علی جمعہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
علی جمعہ
(عربی میں: علي جمعة ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تفصیل=
تفصیل=

مصر کے سابق مفتی اعظم
مدت منصب
28 ستمبر 2003ء – 11 فروری 2013ء
صدر حسنی مبارک
محمد حسین طنطاوی (اداکاری)
محمد مرسی
احمد الطیب
شوقی ابراہیم عبدالکریم علام
معلومات شخصیت
پیدائش 3 مارچ 1952ء (72 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بنی سویف   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مصر   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب سنی اسلام (اشعری);[1][2] صوفی; شافعی[3]
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ الازہر
جامعہ عین شمس   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف ،  مفتی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ الازہر   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ڈاکٹر علی جمعہ [4] (علی گوما) جامعہ الازہر، مصر میں ایک استاد، مفسر، فقیہہ محقق اور سنی عالمِ دین ہیں۔ وہ شافعی مذہب [3] اور اشعری عقیدے کے پیروکار ہیں [1][2] اور صوفیانہ نظریات رکھتے ہیں۔[5] انھوں نے 2003ء سے 2013ء مصر کے اٹھارویں مفتیِ اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انھیں 2008ء میں "یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ[6]" اور "دی نیشنل[7]" کے مطابق بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ قابل احترام اسلامی فقہا میں سے ایک قرار دیا گیا اور دی نیویارکر کے مطابق ایک انتہائی جدید اعتدال پسند مسلم قائد، صنفی مساوات اور "شدت پسندوں کے لیے نفرت کی علامت " قرار دیا گیا۔[8] مارشل لا (2013ء مصری فوجی تاخت) کے دوران میں انھیں عوامی مقبولیت کی وجہ سے توجہ حاصل ہوئی۔

پس منظر[ترمیم]

علی جمعہ 3 مارچ 1952ء (7 جمادی الثانی 1371ھ) پر بینی سویف کے بالائی مصری صوبے میں پیدا ہوا ئے وہ شادی شدہ ہیں اور ان کے تین بالغ بچے ہیں۔[9]

تعلیم[ترمیم]

علی جمعہ نے 1969ء میں ہائی اسکول سے گریجویشن کیا اور جس وقت مصر کے دار الحکومت قاہرہ میں عین شمس یونیورسٹی میں داخلہ لیا اس سے پہلے سے ہی انھوں نے قرآن حفظ کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اسلامی تعلیمات میں گہری دلچسپی رکھتے تھے جبکہ یونیورسٹی میں اپنے فارغ وقت میں حدیث اور فقہ شافعی کا مطالعہ کرتے تھے۔ 1973ء میں جامعہ عین شمس سے بی کام پاس کرنے کے بعد انھوں نے دنیا میں اعلیٰ اسلامی تعلیم کے قدیم ترین فعال اسلامی ادارے جامعہ الازہر، قاہرہ میں داخلہ لے لیا۔ وہاں سے انھوں نے اسلامی علوم میں بی اے کی دوسری ڈگری حاصل کی، پھر ایم اے اور آخر کار 1988ء اصول الفقہ میں پی ایچ ڈی کی۔[10] تب تک انھوں نے جامعہ الازہر کے ہائی اسکول کا نصاب نہیں پڑھا تھا پھر ان بنیادی متون کو حفظ کرنے کے لیے انھوں نے خود سے وہ نصاب پڑھ ڈالا جس کو دیگر طلبہ وہاں پہلے سالوں میں پڑھتے تھے۔

تدریس[ترمیم]

انھوں نے ایم پاس کرنے کے بعد جامعہ الازہر میں اسلامی اور عربی علوم کی فیکلٹی میں پہلے ایک اسسٹنٹ پروفیسر، پھر ایک مکمل پروفیسر کے طور پر تدریس کی جہاں تک کہ وہ مفتی اعظم مقرر ہو گئے۔ علی جمعہ عقیدہ، تفسیر، حدیث، فقہ اور اسلامی تاریخ کے استاد ہونے [11] کے علاوہ ایک صوفی کے طور پر ان کی عزت و تکریم کی جاتی ہے۔[12][13][14]

