگ گیا وار وہاں سے آسٹریا کو فتح کرکے سلطان نومبر میں قسطنطنیہ واپس پہنچ گئے اور پھر آسٹریا سے عارضی صلح ہو گئی۔

ایران کے خلاف کارروائی[ترمیم]

سلیمان کا چھٹا بڑا حملہ ایران کے خلاف تھا۔ سلطان کے وزیر اعظم ابراہیم نے 941ھ بمطابق جولائی 1534ء میں تبریز پر قبضہ کر لیا۔ ستمبر میں سلطان بذات خود اس شہر میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے۔ یہاں سے ترک فوج نے ہمدان کے راستے بغداد کا رخ کیا۔ سلطان بغداد میں چار ماہ رہے پھر ایرانیوں نے چونکہ مفتوحہ علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا اس لیے ترک افواج نے ایک بار پھر ایران کا رخ کیا اور آذربائیجان اور دیگر کئی علاقے فتح کرلئے۔ 23 رجب 943ھ بمطابق 17 جنوری 1534ء کو سلطان واپس قسطنطنیہ پہنچ گیا۔

ہنگری کی عثمانی سلطنت میں شمولیت[ترمیم]

اس کے بعد سلطان چند سالوں تک مختلف چھوٹی بڑی مہمات میں مصروف رہے۔ ادھر فرڈیننڈ اور زاپولیا نے ہنگری کو ایک معاہدے کے تحت آپس میں تقسیم کر لیا تھا لیکن صرف ایک سال بعد زاپولیا کا انتقال ہو گیا تھا جس کے بعد فرڈیننڈ نے اپنی حریف طبیعت سے مجبور ہوکر پھر پورے ہنگری پر قبضہ جمانا چاہا، سلطان کو یہ اطلاعات ملیں تو انھوں نے ربیع الآخر 948ھ بمطابق اگست 1541ء میں ہنگری کا رخ کیا۔ شہر بوڈا اور دیگر کئی شہر فتح کیے اور انھیں اپنی مملکت میں شامل کر لیا اور صرف ٹرانسلوانیا کو زاپولیا کی بیوہ ملکہ ایزابیلا کے لیے چھوڑ دیا۔ دالپور، ہیکلوس، فونفکیرشن پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ یہاں ترک دستے متعین کر دیے گئے۔ ہنگری کو سنجقوں میں تقسیم کر دیا گیا اور یہاں ترک گورنر مقرر کیے گئے۔

1547ء میں شہنشاہ چارلس پنجم اور فرڈیننڈ نے سلطان سے سات سالہ صلح کرلی اور ہنگری اور ٹرانسلوانیا پر سلطان کا قبضہ ہو گیا۔ فرڈیننڈ نے ایک کثیر رقم سالانہ خراج دینے کا وعدہ کیا۔ اس کے بعد چند سالوں میں سلطان نے ایران میں اندر تک حملے کیے۔ بغداد، موصل، یریوان، آرمینیا اور بین النہرین (میسوپوٹیمیا) کو اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔ ادھر عدن پر قبضہ کیا اور بحیرہ روم میں اپنے طاقتور بحری بیڑے اور امیر البحر خیر الدین پاشا باربروسا کے شاندار کارناموں کی بدولت الجزائر، طرابلس اور بحیرہ ایجیئن کے متعدد جزیرے فتح کیے۔ اس زمانے میں بری قوت کے اعتبار سے ایشیا یا یورپ کی کوئی سلطنت دولت عثمانیہ کے برابر نہ تھی اور بحری لحاظ سے بھی اس کا شمار دنیا کی چند بڑی مملکتوں میں ہوتا تھا۔

پارگلی ابراہیم پاشا[ترمیم]

پارگلی ابراہیم پاشا سلیمان اول کے دربار میں

پارگلی ابراہیم پاشا جسے فرنگ ابراہیم پاشا (مغربی)، مقبول ابراہیم پاشا جو توپ قاپی محل میں اس کی موت کے بعد مقتول ابراہیم پاشا ہو گیا۔ وہ سلطنت عثمانیہ کا پہلا وزیر اعظم تھا جسے سلیمان اول نے یہ مرتبہ عطا کیا۔

ابراہیم پارگا کا پیدائشی مسیحی تھا جسے بچن میں ہی غلام بنا دیا گیا۔ وہ اور سلیمان اول بچپن سے ہی گہرے دوست بن گئے تھے۔ سلطان سلیمان نے 1523ء وزیر اول پیری محمد پاشا کو جسے اس کے والد سلیم اول نے وزیر اول مقرر کیا تھا، تبدیل کر کے ابراہیم پاشا کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ ابراہیم تیرہ سال تک اس عہدے پر فائز رہا۔ لیکن 1536ء میں سلطان نے ابراہیم پاشا کو سزائے موت کا حکم دیا اور اس کی جائداد بحق سرکار ضبط کر لی گئی۔

