سید کامل قادری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سید کامل قادری(syed kamil ul Quadri )سید شاہ محمد کامل القادری محقق، ادیب، شاعر صحافی، ماہر تعلیم، انشائیہ نگار، نقاد، اردو، فارسی، عربی، ہندی، انگریزی، بلوچی، براھوئ، ادیب ہیں

ولادت[ترمیم]

پانچ جولائ 1932ء مطابق یکم ربیع الاول سنہ 1351 ھجری کو ایک معزز سادات کے جاگیردار گھرانے میں سید کامل القادری کی ولادت ہوئی۔ آپ کا تعلق سادات امام حسین علیہ السلام کی محدث مدینہ حسین اصغر بن امام علی سجاد بن امام حسین کی حسینی شاخ سے تھا۔ سید شاہ محمد فیروز قادری آپ کے جد امجد سید شاہ محمد فیروز قادری بادشاہ ہمایوں کی فوج کے سپہ سالار تھے اور بغداد سے ہجرت کرکے تشریف لائے تھے۔ سید شاہ محمد فیروز القادری نے مرکزی خانقاہ قآدریہ غوث الاعظم بغداد شریف سے ہجرت کرکے سب سے پہلے ہندوستان آنے والے بزرگ حضرت سیدنا محمد قادری حسنی رزاقی بغدادی امجھری (ولادت 25 رمضان المبارک 810 ھجری وصال یکم ربیع الاول 930 ہجری)سے بیعت و خلافت کے ساتھ ساتھ شرف دامادی بھی رکھتے تھے۔ اپ کئی کتب کے مصنف اور فارسی اور عربی میں شاعری میں دسترس رکھتے تھے۔ آپ صاحب ثروت اور جاگیر کے مالک تھے۔ آپ کی جاگیر آپ کے خاندان میں موروثی رہی۔ یہاں تک کہ کارا اسٹیٹ بہار کے آپ نواب خاندان کے بانی تھے۔ اپ کی اولاد میں جاگیرداری، علم و ادب اور ترک دنیا کا رجحان ہمیشہ رہا۔ آپ نے کئی کتب بھی تالیف کی جن میں چہل حدیث فیروزی، انوار السلوک۔ تفسیر فیروزی۔ مناقب محمدیہ، مناقب غوث اعظم۔وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آپ سید شاہ محمد فیروز قادری نے دعوت و ارشاد میں اپنا کردار ادا کیا اور سید الھند کے اسلامی دعوت و تبلیغ کے مشن کو جاری رکھا۔ آپ کی شادی سیدناپاک محمد قادری امجھری کی بیٹی سے ہوئ اور بعد میں ان کے انتقال کے بعد ان کی پوتی سے شادی ہوئیں جن سے آپ صاحب اولاد ہوئے۔

ان کی اولاد مین مشہور صوفی و ولی اللہ سید شاہ فتح الجبار قادری کے یہان سید شاہ محمد کامل القادری پیدا ھوئے۔1

ابتدائی حالات[ترمیم]

حضرت سید شاہ فتح الجبار قادری المعروف نانا جان سرکار مزار احاطہ شیر شاہ بابا ڈھیسرگڑھ بردوان مغربی بنگال ھندوستان سید شاہ فتح الجبار قادری ( وصال پانچ ربیع الاول ولادت 1896 وصال 1967 )نے اپنے جد امجد سید شاہ فیروز القادری داماد تاج الھند سید نا پاک محمد قادری، رزاقی، بغدادی، گیلانی، حسنی، امجھر شریف، گیا، بہار، ہندوستان کے آبائی سلسلہ نقشبندیہ محمدیہ میں بیعت اور خلافت حاصل کی اور امجھر شریف، گیا، بہار، ہندوستان سے سلسلہ عالیہ قادریہ، سلاسل چشتیہ، مداریہ، سھروردیہ اور منعم پاکباز سے قادریہ سھروردیہ منعمیہ اور نقشبندیہ ابوالعلایہ منعمیہ میں بھی اجازت بیعت و خلافت رکھتے تھے۔