یونیورسٹی کے باہر کلاسز[ترمیم]

یونیورسٹی میں کورس کے علاوہ، علی جمعہ نے ایک مسجد میں منعقد کھلی کلاس کی روایت کو زندہ کیا، وہ طلوع آفتاب سے دوپہر تک طالب علموں کے ایک حلقے کو ہفتے میں چھ دن اسلامی علوم سکھاتے جس سے ان کا مقصد اسلامی دانشورانہ روایت کو زندہ رکھنا اور اسلامی متون کو غلط تشریح سے محفوظ رکھنا تھا۔[15] ان اسباق کا آغاز 1998ء سے کیا گیا۔[16] اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے 1998ء سے قاہرہ کی سلطان حسن مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینا شروع کر دیا جس کے بعد وہ اسلامی فقہ میں ایک مختصردرس دیتے جو عوام الناس کے لیے سوال و جواب کی ایک نشست کے طور پر ہوتا تھا۔ وہ انگریزی روانی کے ساتھ بولتے ہیں اور الازہر یونیورسٹی کے اسلامی فقہ کے سیکشن کے سابق چیئرمین ہیں۔

جہادی قیدیوں کے ساتھ مکالمات[ترمیم]

2 جون 2008ء کے دی نیویارکر کے مطابق علی جمعہ نے امریکی صحافی لارن رائٹ کو بتایا کہ وہ "مصری الجماعۃ الاسلامیۃ" کے قیدیوں سے بحث مباحثہ کرنے 1990ء کی دہائی سے جیلوں میں جاتے رہے ہیں، تین سال کی ان کوششوں سے اس گروپ نے عدم تشدد کے نظریے کو قبول کر لیا۔ "[8]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب Amani Maged (3 نومبر 2011)۔ "Salafis vs Sufis"۔ Al-Ahram Weekly Online۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2014 
  2. ^ ا ب Ahmed el-Beheri (9 مئی 2010)۔ "Azhar sheikh warns West against double standards"۔ Egypt Independent۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2014 
  3. ^ ا ب N. C. Asthana، Anjali Nirmal (2009)۔ Urban Terrorism: Myths and Realities۔ Pointer Publishers۔ صفحہ: 117۔ ISBN 817132598X 
  4. Ethar El-Katatney The People's Mufti آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ egypttoday.com (Error: unknown archive URL) Egypt Today اکتوبر 2007.
  5. Islamopedia: "Ali Goma" آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ islamopediaonline.org (Error: unknown archive URL) retrieved جنوری 20, 2015
  6. Jay Tolson (2 اپریل 2008)۔ "Finding the Voices of Moderate Islam"۔ US News & World Report 
  7. Bushra Alkaff al-Hashemi، Rym Ghaza (فروری 2012)۔ "Grand Mufti calls for dialogue about the internet"۔ The National۔ 2012-02-21 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 فروری 2012 
  8. ^ ا ب "The Rebellion Within"۔ The New Yorker۔ 2 جون 2008۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2015 
  9. al-Kalim al-Tayyib vol. 2, p. 417
  10. Zareena Grewal (2010)۔ Islam Is a Foreign Country: American Muslims and the Global Crisis of Authority۔ New York University Press۔ صفحہ: 191۔ ISBN 1-4798-0090-2 
  11. Gabriele Marranci (2013)۔ Studying Islam in Practice۔ Routledge۔ صفحہ: 54۔ ISBN 1-317-91424-4 
  12. Egypt Independent: "Opposing currents: Internal rifts may risk the credibility of Egypt’s religious institutions" by Mai Shams El-Din 25 فروری 2013
  13. Carnegie Endowment: "Salafis and Sufis in Egypt" by Jonathan Brown دسمبر 2011 | p 12 | "۔.۔the current Grand Mufti of Egypt and senior al-Azhar scholar Ali Gomaa is also a highly respected Sufi master.
  14. Ali Gomaa website: Fatwa on Sufism آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ali-gomaa.com (Error: unknown archive URL) retrieved 29 جون 2013
  15. Islamica Magazine, Issue #12, Spring 2005
  16. al-Ahram 1 Oct 2005

بیرونی روابط[ترمیم]