سید حمید الدین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سید حمید الدین
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1910ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فیض آباد  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 15 نومبر 1968ء (57–58 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مظفر نگر،  مظفرنگر ضلع،  اتر پردیش  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات حادثاتی موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سید حمید الدین (1910ء - 15 نومبر 1965ء) انور شاہ کشمیری کے شاگرد، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے معتمد، دار العلوم دیوبند کے شیخ التفسیر، دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے محدث کبیر اور مشرقی یوپی کی مشہور دینی و تربیتی درسگاہ جامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ کے صدر المدرسین اور شیخ الحدیث تھے۔

ولادت[ترمیم]

1910ء کو ضلع فیض آباد کے مشہور مردم خیز قصبہ ہنسور کے ایک علمی خانوادہ میں پیدا ہوئے۔

تعلیم[ترمیم]

آپ موصوف نے وطن مالوف میں ہی مشہور استاذِ حفظ جناب حافظ نور محمد صاحب سے قرآن کریم کی تکمیل کی، بعدہٗ مدرسہ اشاعت العلوم ہنسور ہی میں جناب مولانا حکیم عبد الرحمن خانصاحب سمور خانپور سے فارسی اور عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ س کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا، لیکن ابھی تعلیم مکمل نہیں ہوئی تھی کہ اتنے میں حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کو دار العلوم دیوبند چھوڑ کر جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل گجرات جانا پڑا، استاذ محترم کے ساتھ آپ نے بھی مدرسہ تعلیم الدین ڈابھیل جا کر 1347ھ میں دورۂ حدیث شریف کی تکمیل کی اور جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل سے ہی سندِ فراغت حاصل کی۔

مولانا مفتی احمد خانپوری کی تحریر کے مطابق اس سال حضرت علامہ علیل ہو کر تبدیلئ آب وہوا کے لیے دیوبند تشریف لے گئے تھے، جس کی وجہ سے درمیانِ سال میں آپ مفتی عزیز الرحمن صاحبؒ نے بخاری شریف کا درس دیا اور حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی صاحبؒ کے پاس مستقل مسلم شریف کا سبق تھا اور حضرت شاہ صاحب کی علالت کے سبب ترمذی شریف بھی حضرت علامہ عثمانیؒ سے متعلق کردی گئی تھی، آپ سید حمید الدین صاحبؒ کے دورہ حدیث شریف میں 59 ساتھی تھے آپ اعلیٰ نمبرات سے کامیاب ہوئے اور اپنی جماعت میں پانچویں پوزیش حاصل کی۔[1]

تدریسی خدمات[ترمیم]

آپ نے فراغت کے بعد اپنے مادر علمی مدرسہ اشاعت العلوم ہنسور سے اپنے تدریسی سفر کا آغاز کیا، پھر پیر جھنڈا کلاں سندھ کے ایک عربی مدرسہ میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے، لیکن وہاں کی آب وہوا راس نہ آنے کی وجہ سے زیادہ دن قیام نہ رہ سکا۔[2] پھر جامعہ مسعودیہ نور العلوم کے بانی آپ محفوظ الرحمن صاحب نامیؒ کی درخواست پر شوال 1353ھ میں بحیثیت ’’صدر المدرسین اور شیخ الحدیث‘‘ جامعہ نور العلوم تشریف لے آئے اور ذی الحجہ1360ھ تک تقریباً سات سال طلبۂ نور العلوم کو اپنے علم سے سیراب فرماتے رہے۔ جامعہ نور العلوم کا مختصر تعارف خدمات اور منصوبے 94/1993ء/9 پھر مولانا رابع صاحب ناظم دار العلوم ندوۃ العلماء کی تحریر کے مطابق آپ کا 1360ھ مطابق1941ء میں بحیثیت محدث، دار العلوم ندوۃ العلماء میں تقرر ہوا اور آپ نے کتب صحاح خصوصاً جامع ترمذی تین سال تدریس فرمائی، اس طرح آپ کا تعلق 1945ءتک دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے رہا۔[3] پھر آپ ذی الحجہ 1364ھ مطابق فروری 1946ءکو اپنے مرشد حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے حکم پر ندوۃ العلماء سے دوبارہ جامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ تشریف لے آئے اور ذی الحجہ 1368ھ مطابق ستمبر 1949ءتقریباً 4 سال طلبہ نور العلوم کو اپنے چشمہ علم سے سیراب کرتے رہے اور اس دوران میں آپ جامعہ نور العلوم کے ناظم تعلیمات کے عہدے پر بھی فائز رہے۔[4] اس کے علاوہ مدرسہ عالیہ کلکتہ میں شیخ الحدیث کے منصب پر آپ کا تقرر ہوا اور مستقل مدرسہ عالیہ کلکتہ میں مقیم ہو گئے، پھر کچھ عرصہ کے لیے دار العلوم دیوبند میں شیخ التفسیر کے لیے آپ کا انتخاب ہوا، لیکن مدرسہ عالیہ کلکتہ کے ذمہ داران کے اصرار پر آپ پھر کلکتہ ہی تشریف لے گئے اور اخیر عمر تک مدرسہ عالیہ کلکتہ سے ہی وابستہ رہے۔