سید شاہ فتح الجبار قادری المعروف نانا جان سرکار کے سجادہ نشینآپ کے سجادہ نشین آپ کے نواسے سید شاہ نسیم اختر قادری المعروف بڑے سرکار اور سید شاہ وسیم آختر قادری المعروف چھوٹے سرکار مرکزی خانقاہ و مزارات گلشن عبد القادر جیلانی، بھدرک، اڑیسہ، ہندوستان اور مزار شریف سید شاہ فتح الجبار قادری ڈھیسر گڈھ، بردوان مغربی بنگال، ہندوستان اور خانقاہ جھریا، جھاڑکنڈ، ھندوستان ہے۔2

سید شاہ فتح الجبار قادری قادری سلسلے کے عظیم الشان بزرگ تھے اور اپ نانا جان سرکار کے نام سے سے مشہور ہین اور آپ ھندوستان میں سب سے قدیم سلسلہ نقشبندیہ محمدیہ کی سند خلافت رکھتے ہیں 3

سید کامل القادری کا نام

سید کامل القادری کا نام سید شاہ محمد یکم ربیع الاول کو ولادت کی وجہ سے جو سید نا پاک محمد قادری کا یوم وصال بھی ہے کی مناسبت سے اپ کے والد سید شاہ فتح الجبار قادری نے رکھا4

سید کامل القادری کی والدہ

سید شاہ محمد کامل القادری ہ کے گھرانے میں بچپن ہی سے تصوف اور فارسی ادب کا مزاج موجودتھا۔ اپ کی والدہ باقاعدہ رباعیات ابوالخیراور نورنامے کا ورد انتہائ احترام سے ہر جمعرات کو خوشبویات کے ہمراہ کرتی تھیں جس کی فارسی شاعری کے اثرات اپ کے زھن پر مرتسم ہوئے۔

سید کامل القادری کے خاندان میں صاحبان علم و فضل

  • ( الف)سید کامل القادری کے برادران میں علم و فضل

شاہ فتح الجبار قادری کے سب سے چھوٹے بیٹے سید کامل القادری تھے۔سید کامل القادری کے تینوں بھائی بڑے سید محمد ذاکر قادری منجھلے بھائی سید شاہ محمد شاغل قادری، سھنجلے بھائی سید شاہ محمد عاقل قادری، صاحب علم و فضل تھے اور شاعر و ادیب تھے جن کے دیوان بھی شایع ہو چکے ہیں مثلا سید شاغل قادری کا دیوان متاع شوق۔ سید کامل القادری کے بھائی سید عاقل قادری کے بھی اشعار اور کلام موجود ہے۔ سید کامل القادری کے بھائی سید ذاکر قادری اور ان کے بیٹے سید طارق حسن عسکری کا بھی دیوان موجود ہے۔

  • (ب)سید کامل القادری کے ہم شیر زادوں میں علم و فضل

۔اسی طرح سے سید کامل القادری کے بھانجے سیدشمیم اختر قادری، سید شاہ نسیم اختر قادری اور سیدشاہ وسیم اختر قادری کا بھی کلام اور ادبی تخلیقات موجود ہیں۔

  • (ج) سید کامل القادری کے چچا ون میں علم و فضل کے تمام چچا صاحبان علم و فضل تھے جن میں سید شاہ فتح العزیز قادری اور سید شاہ فتح النجف قادری بھی اپنی علمی فضیلت کی وجہ سے ممتاز تھے۔
  • (د)سید کامل القادری کے مامووں مین علم و فضل

مولنا اسد القادری

سید کامل القادری کے تمام ماموں سید شاہ ابوالحسنات شاہ قادری اور مولنا اسد القادری بھی شعر و ادب اور علم و فضل میں نمایاں مقام رکھتے تھے اور ان میں سب سے ممتاز مولنا اسد القادری تھے جو شاعر ادیب صحافی اور محقق اور سیاست دان اور اریہ مہر از شاہ شیران کے اعزاز سے سرفراز تھے اور رابطہ عالم اسلامی اور موتمر اسلامی کے بانی تھے۔اور مسلم لیگ نیشنل گارڈ اور جمعیت علما اسلام کے بانی تھے۔مولنا اسد القادری کی کتب میں سورہ فاتحہ ترجمہ اور تفسیر، سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم دو جلد، مولنا محمد علی جوہر، قابل ذکر ہیں۔

