ضحاک بن مخلد النبیل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ضحاک بن مخلد النبیلؒ
معلومات شخصیت

نام ونسب[ترمیم]

ضحاک نام،ابو عاصم کنیت اور نبیل لقب تھا،نسب نامہ یہ ہے،ضحاک بن مخلد بن الضحاک بن مسلم بن الضحاک،شیبانی اور بصری کی نسبتوں سے شہرت پائی، بعض علما کا خیال ہے کہ بنو شیبان کے غلام تھے،لیکن بعض کی رائے کے مطابق بنو شیبان سے خاندانی نسبت حاصل تھی۔ [1]

مولد[ترمیم]

122ھ میں بمقام بصرہ پیدا ہوئے [2] حافظ ابن حجر عسقلانی کا خیال ہے کہ امام ابو عاصم اصلاً مکی تھے،بعد میں بصرہ منتقل ہو گئے تھے۔ [3]

لقب کی وجہ تسمیہ[ترمیم]

ان کے نبیل کے لقب سے مشہور ہوجانے کے بارے میں مختلف باتیں بیان کی جاتی ہیں،کہاجاتا ہے کہ ایک بار بصرہ میں اتفاق سے ہاتھی آگیا،جو وہاں کے لوگوں کے لیے ایک عجوبہ تھا،اس لیے اس کو دیکھنے کے لیے سب لوگ اپنے اپنے کام چھوڑ کر باہر نکل آئے، امام ابو عاصم اس وقت ابن جریج کے حلقۂ درس میں تھے وہ اپنی جگہ سے ہلے تک نہیں ،ابن جریج نے ان سے کہاکہ تم ہاتھی دیکھنے نہیں گئے،فرمایا،ہاتھی تو کبھی پھر دیکھ سکتا ہوں؛ لیکن آپ کے اس درس کا بدل کہاں ملے گا،اس جواب سے خوش ہوکر ابن جریج نے فرمایا "انت النبیل" اس روایت کی صحت مشتبہ معلوم ہوتی ہے؛کیونکہ اسی قسم کی ایک نہایت مستند روایت یحییٰ مصمودی اورامام مالک کے بارے میں بھی منقول ہے، قیاس ہے کہ غلط فہمی سے اس کا انتساب زیرِ نظر واقعہ میں ہو گیا ،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امام ابو عاصم کے عمدہ کپڑے زیب تن کرنے کے باعث انھیں نبیل کا لقب ملا، اسی طرح یہ روایت بھی ملتی ہے کہ بڑی اورلمبی ناک ہونے کے باعث نبیل کہاجانے لگا۔ [4] راقم سطور کے خیال میں مذکورہ بالا وجوہ کے مقابلہ میں علامہ ذہبی کی یہ رائے زیادہ وزن رکھتی ہے کہ امام ابو عاصم اپنی شرافت نیکی اورصالحیت کے باعث نبیل کے لقب سے ملقب ہوئے۔ [5]

فضل وکمال[ترمیم]

علم و فضل کے اعتبار سے نہایت بلند مقام حاصل تھا، حدیث وفقہ دونوں پر یکساں عبور رکھتے تھے، وسعتِ علم اور قوتِ حافظہ میں ان کا ثانی کم ہی مل سکے گا،اہلِ تذکرہ شیخ الاسلام اورالحافظ کے القاب سے ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں،ابن عماد الحنبلی لکھتے ہیں: کان واسع العلم ولم یرفی یدہ کتاب قط وہ بہت وسیع العلم تھے،ان کے ہاتھ میں کبھی کوئی کتاب نہیں دیکھی گئی۔

شیوخ وتلامذہ[ترمیم]

جن نامور حفاظِ حدیث کے خرمنِ علم سے انھیں خوشہ چینی کی سعادت نصیب ہوئی،ان میں کبار اتباع تابعین کے علاوہ اجلہ تابعین کے اسمائے گرامی بھی شامل ہیں،کچھ نمایاں نام یہ ہیں: امام مالک بن انس ،ہشام بن حسان، سلیمان التیمی، ابن عجلان ،ابن ابی ذئب ،ابن جریج،امام اوزاعی، سعید بن عبد العزیز،حیوۃ بن شریح، زکریا بن اسحاق ،سفیان ثوری، امام شعبہ،سعید بن ابی عروبہ،عبد الحمید بن جعفر ،عمر بن سعید، قرہ بن خالد۔ خود امام ابو عاصم سے حدیث کی روایت اورسماعت کرنے والے نامور علما میں امام احمد بن حنبل،اسحاق بن راہویہ ، علی بن المدینی،بندار ابو خثیمہ ،یعقوب الدورتی ،حارث بن اسامہ،محمد بن حبان وغیرہ شامل ہیں [6]مزید براں ان کے شیوخ میں سے جریر ابن حازم اورمعاصر علما میں امام اصمعی نے بھی ان سے بعض روایتیں کی ہیں،جو بجائے خود ابو عاصم کے علم و فضل پر شاہد عدل ہے۔

