علی قوشجی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
علی قوشجی
(عثمانی ترک میں: علی قوشچی ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1403ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سمرقند  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 16 دسمبر 1474ء (70–71 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قسطنطنیہ،  استنبول  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن قبرستان ایوب  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت تیموری سلطنت (1403–1469)
سلطنت عثمانیہ (1470–16 دسمبر 1474)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ ریاضی دان،  ماہر فلکیات،  طبیعیات دان،  منجم،  معلم،  ماہرِ لسانیات  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی،  عربی،  ترکی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت رصدگاہ الغ بیگ،  آیاصوفیا  ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں زیج سلطانی  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استنبول میں واقع علی قوشجی کی آخری آرام گاہ
استنبول میں واقع علی قوشجی کی قبر کا کتبہ

علاء الدین علی قوشجی یا علی ابن محمد سمرقندی (پیدائش: 1403ء — وفات: 16 دسمبر 1474ء) مسلم ریاضی دان، ماہر طبیعیات، ماہر فلکیات اور منجم تھے۔ اُن کا تعلق سمرقند سے تھا۔سمرقند سے وہ استنبول یعنی سلطنت عثمانیہ میں رہائش پزیر ہوئے۔ علی قوشجی الغ بیگ کے شاگرد تھے جو طبیعیات، فلکیات اور طبعی فلسفہ اور تجرباتی دلائل سمیت گردش زمین کے نظریات کی وجہ سے مشہور ہیں۔ علی قوشجی زیج سلطانی کی تیاری میں الغ بیگ کے ہمراہ فلکیاتی مشاہدات میں شریک رہے۔ یہ شراکت اُن کی رصدگاہ الغ بیگ میں اِقامت کی وجہ سے بھی ہے۔ بعد ازاں علی قوشجی جب استنبول منتقل ہوئے تو وہاں صحن سمنان مدرسہ کی بنیاد رکھی جو سلطنت عثمانیہ کے عہد میں اپنی طرز کا ایک جدید ترین ادارہ تھا جہاں اسلامی روایتی سائنس کے علوم اور فلکیات بالخصوص پڑھائے جاتے تھے۔ علی قوشجی کی وجہ شہرت اُن کی علم فلکیات پر لکھی گئی کتب بھی ہیں۔

سوانح[ترمیم]

پیدائش اور ابتدائی حالات[ترمیم]

علی قوشجی 1403ء میں سمرقند میں پیدا ہوئے ۔ اُن کا اصل نام علاء الدین علی ابن محمد القوشجی ہے۔ قوشجی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ علی کے والد محمد سلطان الغ بیگ کے شاہی باز بردار تھے اور باز کو ترکی زبان میں قوشچو کہتے ہیں۔[1][2]

ابتدائی تعلیم[ترمیم]

علی قوشجی کی ابتدائی تعلیم کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ابتدائی تعلیم قاضی زادہ رومی (متوفی 1436ءغیاث الدین مسعود جمشید کاشانی (متوفی 1429ءمحی الدین کاشی سے حاصل کی۔ قاضی زادہ رومی سے علم ریاضی اور حکمت و فلکیات پڑھا جبکہ غیاث الدین مسعود جمشید کاشانی سے بھی علم فلکیات، حکمت اور علم نجوم پڑھا۔

تحقیق و مشاہدہ[ترمیم]

ابتدائی تعلیم کے بعد علی قوشجی کرمان چلے گئے جہاں انھوں نے خلیج عمان کے ساحلوں سے اُٹھنے والے طوفانوں پر تحقیق شروع کی۔ اِسی دوران انھوں نے اپنی تصنیف حال اشکال القمر لکھی جس میں چاند کی مختلف اشکال پر بحث کی گئی تھی اور کرمان میں رہتے ہوئے دوسری کتاب شرح تجرید لکھی۔ 1423ء میں وہ عبدالرحمٰن جامی سے علم کی تحصیل کی خاطر ہرات چلے گئے۔

سلطان الغ بیگ کی ہمراہی[ترمیم]

ہرات میں تحصیل علم کے بعد سمرقند واپس آئے اور رصدگاہ الغ بیگ میں سلطان الغ بیگ کے ہمراہ چاند کی حرکت و اشکال پر تحقیق میں شامل ہوئے۔ رصدگاہ الغ بیگ میں علی قوشجی سلطان الغ بیگ کے قتل تک کام کرتے رہے۔ 27 اکتوبر 1449ء کو جب سلطان الغ بیگ کو اُس کے بیٹے عبداللطیف مرزا نے قتل کروا دیا تو رصدگاہ الغ بیگ پر برا وقت آگیا اور منجمین یہاں سے دوسرے ممالک کو منتقل ہونے لگے جن میں علی قوشجی بھی شامل تھے۔[3]

سلطنت عثمانیہ میں رہائش[ترمیم]

سلطان الغ بیگ کے قتل کے بعد علی قوشجی ہرات، تاشقند گئے اور آخر میں تبریز پہنچے جہاں وہ 1469ء تک مقیم رہے۔ تبریز اُس وقت آق قویونلو حکمرانوں کا دار الحکومت تھا۔ جب 1469ء میں اوزون حسن نے عثمانی سلطان محمد فاتح کے دربار میں اپنا وفد بھیجا تو علی قوشجی کو بھی اِس وفد میں تبریز سے روانہ کیا تھا۔ استنبول پہنچ کر اُن کی ملاقات سلطان محمد فاتح سے ہوئی اور اَب علی قوشجی نے ہرات اور تبریز کی بجائے استنبول میں رہائش کو مقدم جانا کیونکہسلاطین عثمانیہ کا رجحان سائنس اور فلکیات کی طرف دوسرے حکمرانوں کی نسبت زیادہ تھا۔ استنبول میں وہ آخر عمر تک مقیم رہے۔[4]

وفات[ترمیم]

علی قوشجی نے تقریباً 70 سال کی عمر میں 16 دسمبر 1474ء کو استنبول میں وفات پائی۔ اُن کی تدفین قبرستان ایوب، استنبول میں کی گئی۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. George Vlahakis (2006)، Imperialism and science: social impact and interaction، ABC-CLIO، صفحہ: 75، ISBN 978-1-85109-673-2 
  2. Gábor Ágoston، Masters, Bruce Alan (2009)، Encyclopedia of the Ottoman Empire، Infobase Publishing، صفحہ: 35، ISBN 978-0-8160-6259-1 
  3. Osmanlı imparatorluğunun doruğu 16. yüzyıl teknolojisi, Editor Prof. Dr. Kazım Çeçen, Istanbul 1999, Omaş ofset A.Ş.
  4. G. Akovalı, Z. A. Mansūrov, The role of government and research institutes in the planning of research and development in some Central Asian and Caucasian republics, IOS Press, 2000,آئی ایس بی این 1-58603-022-1, آئی ایس بی این 978-1-58603-022-3, p.230,[1]