سید شہاب الدین (بھارتی سیاست دان)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سید شہاب الدین (بھارتی سیاست دان)
معلومات شخصیت
پیدائش 4 نومبر 1935(1935-11-04)
رانچی، جھارکھنڈ، بھارت
وفات مارچ 4، 2017(2017-30-40) (عمر  81 سال)
نوئیڈا، بھارت
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت جنتا پارٹی   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ پٹنہ   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان، سفارت کار
پیشہ ورانہ زبان ہندی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سید شہاب الدین (4 نومبر، 1935ء4 مارچ 2017ء) ایک بھارتی سیاست دان تھے جن کا تعلق رانچی شہر سے تھا جو اب جھارکھنڈ ریاست کی دار الحکومت ہے۔ انھوں نے اپنا آغاز ایک سفارت کار کے طور پر کیا جب وہ بھارتی بیرونی خدمت کے لیے کام کرتے تھے۔ وہ تین میعادوں کے لیے بھارتی پارلیمان 1979ء سے 1996ء تک رکن رہے۔ وہ شاہ بانو مقدمے سے وابستگی اور بابری مسجد کے انہدام کے لیے شہرت رکھتے تھے۔ وہ 4 مارچ کو نوئیڈا میں وفات پا گئے۔

== کام ==خلاف

شہاب الدین ایک سفارتکار، سفیر اور سیاست دان کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ اپنے سیاسی دور میں وہ جنوب مشرقی ایشیا، بحر ہند اور بحر اوقیانوسی کے وزارت امور خارجہ کے جوائنٹ سیکریٹری رہ چکے ہیں۔

وہ انصاف پارٹی کے بانی تھے جسے 1989ء قائم کیا گیا، اگلے سال تحلیل کر دیا گیا اور بعد میں اس کا پھر احیا کیا گیا۔ وہ بھارتی دستور کے وفاقی ڈھانچے پر مضبوط ایقان کے لیے جانے جاتے تھے اور وہ حکمرانی کی ہر سطح پر عوامی حصے داری دیکھنا چاہتے تھے۔[1]

16 نومبر 2012ء کو انھوں نے نریندر مودی کو ایک کھلاخط لکھا جس میں اور معاملات کے ساتھ ساتھ مسلمان رائے دہندوں کا تذکرہ تھا۔[2] انھوں نے کئی دفعہ رشوت ستانی، خویش نوازی، نااہلیت اور جمہوریت کے خلافت ان تھک فعالیت کی وکالت کہ یہ سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہے اور قومی آمدنی اور وسائل کی مساویانہ تقسیم کے لیے کہا تاکہ سبھی لوگوں کا وقار ایک سطح پر بنا رہے۔[1]

سماجی کام[ترمیم]

وہ کئی مسلمان اداروں سے منسلک تھے جن میں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت شامل تھی۔ وہ 2004ء سے 2007ء کے بیچ اس کے صدر تھے۔

ذرائع ابلاغ[ترمیم]

شہاب الدین نے ایک ماہانہ جریدہ مسلم انڈیا کی ادارت 1983ء اور 2002ء کے بیچ کی اور پھر اسے 2006ء سے پھر احیا کیا۔ وہ حالات حاضرہ پر ٹی وی مذاکروں کا حصہ بھی رہے۔ وہ پاکستان سے لے کر اردو کے موقف پر سعودی عرب کے اخبار عرب نیوز کے لیے مضامین لکھ چکے ہیں۔[3]

تنقید[ترمیم]

شہاب الدین اپنے پسماندہ انتخابی حلقے کشن گنج میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں لا سکنے کی وجہ سے تنقید کا شکار بنے۔[4] وہ نریندر مودی کو لکھے گئے کھلے خط کی وجہ سے بھی تنقید کی زد میں آئے۔[5]

سوانح حیات[ترمیم]

  • "Syed Shahabuddin: Outstanding Voice of Muslim India[6]

اس انگریزی زبان کی کتاب کی تالیف مشتاق مدنی نے کی اور اس کی اشاعت پی اے انعام دار نے کی تھی۔ کتاب کا رسم اجرا 21 اپریل 2013ء کو انجام ہوا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب Website of Syed Shahabuddin[مردہ ربط] , Retrieved on 3 February 2013
  2. "Muslim Voters See Some Signs Of Change In Your Attitude", OutlookIndia.com, Retrieved on 3 February 2013
  3. Arab News Author Profile of Syed Shahabuddin آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ arabnews.com (Error: unknown archive URL), ArabNews.com, Retrieved on 3 February 2013
  4. "Syed Shahabuddin on his life and politics", NewAgeIslam.com, Retrieved on 3 February 2013
  5. "Shahabuddin says didn’t ask Muslims to back Modi", IndianExpress.com, Retrieved on 3 February 2013
  6. Syed Shahabuddin: Outstanding Voice of Muslim India