عبد اللہ معروفی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبد اللہ معروفی
معلومات شخصیت
پیدائش Error: Need valid birth date: year, month, day
محلہ پرانا پورہ، پورہ معروف، ضلع اعظم گڑھ (اس حصے میں جو اب ضلع مئو کہلاتا ہے)، اترپردیش، بھارت
قومیت ہندوستانی
عملی زندگی
مادر علمی
استاذ نصیر احمد خان بلند شہری ،  عبد الحق اعظمی ،  نعمت اللہ اعظمی ،  قمر الدین احمد گورکھپوری ،  سعید احمد پالن پوری ،  ارشد مدنی ،  ریاست علی ظفر بجنوری ،  عبد الخالق مدراسی ،  محمد یونس جونپوری ،  عاشق الہیٰ بلند شہری ،  زین العابدین اعظمی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم، مفتی، مصنف
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

عبد اللہ معروفی (پیدائش: 1967ء) ایک ہندوستانی دیوبندی عالم، مفتی اور مصنف ہیں، جو خصوصاً علم حدیث پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور علم حدیث پر جن کی گراں مایہ خدمات ہیں۔ وہ 2000ء سے دار العلوم دیوبند میں شعبۂ تخصص فی الحدیث کے استاذ کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے ہیں اور فی الحال اس شعبے کے نگراں و صدر بھی ہیں۔ نیز وہ محمد طلحہ کاندھلوی کے خلیفہ و مُجاز ہیں۔

ابتدائی و تعلیمی زندگی[ترمیم]

عبد اللہ بن عمر بن بشیر معروفی 1386ھ بہ مطابق 1967ء کو پورہ معروف ضلع اعظم گڑھ (کے اس حصے میں جو اب ضلع مئو کہلاتا ہے) میں پیدا ہوئے۔[1] زین العابدین اعظمی ان کے چچا[1] اور محمد عثمان معروفی ان کے والد کے ماموں زاد بھائی تھے۔[2]

ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ اشاعت العلوم پورہ معروف میں ہوئی، پھر 1978 تا 1982ء (بہ مطابق 1398 تا 1402ء) زین العابدین اعظمی کے ایما پر مدرسۃ الاصلاح، سرائے میر، اعظم گڑھ میں عربی اول سے عربی چہارم تک کی تعلیم حاصل کی۔[1][3]

پھر ان ہی کے حکم و مشورے سے[4] 1401ھ بہ مطابق 1981ء میں وہ دار العلوم دیوبند آگئے اور عربی پنجم میں ان کا داخلہ ہو گیا[5] اور سنہ 1406ھ بہ مطابق 1986ء میں انھوں نے دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی اور اگلے سال 1987ء میں دار العلوم ہی سے افتا کیا۔[1][4]

انھوں نے نصیر احمد خان بلند شہری سے صحیح بخاری (نصف اول)، عبد الحق اعظمی سے صحیح بخاری (نصف ثانی)، نعمت اللہ اعظمی سے صحیح مسلم (نصف اول) اور موطأ امام محمد، قمر الدین احمد گورکھپوری سے صحیح مسلم (نصف ثانی)، سعید احمد پالن پوری سے جامع ترمذی (نصف اول) اور شرح معانی الآثار (کتاب الطہارۃ، کتاب الصلاۃ)، سید ارشد مدنی سے جامع ترمذی (نصف ثانی کا اکثر حصہ)، معراج الحق دیوبندی سے جامع ترمذی (نصف ثانی کا بعض حصہ)، محمد حسین بہاری سے سنن ابو داؤد (کا معتد بہ حصہ) اور موطأ امام مالک، زبیر احمد دیوبندی سے سنن نسائی (کتاب الطہارۃ، کتاب الصلاۃ)، عبد الخالق مدراسی سے شمائل ترمذی اور ریاست علی ظفر بجنوری سے سنن ابن ماجہ (مقدمہ، کتاب الطہارۃ) پڑھی۔[1]

اساتذۂ دورۂ حدیث کے علاوہ انھیں محمد یونس جونپوری، عاشق الہیٰ بلند شہری، زین العابدین اعظمی اور احمد حسن خاں ٹونکی بھی کی طرف سے اجازتِ حدیث حاصل ہے۔[1]

تدریسی و عملی زندگی[ترمیم]

تعلیم سے فراغت کے بعد 1407ھ کو وہ مدرسہ مطلع العلوم رامپور میں مدرس رہے، پھر شوال 1408 تا 1416ھ بہ مطابق 1988 تا 1996ء انھوں نے تقریباً آٹھ سال جامعہ اسلامیہ ریوڑھی تالاب، بنارس میں تدریسی خدمات انجام دیں۔[6]

