عبید الرحمٰن صدیقی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبید الرحمٰن صدیقی
عبید الرحمٰن صدیقی
پیدائشعبید الرحمٰن صدیقی
5 جون 1964ء
محلہ مچھرہٹہ غازی پور
رہائشغازی پور، اتر پردیش، بھارت
اسمائے دیگرعبید الرحٰمن مکّی
وجہِ شہرتادب، تاریخ
مذہباسلام
شریک حیاتزہرہ عبید (علیگ)
اولادڈاکٹر انیس الرحمٰن اور زیبہ عبید
موقع جال
http://ghazipurwalamakki.blogspot.in

عبید الرحمٰن صدیقی کی پیدائش بھارت کے صوبہ اتر پردیش کے ضلع غازی پور میں 5 جون 1964ء کو محلہ مچھرہٹہ میں ہوئی۔ اس وقت بھارت کے اہم مؤرخین اور ادیبوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ غازی پور کے واحد تاریخ دان جنھوں نے عہد وار قدیم دور سے دہلی سلطنت دور اور مغلیہ سلطنت دور کی گمشدہ تاریخ کو قلمبند کرکے منظرعام پر لانے کا کام کیا ہے۔ اس کی بنا پر ہندوستان کے سمراٹ اشوک کلب نے ان کو "غازی پور کا فاہیان" لقب سے نوازا ہے۔ نیز ان کی ایک اہم کاوش 'غازی پور والا عبید ' نامی بلاگ ہے جو ادبی، سماجی اور سیاسی حلقوں میں خاصا مقبول ہے۔

ابتدائی حالات[ترمیم]

عبید الرحمٰن صدیقی نے شہر غازیپور کے مشہور و معروف تعلیم یافتہ گھرانے میں آنکھ کھولی جس کا خاصا اثر ان کے ادبی اور تحقیقی سفر پر رہا۔ عبید الرحمن کی ابتدائی تعلیم مدرسہ دینیہ میں درجہ پنجم تک اور بعد ازاں درجہ ششم تک مدرسہ عظیمیہ میں ہوئی۔ اس کے بعد شہر کے مشہور و معروف تعلیمی ادارہ محمڈن اینگلو ہندوستانی انٹر کالج سے جونیر ہائی اسکول سے لے کر انٹرمیڈیٹ تک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد غازی پور کے پوسٹ گریجویٹ ڈگری کالج سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کر کے 1984ء میں الہ آباد یونیورسٹی چلے گئے۔ وہاں ایل۔ ایل۔ بی اور ڈپلوما ان جرنلزم کی ڈگری حاصل کی اور پھر نجی طور پر ایم۔ اے۔ انگریزی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کیا اور اس کے بعد دہلی کا رخ کیا۔ اس درمیان آئی۔ اے۔ ایس کا امتحان پاس کیا لیکن انٹرویو میں ناکامی کے سبب وطن غازی پور واپس آ گئے۔ آدرش انٹر کالج میں عارضی لیکچرر بھی رہے لیکن دل نہیں لگا۔ کچھ سالوں بعد بھارت کے مشہور و معروف رسائل اور اخبارات میں مضامین لکھنے لگے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

عبید الرحمٰن صدیقی نائب صدر جمہوریہ ہند حامد انصاری کے ساتھ

خاندان[ترمیم]

عبید الرحٰمن صدیقی کے خاندا ن کا تعلق سرزمین مکہ معظمہ سے ہے۔ آپ کے مورث صوفی حضرت شیخ عبد الرزاق مکی بہ عہد ابراہیم لودھی لاہور تشریف لائے اور وہاں شیخ میراں موج دریاؒ جو مشہور بزرگ اور عالم دین تھے ان کی شاگردی قبول کی۔ بعد وصال آپ پیرو مرشد کے حجرہ نیلا گنبد لاہور میں دفن ہوئے۔ آپ کے بڑے لڑکے حضرت شیخ جمال احمد مکیؒ لاہور سے دہلی آئے اور حضرت شیخ محمد بن مکن مصباح العاشقین ملانویؒ کے بعد حضرتشیخ عبد القدوس گنگوہی کے مرید خاص ہوئے۔ آپ بادشاہ نصیرالدین ہمایوں کے ساتھ 1526ء میں نصیر خان لوہانی کی بغاوت کی سرکوبی کے لیے آئے اور غازی پور محمدآباد یوسف پور میں بس گئے۔ عبید الرحٰمن صاحب کے والد اختر عثمان ہیں۔ آپ کے اہل خاندان کا سب سے بڑا تعاون علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو بنانے میں رہا .سر سید احمد خان آپ کے بزرگ مولوی عبد الصمد (وکیل ،مجسٹریٹ) کے دوستوں میں سے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لیے چندہ دینے والوں میں سے ہیں مزید جانکاری کے لیے سر سید احمد خاں کا اخبار انسی ٹیوٹ گزٹ9/جون/1878دیکھیے۔ آپ کے خاندان کے لوگوں نے ہندوستان کی جنگ آزادی میں بھی نمایاں کردار ادا کیاہے۔ انگریزوں کی ظلم اور زیادتی سے متاثرہوکر آپ کے خاندان کے خان بہادر امین اللہ اور۔ خان بہادرمولوی عبد الصمدصاحب نے انگریزوں کے دئے تمغے خان بہادرکو لوٹا دیا۔

