محمد اسماعیل کٹکی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مناظرِ اسلام، قاری، مولانا

سید محمد اسماعیل کٹکی
صدر جمعیت علمائے اڈیشا (ثالث)
پیشروبالترتیب:
سید فضل الرحمن قاسمی[1] ، ایڈیٹر ہفت روزہ مسلم گزٹ، کٹک[2]
سید برکت اللہ برکت (1905ء - 1979ء)[1][3]
جانشینسید سراج الساجدین کٹکی قاسمی[1]
امیر شریعت اڈیشا (اول)
برسر منصب
1964ء سے 2005ء
جانشینسید سراج الساجدین کٹکی قاسمی
رکنِ مجلسِ شوری، دار العلوم دیوبند
برسر منصب
1992ء سے 2005ء[4]
ذاتی
پیدائش6 جنوری 1914ء
وفات20 فروری 2005(2005-20-20) (عمر  91 سال)
سونگڑہ، ضلع کٹک، اڑیسہ
مدفنجامعہ اسلامیہ مرکز العلوم کی 'مدنی مرکز المساجد' کی بائیں جانب
مذہباسلام
اولادمحمد احمد میاں قاسمی (بیٹے)
محمد محمود میاں (بیٹے)
محمد غانم قاسمی (پوتے)
فقہی مسلکحنفی
تحریکتحفظ ختم نبوت
قابل ذکر کامیادگارِ یادگیر، قادیانی اسلام، ذرا غور کریں
اساتذہحسین احمد مدنی
مرتضی حسن چاند پوری
محمد میاں دیوبندی
محمد ابراہیم بلیاوی
اصغر حسین دیوبندی
محمد شفیع دیوبندی
محمد رسول خان ہزاروی
قاری محمد طیب
بانئجامعہ اسلامیہ مرکز العلوم، سونگڑہ، کٹک

سید محمد اسماعیل کٹکی (1914–2005ء) ایک ہندوستانی دیوبندی عالم، قاری، مقرر اور مناظر تھے۔ بھارت میں خصوصاً ریاست اڈیشا میں تحریک تحفظ ختم نبوت پر ان کی بے بہا خدمات ہیں۔ وہ جمعیت علمائے اڈیشا کے تیسرے صدر اور امارت شرعیہ اڈیشا کے پہلے امیر تھے۔

ابتدائی و تعلیمی زندگی[ترمیم]

سید محمد اسماعیل کٹکی کی پیدائش 6 جنوری 1914ء کو رسول پور، سونگڑہ، ضلع کٹک، صوبہ بہار و اڑیسہ (موجودہ صوبہ اڈیشا) میں ہوئی۔[5][6] عطاء اللہ شاہ بخاری اور محمد اسماعیل کٹکی کا ننھیال ایک لکھا ہوا ہے۔[7]

ان کی ابتدائی تعلیم اپنی پھوپھی ”سیدہ خاتون“ کے پاس ہوئی۔[5][8] اس کے بعد ہدایۃ النحو تک کی تعلیم؛ فاضلِ دیوبند محمد عمر قاسمی کٹکی کے قائم کردہ مدرسہ؛ ”مدرسہ اسلامیہ، سونگڑہ“ میں ہوئی۔[9]

متوسط و اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد پہنچے اور وہیں پر شرح وقایہ تک کی تعلیم حاصل کی اور وہاں محمد میاں دیوبندی، محمد اسماعیل سنبھلی، عبد الحق مدنی اور قدرت اللّٰہ قدرت جیسے جبالِ علم اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا۔[8][9]

اس کے بعد وہ دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے اور وہاں ان کا داخلہ ہو گیا۔[8][10] دورۂ حدیث سے ان کی فراغت؛ 1353ھ (مطابق 1934ء) میں ہوئی۔[11] صحیح البخاری؛ حسین احمد مدنی سے پڑھی۔[11]

دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مزید چھ ماہ انھوں نے عظیم مناظر مرتضی حسن چاند پوری کے پاس رہ کر فن مناظرہ پر ان سے تربیت لی اور ان سے مناظرہ کے اصول و ضوابط سیکھے، زمانۂ طالب علمی ہی میں وہ ایک کامیاب مناظر بن چکے تھے۔[8][10][6]