آپ کے اوصاف حمیدہ[ترمیم]

کمالات آپ کے مخصوص تلامذہ کے ذریعہ# جامعہ مسعودیہ نور العلوم کے سابق مہتمم آپ محمد افتخار الحق صاحبؒ کی تحریر بعنوان ’’تابندہ نقوش‘‘ کا اختصار پیش ہے۔ حضرت موصوف یہاں شیخ الحدیث کی حیثیت سے تشریف لائے تھے، آپ کی وجہ سے مدرسہ کی ترقی میں چار چاند لگ گئے، کئی سال تک آپ نے دورہ حدیث یہاں پڑھایا، درمیان میں درمیان میں دورہ حدیث کے طلبہ نہ رہے تو بھی اونچی اونچی کتابیں آپ پڑھاتے رہے۔ حضرت موصوف انتہائی حسین ہونے کے ساتھ ایسے ولی اللہ تھے کہ چہرے سے نور کی کرنیں نکلتی محسوس ہوتی تھیں۔ آپ موصوف کا علم میرے اندازے کے مطابق علم لدنی تھا، آپ کی گفتگو انتہائی عالمانہ اور سنجیدگی کی ہوتی تھی، کبھی بھی میں نے آپ کو کھل کھلا کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا، بس زیادہ سے زیادہ اتنا کہ دانت ظاہر ہو گئے، اس سے زیادہ نہیں، آپ کسی بچے پر غصہ ہوئے تو بھی اعتدال اور سنجیدگی میں رہے، تقریر نہایت شستہ اور مختصر، مگر نہایت عام فہم، سلیس اور پرمغز ودلنشیں فرماتے تھے، بہرائچ کا ایک بہت بڑا طبقہ آپ کا بے حد گرویدہ تھا۔ میرا تعلق آپ موصوفؒ سے آخر کے دو سال میں رہا، پہلے سال جلالین، ہدایہ اولین، نور الانوار، آپ کے پاس تھی، آپ نے کبھی کتاب اپنے سامنے رکھ کر نہیں پڑھائی، بلکہ اکثر میں ہی درس کی عبارت پڑھتا اور آپ صرف ایک بار نہایت نپا تلا مطلب خیز اس کا مفہوم کہہ دیتے اور وہ بالکل ذہن نشین ہو جاتا تھا، ترجمہ نہ کراتے تھے، نہ اس کی ضرورت ہی محسوس ہوتی تھی اور دوسرے سال بیضاوی شریف، مشکوٰۃ شریف، آپ کے پاس رہی، اس کی تعلیم بھی مذکورہ طرز پر آپ نے دی، بیضاوی شریف جیسی ادق وکٹھن تفسیر بھی پڑھاتے وقت آپ نے کتاب اپنے سامنے نہیں رکھی، بلکہ عبارت خوانی کے بعد اس کا مفہوم، ضروری تحقیقات اس طرح بیان فرما دیتے کہ پوری بات بخوبی ذہن نشین ہوجایا کرتی تھی۔ دوران میں تعلیم حضرت استاذ مکرم کی شفقت اور توجہ مجھ ناکارہ پر بہت رہی اسی دوران میں ایک مرتبہ میں معاشی بحران سے دوچار ہوا، چنانچہ تحریری طور پر میں نے اپنی پریشانی سے آپ کو مطلع کیا، تو آپ نے انتہائی خفیہ طور پر مجھے 25 روپئے عنایت فرمائے، ضرورت پوری ہونے اور یُسر ہونے پر میں نے وہ روپئے جو قرض کے طور پر تھے واپس کرنے چاہے تو بڑی محبت سے انکار فرمایا اور میرے اصرار پر خشمگیں ہو کر فرمایا کہ ’’میں بڑا ہوں یا تم‘‘ روحانی وقلبی اور تعلیمی احسان کے ساتھ ساتھ میرے ساتھ یہ احسان بھی حضرت کا شاید خصوصی تھا۔ میں جب دورہ حدیث کے لیے آپ کے مشورے سے دیوبند جانے لگا تو آپ نے میرے حق میں خصوصیت سے ایک خط حضرت علامہ ابراہیم بلیاویؒ کو لکھ کر دیا اور آٹھ آنے پیسے مجھے دیے کہ اس کا پان لکھنؤ سے خرید کر لیتا جاؤں اور ان کو حضرت موصوف کو پیش کردوں، چنانچہ حکم کے مطابق 8؍آنے کا نو ڈھولی پان خرید کر حضرت علامہؒ کی خدمت میں پیش کیا، جس سے حضرت بے حد مسرور ہوئے اور خط کی وجہ سے مجھ پر بے حد شفقت ومہربانی فرمائی۔ آپ موصوف کے مدرسہ سے چلے جانے کے بعد بھی آپ کا تعلق مدرسہ سے برابر قائم رہا اور تادمِ زیست مدرسہ کے سرپرست رہے اور مدرسہ کے امور میں دلچسپی لیتے رہے اور ہم لوگوں کی سرپرستی ورہنمائی فرماتے رہے۔[5]# جامعہ مسعودیہ نور العلوم کے نائب مہتمم ومجاہدِ آزادی آپ کلیم اللہ صاحب نوری الحسینیؒ کی تحریر بعنوان ’’آپ سید حمید الدین صاحب علیہ الرحمہ ایک جامع الکمالات شخصیت‘‘ کا اقتباس درج ذیل ہے۔ آپ استاذی قدس سرہٗ العزیز جس وقت بہرائچ تشریف لائے تھے،اسی سال میری نور الایضاح شروع ہوئی تھی، پوری جماعت میں میں ہی کم عمر تھا، فہم وسمجھ بھی کم تھی، لیکن حضرتؒ اس طرح سے پڑھاتے تھے کہ اپنی کم عمری اور نافہمی کے باوجود نور الایضاح کے بعض جملے اور مسائل مجھے اب تک ویسے ہی یاد ہیں اور مسائل فہمی کا طریقہ بھی سمجھاتے تھے۔ حضرت مولاناؒ کبھی کتاب سامنے رکھ کر نہیں پڑھاتے تھے، چاہے وہ کتاب کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو اور طلبہ کو کبھی مارتے بھی نہیں تھے، الا ماشاء اللہ جب کوئی جماعت سبق یاد نہیں کرتی تھی، تو آپ خاموش ہوجاتے تھے اور فرماتے تھے کہ بس جائیے، جب آپ کو یاد ہی نہیں کرنا ہے، تو پڑھ کر کیا کریں گے، طلبہ غصہ دیکھ کر اٹھ جاتے تھے، مگر چند منٹ کے بعد پھر پہنچ جاتے تھے، تو حضرت والا فرماتے تھے کہ اچھا پڑھیے بس فوراً ہی کوئی نہ کوئی پڑھنا شروع کردیتا تھا، حضرت پورے انبساط اور انشراح کے ساتھ پڑھانا شروع کردیتے تھے۔ حضرتؒ طلبہ کو عملی نمونہ پیش کرکے اخلاقیات کی تعلیم دیا کرتے تھے، مثلاً جب اندر سے باہر تشریف لاتے تھے، تو فوراً سلام کرتے تھے، طلبہ منتظر رہتے تھے کہ پہلے ہم سلام کریں لیکن حضرت والا مسابقت کرجاتے تھے۔ لباس ہمیشہ کرتا، پائجامہ اور بائیں کاندھے پر بڑا سا رومال رکھتے تھے، میں نے کبھی بہرائچ میں لنگی پہنتے نہیں دیکھا اور جب کلکتہ تشریف لے گئے تو آپ بلا تکلف تہبند پہنے ہوئے بازار تشریف لیجاتے تھے اور ضروریات زندگی کی خریداری فرمایا کرتے تھے، میں نے صاحبزادے محترم مولانا سید رشید الدین صاحبؒ سے معلوم کیا کہ یہ کیا بات ہے؟ تو فرمایا کہ یہاں کے علما لنگی پہننے کو معیوب سمجھتے تھے، اس لیے والد صاحب نے تہبند پہننا شروع کر دیا اور مدرسہ عالیہ میں بھی تہبند پہن کر جانے لگے اور یہ مدرسہ عالیہ کے اساتذہ کہتے ہیں کہ مولانا آپ نے اس سادگی سے ہم لوگوں کو راحت بخشی، اس لیے کہ مدرسہ عالیہ کے اساتذہ یہاں کے قانونی لباس شیروانی اور پائجامہ میں ہمیشہ ملبوس رہتے تھے چاہے موسم گرم ہو یا سرد۔ کھانے میں سنت پر عمل کا ایک واقعہ ملاحظہ کیجئے۔ حضرتؒ جب بہرائچ تشریف لائے تو مہتمم اول آپ احسان الحق صاحبؒ کے ساتھ ان کے مکان پر رہنے لگے، حضرت مہتمم صاحب کے ساتھ کھانا بھی تناول فرماتے تھے، ضلع بارہ بنکی کا ایک طالب علم بھی حضرت مہتمم صاحب کے یہاں رہتا تھا اور کھانا بھی ساتھ کھاتا تھا، کھانا کھانے کے بعد حضرتؒ طشتری خوب چاٹتے تھے، وہ طالب علم راوی ہے کہ میری طشتری بھی صاف کردیتے تھے، مجھ سے کہنے لگا کہ روز طشتری حضرت صدرؒ صاحب کے سامنے بڑھا دیتا تھا، مجھ سے جب ذکر کیا تو میں نے کہا بیوقوف! تجھے اتنا بھی معلوم نہیں کہ طشتری صاف کرنا سنت ہے، اس کے بعد وہ خود ہی طشتری چاٹ کر صاف کردیتا تھا اور بہت نادم اور شرمندہ تھا۔ میں حضرتؒ کے سامنے دو مرتبہ سنگین طور پر بیمار ہوا میں نے دیکھا کہ ہر مرتبہ آپ حکیموں کو بلانے کے لیے خود تشریف لیجاتے تھے اور اکثر مصارف بھی برداشت کرتے تھے اور یہ شفقت عام تھی، اپنے غریب شاگردوں کی مالی اعانت کرتے تھے، بعض کی تو کلکتہ تشریف لے جانے کے بعد بھی ہمیشہ اعانت فرمایا کرتے تھے اور زبان سے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ میں فلاں کی اعانت کرتا ہوں، بلکہ طالب علموں نے خود ہی یہ بات بتلائی ہے۔ آپ تقریر ہمیشہ حدیث شریف سے کیا کرتے تھے، کیوں کہ یہ علاقہ سخت بدعت زدہ تھا، لیکن حضرت کی تشریف آوری کے بعد سے عوام متأثر ہو ہو کر مدرسہ کی طرف رجوع ہوا کرتی تھی، آپ کی تقریر عالمانہ اور بڑی فاضلانہ ہوا کرتی تھی، جس کا اثر عوام الناس پر رفتہ رفتہ بہت پڑا چنانچہ شہر ودیہات کی کایہ پلٹ گئی لوگ تو صرف آپ کی فرشتہ صورت اور سیرت دیکھ کر ہی گرویدہ ہو جایا کرتے تھے اور جس طرف بھی آپ نکل جاتے تھے تو لوگ یہ چاہا کرتے تھے کہ چند منٹ میرے مکان یا دکان پر بیٹھ جاتے تو برکت ہوجاتی،اگر کوئی مہمان آجاتا تو اس کی ایسی پزیرائی فرماتے تھے کہ وہ متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا۔