  • (ھ)سید کامل القادری کے خالہ زاد مولنا عبد اللہ عباس ندوی پہلواری

۔سید کامل القادری کے خالہ زاد بھائی مولنا عبد اللہ عباس ندوی ہیں جو عربی ادب اور اردو ادب اور تفسیر کے ماھر تھے۔اور سعودی عرب کی جامعات اور دار العلوم بھٹکل اور ندوت العلماء لکھنؤ میں ہمیشہ اعلیٰ تدریسی اور انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ ان کی کتب عربی میں نعتیہ کلام، قصیدے بردہ کی شرح، الفاظ القران، آفتاب نبوت کی کرنیں، مشہور ہین۔5

تعلیم و تربیت[ترمیم]

سید کامل القادری نے ابتدا تعلیم جھریا مسلم اکادمی میں حاصل کی اور بعد میں تعلیم کے لیے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں چلے گئے وہاں ظہور وارڈ اور نواب دادو کی کو ٹھی میں قیام کیا اور شھنشاہیت کے خلاف تقاریر کی اور استاد آختر انصاری سے اردو ادب پڑھا اور آپ کی شاعری شروع کی اور آپ کے دوست مظہر یوسف سے بھی آپ کے ہمراہ تھے جو بچوں کے ادب کے مصنف تھے۔ مظہر یوسف زئ اور سید کامل القادری نے مشہور استاد شاعر یگانہ چنگیزی اور سیماب اکبر ابادی سے اپنی غزلیات پر اصلاح لی اور کامیاب شاعری کے تجربات کیے 6

صحافتی زندگی[ترمیم]

سید کامل القادری بعد ازاں بمبئ یعنی ممبئ میں سدھار تھ کالج میں داخلہ لیا اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو گے آپ کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں بھی عھدے دار تھے اور ممبئ کے علمی ادبی حلقوں میں بھی شرکت کرتے تھے۔آپ نے اس وقت کی ترقی پسند تحریک میں سردار جعفری مجاز نیاز حیدر محی الدین کے ساتھ ساتھ میرا جی سے بھی تعلقات رکھے۔میراجی سے آپ نے منطق کا بھی درس لیا اور ان کے ساتھ مشوروں میں بھی شرکت کی۔سید کامل القادری نے بمبئ کرانیکل، پرواز، مسلم، خلافت، اقبال جیسے اخبارات میں کام کیا اور ادارت بھی کی۔

قیام پاکستان کی جد وجہد[ترمیم]

سید کامل القادری نے قیام پاکستان کی جدو جہد میں بھی حصہ لیا اور بانی پاکستان قاید اعظم محمد علی جناح سے بھی ملاقات کی جس کی روداد انھوں نے تحریر بھی کی آپ نے گاندھی پر بھی ایک کتاب تصنیف کی 8

ہجرت پاکستان[ترمیم]

پاکستان کے قیام کی جد و جہد کی وجہ سے سردار ولبھ بھائی پٹیل نے پاکستان کے قیام کے بعد تحریک پاکستان میں حصہ لینے والے صحافی اور کارکنان کو ھدایت کی کہ وہ پاکستان منتقل ہو جائیں۔9

سید کامل القادری پاکستان منتقل ہو گے اور کراچی میں سلطان حسین پبلشر کمپنی سے وابستہ ہو گئے اور آپ نے اس سلسلے میں دیگر کتب کی نشر اشاعت کا اہتمام کیا 10

حقوق بلوچستان کی جد وجہد[ترمیم]

سید کامل القادری بعد میں بلوچستان کے شہر کوئٹہ منتقل ہوئے اور وہاں کئی اخبارات کے ایڈیٹر بنے اور بلوچستان کے صوبائی حقوق کی جد و جہد اور اس کی تاریخ و ثقافت و ادب کی تحقیق میں سرگرم عمل ہو گے۔سید کامل القادری نے کہوٹہ میں قیام کے دوران میں، اخبارات امروز، پاکستان ٹایمز، ایثار، خاور، اتحاد، زمانہ، بولان ایکسپریس، بلوچستان ٹائمز، میں بلوچستان کے حقوق پر قلمی اور علمی جد وجہد جاری رکھی۔