حسین احمد مدنی اور مرتضی حسن چاند پوری کے علاوہ ان کے دیگر اساتذۂ دار العلوم میں محمد ابراہیم بلیاوی، محمد طیب قاسمی، محمد رسول خان ہزاروی، محمد شفیع دیوبندی، اصغر حسین دیوبندی، اعزاز علی امروہوی، نبیہ حسن دیوبندی اور عبد السمیع دیوبندی شامل تھے۔[8][10]

روایتِ حفص عن عاصم سے وہ قاری بھی تھے، مدرسہ شاہی مرادآباد کے اندر قاری محمد عبد اللّٰہ اور دار العلوم دیوبند میں قاری عبد الوحید دیوبندی سے انھوں نے تجوید و قراءت کی مشق بھی کی تھی۔[12]

تدریسی و عملی زندگی[ترمیم]

سرکاری ملازمت[ترمیم]

تعلیم سے فراغت کے بعد اولاً وہ راونشا کالجیٹ اسکول، کٹک میں سیکنڈ مولوی کی حیثیت سے فارسی و اردو کے استاذ مقرر ہوئے۔[13][14] پھر 1947ء تک کوراپٹ، اڈیشا میں وہ اسکول کی سرکاری ملازمت میں مشغول رہے۔[6][5]

انجمن تبلیغ الاسلام سے وابستگی اور جامعہ مرکز العلوم کا قیام[ترمیم]

1946ء ہی میں وہ حسین احمد مدنی کے ایما پر اڈیشا ہی میں تحفظ ختم نبوت کی ایک تحریک ”انجمن تبلیغ الاسلام“ سے منسلک ہوکر سرگرمِ عمل ہو چکے تھے، یہ تحریک 1945ء میں سونگڑہ ہی کے اہل فکر افراد نے قائم کی تھی۔[6] انھیں کے انتظام میں 1946ء میں باقاعدہ جامعہ مرکز العلوم قائم کیا گیا، جہاں وہ تدریسی و اصلاحی خدمات میں مشغول ہو گئے۔[6][15]

میدانِ مناظرہ میں[ترمیم]

فراغت کے بعد سے لے کر نوے کی دہائی تک انھوں نے نوے سے زائد مناظرے کیے،[10] جن میں ردِّ قادیانیت پر ہونے والے مناظروں میں 1958ء کا مناظرۂ بھدرک، 1963ء کا مناظرۂ یادگیر[16]، 1988ء کا مناظرۂ کتہ گوڑم اور ردِّ بریلویت پر ہونے والا 1979ء کا مناظرۂ بارہ بٹی اسٹیڈیم مشہور ہے۔[6]

ان کی کوششوں سے تقریباً آٹھ ہزار قادیانیوں نے اسلام قبول کر لیا تھا،[10][17] اور ان کی وعظ و تقریر اور اظہارِ حق و ابطالِ باطل سے لاتعداد مسلمانوں کا ایمان مضبوط و مستحکم ہوا۔[18]

رد قادیانیت پر ان کی بے بہا خدمات ہیں۔[19] قادیانیوں کے مشہور مناظرین مفتی صادق، سرور شاہ، محمد حنیف کشمیری، غلام احمد مجاہد اور محمد سلیم وغیرہ کو بار بار عبرت ناک شکست دی۔[10] بریلوی مناظرین میں ارشد القادری اور حبیب الرحمن بھدرکی سے بھی ان کا اپنے رفقا کے ساتھ مناظرہ ہوا اور کامیاب بھی رہے۔[6]

اعزازات و مناصب[ترمیم]

وہ 1964ء سے وفات تک یعنی 2005ء تک 41 سال وہ امارتِ شرعیہ، اڈیشا کے پہلے امیر رہے۔[6][8] انھوں نے اپنی وفات تک تقریباً نصف صدی تک جمعیت علمائے اڈیشا کے تیسرے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔[6]

1986ء میں ”کل ہند مجلسِ تحفظِ ختم نبوت کا انھیں نائب صدر منتخب کیا گیا تھا۔[18][20]