سیاسی جدوجہد[ترمیم]

1936ء سے 1946ءتک کا دور سیاسی اعتبار سے جمعیت علمائے ہند سے وابستہ مسلمانوں کے لیے بہت صبر آزما اور بھیانک تھا، جیسا کہ تاریخ داں حضرات سے پوشیدہ نہیں ہے، آپ ایسے وقت میں نہایت جرأت مندی اور ہمت سے کام لے کر مسلک ولی اللہی کو عام کر رہے تھے، مسلم لیگیوں کے مقابلے میں ان کے جملہ حملوں کا دفاع قرآن وحدیث سے فرماتے تھے، جب جمعیۃ علماء ہند کے اشتراک سے کانگریس نے مسلم پارلیمنٹری بورڈ بنایا تو آپ ضلع کے صدر منتخب ہوئے تھے، حضرت مولانا محفوظ الرحمان صاحب نامیؒ پارلیمنٹری بورڈ کی طرف سے الیکشن میں کھڑے ہوئے تھے، وہ وقت تھا کہ مسلمان صرف مسلمان کو ووٹ دیتے تھے اور ہندو صرف ہندو کو حلقہ بہت بڑا تھا، مگر آپ کی اور آپ کے تمام ساتھیوں کی انتھک کوششیں ایسی تھیں کہ مولانا نامی مسلم لیگ کے مقابلے میں صرف تنہا کامیاب ہوئے تحریری اور تقریری دونوں مقابلے کیے جاتے تھے، مسلم لیگ کی طرف سے ایک اشتہار شائع ہوا تھا جس میں مسلم ووٹروں کو بھڑکانے کے لیے سرخی لگائی گئی تھی ’’مولانا محفوظ الرحمان وہابی ہیں‘‘ اس کا جواب بذریعہ اشتہار دیا گیا کہ ’’بیرسٹر صاحب شرابی ہیں‘‘ اس کے نیچے مضامین ایک ایک سطری ایسے تھے کہ لوگ دیکھ کر شرابی یاد رکھتے تھے، وہابی بھول جاتے تھے، آپ نے ہر میدان میں ایسی جدوجہد فرمائی اور اپنے شاگردوں پر ایسی چھاپ ڈالی جس کا اثر آج تک محسوس کیا جا رہا ہے، آزادی کے بعد ملک کے چاروں طرف فساد کا سلسلہ شروع ہو گیا ایسے وقت میں آپ نے وفد کے ساتھ کئی ضلعوں کا دورہ کیا اور ریلیف کا انتظام کیا اور مظلوموں کی بھرپور مدد کی۔[6] دیگر اہم شخصیات نے بھی آپ کے علم وفضلتقویٰ وطہارت کو سراہا ہے۔ تلامذہ کے علاوہ دیگر اہم شخصیات نے بھی آپ کے علم و فضل، تقوی وطہارت، اخلاق وتبحر علمی کو سراہا ہے، چنانچہ حکیم الاسلام آپ قاری محمد طیب صاحبؒ مہتمم دار العلوم دیوبند رقمطراز ہیں کہ ’’آپ حمید الدین صاحب فاضل دیوبند، قوی الاستعداد، صاحبِ علم و فضل اور صاحبِ تقوی بزرگ ہیں اور دار العلوم کے ان فضلاء میں سے ہیں کہ جن پر دار العلوم بجا طور پر ناز کر سکتا ہے‘‘۔ (مشاہدات وتاثرات 10)# فخر ملت آپ فخر الدین صاحب شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند تحریر فرماتے ہیں کہ مولانا حمید الدین صاحب فیض آبادی کو حدیث، فقہ ،تفسیر میں نمایاں حیثیت حاصل ہے، آپ میں تدریس کی اعلیٰ صلاحیت موجود ہے، آپ نہایت سادہ مزاج، پاکیزہ اخلاق، حسن سیرت کے جامع صاحبِ فکر وتدبر ہیں غرض قدرت کی فیاضیوں نے آپ کو بہت سی ظاہری اور باطنی خوبیوں کا جامع بنایا ہے۔ (بحوالہ بالا ص11)# مورخ اسلام آپ قاضی اطہر صاحب مبارک پوری رقم طراز ہیں کہ آپ اپنے علم و فضل، حلم وقار، کم آمیزی، کم سخنی، تقویٰ اور انکسار میں طبقۂ مشائخ سے معلوم ہوتے ہیں، کھلتا ہوا قد گورے چٹے حسین چہرہ پر سیاہ داڑھی، جسم کی طرح لباس بھی سفید وصاف، گفتگو میں متانت، نشست وبرخاست میں وقار، چال ڈھال میں تمکنت، اخلاق ومروت میں شرافت، وضعداری ان کے ظاہری اوصاف تھے، علم حدیث میں ان کے تبحر وتعمق کا شہرہ عام درسگاہوں میں ہوتا تھا اور ان کے اخلاق واوصاف بیان کیے جاتے تھے۔ (بحوالہ بالا ص 16,17) آپ کا خاندان علمی تھا اور خانوادہ مدنی سے متعلق تھا، آپ کے صاحبزادے آپ سید رشید الدین حمیدی صاحب جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد کے ایک زمانے تک مہتمم اور جمعیۃ علماء اترپردیش کے صدر رہے اور آپ کے پوتے آپ سید اشہد رشیدی صاحب فی الحال اپنے والد محترم کے جانشین کی حیثیت سے جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی کے منصبِ اہتمام پر فائز ہیں اور دوسرے بڑے پوتے آپ محمداخلد رشیدی مدینہ منورہ میں قیام پزیر ہیں۔

