فضل ابن الربیع

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
فضل ابن الربیع
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 755ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
الخلیل  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 823ء (67–68 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد الربیع ابن یونس  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان جوینی خاندان  ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
وزیر   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برامکہ 
 
عملی زندگی
پیشہ ریاست کار  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

فضل ابن الربیع (پیدائش: 755ء ‒ وفات: 823ء) خلافت عباسیہ کا مشہور وزیر اور خلیفہ امین الرشید کا حاجب (وزیر) تھا۔

ابتدائی حالات[ترمیم]

نسب[ترمیم]

فضل ابن الربیع خلیفہ سؤم حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ کے آزاد کردہ شامی غلام ابو فروہ کیسان کی نسل سے تھا۔ نسب یوں ہے: الفضل ابن الربیع بن یونس بن محمد بن ابی فروہ کیسان۔

پیدائش[ترمیم]

فضل ابن الربیع 138ھ مطابق 755ء میں الخلیل میں پیدا ہوا۔

خلافت عباسیہ میں اثر و رسوخ[ترمیم]

فضل ابن الربیع خلیفہ ہارون الرشید کے یہاں بڑا مرتبہ رکھتا تھا اور برامکہ کی حکومت کا زوال بھی فضل کے ہاتھوں ہوا۔ فضل ہارون الرشید کا وزیر بھی رہا۔ یہ خود برامکہ سے تشبہ رکھتا تھا اور وہ بھی اِس سے تشبہ رکھتے تھے۔ فضل مسلسل برامکہ کے متعلق مقدور بھر کوشش کرتا رہا یہاں تک کہ وہ اپنے انجام کو پہنچ گئے۔[1]

بحیثیت وزیر خلافت عباسیہ اور واقعات[ترمیم]

فضل عربی النسل تھا جبکہ مقابلے پر فضل ابن سہل فارسی النسل تھا جو خلیفہ مامون الرشید کا وزیر تھا۔ فضل اُن متعدد فارسی عناصر کے مقابلے میں جو خلافت عباسیہ کے اندر کام کر رہے تھے‘ ہمیشہ عربی جذبات کی حمایت کرتا رہا اور اپنے روئیے سے بھی اُس نے خالص عرب ہونے کا ثبوت دیا۔ فضل کے والد الربیع بن یونس نے دو سابق خلفائے عباسی ابو جعفر المنصور اور المہدی باللہ کے حاجب اور وزیر کی حیثیت سے بھی سیاسی واقعات کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ ہارون الرشید نے جب اپنی تخت نشینی پر برامکہ کو اِس پر ترجیح دی تو فضل نے اِس بات میں اپنی اہانت محسوس کی اور اِس کا دل برامکہ کے خلاف بغض و حسد سے بھر گیا۔ ہارون الرشید نے اِسے 173ھ مطابق 789ء میں اپنا وزیر مقرر کیا۔ اور 178ھ مطابق 794ء تک فضل اِس منصب پر فائز رہا۔ یہاں تک کہ عنانِ حکومت صحیح معنوں میں یحییٰ بن خالد برمکی کے ہاتھوں میں چلی گئی، جس پر فضل نے برامکہ کا تختہ اُلٹ دینے کی زبردست کوشش شروع کردی اور آخرِ کار حصولِ وزارت میں کامیاب ہو گیا۔ ہارون الرشید کے فرزند اور جانشین امین الرشید کے عہد میں بھی منصبِ وزارت فضل ابن الربیع کے پاس ہی رہا۔ جیسے فضل امین الرشید پر مکمل طور پر حاوی ہو چکا تھا، بالکل اِسی طرح اِس کا ہم نام الفضل ابن سہل بھی مامون الرشید پر حاوی تھا اور یہ دونوں بھائی وزراء کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے۔ جمادی الثانی 193ھ مطابق مارچ 809ء میں رافع بن لیث کی بغاوت کا استیصال کرتے ہوئے ہارون الرشید اچانک خراسان میں اِنتقال کرگیا تو فضل نے خلیفہ متوفیٰ کی آخری خواہش کے برخلاف امین الرشید کے حسبِ فرمان حکم دے دیا کہ خراسان کی طرف کوچ کرنے والا سارا لشکر واپس بغداد آ جائے۔ یہ ایک ایسی کارروائی تھی جس کا مامون الرشید نے جو اُن دِنوں خراسان کا گورنر اور اپنے باپ کے اِنتقال پر اپنے بھائی امین الرشید کی بیعت کرچکا تھا، کوئی سدِ باب نہ کرسکا۔ فضل کو ڈر تھا کہ اگر مامون الرشید خلیفہ بن گیا تو وہ ضرور اُس سے اِنتقام لے گا، لہٰذا اُس نے امین الرشید کو مامون الرشید کے خلاف اُکسانا شروع کر دیا۔ بالکل ایسا ہی رویہ الفضل ابن سہل مامون الرشید کے ساتھ کر رہا تھا۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 194ھ مطابق 810ء میں خراسان کے ایک سابق گورنر علی ابن عیسیٰ ابن ہامان کی تحریک پر خلیفہ امین الرشید نے حکم دیا کہ مامون الرشید کی بجائے خطبۂ جمعہ میں اُس کے نو عمر بیٹے موسیٰ کا نام لیا جائے۔ یہ اِس اَمر کا کھلم کھلا اعلان تھا کہ وہ اپنا جانشین مقرر کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا مامون الرشید نے اپنے بھائی سے سارے تعلقات منقطع کرلیے۔[2]

