سود خور کیپیٹلزم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سود خور کیپیٹل ازم (Rentier capitalism) ایک مارکسی اصطلاح سمجھی جاتی ہے جو اُن لوگوں، کارپوریشنوں اور ممالک کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو کسی معاشرے میں کوئی تعمیری اضافہ نہیں کرتے لیکن اپنی اجارہ داری (monopoly) کی بدولت کاغذی سرمائیہ (capital) فراہم کر کے اس معاشرے سے کثیر منافع حاصل کر لیتے ہیں۔ ایسے سود خور ممالک کے لیے لینن نے “rentier state” اور "usurer state" کے الفاظ استعمال کیے تھے۔ سود خور ممالک کا شکار بننے والے ممالک مقروض ممالک (debtor states) کہلاتے ہیں۔ [1]

جس زمانے میں اجارہ داری (monopoly) نہیں ہوا کرتی تھی اس وقت بین الاقوامی معاشی تعلقات تجارتی اشیاء کی برآمد پر منحصر ہوا کرتے تھے۔
آج مونوپولی کے زمانے میں کاغذی دولت (capital) کی ایکسپورٹ تجارتی اشیاء کی ایکسپورٹ پر حاوی ہو چکی ہے۔

ایکسپورٹ آف کیپیٹل کی تاریخ[ترمیم]

نوٹ، چیک، ڈرافٹ، بل، پے آڈر، سرٹیفیکٹ، ٹیلی گرافک ٹرانسفر وغیرہ چھاپ کر دولت تخلیق اور ایکسپورٹ کرنے کی ابتدا برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے کی تھی جس کی پشت پر بینک آف انگلینڈ تھا۔ اس کی دیکھا دیکھی فرانس اور جرمنی نے بھی یہی روش اختیار کی۔ لیکن آخری جیت متحدہ امریکا کی ہوئی۔ اکیسویں صدی میں چین تیزی سے امریکا کا حریف بنتا جا رہا ہے۔

مختلف ممالک سے کاغذی دولت (کیپیٹل) کی ایکسپورٹ (ارب فرانک میں)[2]
سن عیسوی برطانیہ فرانس جرمنی متحدہ امریکا دوسرے ممالک پوری دنیا
1862ء 3.6 - - - - 3.6
1872ء 15 10 - - - 25
1902ء 62 27-37 12.5 3.5 - 105-115
1914ء 93 44 31 18.1 39 225.1
1929ء 94.1 18.1 5.7 79.8 51.7 248.4
1968ء 106.8 55.1 53.6 346.5 126.1 688.1
سو سالوں میں کاغذی دولت کی ایکسپورٹ میں لگ بھگ 200 گنا اضافہ ہوا

ان اعداد و شمار کو دیکھ کر صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ سونے چاندی کے سکوں پر مشتمل ہارڈ کرنسی کیوں زبردستی ختم کی گئی اور اس کی جگہ کاغذی کرنسی کیوں رائج کی گئی۔

ایکسپورٹ آف کیپیٹل[ترمیم]

1899ء میں مملکت برطانیہ اپنی برآمدات سے جتنا منافع حاصل کرتی تھی اس کا پانچ گنا منافع کاغذی دولت (کیپیٹل) ایکسپورٹ کر کے کماتی تھی۔ اسی طرح 1968ء میں متحدہ امریکا اپنی برآمدات سے ہونے والے منافع کا 6 گنا زیادہ منافع کیپیٹل ایکسپورٹ کر کے کما رہا تھا۔

The export of capital is a primary economic tool utilized by neocolonialism....the imperialist powers try to use the export of capital to capture key positions in the leading sectors of the manufacturing industry in these countries.

کیپیٹل کے ایکسپورٹ کی دو شکلیں ہوتی ہیں:

  • قرض loan capital
  • سرمائیہ کاری (انویسٹمنٹ) یا entrepreneurial capital جسے operating capital بھی کہتے ہیں۔ اس کی مزید دو قسمیں ہوتی ہیں۔
    • براہ راست (ڈائریکٹ انویسٹمنٹ) جو مکمل ملکیت حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہے جیسے زمین یا شیئر خریدنا۔
    • (portfolio investments) یعنی غیر ملکی حکومتی بونڈز (securities) خریدنا۔ اس سے ذاتی سرمائے کو ملکی سرمائے کے رنگ میں رنگا جاتا ہے تاکہ مستقبل میں قومیائے جانے کا خطرہ نہ رہے۔