حادثہ جانکاہ[ترمیم]

دار العلوم دیوبند کی مجلسِ شوریٰ میں شرکت کے ارادے سے آپ کلکتہ سے بذریعہ کالکا میل دہلی کے لیے روانہ ہوئے، اہل خانہ ساتھ تھے، پھر دہلی سے بذریعہ کار عصر کے بعد دیوبند کے لیے روانہ ہوئے، مغرب کی نماز میرٹھ کی مسجد میں ادا کی وہاں کے احباب نے چائے وغیرہ پلا کر رخصت کیا، تقدیر الٰہی اپنی کارگذاری کے لیے مستعد تھی، چنانچہ کھتولی اور مظفر نگر کے درمیان میں ایک کھڑے ہوئے ٹرک سے کار ٹکرا گئی، آپ نے موقعِ واردات پر ہی 15؍ نومبر 1968ء کو بعمر 58 سال جام شہادت نوش کیا اور مزار قاسمی دیوبند میں اپنے شیخ آپ سید حسین احمد مدنی کے قریب اور اپنے اساتذہ شیخ الادب آپ اعزاز علی صاحبؒ، امام المعقولات حضرت علامہ ابراہیم بلیاویؒ کے پہلو میں مدفون ہوئے۔[7]

مزید دیکھیے بہرائچ کی شخصیات[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مستفاد مکتوب مولانا مفتی احمد جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل بحوالہ مشاہدات وتاثرات صفحہ 25
  2. مشاہدات وتاثرات صفحہ 26
  3. مکتوب مولانا محمد رابع حسنی ندوی بحوالہ مشاہدات وتاثرات صفحہ 36
  4. جامعہ نور العلوم کا مختصر تعارف خدمات اور منصوبے صفحہ9
  5. تابندہ نقوش بحوالہ مشاہدات وتاثرات ص117تا122
  6. آپ حمید الدین صاحب ایک جامع الکمالات شخصیت بحوالہ مشاہدات وتأثرات ص 123تا 127
  7. مستفاد مشاہدات وتاثرات
  • نورالعلوم کے درخشندہ ستارے (مطبوعہ 2011)