قابل آدمی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اضغط هنا للاطلاع على كيفية قراءة التصنيف
اضغط هنا للاطلاع على كيفية قراءة التصنيف

قابل آدمی

Homo habilis
دور: 2.1–1.5 ما
Early وسط حیاتی دور

اسمیاتی درجہ نوع[1]  ویکی ڈیٹا پر (P105) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت بندی
مملکت: جانور
جماعت: ممالیہ
طبقہ: حیوانات رئیسہ
خاندان: Hominidae
جنس: ہومو (جنس)
نوع: H. habilis
سائنسی نام
Homo habilis[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P225) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

قابل آدمی متعلقات بشر کے قبیلہ کی نوع ہے، جو گالئسائی دور کے دوران برفانی عہد کے ابتدائی کالبری دور میں تھا۔ تقریبا 2.8 سے 1.5 ملین سال پہلے۔[3]

رکازات[ترمیم]

او ایچ 62[ترمیم]

رکازی باقیات کا ایک مجموعہ ہے، جسے Olduvai Gorge سے ٹم ڈی وائٹ اور دونلڈ جوہانسن نے 1986ء میں دریافت کیا تھا۔ اس میں اہم بالائی اور زیریں اعضاء شامل ہیں۔[4] ان کی تلاش میں کافی بحث و مباحثہ ہوا۔[5]

کنم آر 1813

کنم ار 1813[ترمیم]

KNM ER 1813 یا کنم ار 1813 ایک 1.9 ملین سال پرانی نسبتا مکمل کھوپڑی ہے، جسے 1973ء کوبی فورا کینیا سے کمویا کمیو نے دریافت کیا تھا۔ دماغ کا حجم 510 cm³ ہے۔ یہ دیگر ابتدائی نمونہ کے طور پر کے طور پر متاثر کن نہیں۔[6]

او ایچ 24[ترمیم]

او ایچ 24 یا OH 24 جسے عرف عام میں ٹویگی کہا جاتا ہے 1968ء تنزانیا سے دریافت ہونے والے 1.8 ملین سال پرانے اس کے رکاز ہیں، دماغ کا حجم صرف 600 cm³ ہے۔

او ایچ 7[ترمیم]

او ایچ 27 یا OH 7 رکاز 1.75 ملین سال قدیم ہے، اسے 4 نومبر 1960ء کو تنزانیا کے شہر اولڈی گورجی سے میری اور لیوئس لیکی نے دریافت کیا۔ یہ ایک مکمل دانتوں کے ساتھ نچلا جبڑا ہے، جس کے دانت کافی چھوٹے ہیں جس وجہ سے ماہرین اسے ایک بچہ قرار دیتے ہیں جس کے دماغ کا حجم 363 cm³ تھا۔ اس کے ساتھ بائیں ہاتھ کے 20 سے زائد ٹکڑے شامل ہیں۔ ٹوبیس اور نیپئر کی مدد سے اس رکاز کی درجہ بندی بطور OH 7 کی گئی۔[7]

بطور انسان درجہ بندی[ترمیم]

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ سلف انسانی کا سلسلہ قابل آدمی سے شروع ہوتا ہے۔ جس سے کھڑے آدمی نے جنم لیا اور اس سے باشعور آدمی نے پھر باشعور باشعور آدمی یعنی جدید انسان نے جنم لیا۔ اصولی طور پر ظہور انسانی کا ارتقائ قابل آدمی کے ظہور سے پہلے ہو چکا گا۔ قابل آدمی وہ نسل ہے جس کے اعضاء مسٹر اور مسز لیکی کو 1960 میں آلڈووائی کی گھاٹی 270 میٹر دور اس سے 60 میٹر عمیق تر کھدائی کئی افراد کے مجحرات ملے تھے۔ ان کو انھوں نے قابل آدمی Homo habilis کا نام دیا تھا۔ یہ ستر لاکھ سال قبل کی مخلوق ہے۔ چیالان پو کا خیال ہے کہ ارتقائی تبدیلیوں کے زمانی وسعت کو دیکھیں تو ظہور آدم سے بہت پہلے ہو چکا ہوگا۔ وہ کہتا ہے کہ ’’ اس حقیقت کے پیش نظر یہ کہنا بجا ہے کہ تاریخ انسانی کوئی تیس لاکھ سال پرانی ہے ‘‘۔

جنوبی مانس تیس لاکھ سال پرانا زمانہ اس کی بھر پور زندگی کی شہادت دیتا ہے۔ آلڈ ووائی کی گھاٹی اور کوبی فورا سے ڈھیروں پتھریلے اوزار ملے ہیں۔ جن کی عمر ساڑھے سترہ لاکھ سال ہے۔ ان میں کلہاڑی اور چھری قسم کے اوزار ملے ہیں جو پتھر کے بنے ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ جانوروں کی کٹی ہوئی ہڈیاں ملی ہیں، جو ظاہر کرتی ہیں کہ ان سے گوشت کاتنے کا کام لیا جاتا تھا۔

