علم عروض

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
علومِ ادبیاتِ عربی

1۔ علمِ صرف
2۔ علمِ نحو
3۔ علمِ عروض
4۔ علمِ شعر
5۔ علمِ قافیہ
6۔ علمِ معانی
7۔ علمِ بیان
8۔ علمِ لغت
9۔ علمِ اشتقاق
10۔ علمِ انشاء
11۔ علمِ خط
12۔ علمِ تاریخ


بارہ علومِ ادبیاتِ عربی میں سے علمِ عروض ایک ایسے علم کا نام ہے جس کے ذریعے کسی شعر کے وزن کی صحت دریافت کی جاتی ہے یعنی یہ جانچا جاتا ہے کہ آیا کلام موزوں ہے یا ناموزوں یعنی وزن میں ہے یا نہیں۔ یہ علم ایک طرح سے منظوم کلام کی کسوٹی ہے اور اس علم کے، دیگر تمام علوم کی طرح، کچھ قواعد و ضوابط ہیں جن کی پاسداری کرنا کلامِ موزوں کہنے کے لیے لازم ہے۔ اس علم کے ذریعے کسی بھی کلام کی بحر بھی متعین کی جاتی ہے۔ اس علم کے بانی یا سب سے پہلے جنھوں نے اشعار پر اس علم کے قوانین کا اطلاق کیا وہ ابو عبد الرحمٰن خلیل بن احمد بصری ہیں جن کا زمانہ دوسری صدی ہجری تھا۔

وجہ تسمیہ[ترمیم]

عروض عربی زبان کا لفظ ہے اور لغت میں اس کے دس سے زائد معنی ہیں۔[1] جو درج ذیل ہیں۔

  1. خیمہ کا مرکزی ستون جس پر خیمہ تانا جاتا ہے۔
  2. وہ اونٹنی جو وحشی اور سرکش ہو۔
  3. پہاڑوں پر بنے ہوئے تنگ راستے کو۔
  4. مکہ اور مدینہ کو
  5. کسی شعر کے مصرعِ اول کے آخری کلمہ کو
  6. شعر کے وزن کی کسوٹی اور ترازو کو
  7. ظاہر ہونا یا عارض ہونے کو
  8. مانند، مثال یا نظیر کو
  9. فحویٰ اور مفی کلام کو
  10. احتیاج اور ضرورت کو
  11. منتہج اور ابر کو

اس بابت میں کہ اس مخصوص علم کو "علمِ عروض" ہی کیوں کہتے ہیں کئی ایک قول رائج ہیں جو درج ذیل ہیں۔[2]

  • خلیل بن احمد نے جب یہ علم ایجاد کیا تو وہ مکہ میں تھا سو تبرکاً اس شہر کے نام سے اس علم کو منسوب کیا۔
  • اس علم کو عروض اس لیے کہتے ہیں کہ اس پر شعر کو عرض کرتے ہیں یعن شعر کو اس پر جانچتے ہیں تا کہ موزوں و غیر موزوں علاحدہ ہو جائے۔
  • عروض طرف اور کنارۂ چیز کے معنی ہیں چونکہ یہ علم بھی بعض علموں سے کنارے پر ہے اس لیے عروض نام رکھا۔
  • بعض کہتے ہیں کہ لفظ عروض کی ترکیب میں عین و را و ضاد ہے جس کے معنی ظہور کے ہیں، چونکہ اس علم سے وزنِ صحیح اور غیر صحیح میں فرق ظاہر ہوتا ہے اس لیے عروض کہتے ہیں۔
  • بعض کہتے ہیں کہ عروض لغت میں راہِ کشادہ کے معنی میں ہے جس طرح پہاڑ کے رستے درہ یا گھاٹی میں ہو کر شہروں اور مقاموں کو جاتے ہیں، اسی طرح اس علم کے ذریعے سے شعرِ موزوں اور ناموزوں کی طرف پہنچتے ہیں۔ اس کے جاننے سے شعرِ غلط اور صحیح معلوم ہو جاتا ہے۔ (جب کہ ڈاکٹر سید تقی عابدی یہ وجہ لکھی ہے کہ "بعض لوگ کہتے ہیں جس طرح پہاڑوں پر چڑھنے کے راستے مشکل اور تنگ ہوتے ہیں اسی طرح یہ علم مشکل اور سخت ہے جس پر عمل کر کے موزوں اور ناموزوں کلام میں فرق کیا جا سکتا ہے۔")[3]
  • بعض کہتے ہیں کہ عروض بادل کے معنی میں ہے، جسطرح بادل اور اس سے پیدا ہوئی چیزوں میں نفع زیادہ ہے اسی طرح اس علم میں نفع کثیر ہے۔
  • بعض کہتے ہیں کہ شعر کے مصرعِ اول کے لفظِ آخر کا نام عروض ہے اور اس علم میں اس کا ذکر زیادہ آتا ہے اس لیے یہ بھی عروض کہلاتا ہے۔