1992ء میں وہ مجلس شورٰی دار العلوم دیوبند کے رکن بنائے گئے اور اپنی وفات یعنی 2005ء تک 14 سال اس عہدہ پر فائز رہے۔[4][19] وہ رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ دار العلوم دیوبند کی طرف سے اڈیشا کے صوبائی صدر بھی رہے ہیں۔[21]

وہ کانگریس کے حامی تھے اور اخیر عمر تک اسی سے منسلک رہے[5] اور تحریک آزادی میں بھی سرگرم رہے۔[5][22] جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کے رکن بھی تھے۔[9]

مشہور پاکستانی مناظرین لال حسین اختر اور محمد حیات سے ان کے دوستانہ مراسم تھے، نیز 6 اپریل 1999ء کو مدرسہ صولتیہ، مکہ مکرمہ میں محمد طلحہ کاندھلوی کی مہمان نوازی کے موقع پر محمد اسماعیل کٹکی نے منظور احمد چنیوٹی کی مجاہدانہ خدمات سے خوش ہوکر ان کی دستار بندی فرمائی تھی۔[7]

تلامذہ[ترمیم]

ان کے تلامذہ میں سے بعض مشاہیر کے نام درج ذیل ہیں:[6]

نام تعارف حوالہ
سید سراج الساجدین کٹکی قاسمی (متوفی: 21 اکتوبر 2006ء) جمعیت علمائے اڈیشا کے چوتھے صدر، امارت شرعیہ اڈیشا کے دوسرے امیر اور مجلسِ عاملہ، دار العلوم دیوبند کے رکن (یہ اسماعیل کٹکی کے وہ قابل اعتماد شاگرد تھے، جنھیں انھوں نے اپنے نائب کے طور پر منتخب کر لیا تھا[5])
عبد الحفیظ کٹکی مظاہری مہتمم جامعہ رشیدیہ ریاض العلوم، گوہالی پور، سونگڑہ
محمد منظور احمد کٹکی قاسمی سابق چیئرمین اڈیشا اردو اکادمی، بھوبنیشور
محمد جلال کٹکی قاسمی (متوفی: 12 فروری 2021ء) جمعیت علمائے اڈیشا (الف) کے پہلے صدر؛ بانی و مہتمم جامعہ اسلامیہ دینیہ (ارشد العلوم)، کنی پاڑہ، سبلنگ، کٹک اور امارت شرعیہ اڈیشا کے تیسرے امیر
سید کفیل احمد قاسمی سابق چیئرمین شعبہ عربی و سابق ڈین فیکلٹی آف آرٹس، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔
محمد علی کٹکی قاسمی مہتمم جامعہ سراج العلوم عرفانیہ، سات بٹیہ، کٹک و نائب صدر جمعیت علمائے اڈیشا (الف)
عبد السبحان قاسمی نیاگڑھی اڈیشا کے اڈیہ بولے جانے والے علاقوں؛ جیسے: نیا گڑھ وغیرہ میں ان کی بے بہا دینی خدمات ہیں۔
عبد المنان قاسمی، اسریسر و متوطن بھوبنیشور (متوفی: 28 مارچ 2023ء) سابق رکن مجلس عاملہ جمعیت علمائے اڈیشا (الف)
عبد الستار قاسمی کاکٹ پوری سابق مہتمم مدرسہ احمد العلوم، فقیر ساہی، کاکٹ پور، ضلع پوری
محمد فاروق قاسمی امارت شرعیہ اڈیشا کے چوتھے امیر، مہتمم جامعہ اشرف العلوم کیندرا پاڑہ اور صدر رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ برائے صوبہ اڈیشا
اشرف علی قاسمی مہتمم مدرسہ قاسم العلوم، بشن پور، بالوبیسی، ضلع جگت سنگھ پور و سابق جنرل سیکریٹری جمعیت علمائے اڈیشا (میم)
محمد ابو سفیان قاسمی نائب صدر جمعیت علمائے اڈیشا (الف)۔
محمد غفران قاسمی، بالو بیسی سابق عبوری صدر جمعیت علمائے اڈیشا (الف) و مہتمم مدرسہ فرقانیہ، بالوبیسی۔
سید انظر نقی قاسمی استاذ حدیث و ناظم شعبۂ تعلیمات جامعہ مرکز العلوم، سونگڑہ، اڈیشا
محمد ارشد قاسمی مہتمم مدرسہ حسینیہ، راورکیلا اور جمعیت علما اڈیشا (الف) کے دوسرے صدر
نور اللہ قاسمی جدو پوری (متوفی: 19 جولائی 2022ء) خلیفہ مولانا سید اسعد مدنی
سید شمس تبریز قاسمی سفیر دار العلوم دیوبند
عنایت اللہ ندوی استاذ دار العلوم ندوة العلماء، لکھنو و مصنفِ ”بین الاقوامی معلومات“
محمد نور الامین صدیقی مہتمم دار العلوم حسینیہ، مدنی نگر، چڑئی بھول، ضلع میوربھنج
سید نقیب الامین برقی قاسمی جنرل سیکریٹری جمعیت علما اڈیشا (الف) و مہتمم و شیخ الحدیث جامعہ مرکز العلوم، سونگڑہ، کٹک
شاہ عالم گورکھپوری نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت و استاذِ شعبۂ تحفظ ختم نبوت دار العلوم دیوبند [20]