ایسا عام طور پر ملکی اور غیر ملکی کمپنی کے درمیان میں تعاون (cooperation) کی شکل میں ہوتا ہے۔

مثالیں[ترمیم]

  • 1958ء سے 1968ء کے درمیان متحدہ امریکا کی لاطینی امریکا میں براہ راست سرمائیہ کاری میں 32 فیصد اضافہ ہوا جبکہ پورٹ فولیو سرمائیہ کاری میں ہونے والا اضافہ 280 فیصد تھا۔
  • 1968ء میں متحدہ امریکا کو براہ راست سرمائیہ کاری پر کل سرمائیہ کاری کے منافع کا 72 فیصد منافع ہو رہا تھا۔ اسی سال برطانیہ کا یہ منافع 84 فیصد تھا۔
  • 1950ء سے 1968ء کے دوران میں برازیل، ارجنٹینا اور میکسیکو کی مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو امریکی براہ راست قرضوں کا حصہ 40 سے بڑھ کر 67 فیصد ہو گیا، افریقا میں یہ 31 سے بڑھ کر 48 فیصد ہو گیا جبکہ مشرق وسطیٰ میں یہ 0.1 سے بڑھ کر 3.4 ہو گیا۔

مراعات[ترمیم]

1960ء تک کاغذی دولت کی برآمد کا لگ بھگ 60 فیصد حصہ "مالی امداد" کے طور پر دیا گیا جبکہ باقی 40 فیصد قرض تھا۔ اس کے باوجود سود خور ممالک نے تیسری دنیا سے اس رقم سے کہیں زیادہ سود وصول کیا جو انھوں نے بطور قرض اور امداد دی تھی۔ مثال کے طور پر 1950 سے 1968 کے درمیان میں قرض اور امداد کے نام پر لاطینی امریکا کو 12 ارب ڈالر دیے گئے لیکن اسی دوران میں ان ہی ممالک سے 20 ارب ڈالر وصول کیے گئے۔ قرض اور امداد دی جانے والی رقم نوٹ چھاپ کر دی گئی تھی لیکن وصول ہونے والی رقم لاطینی امریکا کے لوگوں کی محنت مشقت کی کمائی سے حاصل ہوئی تھی۔
اسی طرح مشرق وسطیٰ کو 2 ارب ڈالر دیے گئے جبکہ 12.5 ارب ڈالر وصول ہوئے۔ قرض دیتے وقت یہ شرائط بھی عائد کی جاتی ہیں کہ اس رقم سے مال صرف ہم سے ہی خریدا جائے گا اور ہماری قیمت پر۔

بالا دستی[ترمیم]

قرض دینے والا ملک قرض لینے والے ملک پر شرائط عائد کر کے اس کی حکومت پر بالا دستی حاصل کر لیتا ہے۔ قرض لینے والے ملک کی پولیس اور فوج پر اب سود خور ملک کا راج ہوتا ہے۔

The growth in the export of state capital gives the contemporary export of capital a military and police nature

طفیلی کیڑے[ترمیم]

اس طرح ایک نیا سود خور طبقہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو معاشرے کے لیے کوئی خدمت انجام نہیں دیتے، بس اپنے خادم ممالک اور نو آبادیوں کی محنت پر زندہ رہتے ہیں۔

Hence the extraordinary growth of a class, or rather, of a stratum of rentiers, i.e.، people who live by 'clipping coupons' [in the sense of collecting interest payments on bonds]، who take no part in any enterprise whatever, whose profession is idleness. The export of capital, one of the most essential economic bases of imperialism, still more completely isolates the rentiers from production and sets the seal of parasitism on the whole country that lives by exploiting the labour of several overseas countries and colonies.[3]

"دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک طرف صرف چند سود خور ممالک ہیں۔ دوسری طرف بے شمار مقروض ممالک ہیں۔"

“The world has become divided into a handful of usurer states and a vast majority of debtor-states”

"طفیلی لیتا ہے پر دیتا کچھ نہیں ہے۔ لینے دینے میں وہ برابری نہیں کرتا۔۔۔ وہ مال کے بدلے مال نہیں دیتا۔ وہ کرنسی کا تبادلہ کرتا ہے۔"

The parasite takes without giving. It makes an unequal exchange...He does not barter; he exchanges money.[4]

جب طفیلی اہنے میزبان سے زیادہ بڑا ہو جاتا ہے تو میزبان مر جاتا ہے اور طفیلی کو نیا میزبان ڈھونڈنا پڑتا ہے۔

"Too many rentiers finally bring the economy to a standstill."
"that we have too big an upper middle class and we have too many rentiers with too much control over the state."