1520ء میں سلیمان اول کے تخت نشین ہونے کے بعد اسے مختلف عہدے ملے، جس میں سب سے پہلے وہ مصاحب خاص بنا۔

سلیمان کی فوج کے ایک ماہر کماندار ہونے کے باوجد فارسی صفوی سلطنت کے خلاف جنگ میں وہ سلطان کی نظروں سے گر گیا۔ عثمانی-صفوی جنگ (1532-55) کے دوران اس نے اپنے نام کے ساتھ سلطان بھی شامل کر لیا، جسے سلیمان نے اپنے لیے سنگین توہین گردانا۔[5] اس کے علاوہ ابراہیم اور اس کے سابقہ ناصح سکندرچلبی کے مابین صفوی جنگ کے دوران بار بار فوجی قیادت اور پوزیشنوں پر جھڑپیں ہوئیں۔ ان واقعات کی بنا پر 1536ء میں اسے سزائے موت دی گئی ( سکندرچلبی کو ایک سال قبل 1535ء میں سزائے موت دے دی گئی)۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابراہیم پاشا سلیمان اول کی بیوی خرم سلطان کی سازشوں کا شکار ہوا۔ ابراہیم شہزادہ مصطفی جو ماہ دوراں سلطان اور سلیمان اول کا سب سے بڑا بیٹا تھا اور تخت کا ظاہری وارث بھی تھا کو سلطان بنانا چاہتا تھا مگر خرم سلطان اپنے بیٹے کو سلطان بنانا چاہتی تھی۔ شہزادہ مصطفی کو 6 اکتوبر، 1553ء کو سلطان نے غداری کے جرم میں موت کی سزا سنائی، جس کے لیے خرم سلطان نے عرصے سے سازشوں کا جال بن رکھا تھا۔

وفات[ترمیم]

مسجد سلیمانیہ میں سلیمان اعظم کا مقبرہ

1565ء میں آسٹریا سے جنگ پھر شروع ہو گئی جس میں مسیحیوں نے کچھ کامیابیاں حاصل کیں۔ سلطان اس زمانے میں بیمار تھے انھیں گٹھیا کی شکایت تھی اس کے باوجود مردانہ وار افواج کی قیادت کے لیے نکل آئے۔ آسٹریا کے قلعہ سگتوار کا محاصرہ 2 اگست 1565ء کو شروع ہوا اور 8 ستمبر تک جاری رہا اور قلعہ فتح ہو گیا اور اس وقت جب لشکر اسلام کامیابی کے پھریرے لہراتا ہوا قلعے میں داخل ہو رہا تھا لیکن سپاہی اس اندوہناک حقیقت سے بے خبر تھے کہ ان کا محبوب سلطان اب ان کے درمیان نہیں بلکہ وہ 9 اور 10 صفر بمطابق 5 اور 6 ستمبر کی درمیانی شب ہی انھیں چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ہے۔ سلطان کی وفات کی خبر وزیر اعظم صوقوللی پاشا نے دانستہ مخفی رکھی اور فتح کے بعد اسے عام کیا۔ فتح کے شادیانے فورا موقوف ہو گئے اور فضا سوگوار ہو گئی۔ سلطان کی میت واپس قسطنطنیہ لائی گئی جہاں خود ان کی تعمیر کردہ مسجد سلیمانیہ میں انھیں سپردخاک کیا گیا۔

کارنامے[ترمیم]

سلطان نے حکومت کے اداروں کا انتظام اس قدر عمدگی سے کیا کہ اسے مثالی انتظام کہا جا سکتا ہے۔ ان کا دور ایک جمہوری دور تھا۔ انھوں نے شاہی خاندان کے افراد کی بجائے وزیر اعظم صوقوللی پاشا کو نظم و نسق سونپ دیا تھا۔ انھوں نے قانون سازی کی طرف خصوصی توجہ دی، فوج کی نظم و تربیت، فوجی نظام جاگیرداری، زمینی جائداد کے قوانین، پولیس اور فوج کی خدمات کے عوض جاگیر وغیرہ دینے کا ضابطہ اور آئین مرتب کروایا۔ انھوں نے محصول کی مقدار خود مقرر کی تھی۔ قانون کی رو سے کاشتکار اراضی کا مالک تھا۔ کاشتکاروں کو میسر سہولیات کی وجہ سے ہنگری کے علاقوں میں مقیم اکثر مسیحی کاشتکار بھاگ کے مسلمانوں کے علاقے میں آباد ہو گئے۔ مختلف جرائم کے لیے سزائیں مقرر کی گئیں اور ان تمام قوانین کو بعد میں مجموعے کی شکل میں مرتب کیا گیا۔ سلطان نے ملک بھر میں اشیائے صرف کی قیمتیں مقرر کیں،محکمۂ انسداد بے رحمی حیوانات بنوایا۔ سرکاری دفاتر میں ریکارڈ مرتب کروائے جو "کوتکات" کہلاتے تھے۔ انھوں نے آب رسانی کے نظام کو بھی بہت ترقی دی۔ قسطنطنیہ میں ایک بڑی نہر جاری کروائی اور مکہ مکرمہ کی پرانی نہروں کی مرمت کروائی۔ بڑے شہروں میں ہسپتال قائم کیے اور پل بنوائے۔ مکہ مکرمہ میں چاروں فقہی مذاہب کے لیے چار مدرسے قائم کیے۔ متعدد شہروں میں خوبصورت مساجد تعمیر کروائیں جن کے ساتھ مدارس بھی کام کرتے تھے۔