لٹھ خانے کا قیام[ترمیم]

اپنے ہمنوا ادیب اور شاعر حضرات کے ہمراہ لٹھ خانہ قائم کیا۔جو نوجوانوں کے لیے انقلابی جد وجہد کا پہلا اشتراکی مرکز تھا۔11

بلوچستان رائٹرز ایسوسی ایشن کا قیام[ترمیم]

آپ نے وہاں بلوچستان رائٹرز ایسوسی ایشن سمیت۔بلوچی ادبی بورڈ۔براھوئ ادبی بورڈ۔پاکستان چلڈرن اکیڈمی قائم کی۔حکومت پاکستان نے اپ کو کراچی بدر کر دیا لیکن آپ نے پھر بھی بلو چستان کے حقوق کی جد وجہد جاری رکھی۔12

ادارت[ترمیم]

آپ نے ایلم مستونگ، کی ادارے کے ساتھ زمانہ اخبار اور ڈایجسٹ میں بھی مدیر تھے اور ایک درجن سے زیادہ اخبارات میں مدیر کی حیثیت سے کام کیا۔13

تنقیدی خدمات[ترمیم]

سید کامل القادری نے سول اینڈ ملٹری گزٹ میں بھی چھ سو کتب پر تنقیدی تبصرے رقم کیے جس مین صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان مرحوم پر لکھی ہوئ کتاب پر تنقید بہت مشہور ہوئ جسے سپ نے خوشامد اور تعریف کا شاھکار قرار دیا تھا۔14

سید کامل القادری نے ہمیشہ آمریت کے خلاف اپنے ادرش نبھایا اور ایک اچھے کامریڈ کی طرح تمام مصیبتیں برداشت کی۔15

سید کامل القادری کی بلوچ زبان و ادب و ثقافت وتمدن پر تحقیق اور کتب تصنیف کی۔۔اور پاکستان کی تمام۔زبانوں کی ترقی کے لیے اردو زبان کے۔ ساتھ ساتھ پاکستانی بیانیہ دیا۔۔۔

ان سائیڈ بلوچستان[ترمیم]

سید کامل القادری نے بلوچستان پر تحقیق کے لیے فیلڈ ریسرچ کو رواج دیا۔16 اور آپ نے بھت زیادہ تحقیقی کام کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔
آپ نے خان قلات بیگلر بیگی احمد یار خان بلوچ کی سوانح عمری اور ان کی یاد داشتین ان کی زبانی قلمبند کی اور اسے آنسائیڈ بلو چستان کے نام سے سامنے لائے 17

براھوئ انشایہ نگاری کا پہلا مجموعہ شروخ[ترمیم]

سید کامل القادری نے بلوچستان پر تحقیق کے ساتھ ساتھ براھوئ زبان، ادب، ثقافت اور رسم و رواج پر تحقیق کی اور اس سلسلے میں آپ نے پہلی دفعہ انشائیہ نگاری کی صنف میں شروخ تخلیق کی 18

براھوئ کہاوتون کا مجموعہ[ترمیم]

سید کامل القادری نے براھوئ کہاوتون کا بھی جائزہ لیا اور ان پر بھی اپنی تحقیقی کتاب تحریر کی 19

سید کامل القادری اور ملک الشعرا جام درک اور دیگر بلوچی وبراھوئ ادیب و شعرا کی تذکرہ نگاری

آپ نے بلو چستان پر تحقیق کے دوران میں جام درک پر اپنی تحقیق سامنے لائے اور جام درک نامی کتاب تحریر کی اور اس سلسلے میں آپ نے بلوچی ادب کا مطالعہ اور گاے جا بلوچستان اور مھمات بلو چستان اور لو اینڈ وار ہسٹریآف بلو چستان جیسی کتب تصنیف کی اور بلوچ قبائل پر بھی آپ نے کتاب تحریر کی 21

