سید حشمت علی خیراللہ پوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے


حالات زندگی[ترمیم]

علامہ سید حشمت علی 1858ء (1275ھ) شیرازی، خیراللہ پور ضلع سیالکوٹ (پاکستان) میں متولد ہوئے۔ آپ کے والد کا نام حاجی سید جماعت علی تھا۔ ان کے خاندان کے بزرگ سید سعید نوروز شیرازی (مدفون اچی رسول پور سیداں) شاۂ ایران شاہ طہماسپ کی فوجی امداد و کمک میں مغل بادشاہ ہمایوں کے ساتھ ایران سے ہندوستان منتقل ہوئے تھے۔ ہمایوں نے انھیں سیالکوٹ کے قریب مضافات میں پانچ بستیوں پر مشتمل زرعی زمین نذر کی تھی جن میں علی پور سیداں اور خیراللہ پور سیداں معروف ہیں۔ انکا شجرۂ نسب چند پشتوں کے بعد محمد مامون دیباج ابن امام جعفر صادق سے متصل ہوتا ہے۔

تعلیم[ترمیم]

سید حشمت علی نے ابتدائی تعلیم اور عربی و فارسی کی تعلیم اپنے قصبہ ہی میں مولوی عبدالرشید حنفی کے مدرسہ سے حاصل کی۔ بعد ازاں آیت اللہ ابوالقاسم لاہوری کے مدرسہ محلہ شیعاں لاہور میں دینی تعلیم مکمل کی۔ اوریئنٹل کالج لاہور سے مولوی فاضل درس نظامی کی تکمیل کے بعد ہندوستان کے مرکز علم لکھنؤ کے مدارس میں دینی علوم کی تکمیل کی۔ حنفی علما سے اجازات کے حصول کے لیے دیوبند کے مدرسہ میں بھی علمائے دیوبند سے استفادہ کیا۔

علم کی تشنگی انھیں عراق ، ایران اور ترکیہ لے گئی جہاں اس وقت کے جید شیعہ مراجع سے فیض حاصل کیا جن میں سامرا میں مرجعء اعظم سید محمد حسن شیرازی اور نجف و کربلا میں سید محمد قزوینی (م 1306ھ)، شیخ محمد حسن مامقانی (م 1323 ھ) ، سید محمد کاظم اخوند صاحب کفایہ (م 1329ھ) اور سید محمد حسین شھرستانی جیسے جید علمائے اعلام شامل ہیں۔ عراق میں ان کے دوسرے اساتذہ میں محقق اردکانی، مرزا عبدالوھاب مازندرانی، محقق شھرستانی اور سید محمد حسین شامل ہیں۔[1] مجموعی طور پر تیرہ سال عراق و ایران میں اور ایک سال قسطنطنیہ ترکیہ میں حصولء علم کے لیے قیام کیا اور اجازۂ اجتہاد اور مرتبۂ مرجعیت حاصل کیا۔ علیگڑھ یونیورسٹی کے قیام کے سلسلہ میں بھرپور معاونت کی۔


علمی خدمات[ترمیم]

علامہ حشمت علی مجتہد کے مرتبۂ علمی پر فائز تھے اور علم فقہ و اصول اور معقولات ، فلسفہ وغیرہ میں ماہر تھے۔ عبد المجید سالک نے علامہ اقبال کے تذکرہ "ذکراقبال" میں علامہ اقبال کے علامہ شیخ عبدالعلی ھروی کے بعد علامہ حشمت علی سے کچھ فلسفیانہ اور کلامی مسائل (زمان و مکان اور مسئلۂ امامت وغیرہ) میں استفادہ کرنے کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ "فلسفے میں درخور وافی رکھتے تھے اور زمان و مکان پر ایک کتاب بھی لکھی تھی"۔[2]

علامہ شیخ محمد حسین نجفی نے اپنی کتاب احسن الفوائد فی شرح العقائد کے پیش لفظ میں شیعہ امامیہ کے جن ایک سو جلیل القدر متکلمین کا تذکرہ کیا ہے ان میں سید حشمت علی خیراللہ پوری کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ " آپ بہت بلند مرتبہ عالمء دین و محافظء شرع ء مبین تھے۔پنجاب میں ان کی خدماتء دینیہ کی فہرست طویل ہے۔علمء کلام میں انھوں نے متعدد رسالے تصنیف فرمائے جن میں سے رسالہ معراجیہ اور غایت المرام فی ضرورت الامام خاص طور پر قابلء ذکر ہیں"[3]

شاگرد[ترمیم]

مولانا حشمت علی خیر اللہ پوری کے شاگردوں میں سے دو شاگردوں کا حوالہ جو کتب میں درج ہے حسب ذیل ہیں۔

علامہ محمد اقبال[2]

مولوی سید علی شاہ[4]

وفات[ترمیم]

یکم و 2 جنوری 1935ع (25 رمضان 1354ھ) کی درمیانی شب رحلت فرمائی اور امام باڑہ خیراللہ پور میں مدفون ہوئے۔

تصانیف[ترمیم]

علامہ حشمت علی خیراللہ پوری کے علمی آثار زیادہ تر محفوظ نہیں رکھے جا سکے البتہ کلامی و فلسفیانہ مسائل پر ان کے چار رسائل مطبوعہ ہیں:

1- معراجیہ در ثبوت معراج جسمانی (اردو)

2- غایت المرام فی ضرورت الامام (اردو)

3- مجنات الصدور الأمینہ فیما یتعلق بحدیث الطینہ (فارسی)

4- عرشیہ در ابطال تناسخ (فارسی)

حوالہ جات[ترمیم]

  1. حسین عارف نقوی (۱۹۸۳ء)۔ تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان۔ اسلام آباد: مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان۔ صفحہ: 89–90 
  2. ^ ا ب عبدالمجید سالک (۲۰۱۸ء)۔ ذکر اقبال۔ جہلم پاکستان: جہلم بک کارنر پاکستان۔ صفحہ: ۱۱۴ 
  3. احسن الفوائد فی شرح العقائد ، دیباچہ شیخ محمد حسین نجفی ص 48 مکتبۃ السبطین سرگودھا پاکستان۔ طبع ثانی 1974 ع
  4. عارف حسین نقوی (۱۹۸۳ء)۔ تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان۔ اسلام آباد: مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان۔ صفحہ: ۱۲۳ 


  1. مطلع الانوار، سید مرتضٰی حسین فاضل لکھنوی ص (صفحہ نمبر درج کرنا ہے) ۔ لاہور
  1. تذکرہ بے بہا، مولانا محمد حسین (تفصیلات حوالہ درکار)