پھر انھیں علم حدیث سے خاص مناسبت کی بنا پر 1416 بہ مطابق 1996ء کو محمد سلمان مظاہری کے ایما پر مظاہر علوم جدید سہارنپور مدعو کیا گیا،[7][1][8] جہاں پر انھوں نے 1421ھ بہ مطابق 2000ء تک تقریباً پانچ سال شعبۂ تخصص فی الحدیث کے استاذ اور اپنے عم محترم زین العابدین اعظمی کے معاون کی حیثیت سے خدمات انجام دیں،[9] اس درمیان مقدمۃ ابن الصلاح کی شرح تدریب الراوی کا سبق بھی ان سے متعلق رہا۔[1]

پھر 1421ھ بہ مطابق 2000ء میں انھیں دار العلوم دیوبند میں شعبۂ تخصص فی الحدیث کے استاذ کی حیثیت سے مدعو کیا گیا[7] اور اس وقت سے اس شعبے میں رہ کر تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس شعبے میں اصول حدیث کی کتاب معرفۃ انواع علم الحدیث معروف بَہ مقدمۃ ابن الصلاح تقریباً بیس سال ان کے زیر تدریس رہ چکی ہے۔ فی الحال اس شعبے کے طلبہ کی نگرانی اور تربیت کے علاوہ اس شعبے کے دونوں سالوں کے طلبہ کی الرفع و التکمیل فی الجرح و التعدیل، دراسۃ المتون اور مدارس الرواة ومشاهير اساتذتها جیسی کتابوں کی تدریس ان سے وابستہ ہے۔[1]

1440ھ سے درجۂ علیا کے مدرس کی حیثیت سے[10] عالمیت کے طلبہ کی مقدمۂ شیخ عبد الحق، نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر اور مشکاۃ المصابیح کے ابتدائی حصہ کے اسباق بھی ان سے متعلق ہیں۔[1]

بیعت و خلافت[ترمیم]

انھوں نے اپنے زمانۂ تدریس مدرسہ مطلع العلوم رامپور میں سنہ 1407ھ بہ مطابق 1987ء کو مرادآباد میں مقیم بزرگ عالم دین عبد الجبار اعظمی (1907–1989ء) سے بیعت کیا، 1409ھ بہ مطابق 1989ء کو ان کی وفات کے بعد بنارس کے زمانۂ تدریس کے دوران سنہ 1411ھ میں اپنے بڑے ابا زین العابدین اعظمی سے بیعت ہو گئے؛ مگر بعد میں وہ اعظمی کے پیر بھائی اور پیرزادہ محمد طلحہ کاندھلوی کی تربیت میں آگئے[1] اور 29 رمضان المبارک 1423ھ میں انھیں کی طرف سے اجازت و خلافت سے نوازے گئے۔[8][11]

قلمی خدمات[ترمیم]

انھوں نے اپنی زندگی کو حدیث اور علوم حدیث کی تدریس، تحقیق اور تصنیف و تالیف کے لیے وقف کر رکھا ہے، جس کا بیّن ثبوت ان کی تصانیف اور ان کے زیر نگرانی وجود میں آنے والی تحقیقی کتب ہیں۔[1] ان کی کتاب ”فضائل اعمال پر اعتراضات: ایک اصولی جائزہ“ کا انگریزی ترجمہ ایک مفتی افضل حسین الیاس نے ”Objection on Fazaail-e-Amaal: A Basic Analysis “ کے نام سے کیا اور وہ 2010ء میں زمزم پبلشرز، اردو بازار، کراچی سے شائع ہوا۔[12]

ان کے زیر نگرانی انجام پانے والے علمی و تحقیقی کارناموں میں درج ذیل کتابیں شامل ہیں:[1][9][13]

  • الحديث الحسن فی جامع الترمذی: دراسة و تطبيق (ایک جلد، مؤلفین: متخصصین شعبۂ تخصص فی الحدیث سنہ 1425ھ)
  • حدیث غريب فی جامع الترمذی: دراسة و تطبيق (دو جلدیں، مؤلفین: متخصصین شعبۂ تخصص فی الحدیث سنہ 1426–1427ھ)
  • حسن صحيح فی جامع الترمذی: دراسة و تطبيق (تین جلدیں، متخصصین شعبۂ تخصص فی الحدیث سنہ 1429ھ)
تصانیف

ان کی تصانیف میں مندرجۂ ذیل کتابیں شامل ہیں:[1]