اردو شاعری[ترمیم]

آپ نے اردو شاعری میں پہلی دفعہ ھیر وارث شاہ کی لحن میں اردو شاعری کی آپ نے رباعی قطع غزل نظم سانیٹ آزاد نظم میں شاعری کی جو اردو اور فارسی زبان میں ہے اور اپ انگریزی زبان میں بھی شاعری کرتے تھے آپ نے گل زمین نامی رومانی قطعا ت لکھے اور مثنوی بلوچستان نامہ لکھی اور سپر کا پھول بھی آپ کا مجموعہ کلام ہے آپ کی ہزاروں غزلیں اور کلام آج بھی اردو ادب کے میگزین اور قلمی حالت میں محفوظ ہے 22

سید کامل القادری اور پاکستان چلڈرن اکیڈمی کا قیام اور بچوں کے ادب کی ترویج

آپ نے بچوں کے ادب کی ترویج کے لیے پاکستان چلڈرن اکیڈمی 1979 میں قائم کی اور بعد میں چاھکار نامی رسالہ بھی نکالا اور بچوں کے ناولز نورا، ون ٹو، میاں خوجی کے کارنامے، بے سر کا سوار، بولان کا، خزانہ، پیگاس، خضدار کی محمد، ظہور وارڈ اور بہت سے ناولز لکھے۔

سید کامل القادری ر اور اقبالیات پر کتاب اقبال کا شعور مزاح

آپ نے اقبالیات کے موضوع پر اقبال کا شعور مزاح نامی کتاب تالیف کی۔ آپ نے اردو ادب میں نقاد کی حیثیت سے مھمات خالد تصنیف کی جو عبد العزیز خالد پر تنقیدات کا مجموعہ ہے۔ اور افتخار عارف پر فتوحات عارف تحریر کی۔ آپ نے اردو ادب سے اپنی وابستگی برقرار رکھی اور واسوخت کا موضوع لیا اور اس پر چار جلدون پر اپنا پی ایچ ڈی کا تھیسس ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی مزید نگرانی مکمل کیا۔23

انتقال اور تدفین[ترمیم]

آپ کا انتقال بوجہ نامعلوم۔ شھادت 2 جولائ 1982 مطابق دس رمضان المبارک 1402 ھجری شب جمعہ دو بجے ہوا اور بعد نماز جمعہ آپ کی نماز جنازہ آپ کی زوجہ کے حقیقی ماموں مشہور عالم اہل سنت شیخ الحدیث دار العلوم احسن البرکات حیدرآباد و خطیب عید گاہ رانی باغ مولانا محمد ھاشم فاضل شمسی نے پڑھائی جس مین ھزارون افراد نے شرکت کی اور آپ کی تدفین شیر شاہ قبرستان کراچی میں ہوئ جہاں آپ کی آخری آرام گاہ بلوچوں کے ساتھ ہے اور آپ کا مزار شریف وہیں مرجع خلایق ہے۔

ازدواجی زندگی[ترمیم]

سید کامل القادری کی شادی سادات حسینی کی کاظمی اور نقوی مودودی چشتی شاخ کے ایک گھرانے مین ہوئ۔جس کا تعلق خواجہ قطب الدین مودودی چشتی سے تھا اور آپ کی اولادون میں سید تاج الدین حقانی مودودی تھے جو بعد میں خانقاہ چشتیہ شیخپورہ بہار کے بانی بنے۔ سید کامل القادری کی خوش دامن اسی گھرانے کی دختر تھیں۔اور آپ کے چار برادران تھے۔جو دینی اور دنیاوی لحاظ سے معزز تھے۔

مخدوم منجھن قتال سہروردی اور مبارک حسین شاہ المعروف سید عبدالاد شاہ وارثی

۔اس نقوی سادات گھرانے میں بھی علم و فضل کا دور دورہ رہااور مخدوم منجھن قتال سہروردی اس کے جد امجد تھے۔