ادبی خدمات[ترمیم]

عبید الرحمٰن صدیقی نے محض 19-20 سال کی عمر سے مضون لکھنے کی ابتدا کی۔ پہلا مضمون دوران تعلیم 1984ء میں اندرا گاندھی کے قتل پر لکھا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک ان کے تقریباً 1500 مضامین اور تحقیقی مقالے انگریزی، اردو اور ہندی زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ عبید الرحمٰن کی شخصیت اور ادبی خدمات پر ہندوستان کے مختلف ٹی۔ وی۔ چینلوں نے ڈاکومینڑی نشر کی ہیں، جیسے دہلی دوردرشن اردو، ای ٹی وی اردو حیدرآباد، زی سلام اردو، ای ٹی وی اترپردیش وغیرہ۔ عبید الرحمٰن صدیقی نے بھارت کے مختلف ریڈیو اسٹیشن سے فیچر، ادبی مقالے اور موجودہ مسائل پر پروگرام کرچکے ہیں۔

ان کی تصانیف کی فہرست ذیل میں ہے۔

  • تذکرہ مشائخ غازی پور
    تذکرہ مشائخ غازی پور
  • غازی پور کا ادبی پس منظر
  • غازی پور بنام گادھی پوری ایک اولوکن
  • غازی پور میں گوتم بدھ، سمراٹ اشوک اور بودھ استھل
    عبید الرحمٰن صدیقی جناب معین احسن جذبی کے ہمراہ
  • غازی پور سر سید احمد خان کے پس منظر میں

آپ کی کتابیں ہیں۔ نیز عبید کی شخصیت پر ہندوستان میں کئی سیمینار بھی منعقد ہو چکے ہیں۔

عبیدالرحٰمن صدیقی پروفیسر سمیتا تیواری جسسل کے ساتھ
غازی پور بنام گادھی پوری ایک اولوکن کا کور

اعزازات[ترمیم]

ملک کی مختلف تنظیموں نے مختلف اعزازات اور ایوارڈ سے نوازا ہے جیسے غازی پور رتن ایوارڈ، غازی پور کے رس کھان ایوارڈ،[1] یوتھ لیٹریری ایوارڈ (ابوظبی)، غالب ایوارڈ (دہلی)، المئومل ایوارڈ (المئومل شودھ سنستھان لکھنؤ)، مولوی رحمت اللہ ایوارڈ (مدرسہ چشمۂ رحمت) حضرت آسی ایوارڈ وغیرہ۔

عبید الرحمٰن صدیقی کی کتاب کی اجرا کرتے ہوئے وزیر اعلیٰٰ بہار نتیش کمار

عبید الرحٰمن صدیقی کے بارے میں چند مشاہیر کی آراء[ترمیم]

فاخرہ بتول اسلام آباد پاکستان[ترمیم]