ماہر معاشیات کینز کا بیان[ترمیم]

"لینن یقیناً درست تھا۔ معاشرے کی بنیادیں اکھاڑنے کے لیے اس سے زیادہ خفیہ اور موثّر کوئی طریقہ نہیں ہے کہ کرنسی کے ساتھ زیادتی کی جائے۔ یہ عمل معاشیات کے سارے قوانین کی خفیہ طاقتوں کو تخریب کے لیے استعمال کرتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ دس لاکھ لوگوں میں ایک آدمی بھی اسے سمجھ نہیں پاتا"
"Lenin was certainly right. There is no subtler, no surer means of overturning the existing basis of society than to debauch the currency. The process engages all the hidden forces of economic law on the side of destruction, and does it in a manner which not one man in a million is able to diagnose."[5]

استحصال[ترمیم]

"تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ کاغذی دولت (کیپیٹل) بدترین استحصال کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔ یورپ کے انڈیا، افریقہ اور جنوبی امریکا سے تعلقات اس کی واضح مثالیں ہیں۔ کاغذی دولت بے شمار موقعوں پر دوسرے ممالک کی ساری دولت ہتھیانے، انھیں معاشی طور پر کمزور کرنے اور ذلیل کرنے کے لیے استعمال کی گئی۔ خطرہ اس وقت اور بھی بڑھ جاتا ہے جب بہت منظم لوگ ایسے ممالک کے لوگوں سے ملتے ہیں جو کم تعلیم یافتہ اور کم ذہین ہوں۔"

But history shows that capital may be used for purposes of exploitation in the worst sense of the word. European relations with India in earlier times, and in more recent years with parts of Africa and South America, are particularly flagrant examples.
Capital has been employed in numerous instances to drain countries of their resources, to weaken them economically, and to degrade them morally. The danger is especially great when highly organised communities are brought into contact with primitive peoples of lower education and intelligence.[6]

اقتباس[ترمیم]

  • "ہمیں دنیا کی معیشت کو چلانے کے لیے قرضوں میں (آمدنی کے لحاظ سے ) مستقل اضافے کی ضرورت ہے۔ لیکن 2011ء سے دنیا بھر کے غیر مالیاتی نجی شعبہ میں سارے کا سارا کریڈٹ چین میں تخلیق ہوا ہے۔ مغربی ممالک میں کریڈٹ کی تخلیق ٹھپ ہو گئی ہے۔۔۔ چین کے مالیاتی اثاثے لگ بھگ 60٫000 ارب ڈالر ہو چکے ہیں اور 2020ء تک یہ دُگنے ہو جائیں گے۔۔۔ ابھی امریکا کے مالیاتی اثاثے 90٫000 ارب ڈالر ہیں۔ دوسال میں چین ہم سے آگے نکل جائے گا۔ جب ہمارے اثاثے 60٫000 ارب ڈالر تھے تو چین کے اثاثے صرف 10٫000 ارب ڈالر تھے۔"
“We need persistent increases in debt relative to GDP for the world economy to function. And since 2011, 100% of global non-financial private-sector net credit creation has occurred in China. Across the western world, it’s been zero.”

“China’s asset base today is roughly $60trln, on its way to $120trln sometime in 2020,”

“The US asset base is $90trln. They’ll pass us in 2yrs. When we were $60trln, China was $10trln.”[7]

  • "قرض اور سود کے ذریعے ملک کو صرف مالیاتی لحاظ سے غلام نہیں بنایا جاتا بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی غلام بنایا جاتا ہے۔"

the serfdom imposed by debt and interest is not merely financial servitude--it is political serfdom as well:[8]