سید شاہ وارث پاک بانی سلسلہ عالیہ وارثیہ کے مشہور مرید اور صاحب تصنیف بزرگ حکیم سید مبارک حسین شاہ المعروف سید عبدالاد شاہ وارثی صاحب دیوان نقش حیرت، مکتوبات حیرت، دیوان تحیر، عین الیقین، سفرنامہ حج، کا تعلق بھی اس گھرانے سے ہے اور آپ کے نواسے کی بیٹی سے ہی سید کامل القادری کی شادی ہوئ۔

آپ کے سسر کا تعلق سادات کاظمی کے اہل سنت گھرانے سے تھا۔ اس گھرانے کی ایک شاخ مذہب امامیہ رکھتی تھی اور اس میں مشہور سیاست دان امیر حیدر کاظمی مرحوم کا گھرانہ ہی مشہور مفسر اور ذاکر علامہ طالب جوہری کا سسرال ہے۔

سید کامل القادری کی پانچ اولاد حیات میں ہیں جس میں دو فرزند اور تین دختر ہیں اور علم و فضل کی عظیم وراثت کے وارث ہیں۔

کتب و تالیفات[ترمیم]

تحقیق[ترمیم]

  • 1 بلوچی ادب کا مطالعہ
  • 2 گاے جا بلوچستان،
  • 3 بلوچی ادب کا مطالعہ
  • 4مھمات بلو چستان،
  • 5جام درک،
  • 6انسایئڈ بلوچستان
  • 7لو اینڈ وار ھسٹری آف بلو چستان
  • 8 بلوچ قبائل،
  • 9 قدیم بلوچستان محمد بن قاسم اور سکندر اعظم کا سفر بلو چستان
  • 10 براھوئ محاورے اور کہاوتیں،
  • 11 براوہی رسم ورواج،
  • تنقید اردو ادب بلوچی ادب براھوئ ادب
  • 12مھمات خالد
  • 13 ، فتوحات عارف
  • 14چھ سو کتب تبصرے سول اینڈ ملٹری گزٹ
  • 15 واسوخت مجموعہ گلہ یار دل۔ازار چار جلد

انشائیہ نگاری[ترمیم]

  • 16ہارڈ بیڈ
  • 17،الگنی
  • ، 18 بروہی انشائیوں کا مجموعہ شروخ

شاعری[ترمیم]

  • 19بلوچستان نامہ
  • 20سپر کا پھول
  • 21 گل زمین

انٹرویو[ترمیم]

  • 22 مجموعہ شاہ سوار اور پیادہ

بچوں کے ناولز[ترمیم]

  • 23پوم پوم ڈارلنگ
  • 24نورا
  • 25بولان کا خزانہ
  • 26خضدار کی مہم
  • 27بے سر کآ سوار
  • 28گاندھی
  • 29ظہور وارڈ
  • 30ون ٹو
  • 31سہانے ترانے
  • 32بچوں کے سالنامے 1981 1982
  • 33 الجیریا
  • 34 ملائشیا

حوالہ جات[ترمیم]

1 ۔۔قلمی شجرہ نسب تالیف سید کامل القادری، مناقب محمدیہ تالیف شیر علی شیرازی، اذکار طیبہ تالیف انیس احمد قادری داود نگری،

2 سید الھند کا اسلامی مشن تالیف سید قادری ⁰

3 ویب سائیٹ خانقاہ گلشن عبد القادر جیلانی، تحائف قادریہ

4 انٹرویو دو چار ملاقاتوں میں از رفعت زیبا در سوینیر مھمات بلوچستان صفحہ 15 تا32 شایع شدہ 1979

5 ایضا

6 ایضا

7 ایضا

8 ایضا

9 ایضا

10 ایضا

11 ایضا

12 ائضا

13 آیا

14 آیضا

15 ایضا

16 ایضا

18 ایضا

19 ایضا

20 ایضا

21 ایضا

20 آیا

21 ایضا

22 ایضا

23 ایضا

24 ایضا

25 ایضا

26 ایضا

27 ایضا

28 ایضا

29 ایضا

30 ایضا

31 اینہ عمر گذشتہ ایم حسن نسیم

32 چند لمحے کامل کی قبر میں مضمون زیب ملیح ابادی