1424ء میں سلطان مراد ثانی کے زمانے میں شیخ الاسلام کا عہدہ قائم ہوا تھا، سلطان سلیمان نے اسے برقرار رکھا اور یہ عہدہ دولت عثمانیہ میں 498 سال تک رہا اور اس پر 131 علما فائز ہوئے۔

سلطان نے فوج کو بہتر بنانے کا خاص انتظام کیا ان کے پاس مستقل تنخواہ دار فوج 24 ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا لیکن جنگ کے موقع پر دو لاکھ سپاہی میدان میں لائے جا سکتے تھے۔ انھوں نے فوج کو محض انتقامی جذبے سے کبھی کسی مہم پر روانہ نہیں کیا۔ جب بھی فوج جنگ کے لیے روانہ ہونے لگتی تو اسے سختی سے تاکید کی جاتی کہ وہ عوام کی جان و مال کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔

سلطان سلیمان ایک عظیم فاتح ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم شاعر بھی تھے۔

سلیمانیہ مسجد
سلیمانیہ مسجد

فن تعمیر وہ میدان ہے جس میں سلطان کے کارنامے آج بھی مستحکم صورت میں اپنی نوعیت اور جاہ و جلال کی داستاں بیان کر رہے ہیں۔ سلطان نے مفتی ابو السعود کے فتوے کی بنیاد پر کعبۃ اللہ کی از سر نو تعمیر کروائی۔ سلطان کی تعمیر نے ترک ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ہم سلیمان قانونی کو سلطنت عثمانیہ کا شاہجہاں کہہ سکتے ہیں۔ ان کے دور کے مشہور ترین معمار سنان پاشا تھے۔ سلطان کے دور میں جو مساجد تعمیر ہوئیں ان میں بلند ترین مقام جامع سلیمانیہ کا ہے جو 1550ء سے 1556ء کے درمیانی عرصے میں تعمیر ہوئی۔ یہ عظیم مسجد شہر قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) کی سب سے اونچی پہاڑی پر تعمیر کی گئی اور آج بھی موجود ہے۔ سلطان کی قبر مسجد کے صحن میں موجود ہے اور وہیں سلیمان ثانی اور کئی دیگر عثمانی خواتین کی قبریں بھی ہیں۔

ان تمام کارناموں اور خوبیوں کی وجہ سے سلیمان اعظم نے وہ بلند مقام حاصل کر لیا جو خلفائے راشدین یا عمر بن عبدالعزیز کا تھا بلکہ ہم انھیں نور الدین، صلاح الدین اور اورنگزیب جیسی جلیل القدر ہستیوں کے مقابلے میں بھی ان سے بھی عظیم سلطان پیش کرسکتے۔

،وہ ایک عظیم مطلق العانی حکمران تھے اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرتا تھے، ہر معاملے کو عدالت میں پیش کرنا ضروری نہیں سمجھتا تھے۔ وہ ایک با اختیار عظیم سلطان ، خلیفہ اور شہنشاہ تھے۔

وہ اپنے دور کے سب سے بڑے عظیم الشان و الیشان شہنشاہ تھے۔ ان سے دنیا کی کوئی بھی طاقت مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔

بیرونی مقالات[ترمیم]

سلطان سلیمان کا دل

حوالہ جات[ترمیم]

  • "عظیم مسلمان شخصیات"، ماہنامہ رابطہ، مصنف: کلیم چغتائی
  • دولت عثمانیہ: ڈاکٹر محمد عزیز
  • سلاطین ترکیہ: اسٹینلے لین پول/ نصیب
  • دس سلطان: سید بشیر احمد اسعدی
  • تاریخ ترکیہ: نصیر احمد ناصر
  • دائرۂ معارف اسلامیہ
  1. ربط : فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ  — اخذ شدہ بتاریخ: 29 اگست 2019
  2. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jn20011018975 — اخذ شدہ بتاریخ: 15 دسمبر 2022
  3. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jn20011018975 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 مارچ 2022
  4. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jn20011018975 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 نومبر 2022
  5. Kinross, 230.
سلیمان اول
پیدائش: 6 نومبر 1494ء وفات: 5 ستمبر 1566ء
شاہی القاب
ماقبل  سلطان سلطنت عثمانیہ
22 ستمبر 1520ء nbsp;–5 ستمبر، 1566ء
مابعد 
مناصب سنت
ماقبل  خلیفہ
22 ستمبر 1520 – 5 ستمبر 1566
مابعد