سید خورشید افروز

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے


سید خورشید افروز پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نامور دانشور، ادیب ، شاعر ، صحافی، مورخ ، ماہر تعلیم ، ڈراما نگار ،کہانی کار، سفرنامہ نویس،اور محقق ہیں ۔

حالاتِ زندگی[ترمیم]

خورشید افروز 15 مارج 1943 کو لورالائی میں پیدا ھوئے۔ تمام تعلیم بلوچستان سے ہی حاصل کی ۔ پروفیسر سید خورشید افروز ، بخاری سادات میں سے ہیں ، اجداد نے خراسان سے ہجرت کی اور جنوبی پنجاب کے علاقے ،، اُچ ،شریف ،، تشریف لائے پھر کشمیر چلے گئے، پروفیسر خورشید افروز نے اپنی تمام تر تعلیم بلوچستان میں ہی حاصل کی اور شعبہِ تدریس سے وابستہ ہوئے۔وہ موشے خیل کالج کے پرنسیپل اور گورنمنٹ کالج لورہ لائی کے وائس پرنسیپل بھی رہے۔ ادبسے وابستگی اور ادبی خدمات کا سلسلہ بھی زمانہِ طالب علمی سے رہا ۔ ژوب ڈویژن ایسوسی ایشن کے صدر کے طور ان کی خدمات کا بھر پور اعتراف کیا گیا ہے ۔ بلوچستان کے علاقے ،، لورہ لائی ،، میں مقیم ہیں، پریس کلب لورہ لائی کے صدر بھی رہے۔ اگرچہ وہ ادبیات کے تقریبا ہر شعبے میں خامہ فرسائی کر چکے ہیں جس کے باعث انھیں بلوچستان کا ادبی محسن کہا جاتا ہے ۔ تاہم ان کی خاص پہچان تحقیق اور تاریخ رہی ہے اور پروفیسر خورشید افروز نے بلوچستان کی 2 سو سالہ ادبی تاریخ یکجا کر کے بکھرے پڑے ورثے کو سمیٹ دیا ہے ، سیکڑوں طلبہ نے پروفیسر افروز کی کتب سے استفادہ کرکے ، ایم اے ، ایم فل اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں لیں ۔

منتخب کلام[ترمیم]

غزل کے اشعار

[1]
پر بلندی پہ اڑا ڈالے ہوا نے میرے کھولے ادراک کے درایک خطا نے میرے
بے گناہوں کے لہو کا مجھے لینا ہے حساب تگ و دو میں ہیں عدو حوصلے ڈھانے میرے
سخت حیران ہوں واپس پلٹ آئے ہیں کیوں؟ کچھ نشانے پہ لگے تو تھے نشانے میرے
کبھی اک وقت کی روٹی جو مجھے دے نہ سکے حاکمِ وقت کے بیکار خزانے میرے
زیست ہے تیری عنایت مرا مولا لیکن سانسوں کے بوجھ سے شل ہوگئے شانے میرے
کبھی افروزؔ میں اس کا تو سزا وارانہ تھا سرخرو کر دیا خود آپ خدا نے میرے

اہم ترین تصنیف :مشاہیر بلوچستان[ترمیم]

پروفیسر خورشید افروز کا تحریر کردہ مشاہیر بلوچستان تحقیقی سلسلہ 9 جلدوں کو محیط ہے جن میں ہر دور اور صنف کی الگ الگ 8 جلدیں مختص ہیں جبکہ نویں اور پانچیں نمبروالی بلوچستان کے نسائی ادب کا احاطہ کیے ہوئے یہ 5 ویں جلد جو خواتین اہل قلم کے حصے میں آئی ، اس میں مقامی خواتین کے علاوہ وہ خواتین بھی شامل ہیں جو خود بغرض ملازمت بلوچستان آئیں یا ان کے شوہر ٹرانسفر ہو کے آئے یا بیاہ کے آئیں۔جیسے بیگم ثاقبہ،رحیم الدین، شبنم شکیل، حجاب، عباسی اور جہاں آراء تبسم اور جنھوں نے بلوچستان میں علم و ادب یا اس کی سماجی اور ثقافتی ترقی میں حصہ لیا، ایسی معتبر خواتین اہل قلم کا ذکر پوری تفصیل سے ملتا ہے ۔

دیگر تصانیف[ترمیم]

  1. ثمر نخل زندگی ( شاعری کا مجموعہ)
  2. فکراول( شاعری کا مجموعہ)[2]
  3. دائروں کا سفر ( شاعری کا مجموعہ)
  4. تہی دستِ عطا (افسانوں کا مجموعہ)
  5. اندھیروں کا سورج ۔(افسانوں کا مجموعہ)
  6. آہوں کی ٹارگٹ کلنگ ۔(افسانوں کا مجموعہ)
  7. عدم وجود کا وجود ۔(افسانوں کا مجموعہ)
  8. سرف شدہ لمس ۔(افسانوں کا مجموعہ)
  9. حاصلِ بے سود ۔(افسانوں کا مجموعہ)
  10. ریزہ ریزہ چٹان۔(ڈرامے)
  11. فاصلوں کی جنگ ۔( ڈرامے)
  12. لذتِ ابہام ۔(طنز و مزاح)
  13. زود پشیماں۔(طنز و مزاح)
  14. ستائشی ستیاناسی (مشاعروں اور ادبی سرگرمیوں کی روداد)
  15. راکھ کے پہاڑ ۔( رپوتاژ)
  16. آوازِ سگاں ۔ (رپوتاژ)
  17. پاگل الفاظ ۔( انشائیہ)
  18. خود کردہ را علاج نیست۔( انشائیہ)
  19. تیشہ و سنگ ۔(اخباری کالم)
  20. کوشش بے کار ۔ (اخباری انٹرویوز)
  21. ناطقہِ سر بگریباں ۔( اخباری کالم )
  22. یادوں کے جھروکے سے ۔( ادبی کالموں کا مجموعہ)
  23. الفاظ کے خود کش دھماکے۔(تنقیدی مضامین )
  24. مشاہیر ادب کے خطوط
  25. چند مشاہیرِ ادب بلوچستان
  26. مشاہیرِ بلوچستان (4 جلدیں )
  27. مشاہیرِ بلوچستان:۔ بلوچستان میں خواتین کی اردو شاعری ( پانچویں جلد )[3]
  28. بلوچستان میں اردو نثری ادب کے 100 سال
  29. لورالائی میں صحافت کے پچاس سال
  30. لورالائی کی معاشرتی رسومات
  31. لورالائی کی تاریخی اور معاشی اہمیت
  32. لورالائی میں شاعری کے پچاس سال
  33. اردو علاقائی زبانیں تقابلی جائزہ ( ریسرچ ورک)
  34. اردو زبان و بیاں
  35. علمِ عروض اور اردو شاعری
  36. الفاظ کی در و بست، ساخت اور اردو شاعری
  37. چند خاص بحریں اور شاعری
  38. امریکی اور یورپی سامراج اور اکبر الہ آبادی کی شاعری
  39. انگریزی زبان و ثقافت کے نقصانات
  40. درس و تدریس چند قیمتی مشورے
  41. طریقِ امتحان کے نقائص
  42. سفارشی کلچر اور ہمارا معاشرہ
  43. مشرف پاکستان کا دشمن یا دوست؟
  44. آصف زرداری مایوسیوں کا دور
  45. سعید گوہر میرا ساتھی میرا دوست

حوالہ جات[ترمیم]


ْْ