بہرحال اس علم کے نام کی وجہ کچھ بھی ہو اس کا کام وہی ہے جس کا ذکر اوپر آ چکا یعنی موزوں و ناموزوں کلام کو جانچنا اور جس کے قواعد و ضوابط کی تفصیل نیچے آئے گی۔

تاریخ[ترمیم]

مولوی نجم الغنی رامپوری نے لکھا ہے کہ خلیل بن احمد نے اس علم کو کوبہ گاذر کی آواز سے استخراج کیا۔[2] جب کہ ڈاکٹر تقی عابدی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں "مشہور ہے کہ اس علم کے بانی خلیل بن احمد ایک دن چاندی کے ورق بنانے کی دکان کے سامنے سے گذر رہے تھے، چاندی کے ورق کوٹنے کی مسلسل آواز کو سن کر ان کے منہ سے یہ جملہ نکلا کہ "خدا کی قسم اس آواز سے ایک علم ظاہر ہوتا ہے" جس کو انھوں نے بعد میں علمِ عروض کا نام دیا۔[3] لیکن کچھ محققین کے نزدیک یہ قول انتہائی ضعیف ہے۔[4]

دوسری طرف خلیل بن احمد کو اس علم کا موجد یا بانی کہنا بھی درست نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علم کے قوانین بننے سے پہلے بھی شعر کہے جاتے تھے بلکہ ایام جاہلیت کے عربی شعرا تو بہت مشہور ہیں تو کیا اس وقت اشعار میں وزن موجود نہیں تھا؟ یقیناً تھا لیکن اس وقت کے شعرا کے نزدیک وزن کا معیار علمِ عروض کے قوانین کی بجائے، ذوقِ سلیم اور وجدان تھا اور انہی شعرا کے کلام کو سامنے رکھ کر خلیل بن احمد نے اس علم کے قوانین متعین کیے لیکن اس وقت کے شعرا کسی معیار یا میزان کے نہ ہونے کی وجہ سے غلطی بھی کر جاتے تھے اور انہی غلطیوں کو بعد میں علمِ عروض میں زحافات اور سکتہ کا نام دیا گیا اور یوں یہ بات بالکل درست ہے کہ عروض کے قواعد شاعری کو سامنے رکھ کر بنائے گئے نہ کہ ان قواعد کو سامنے رکھ کر شاعری کی جاتی ہے۔ لیکن خلیل بن احمد کو یہ اعزاز ضرور حاصل ہے کہ سب سے پہلے انھوں نے اسی علم کے قواعد و قوانین ریاضی اور موسیقی کے اصولوں پر وضع کیے اور ان کا اطلاق شاعری پر کیا۔

جدید تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوتا کہ خلیل بن احمد نے، جو ریاضی اور موسیقی کا ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ سنسکرت زبان سے بھی واقفیت رکھتا تھا، سنسکرت عروض کے اصولوں اور اصطلاحوں سے فائدہ اٹھا کر کچھ یونانی اور عربی قدیم طریقوں کو ملا کر پندرہ بحروں اور پانچ دائروں کو ایجاد کیا اور اس بیان کی تائید البیرونی کی "کتاب الہند" سے بھی ہوتی ہے۔[5] یہاں یہ بھی واضح رہے کہ سنسکرت سمیت زیادہ تر ہندوستانی زبانوں اور عربی و فارسی میں شعر کا وزن جانچنے کا جو نظام رائج ہے وہ "ہجائی نظام" پر مشتمل ہے، عربی و فارسی و اردو میں اسے علمِ عروض جب کہ سنسکرت میں“چھند شاسترا“ (چھند = عروض ؛ شاسترا = علم)، پِنگالا نامی ماہر نے سنسکرت علم عروض پر ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام “ پِنگالا چھند شاسترا “ ہے۔