  • بیسویں صدی کے ماہر معاشیات Joseph Schumpeter کی وجہ شہرت اس کا یہ نظریہ تھا کہ کیپیٹلسٹ معیشت میں بگاڑ جان بوجھ کر پیدا کیا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جدید سوچ سونے کو ناپسند کرتی ہے کیونکہ سونا تلخ حقیقت بول دیتا ہے۔ اور جدید سوچ سے اس کی مراد وہ سینٹرل بینکرز تھے جو زر فرمان (fiat money) جاری کرتے ہیں۔
Twentieth-century economist Joseph Schumpeter (1883-1950), most famous for his theory of creative destruction in capitalist economies, said it best: “The modern mind dislikes gold because it blurts out unpleasant truths.” I am quite certain that the “modern mind” to which Schumpeter referred was a collective term for the social and economic planners responsible to this day for the construction and maintenance of the fiat money economy.[9]
  • "ناجائز مراعات استحصالی ہوتی ہے، طفیلی ہوتی ہے، شکاری ہوتی ہے اور معاشرے اور معیشت کو تباہ کرتی ہے اور لازماً امیر غریب کا فرق بڑھاتی ہے۔ ناجائز مراعات درحقیقت منظم استحصال بالجبر ہے۔ امیر غریب کے بڑھتے ہوئے فرق کو ختم کرنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ تخلیق دولت کی ناجائز مراعات ختم کی جائے۔"
Privilege is exploitive, parasitic, predatory and destructive to the society and economy, and generates inequality by its very nature. Stripped to its essence, privilege is nothing but institutionalized racketeering. The only way to reverse rising inequality is to eradicate its source: privilege (to print money)۔[10]
  • Capitalism = Inequality[11] ویکی پیڈیا پر یہ لنک بلاک شدہ ہے۔ ہب اور پیجیز کے درمیان سے _ ہٹا کر سرچ کریں۔
  • 1998ء سے 2013ء کے درمیان سارے طبقوں کی آمدنی میں کمی ہوئی ہے لیکن امیر ترین 10 فیصد لوگوں کی آمدنی میں 75 فیصد اضافہ ہوا ہے۔[12]
  • پاکستان پر غیر ملکی قرضے کا حجم تقریباً 75ارب ڈالرز تک پہنچ گیا ہے جس پر سالانہ تقریباً سولہ ارب روپے سود ادا کیا جا رہا ہے۔[13]
  • ہم ایک ایسے زمانے میں جی رہے ہیں جہاں گنتی کے چند افراد کھربوں ڈالر، یورو، ین اور یوان تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکا کے معاملے میں یہ اختیار صرف ایک شخص کے پاس ہے۔ اس فرد واحد کا فیصلہ پوری دنیا کی معیشت پر حاوی ہوتا ہے۔ جو کرنسی کنٹرول کرتا ہے وہ ہر چیز کنٹرول کرتا ہے- مالیاتی منڈیاں، کنزیومر پرائس، رسک سے آگاہی، سرمائیہ کاری کا رجحان، شرح بچت، ملازمتیں دینے کے فیصلے، تنخواہ میں اضافہ، حکومتی قرضے، مکانوں کی قیمتیں وغیرہ۔ صرف ایک آدمی۔
We live in a time when a tiny handful of people have their fingers on a button that can conjure trillions of dollars, euro, yen, and renminbi out of thin air. In the United States, it comes down to one man. Just one.
With a single decision, he controls the lever that dominates the entire economy. When you control the money, you control everything– financial markets, consumer prices, risk perceptions, investment habits, savings rates, hiring decisions, pay raises, sovereign debt, housing starts, etc. One man.[14]
  • The purest version of hyperglobalisation was tried out in Latin America in the 1980s. Known as the “Washington consensus”, this model usually involved loans from the IMF that were contingent on those countries lowering trade barriers and privatising many of their nationally held industries.[15]
  • 2016 کے بعد ارجنٹینا نے 18 مہینوں میں 2.75 ارب امریکی ڈالر کے قرضے (بونڈز) جاری کیے۔[16]
کیا ایسی مارکیٹ کی کوئی منطق ہے کہ ارجنٹینا کے سو سالہ حکومتی قرضوں (بونڈز) کی مانگ پیشکش سے بھی زیادہ ہو؟ وہی ارجنٹینا جو بین الاقوامی قرضوں کے معاملے میں تاریخ میں سات دفعہ اور پچھلے 17 سالوں میں دو دفعہ نادہندہ ہو چکا ہے۔
Is it a rational market that oversubscribes a 100 year bond from Argentina? That would be the same Argentina that has defaulted on its international obligations seven times in its history and twice since the turn of this century (2001 & 2014).[17]
  • Finance capital and the trusts are increasing instead of diminishing the differences in the rate of development of the various parts of world economy. When the relation of forces is changed, how else, under capitalism, can the solution of contradictions be found, except by resorting to violence? [18]
  • یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق افریقہ میں ہر سال 5 لاکھ بچے صرف اس لیے مر جاتے ہیں کہ ان ممالک کو سود اور قرض ادا کرنا ہوتا ہے۔نوم چومسکی[19]
  • the middleman, the rentier, the parasite[20]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]