  • العَرف الذکی شرح جامع ترمذی (جس کی پانچ جلدیں منظر عام پر آ چکی ہیں، کل سترہ جلدوں کا کام تیار ہے اور جلد پایۂ تکمیل کو پہنچنے والی ہے۔)
  • تہذیب الدر المنضَّد فی شرح الادب المفرد (چار جلدوں میں محمد بن اسماعیل بخاری کی کتاب الادب المفرد کی عربی شرح)
  • مقدمۃ الدر المنضَّد
  • حدیث اور فہم حدیث[14]
  • العَرف الفیّاح فی شرح مقدمۃ ابن الصلاح (ان کے دروسِ مقدمۃ ابن الصلاح کا مجموعہ، جامع و مدون: مشاہد الاسلام امروہی، فاضل شعبۂ تخصص فی الحدیث دار العلوم دیوبند)
  • جواب الرسالۃ (جس میں انھوں نے اپنی کتاب مقدمۃ الدر المنضّد میں ”بیان کیے گئے احادیث پر حکم لگانے کے معتدل منہج“ پر معروف شامی عالم شیخ محمد عوامہ کے نقد و جرح کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔)
  • غیر مقلدیت: اسباب و تدارک
  • فضائل اعمال پر اعتراضات: ایک اصولی جائزہ (اصل اردو؛ کے علاوہ عربی، انگریزی اور بنگلہ میں بھی اس کے ترجمے کیے جا چکے ہیں۔)[15]
  • حقيقة الزیادۃ على القرآن بخبر الواحد و استعراض علمي لإيرادات ابن القيم على الحنفية بنا على هذا الأصل (ترمیم و تہذیب)[9]

حوالہ جات[ترمیم]

مآخذ[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر​ محمد روح الامین میُوربھنجی (12 اپریل 2023ء)۔ "مولانا مفتی عبد اللہ معروفی: مختصر سوانحی خاکہ"۔ قندیل آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2023ء 
  2. محمد روح الامین میُوربھنجی (1 مارچ 2022ء)۔ "تذکرہ مولانا محمد عثمان معروفی (1928ء – 2001ء)"۔ بصیرت آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2023ء 
  3. معروفی 2014, pp. 34–44.
  4. ^ ا ب معروفی 2014, pp. 47–48.
  5. محمد سلمان بجنوری، مدیر (اگست، ستمبر 2017ء)۔ "مدتوں رویا کریں گے.... از عبد اللہ معروفی"۔ ماہنامہ دار العلوم۔ ماہنامہ دار العلوم، دیوبند۔ 101 (8–9): 45–50 
  6. معروفی 2014, pp. 47–49.
  7. ^ ا ب ضیاء الحق خیرآبادی، مدیر (نومبر 2013ء–جنوری 2014ء)۔ "اپنی باتیں (آپ بیتی) از زین العابدین معروفی"۔ سہ ماہی سراج الاسلام (مولانا زین العابدین معروفی نمبر)۔ سراج نگر، چھپرہ، ضلع مئو: مدرسہ سراج العلوم۔ 1 (1): 200–201 
  8. ^ ا ب عبد اللہ معروفی، فرید بن یونس دیولوی (اپریل 2021ء)۔ پیر و مرشد حضرت اقدس مولانا محمد طلحہ صاحب کاندھلوی: شخصیت و کمالات، وصال کے بعد سالکین کے لیے لائحۂ عمل، فہرست خلفاء، ملفوظات اور سالکین کے لیے یومیہ معمولات (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: مکتبہ عثمانیہ۔ صفحہ: 26، 49 
  9. ^ ا ب پ محمد یاسر عبد اللہ (صفر المظفر 1438ھ بہ مطابق نومبر 2016ء)۔ مدیر: حبیب الرحمن اعظمی۔ "علوم حدیث میں اختصاص اہمیت وضرورت"۔ ماہنامہ دار العلوم۔ دیوبند: دار العلوم دیوبند۔ 100 (11): 37–38 
  10. محمد اللہ خلیلی قاسمی (اکتوبر 2020)۔ "موجودہ اساتذۂ عربی"۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (تیسرا ایڈیشن)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ صفحہ: 768 
  11. محمد شاہد سہارنپوری (2020ء)۔ مولانا محمد طلحہ کاندھلوی: ایک ذاکر و زاہد شخصیت (پہلا ایڈیشن)۔ سہارنپور: مکتبہ یادگار شیخ۔ صفحہ: 240 
  12. "Objection On Fazail - e - A'maal - A Basic Analysis By Shaykh Abdullah Maroofi"۔ archive.org۔ 25 ستمبر 2012ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اپریل 2023ء 
  13. "الكتب العربية" (بزبان عربی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2013ء 
  14. محمد کلیم (2017ء)۔ علم حدیث میں فضلائے دار العلوم دیوبند کی خدمات (پی ایچ ڈی)۔ بھارت: کلیہ سنی دینیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔ صفحہ: 319–320۔ hdl:10603/364028۔ 24 اکتوبر 2023ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2024ء 
  15. شکیب احمد، مدیر (مئی، جون 2016ء)۔ "فضائلِ اعمال پر اعتراضات کا جواب فضائلِ اعمال سے از عبد الرحمٰن بجرائی شافعی"۔ دو ماہی برقی مجلہ سر بکف (6): 200–201 

کتابیات[ترمیم]

  • انصار احمد معروفی، مدیر (جنوری تا مارچ 2014)۔ "بڑے ابا حضرت زین العابدین صاحب شخصیت اور کمالات از مفتی عبد اللہ معروفی"۔ ماہنامہ پیغام (مولانا زین العابدین اعظمی نمبر)۔ پورہ معروف، کُرتھی جعفر پور، ضلع مئو: المعارف دار المطالعہ۔ 15 (6–8)