قوتِ حافظہ[ترمیم]

انھوں نے حافظہ نہایت قوی پایا تھا،اسی وجہ سے ان کا دماغ ہزاروں حدیثوں اورمسائل فقہیہ کا مخزن بن گیا تھا،درس ہمیشہ زبانی ہی دیا کرتے تھے،علامہ ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ: لم یحدث قط الامن حفظہ [7] انھوں نے ہمیشہ حافظہ سے حدیثیں روایت کیں۔ ابوداؤد شہادت دیتے ہیں کہ امام ابو عاصم کو ایک ہزار بہترین حدیثیں زبانی ازبر تھیں [8]ابن خراش کا بیان ہے کہ: لم یرفی یدہ کتاب قط [9] ان کے ہاتھ میں کبھی کتاب نہیں دیکھی گئی۔

تعدیل وتوثیق[ترمیم]

امام ابو عاصم کی عدالت وثقاہت ،تثبت واتقان اورصداقت پر تمام علما ومحققین بیک زبان متفق ہیں۔ [10] علامہ ابن سعد لکھتے ہیں: کان ابو عاصم ثقۃ فقیھاً: ابو عاصم ثقہ اورفقیہ تھے عجلی کا بیان ہے: کان ثقۃ کثیرالحدیث وکان لہ فقہ وہ ثقہ کثیر الحدیث اورفقیہ تھے۔ محمد بن عیسیٰ الزجاج کہتے ہیں: قال لی ابو عاصم کل شیی حدثنک حدثونی بہ لانی مادلست قط مجھ سے ابو عاصم نے خود کہا کہ میں نے جو کچھ حدیثیں تم سے بیان کی ہیں،وہ فی الواقع اسی طرح میرے شیوخ نے مجھ سے بیان کی ہیں، میں کبھی تدلیس کا مرتکب نہیں ہوا۔ علاوہ ازیں ابن قانع،ابن معین اورابن حبان نے بھی بصراحت انھیں ثقہ اور صدوق قراردیا ہے۔

اعترافِ علما[ترمیم]

ان کے گونا گون کمالات کی وجہ سے معاصر علما ان کا بڑا احترام کرتے تھے اوران کے علم و فضل کو سراہتے تھے،عمر بن شیبہ فرماتے ہیں کہ بخدا میں نے ان کا ثانی اورمثل نہیں دیکھا واللہ ما رایت مثلہ [11]حمدان بن علی الوراق بیان کرتے ہیں کہ 12ھ میں ہم لوگ امام احمد کے پاس گئے اور ان سے حدیث روایت کرنے کی درخواست کی،امام احمد بن حنبل نے فرمایا: تسمعون منی وابو عاصم فی الحیوٰ ۃ اذھبوا الیہ [12] تم لوگ مجھ سے سماعت کرتے ہو،حالانکہ ابو عاصم باحیات ہیں ان کے پاس جاؤ۔

فضائلِ اخلاق[ترمیم]

امام ابو عاصم کو علم کے ساتھ عملی دنیا میں بھی امتیازی مقام حاصل تھا،تاحیات کسی کی غیبت سے اپنی زبان کو آلودہ نہیں کیا،امام بخاری فرماتے ہیں: سمعت اباعاصم یقول ما اغتبت احداً اقط منذ عقلت ان الغیبۃ حرام [13] میں نے ابو عاصم کو کہتے سُنا کہ جب سے مجھے علم ہوا کہ غیبت حرام ہے،میں نے کبھی کسی کی غیبت نہیں کی۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص علمِ حدیث حاصل کرتا ہے ،وہ گویا دنیا کی بیش بہا دولت جمع کرتا ہے اوروہ روئے زمین کے انسانوں میں سب سے افضل وبرتر ہے،اس لیے ہر شخص کو ایسا ہی "خیرالناس" بننا چاہیے۔ [14]

وفات[ترمیم]

14 ذی الحجہ 212 ھ کو بمقام بصرہ رحلت فرمائی [15]انتقال کے وقت 90 سال سے چندماہ زائدعمرتھی ،سال وفات کے بارے میں اکثر علما نہ یہی سنہ اختیار کیاہے،ورنہ211ھ 213ھ اور214ھ کے اقوال بھی ملتے ہی

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (تہذیب التہذیب:4/450)
  2. (خلاصہ تذہیب:177)
  3. (تہذیب :4/453)
  4. (تہذیب التہذیب:4/452)
  5. (تذکرۃ الحفاظ:1/336)
  6. (تہذیب التہذیب:4/451)
  7. (تذکرۃ الحفاظ:1/336)
  8. (ایضاً)
  9. (تہذیب :4/451)
  10. (میزان الاعتدال:1/471،وشذرات الذہب:2/28)
  11. (میزان الاعتدال:1/471)
  12. (تہذیب :4/252)
  13. (العبر:1/362)
  14. (خلاصہ تذہیب:177)
  15. (ابن سعد:7/49)