خلیل بن احمد کی پندرہ بحروں کے بعد اس میں چار بحروں کا اضافہ ایران والوں نے کیا اور یہی انیس بحریں ابھی تک رائج ہیں، گو نہ تو تمام انیس بحریں عربی میں مستعمل ہیں اور نہ فارسی میں اور نہ اردو میں، ان تینوں زبانوں کے بولنے والوں نے اپنی اپنی زبان اور اپنے اپنے ذوق اور اپنی اپنی ضروریات کے مطابق کچھ مخصوص بحریں استعمال کی ہیں، یہاں یہ واضح رہے کہ یہ انیس بحریں سالم حالت میں ہیں یعنی ان میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں کیا جاتا لیکن انہی بحروں میں جب مختلف زحافات کے استعمال کے بعد جو نئی بحریں بنتی ہیں تو ان کی مجموعی تعداد سینکڑوں میں پہنچ جاتی ہے۔

اس علم پر پہلی مستقل کتاب تیسری صدی ہجری میں ابو اسحاق زجاج (وفات 300 ھ) لکھی اور ان کے بعد کئی ایک کتب اس موضوع پر عربی اور فارسی میں لکھی گئیں لیکن اس موضوع پر سب سے مشہور کتب شمس قیس رازی کی "المعجم" اور نصیر الدین طوسی کی "معیار الاشعار" ہے اور بعد والی کتب میں عموماً انہی دو کتب کی بازگشت ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ بابر نے بھی اس علم پر ایک کتاب لکھی تھی۔[6]

اردو میں اس علم پر اتھارٹی کا درجہ حاصل کرنے والی کتاب مولوی نجم الغنی رامپوری کی "بحر الفصاحت" ہے جو پانچ حصوں پر مشتمل ہے اور دوسرا حصہ علمِ عروض پر ہے، یہ کتاب بیسویں صدی کے اوائل میں چھپی تھی جب کہ 1924ء میں مصنف نے کافی اضافے اور ترامیم کے بعد اس کا تیسرا ایڈیشن شائع کیا اور اب یہی ایڈیشن مروج ہے۔ اس موضوع پر دوسری اہم ترین کتاب مرزا یاس یگانہ چنگیزی کی "چراغِ سخن" ہے جو 1914ء میں پہلی بار طبع ہوئی۔

شعر کی تعریف[ترمیم]

شعر کے لغوی معنوی جاننا اور بوجھنا وغیرہ کے ہیں اور جیسا کہ اوپر گذرا کہ علمِ عروض کسی "شعر" کو جانچتا ہے تو اس سے ایک اصولی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر شعر ہے کیا؟ اور کس چیز کو شعر کہتے ہیں جس کو علمِ عروض جانچتا ہے۔ یہ ایک نزاعی مسئلہ ہے اور صدیوں سے علما و ماہرینِ فن اس کا جواب دے رہے ہیں لیکن ابھی تک شعر کی ایک ایسی جامع تعریف متعین نہیں ہو سکی جو سب فریقین کے لیے قابلِ قبول ہو۔

کسی بھی شعر کی عموماً دو طرح کی تعریفیں کی جاتی ہیں، ایک منطقی اور دوسری عروضی اور عموماً ان دو تعریفوں کو آپس میں گڈ مڈ کرنے سے نزاعی صورت حال پیدا ہوتی ہے، ہم ان دونوں کو مختصراً بیان کرتے ہیں۔

منطقی تعریف[ترمیم]

منطقی تعریف عموماً شعر کی ایک جامع اور انتہائی وسیع تعریف ہوتی ہے جو ماہرینِ علم منطق بیان کرتے ہیں اور شعر کی اساس تخیل کو قرار دیتے ہیں۔

  • بو علی سینا نے "کتاب الشفا" کی بحثِ منطق میں لکھا ہے"منطقی کی نظر قافیے اور وزن کی طرف نہیں ہوتی، اس کے نزدیک تو یہ چاہیے کہ وہ کلام مخیل ہو۔" [7]
  • نصیر الدین طوسی نے لکھا ہے "منطقی کے نزدیک کلامِ مخیل شعر ہے۔" [7]
  • مولانا شبلی نعمانی "شعر العجم" میں لکھتے ہیں "اب منطقی پیرایہ میں شعر کی تعریف کرنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ جو جذبات الفاظ کے ذریعہ سے ادا ہوں وہ شعر ہیں۔" [8]
  • مولانا الطاف حسین حالی نے بھی اپنی شہرہ آفاق کتاب "مقدمۂ شعر و شاعری" میں قافیے اور وزن کی قید کو شعر کی تعریف سے اڑا دیا ہے اور شعر کی تخلیق میں تین چیزوں کو ضروری قرار دیا ہے، تخیل، مطالعہ کائنات اور تفحص الفاظ۔[9]