لفظوں کا ساحر عبید الرحمٰن مکی

لفظ بولتے ہیں، سُنتے ہیں، سمجھتے ہیں، سمجھاتے ہیں، ہنستے مسکراتے اور کبھی کبھی بات بے بات بچوں کی طرح رو پڑتے ہیں۔ مجھے لفظوں سے مری شناسائی کب آشنائی میں تبدیل ہو گئی مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔۔ اسی لیے جو لوگ لفظوں کے دوست ہوتے ہیں، اُن کی حُرمت کا خیال رکھتے ہیں وہ مجھے اپنے دوست لگتے ہیں۔ انہی لوگوں میں ایک بظاہر آدم بیزار سا شخص بھی ہے جس کو لوگ عبید الرحمٰن مکی کے نام سے جانتے ہیں _ یہ شخص خوبصورت سوچ اور نکھرے نکھرے لفظوں کا شناور ہے، کبھی نظمیں چُنتا ہے، کبھی بے چین نثر پر سر دُھنتا ہے۔ اور قاری بھی اس کا ہم رقص ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اُلٹی سیدھی، آڑی ترچھی لکیروں سے خواب بُنتا ہے اور تعبیریں ریت پر لکھ آتا ہے۔ عجیب آدمی ہے۔ کبھی لفظوں سے مٹی کے پیالے، صراحیاں اور رنگ برنگی پھولوں کے گملے بناتا ہے کمھار کہیں کا . سنو لفظوں کے جادوگر محبت تو تمھیں ہر رنگ میں محسوس ہوتی ہے کبھی وہ رنگ بھی لکھو جو تم کو سوچ کر میری نگاہوں میں اُترتے ہیں وہ الفاظ جو دل سے زباں تک آ تو جاتے ہیں ادا لیکن نہیں ہوتے کبھی اُس بے بسی کے رنگ کو تصویر کر دو ناں مری خاطر اک ایسی نظم بھی تحریر کر دو ناں! جسے تم کو سناوں تو تمھیں معلوم ہو جائے میں کیوں خاموش رہتی ہوں سنو لفظوں کے جادوگر......!!!

رسول ساقی مدینہ، سعودی عرب[ترمیم]

غازی پور صوبہ بہار سے متّصل، مشرقی اتْر پردیش کا ایک تاریخی شہر ہے ۔ یہ شہر ابتدائے آفرینش سے ہی اکابرین و مشائخاور علوم و فنون کا مرکز رہا ہے۔اردو زبان کے آغاز و ارتقا اور شعر و ادب کی ترویج میں یہ خطّہ ہمیشہ سے زرخیز رہا ہے ۔

سر سید احمد خان نے اپنے غازی پور کے قیام کے دوران مسلمانوں کوجدید علوم و فنونسے بہرہ ور کرنے کے لیے غازی پور میں ہی سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی تھی ۔ اور مسلم یونیورسٹی کا منصوبہ اور خاکہ بھی یہیں تیّار کیا تھا۔ اگر سر سیّد کا تبادلہ علیگڑھ نہ ہو جاتا تو آج مسلم یونیورسٹی غازی پور مین ہوتی، جس کے لیے سر سیّد نے زمین بھی مختص کر لی تھی ۔ عبید الرحمن مکّی کا تعلّق اصفیاء اور مشائخ کے اسی بلاد سے ہے ۔ 5 جون 1964 ع کو مشاہیر کے اسی شہر کے افق پر ایک ستارہ ظہور پزیر ہوا اور عبید الرحمٰن مکّی نام پایا ۔ موصوف کا رجحان عہد ِ طفلی سے ہی نوشت و خواند اور گور و فکر کی طرف تھا ۔ بڑے عہدے پر پہنچے مگر علم و ادب خصوصا تنقید و تحقیق سے دامن کش نہ ہوئے ۔ موصوف کی دو کتابیںاہل ِ علم و نظر سے داد ِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ان کا تحقیقی مقالہ "تاریخ ِمشائخ ِ کرام غازی پور " طبع ہوکر علمی حلقوں میں پزیرائی حاصل کرچکا ہے۔دوسری کتاب ادبی تحقیق پر مبنی ہے "غازی پور کا اردو پس ِ منطر " مخطوطات اور قلمی نسخوں کی تلاش اور چھان پھٹک سے معرض ِ وجود میں آیا ہے ۔ جس میں 1024ع سے 1910 ع تک کے شعرا اور ادبْا ءکے حالات نیز ان کے ادبی خدمات کا اجماع اور سیر حاصل بحث ہے ۔ یہ دونوں کتابیںحوالہ جاتی کتب کا درجہ رکھتی ہین اور طلبہ اور اساتذہ یکساں طور پر انھین مشعل ِ راہ بناتے ہین۔ان کتابوں کے استفادے سے اب تک چار طلبہ ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کر چکے ہیں اور یہ بات ان کتابوں کی افادیت کا بیّن ثبوت ہے ۔ یہ کتابیں غازی پور کی ادبی تنقید و تحقیق مین اوّل و آخر کا درجہ رکھتی ہیں ۔ نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد کسی نے اس موضوع پر خامہ فرسائی کی ۔ میں عبیدالرحمن مکّی صاحب کو ان کی ان گرانقدر تصانیف پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان کا یہ سفر آگے بھی جاری و ساری رہے گا ۔

حوالہ جات[ترمیم]

خارجی روابط[ترمیم]