ان کے علاوہ بھی ان کے تلامذہ کی کثیر تعداد ہے۔[6]

وفات[ترمیم]

ان کا انتقال 91 یا 92 سال کی عمر میں 11 محرم 1426ھ بہ مطابق 20 فروری 2005ء کو تقریباً رات گیارہ بجے سونگڑہ، کٹک میں ہوا۔[6][8]

ان کی وفات پر دار العلوم دیوبند کی مجلس عاملہ کی میٹنگ (منعقدہ 18 جمادی الاخری 1426ھ بہ مطابق 25 جولائی 2005ء بہ روز پیر) میں افسوس کا اظہار کیا گیا تھا۔[23] نیز ان کی وفات کے موقع پر دار العلوم دیوبند کی سابق دار الحدیث تحتانی میں ایک دعائیہ نشست کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں مرغوب الرحمن بجنوری، عثمان منصورپوری، عبد الخالق مدراسی اور دیگر اساتذہ و طلبۂ دار العلوم دیوبند نے شریک ہوکر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے ان کے لیے ایصالِ ثواب کیا تھا۔[8]

تصانیف[ترمیم]

ان کی تصانیف کے نام درج ذیل ہیں:[6][16][24]

  • یادگارِ یادگیر (مطبوعہ: 1965ء)
  • مناظرۂ بھدرک
  • اسلامِ قادیانی
  • قرآنِ قادیانی (طبع اول: 24 فروری 1946ء، طبع ثانی: فروری 2020ء؛ جسے دوبارہ شاہ عالم گورکھپوری نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، پاکستان سے مولانا اللہ وسایا کے زیر نگرانی شائع ہونے والی کتاب محاسبۂ قادیانیت کے ساتھ بطور رسالہ شاملِ اشاعت کروایا۔[25])
  • ذرا غور کریں (یہ کتاب اسماعیل کٹکی کی تحریروں پر مشتمل ہے، جو شاہ عالم گورکھپوری کی ترتیب دی ہوئی ہے۔)
  • قادیانی کاہیں کی مسلمان ناہانتی؟ یعنی قادیانی کیوں مسلمان نہیں ہیں؟ (اڈیہ زبان میں)[6]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ سید نقیب الامین برقی قاسمی۔ "جمعیت علمائے اڈیشا"۔ سیکریٹری رپورٹ بہ موقع اجلاس منتظمہ جمعیت علمائے اڈیشا (20 جمادی الاولی 1443ھ بہ مطابق 25 دسمبر 2021ء ایڈیشن)۔ جامعہ مرکز العلوم سونگڑہ، تبلیغ نگر، کود، کٹک: صدر دفتر جمعیت علمائے اڈیشا (الف)۔ صفحہ: 3 
  2. حقانی القاسمی۔ "سید فضل الرحمن قاسمی"۔ دار العلوم دیوبند ادبی شناخت نامہ۔ 1 (مئی 2006ء ایڈیشن)۔ جامعہ نگر، نئی دہلی: آل انڈیا تنظیم علمائے حق۔ صفحہ: 108 
  3. حفیظ اللہ نیولپوری۔ "مولوی سید برکت اللہ برکت"۔ اڑیسہ میں اردو (اکتوبر، دسمبر 2001ء ایڈیشن)۔ نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان۔ صفحہ: 223۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولائی 2022ء 
  4. ^ ا ب محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی۔ "قادیانیت کی ہندوستان واپسی اور دار العلوم دیوبند کی خدمات" - "اراکینِ مجلس شوریٰ دار العلوم دیوبند"۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (اکتوبر 2020 ایڈیشن)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ صفحہ: 322،323،758 
  5. ^ ا ب پ ت ٹ ث مولانا سید علی اشرف کٹکی قاسمی۔ "مناظر اسلام حضرت مولانا سید محمد اسماعیل صاحب کٹکی، رکن شوری سے ایک انٹرویو"۔ آئینۂ دار العلوم (28 صفر 1417ھ بہ مطابق 15 جولائی 1996ء ایڈیشن)۔ دار العلوم دیوبند 