لیکن علمِ عروض کے ماہرین اور زیادہ تر شعرا کے قریب یہ سب تعریفیں موضوعی ہیں اور قابلِ قبول نہیں ہیں، اگر محض تخیل یا جذبات کو ہی "شعر" کا معیار قرار دے دیا جائے تو پھر ہر پُر از تخیل اور پُر از جذبات جملہ چاہے وہ موزوں ہو یا نہ ہو، مترنم یا ہم آہنگ (مقفیٰ) ہو نہ ہو یا قصداً کہا گیا ہو یا نہ، شعر کہلائے گا اور ہم کسی معروضی معیار سے یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ فلاں جملہ یا بات شعر ہے یا نہیں۔

عروضی تعریف[ترمیم]

علمِ عروض کے ماہرین دو جمع دو چار یعنی معروضی معیار کے قائل ہیں اور کسی بھی شعر کہلائے جانے کے امیدوار جملے کو ریاضی کے اصولوں پر وضع کردہ معیار پر جانچتے ہیں اور اس پر "ہاں" یا "ناں" کا حکم لگاتے ہیں۔ اور ابنِ رشیق کے تقریباً ہزار سال قبل بنائے گئے معیار کو ہی، کسی نہ کسی شکل، میں مانتے ہیں جو کچھ یوں ہے:

شعر ایسا کلام ہے جو موزوں اور مقفیٰ ہو اور بالقصد (بالاارادہ) کہا گیا ہو - ابنِ رشیق [10]

کسی بھی کلام کے شعر ہونے کے لیے اس تعریف میں تین معیار ہیں:

  1. وزن
  2. قافیہ
  3. قصد یا ارادہ یا کوشش

اور اب ہم تینوں معیاروں کو کسی قدر تفصیل سے دیکھتے ہیں لیکن جس ترتیب سے یہ تعریف میں آئے ہیں اس سے الٹی ترتیب میں۔

قصد یا ارادہ[ترمیم]

شعر پر اس قدغن کا مقصد یہ ہے کہ شعر وہ ہے جو شعر کے ارادے اور نیت سے کہا جائے نہ کہ ہر کسی موزوں جملے کو شعر کہا جائے۔ بحروں کی ذیلی تعداد سینکڑوں میں ہے لہذا بے شمار جملے اور کلمے کسی نہ کسی بحر کے وزن پر پورا اترتے ہیں لہذا موزوں ہو جاتے ہیں لیکن ان کو اس قدغن کی رو سے شعر نہیں کہا جا سکتا۔

لیکن اس قدغن کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی کئی ایسی آیات ہیں جو کسی نہ کسی وزن پر پوری اترتی ہیں، جیسے لاحول و لا قوۃ الا باللہ جو بحرِ ہزج میں ہے اور رباعی کا ایک وزن'مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع' ہے۔ اس کے علاوہ بحر الفصاحت میں اٹھارہ آیات لکھی ہیں جو کے کسی نہ کسی وزن پر پورا اترتی ہیں، [11] مثلاً

  • بسم اللہ الرحمان الرحیم (بحر سریع، وزن مفعولن مفعولن فاعلان)
  • انا اعطینک الکوثر (بحر متدارک، وزن فعلن فعلن فعلن فعلن)
  • لن تنالوا البر حتی تنفقو (بحر رمل، وزن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)

اور مشرکینِ عرب قرآن کو شاعری بھی کہتے تھے حالانکہ نہ یہ شاعری ہے اور نہ ہی شاعری کی نیت اور ارادے سے کہا گیا ہے لہذا مسلمانوں کا ایمان تو ہے ہی لیکن اس تعریف کی رو سے بھی قرآن مجید کی موزوں آیات شاعری نہیں ہے کیونکہ "بالقصد" نہیں ہے۔

لیکن شعرا میں ایک عام خیال یہ ہے کہ جو کلام ارادے یا قصد یا کوشش سے کہا جائے وہ آورد ہے اور آمد کے مقابلے میں کم تر درجے کا ہے، مثلاً مشہور شاعر جوش ملیح آبادی اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں۔