آخری ایام اور وفات[ترمیم]

ماہِ رجب 196ھ مطابق مارچ 812ء میں جب امین الرشید کو قید کر لیا گیا تو فضل کی معزولی کا بھی اعلان ہو گیا۔ مامون الرشید کے داخلۂ بغداد کے وقت فضل روپوش ہو گیا تھا جبکہ المامون نے اِسے پروانۂ اَمان بھیجا تو فضل مامون الرشید کے پاس چلا آیا۔ دربارِ خلافت سے دوبارہ اَمان ملنے پر وہ وزیر کی حیثیت سے فائز ہو گیا مگر اِس بار فضل نے سیاست سے کنارہ کشی میں ہی عافیت سمجھی اور گوشہ نشیں ہو گیا۔201ھ مطابق 817ء میں فضل ایک بار پھر گوشۂ خلوت سے نکلا جب دار الخلافہ بغداد کی فوجوں نے مامون الرشید کے گورنر حسن بن سہل کے خلاف بغاوت کردی اور شروع شروع میں سپہ سالار بغداد محمد بن ابی خالد کو اگرچہ کامیابی ہوئی، لیکن جب مامون الرشید کے دوسرے سپہ سالروں سے اِس کی چپقلش ہو گئی تو وہ باغیوں سے جا ملا۔ اِس پر فضل نے بھی محمد بن ابی خالد کا ساتھ دیا۔ محمد بن ابی خالد نے حسن بن سہل پر حملہ کر دیا لیکن شکست ہوئی اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کرگیا۔ اِس واقعہ کے بعد فضل مرتے دم تک گوشہ تنہائی میں زندگی بسر کرتا رہا اور طاہر بن الحسین‘ گورنر خراسان کی سفارش پر مامون الرشید نے اِسے معاف کر دیا۔ مسلسل گمنامی کی حیثیت سے وہ بغداد میں ہی مقیم رہا اور 68 سال کی عمر میں 208ھ مطابق 823ء میں اِنتقال کرگیا۔[3][4][5][6]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ابن کثیر: البدایہ والنہایہ، جلد 10، صفحہ 321۔ مطبوعہ لاہور
  2. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 15، صفحہ 367/368۔ مطبوعہ لاہور، 2006ء
  3. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 15، صفحہ 367/368۔ مطبوعہ لاہور، 2006ء
  4. الیافعی: مرآۃ الجنان، جلد 2، صفحہ 42۔
  5. طاش کوپروزادہ: مفتاح السعادۃ، جلد 2، صفحہ 164۔
  6. خطیب بغدادی: تاریخ بغداد، جلد 12، صفحہ 343۔