  6. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر​ محمد روح الامین میور بھنجی (24 نومبر 2023)۔ "مولانا سید محمد اسماعیل کٹکی: حیات و خدمات"۔ www.baseeratonline.com۔ بصیرت آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 نومبر 2023 
  7. ^ ا ب مشتاق احمد چنیوٹی۔ تحفظ ختم نبوت کی صد سالہ تاریخ (2008ء ایڈیشن)۔ پاکستان: انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ۔ صفحہ: 514–515، 662 
  8. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ نور عالم خلیل امینی (ربیع الاول-ربیع الثانی 1426ھ م اپریل -مئی 2005ء)۔ إلى رحمة الله.١. الشيخ السيد محمد إسماعيل الكتكي (بزبان عربی) (2005 ایڈیشن)۔ مجلہ الداعی، دار العلوم دیوبند۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اکتوبر 2021 
  9. ^ ا ب پ محمد سلمان منصورپوری۔ "حضرت مولانا سید محمد اسماعیل صاحب کٹکی"۔ ذکر رفتگاں۔ 2 (اپریل 2020 ایڈیشن)۔ لال باغ، مراد آباد: المرکز العلمی للنشر و التحقیق۔ صفحہ: 16-17 
  10. ^ ا ب پ ت ٹ ث محمد اسماعیل کٹکی (2005ء)۔ "قاطع قادیانیت مناظر اسلام سید محمد اسماعیل کٹکی امیر شریعت اڑیسہ از عثمان منصور پوری"۔ ذرا غور کریں (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: مرکزی دفتر کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت، دار العلوم دیوبند 
  11. ^ ا ب مولانا طیب قاسمی ہردوئی۔ دار العلوم ڈائری لیل و نہار: فیضانِ شیخ الاسلام نمبر (2015ء ایڈیشن)۔ دیوبند: ادارہ پیغامِ محمود۔ دیوبند میں قدیم خانقاہ مدنی کے سامنے مدنی مارکیٹ میں ادارہ پیغام محمود والے، ہردوئی کے مولانا محمد طیب قاسمی نے مولانا مرغوب الرحمن بجنوری کے زمانۂ اہتمام میں ان کی اجازت سے دار العلوم دیوبند سے فضلائے دار العلوم دیوبند کا ریکارڈ حاصل کرکے اس کو ترتیب دے کر اپنے ادارہ ادارہ پیغام محمود سے سلسلہ وار تلامذہ کی فہرست شائع کی اور 2015ء میں تلامذۂ شیخ الاسلام نمبر کو فیضان شیخ الاسلام کے نام سے شائع کیا، جس میں مولانا محمد اسماعیل کٹکی کا سن فراغت 1353ھ لکھا ہوا ہے اور شعبان 1353ھ کو تحقیق کے مطابق 1934ء تھا۔ مطابقتِ سن دیکھیں 
  12. عماد القراء جناب مرزا بسم اللہ بیگ (1970ء)۔ "قاری مولانا محمد اسماعیل"۔ تذکرہ قاریان ہند (جلد سوم)۔ آرام باغ، کراچی: میر محمد کتب خانہ۔ صفحہ: 111 
  13. سید عبد الحفیظ کٹکی (منعقدہ 8 جمادی الاولی 1425ھ بہ مطابق 27 جون 2004ء)۔ مجلس شوریٰ جامعہ رشیدیہ ریاض العلوم سونگڑہ، ڈاکخانہ کود، کٹک۔ کٹک: شعبۂ نشر و اشاعت جامعہ رشیدیہ ریاض العلوم سونگڑہ۔ صفحہ: 7 
  14. خاور نقیب (جنوری 2008ء)۔ "مولانا سید محمد اسماعیل"۔ صریر خامہ (خطوط مع حواشی تعلیقات) (پہلا ایڈیشن)۔ کٹک: بندنا پرنٹرس۔ صفحہ: 121 