شاعری کے باب میں بعض بزرگوں نے ایک خالص دینی مصلحت کی بناء پر، جس کی شرح کا یہاں موقع نہیں، یہ عجیب کلیہ وضع فرمایا ہے کہ صرف اس موزوں کلام پر شعر کا اطلاق ہوگا جو "بالقصد" کہا گیا ہو، اگر یہ کلیہ تسلیم کر لیا جائے تو چونکہ میں نے آج کی تاریخ تک، ایک مصرع بھی "بالقصد" موزوں کرنے کا ارتکاب نہیں کیا ہے، اس لیے آپ کو اختیارِ کامل حاصل ہے کہ میرے تمام کلام کو شاعری سے کلیۃ خارج فرما کر، میرے غیرِ شاعر ہونے کا اعلان فرما دیں، میں خوش میرا خدا خوش۔ [12]

لیکن یہ غلط خیال عموماً اس وجہ سے پھیلا ہے کہ "بالقصد" کا مطلب "آورد" سے قریب لیا گیا ہے حالانکہ اس کا مطلب "شعر کی نیت" سے قریب لینا چاہیے کیونکہ چاہے شاعر کو آمد ہو یا آورد، نیت اس کی شعر کہنے کی ہی ہوتی ہے۔

قافیہ[ترمیم]

(تفصیلی مضمون کے لیے دیکھیے قافیہ)

قافیہ کا لفظ 'قفا' یا 'قفو' سے مشتق ہے اور اس کے لغوی معنی 'پیچھے آنا والا' یا 'پیرو کار' کے ہیں، چونکہ عربی شاعری میں شعر کا اختتام قافیہ پر ہوتا ہے اس لیے اسے یہ نام دیا گیا، واضح رہے کہ فارسی اور اردو شاعری میں ضروری نہیں کہ شعر کا اختتام قافیے پر ہو، بلکہ زیادہ تر شعر کا اختتام ردیف پر ہوتا ہے جو فارسی شاعروں کی ایجاد ہے اور عربی شاعری میں مستعمل نہیں۔

اصطلاح میں قافیہ حروف اور حرکات کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس کی تکرار مختلف الفاظ کے ساتھ شعر کے آخر یا ردیف سے پہلے آئے جیسے دمَن، چمَن، زمَن یا دِل، محفِل، قاتِل وغیرہ الفاظ کو ہم قافیہ کہا جائے گا۔

قافیہ شعر میں حسن و نغمگی و ترنم پیدا کرتا ہے اور اس سے شعر خوبصورت اور پُر لطف ہو جاتا ہے۔ عربی شاعری کے قدماء سے لے کر بیسویں صدی کے اوائل تک، قافیے کو شاعری کا جزوِ لاینفک سمجھا جاتا تھا اور جس شعر میں قافیہ نہیں ہوتا تھا اس کو سرے سے شعر ہی نہیں مانا جاتا تھا اور شعر کو شعر کہلوانے کے لیے اس میں قافیہ لانا لازم تھا جیسا کہ ہم اوپر شعر کی عروضی تعریف میں دیکھ چکے۔ اس سلسلے میں بو علی سینا کا یہ قول انتہائی مشہور ہے۔

جو مقفیٰ نہیں وہ ہمارے نزدیک شعر نہیں- بو علی سینا [13]

اور اسی طرح مشہور فارسی شاعر شیخ فرید الدین عطار کا قافیے کے متعلق یہ شعر

گر قوافی را رواجے نیست
برسرِ ہر خطبہ تاجے نیست [14]

اگر قافیے کا رواج نہ ہوتا تو کسی خطبے (کلام) کے سر پر تاج نہ ہوتا۔

اور یوں قدما اور کلاسیکی شعرا کے ہاں قافیہ شعر کا حصہ ٹھہرا، لیکن قصد کی طرح، قافیہ بھی جدید شعرا کی تنقید کی زد میں آیا اور برِصغیر پاک و ہند میں سب سے پہلے مولانا الطاف حسین حالی نے اس کی طرف توجہ کی اور قافیے کو ادائے مطلب میں خلل انداز سمجھا اور یوں وہ ان جدید شعرا کے پیشرو ٹھہرے جو قافیے کو ایک قید سمجھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ قافیے کی قید کی وجہ سے شاعر اپنے خیالات صحیح طور پر نظم نہیں کر سکتے ہیں اور قافیہ لانے کے چکر میں قافیے کی بھول بھلیوں میں کھو جاتے ہیں اور شعر کا مطلب فوت ہو جاتا ہے۔

ایک طرف تو قافیہ بحیثیت قید کے شعرا اور ناقدین کی تنقید کی زد میں آیا اور دوسری طرف قافیے پر قافیہ چڑھانے کی وجہ سے بھی تنقید کی زد میں آیا، بالخصوص لکھنؤ کے شعرا اور دہلی کے شعرا میں سے ابراہیم ذوق اس "قافیہ پیمائی" کے لیے خاص طور پر بدنام ہیں کہ ایک ایک غزل میں تیس تیس چالیس چالیس قافیے ہیں اور اس پر بھی بس نہیں بلکہ اسی غزل پر دو غزلہ اور سہ غزلہ لکھ ڈالا، اس لیے غالب کو کہنا پڑا تھا کہ "شاعری خیال آفرینی کا نام ہے نہ کہ قافیہ پیمائی کا"۔

بیسیوں صدی کے اوائل میں جب برصغیر میں انگریزی ادب کا زیادہ رجحان پیدا ہوا تو ہمارے شعرا کے سامنے Blank Verse یا نظمِ معّریٰ سامنے آئی جس میں قافیے سے آزادی تھی سو اردو میں نظمِ معری کہے جانے لگی جس میں وزن اور بحر کی تو پابندی کی جاتی تھی لیکن قافیے کو چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد اردو شاعری میں آزاد نظم کا چلن عام ہوا جس میں بھی وزن کی قید ہوتی ہے لیکن قافیے کی نہیں۔ نظمِ معری اور آزاد نظم میں یہ فرق ہے کہ معری میں بحر کے اراکین کو توڑا نہیں جاتا بلکہ جو معیار مقرر ہے اس کو قائم رکھا جاتا ہے لیکن آزاد نظم میں ایک شاعر بحر کے ارکان کو اپنی مرضی سے توڑ سکتا ہے اور یوں اس میں مصرعے بڑے چھوٹے ہو سکتے ہیں۔ نظم معریٰ کو تو کوئی خاص پزیرائی نہیں ملی لیکن آزاد نظم اب اردو شاعری کا ایک اہم جزو ہے اور سبھی مشہور شعرا نے آزاد نظمیں کہی ہیں۔

گو جدید شعرا نے قافیے سے بے اعتنائی برتی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ قافیہ اب بھی اسی طرح قائم ہے جیسے صدیوں پہلے قائم تھا، اردو غزل کا کوئی شعر قافیے کے بغیر شعر نہیں کہلوا سکتا اور اگر کسی شاعر کو قافیہ پسند نہیں تو وہ غزل یا رباعی یا قطعہ یا مثنوی یا قصیدہ یا پابند نظم نہیں کہہ سکتا بلکہ اسے آزاد نظم کہنی پڑے گی بلکہ اب تو آزاد نظم کے شاعر بھی آزاد نظم میں نغمگی اور ترنم کے لیے بالتزام قافیہ لاتے ہیں۔

وزن[ترمیم]

افاعیل =

میں گناہ پر پشیماں تجھے فکرِ پارسائی

تقطیع[ترمیم]

شعر:

"رسم ـ دنیا نبھا گیا وہ بھی۔۔

چار آنسو بہا گیا وہ بھی۔۔"

بحر:

"فاعلاتن مفاعلن فعلن"

مصرع اولا: "رسم ـ دنیا نبھا گیا وہ بھی"

تقطیع: "رس مِدن یا=فا علا تن، نِبا گیا=مفا علن، وہ بھی=فعلن،،،"

مصرع ثانی: "چار آنسو بہا گیا وہ بھی"

تقطیع: "چا رآ سو=فا علا تن، بہا گیا=مفا علن، وہ بھی=فعلن،،،"

اراکین: مفاعلن۔ فعلاتن۔ مفاعلن۔ فَعِلن

سخن تھا قلب و نگہ میں دم ِ زیارت ِ حُسن

حدود ِ غم ذدگاں میں چہ معنی نَخوَتِ حُسن؟

اُسی گلاب سے کیونکر تعفن اُٹھ رہا ہے

درون ِ خواب جو کرتا رہا سفارت ِ حُسن

تمھارے دام میں آجاتا ہوں، بنفس ِ نفیس

یہ میری سادگی ہے یا کوئی کرامت ِ حُسن؟

شاعر : دانش نذیر دانی ۔

تقطیع

1- سخن تھا قلب و نگہ میں دم ِ زیارت ِ حُسن

سُ خَن تَ قَل ۔۔۔ بُ نِ گہ میں ۔۔۔ د مے ز یا ۔۔۔۔ ر تِ حُس ن

مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعالاتن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعلان

حدود ِ غم ذدگاں میں چہ معنی نَخوَتِ حُسن؟

ح دُو دِ غم۔۔۔۔۔ ذَ دَ گا میں ۔۔۔۔۔ چَ مع نِ نَخ ۔۔۔۔۔۔۔ وَ تِ حُس ن

مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعلاتن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعلان

2- اُسی گلاب سے کیونکر تعفن اُٹھ رہا ہے

اُ سی گ لا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ب س کو کر ۔۔۔۔۔۔۔ تَ عَف فُ نُتھ ۔۔۔۔ ر ہَ ہے

مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعلاتن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَعِلن

درون ِ خواب جو کرتا رہا سفارت ِ حُسن

د رُو ن خا ۔۔۔۔۔۔ ب جُ کر تَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ر ہا س فا۔۔۔۔۔۔۔ ر تِ حُس ن

مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعلاتن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعلان

3 - تمھارے دام میں آجاتا ہوں، بنفس ِ نفیس

تُ ما رِ دا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م مِ آ جا ۔۔۔۔۔۔ تَ ہو بَ نف۔۔۔۔۔۔ س ن فی س

مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعلاتن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعلان

یہ میری سادگی ہے یا کوئی کرامت ِ حُسن؟

ی مے رِ سا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ د گ ہ یا ۔۔۔۔۔ کُ ئی ک را ۔۔۔۔ م تِ حُس ن

مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعلاتن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعلان

رباعی کی بحر[ترمیم]

رباعی کی بحر ہے : لاحول ولا قوۃ الا باللہ

بیرونی روابط[ترمیم]

علمِ عروض - اردو گاہ

حوالہ جات[ترمیم]

  1. رموزِ شاعری از ڈاکٹر سید تقی عابدی، القمر انٹر پرائزز، اردو بازار، لاہور، طبعِ اول 2003ء، ص 22
  2. ^ ا ب بحر الفصاحت از مولوی نجم الغنی رام پوری، مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ، لاہور، طبع اول جون 2001ء، حصۂ دوم ص 11
  3. ^ ا ب رموزِ شاعری از ڈاکٹر سید تقی عابدی، القمر انٹر پرائزز، اردو بازار، لاہور، طبعِ اول 2003ء ص 22
  4. تعلیقہ از سید قدرت نقوی بر بحر الفصاحت از مولوی نجم الغنی رامپوری، مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ، لاہور، طبع اول جون 2001ء، حصۂ دوم ص 251
  5. رموزِ شاعری از ڈاکٹر سید تقی عابدی، القمر انٹر پرائزز، اردو بازار، لاہور، طبعِ اول 2003ء ص 23
  6. رموزِ شاعری از ڈاکٹر سید تقی عابدی، القمر انٹر پرائزز، اردو بازار، لاہور، طبعِ اول 2003ء ص 25
  7. ^ ا ب بحر الفصاحت از مولوی نجم الغنی رامپوری، مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ، لاہور، طبع اول جون 2001ء، حصۂ اول ص 131
  8. شعر العجم از مولانا شبلی نعمانی، الفیصل، لاہور، 1999ء حصہ چہارم ص 2
  9. مقدمہ شعر و شاعری از الطاف حسین حالی
  10. اصنافِ ادب از رفیع الدین ہاشمی، سنگِ میل، لاہور، 1991ء، ص 14
  11. بحر الفصاحت از مولوی نجم الغنی رامپوری، مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ، لاہور، طبع اول جون 2001ء، حصۂ اول ص 75 تا 78
  12. یادوں کی برات از جوش ملیح آبادی، مکتبہ شعر و ادب، لاہور، مئی 1975ء، ص 13
  13. بحر الفصاحت از مولوی نجم الغنی رامپوری، مجلسِ ترقیِ ادب، کلب روڈ، لاہور، طبع اول جون 2001ء، حصۂ اول ص 139
  14. رموزِ شاعری از ڈاکٹر سید تقی عابدی، القمر انٹر پرائزز، اردو بازار، لاہور، طبعِ اول 2003ء ص 305