  15. محمد قمر اسحاق (1996)۔ ہندوستان کے اہم مدارس۔ 1۔ نئی دہلی: اسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز۔ صفحہ: 313 
  16. ^ ا ب اللہ وسایا بہاولپوری (جنوری 2012ء)۔ "عرض مرتب"، "رپورٹ مناظرہ یادگار یادگیر: انتساب"۔ (جلد نمبر 40) احتساب قادیانیت (پہلا ایڈیشن)۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، ملتان، پاکستان۔ صفحہ: 4–7، 44–۔ 10 فروری 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 فروری 2023ء 
  17. یونس دہلوی، ادریس دہلوی، الیاس دہلوی، مدیران (اکتوبر 1974ء)۔ "میں نے آٹھ ہزار قادیانیوں کو مسلمان کیا از مولانا محمد اسماعیل"۔ شبستان۔ لال کنواں، دہلی: شمع (یونانی اینڈ آیورویدک) لیبارٹریز۔ 8 (10): 14 
  18. ^ ا ب سید محمد اسماعیل کٹکی (2012ء)۔ "عرض ناشر از عثمان منصور پوری"۔ ذرا غور کریں (دوسرا ایڈیشن)۔ دیوبند: کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت، دار العلوم دیوبند 
  19. ^ ا ب محمد عبید اللہ اسعدی قاسمی (ذی الحجہ 1420ھ بہ مطابق مارچ 2000ء)۔ "أعضاء المجلس الإستشاري"۔ دار العلوم ديوبند (مدرسة فكرية توجيهية حركة إصلاحية دعوية، مؤسسة تعليمية تربوية) (بزبان عربی) (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی، دار العلوم دیوبند۔ صفحہ: 104 
  20. ^ ا ب شاہ عالم گورکھپوری۔ تفاسیر قرآن مجید اور مرزائی شبہات (جلد اول) (نومبر 2022ء۔ اشاعت دوم نومبر 2005ء ایڈیشن)۔ دیوبند: شاہی کتب خانہ۔ صفحہ: 23 
  21. شوکت علی قاسمی بستوی۔ "اجلاس دوم مجلس عاملہ رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ دار العلوم دیوبند"۔ رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ دار العلوم دیوبند کی تیرہ سالہ خدمات (مئی 2007ء ایڈیشن)۔ دیوبند: مرکزی دفتر رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ دار العلوم دیوبند۔ صفحہ: 106-107 
  22. خاور نقیب۔ "متن کی بازیافت"۔ بیاض رحمت - مولوی رحمت علی رحمت (1891ء - 1963ء) (2014ء ایڈیشن)۔ لال کنواں، دہلی: ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس۔ صفحہ: 11 
  23. شوکت علی قاسمی بستوی (رجب‏، شعبان 1426ھ بہ مطابق ستمبر 2005ء)۔ دارالعلوم دیوبند میں مجلس عاملہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کا اہم اجلاس۔ ماہنامہ دار العلوم دیوبند۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جنوری 2022 
  24. حفیظ اللہ نیولپوری۔ "اڑیسہ میں اردو کی اشاعتی سرگرمیاں"۔ اڑیسہ میں اردو (اکتوبر، دسمبر 2001ء ایڈیشن)۔ نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان۔ صفحہ: 446۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولائی 2022ء 
  25. اللہ وسایا بہاولپوری (مارچ 2022ء)۔ "قرآن قادیانی"۔ محاسبۂ قادیانیت (پہلا ایڈیشن)۔ حضوری باغ روڈ، ملتان: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت۔ صفحہ: 6–7