آلڈووائی کی گھاٹی میں ان لوگوں کی اجتماعی رہائش کا ثبوت ملا ہے۔ یہاں پتھروں کو ایک دائرے میں لگایا گیا ہے۔ پھر یہاں پتھروں کے اوزار ملے ہیں اور جانوروں کی ہڈیاں بھی ملی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ گروہوں کی شکل میں بار بار اس جگہ پلٹے ہیں۔ یہ جگہ ان کا گھر یا گاؤں تھا۔

شواہد کے مطابق اس مخلوق کا اولین زمانہ تو جنگل سے پر معلوم ہوتا ہے۔ لیکن بعد میں آب و ہوا گرم ہوجانے کے باعث جنگلات چھدرے یا ختم ہو گئے ہوں اور زیادہ میدانی اور گیاہستانی علاقہ رہ گیا ہوگا، کچھ جنگلات کے کم ہوجانے کے باعث اور اپنے فیصلے سے مانس درخت کو ترک کر کے زمین پر آئے۔ اول اول خوراک کی فراہمی کے لیے ہتھیار استعمال کیے۔ اوزار کے استعمال نے اسے مجبور کیا کہ کہ ہاتھوں کو چلنے کے لیے نہیں استعمال نہ کرے۔ پاؤں پر چلنا اس کے رجحان میں تھا ہی، اس ضرورت نے اس کو پکا کیا اور وہ دو پایا بن گیا اور اوزار داری نے اس کے دماغ کو ترقی دی۔ دماغ کی ترقی نے اوزاروں کو ترقی دی، یعنی اس نے خود اوزار بنانے شروع کر دیے۔ زیادہ ترقی یافتہ نے پھر ذہن کو مزید جلا بخشی۔ دماغ کی ترقی اور اوزاروں کی ترقی کے باہمی تعامل نے اس نسل کی اجتماعی ترقی کو آگے بڑھایا ۔

چار سے پانچ فٹ کا یہ انسان 100 سے 150 پونڈ وزن رکھتا تھا۔ دوڑتے وقت یہ طرفین کو چھولتا چلتا تھا۔ مگر چلتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلتا تھا۔ یہ گوشت خور تھا۔ جانوروں کا شکار بغیر ہتھیار کے کرتا تھا۔ صرف جانور کی عادات کا علم اور گھاٹ لگانے کا جن جان کر کام چلالیتا تھا۔ غاروں یا قدرتی پہاڑی چھجوں کے نیچے عموم رہائش رکھتا تھا۔

اس دور کی بھی اپنی سائنس بھی تھی اور فلسفہ بھی تھا۔ اس کا فلسفہ صرف دو باتوں میں مہارت رکھتا تھا۔ اپنی زندگی کی حفاظت اور خوراک کا حصول، موسم کی غارت گری سے محفوظ رہنے کے لیے پناہ گاہوں کی تلاش، جنگلی جانوروں اور درندوں سے بچنے کے لیے مل جل کر رہنا اور خوراک کی تلاش کے لیے نباتات کا کچھ علم اور شکار کے جانوروں کی عادات کا علم۔

سائنس کی ترقی صرف اتنی تھی کہ اوزار کس طرح استعمال کرنے ہیں اور پھر یہ کس طرح بناتے ہیں، اس نسل کی حیرت انگیز ترقی کا راز اس کے اوزاروں سے وابستگی میں ہے۔

اس دور کی جتنی بھی باقیات ملی ہیں ان میں کسی مذہب کے آثار یا شواہد نہیں ملے ہیں ۔[8]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ عنوان : Genera of the human lineage — جلد: 100 — صفحہ: 7688 — شمارہ: 13 — https://dx.doi.org/10.1073/PNAS.0832372100https://pubmed.ncbi.nlm.nih.gov/12794185https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC164648
  2.   ویکی ڈیٹا پر (P830) کی خاصیت میں تبدیلی کریں"معرف Homo habilis دائراۃ المعارف لائف سے ماخوذ"۔ eol.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مارچ 2024ء 
  3. Friedemann Schrenk, Ottmar Kullmer, Timothy Bromage, "The Earliest Putative Homo Fossils", chapter 9 in: Winfried Henke, Ian Tattersall (eds.), Handbook of Paleoanthropology, 2007, pp 1611–1631, doi:10.1007/978-3-540-33761-4_52 Villmoare B, Kimbel H, Seyoum C, Campisano C, DiMaggio E, Rowan J, Braun D, Arrowsmith J, Reed K. (2015). Early Homo at 2.8 Ma from Ledi-Geraru, Afar, Ethiopia. Science. DOI:10.1126/science.aaa1343 This date range overlaps with the emergence of کھڑا آدمی. نیو یارک ٹائمز article Fossils in Kenya Challenge Linear Evolution published August 9, 2007.
  4. Donald C. Johanson, Fidelis T. Masao, Gerald G. Eck, Tim D. White, Robert C. Walter, William H. Kimbel, Berhane Asfaw, Paul Manega, Prosper Ndessokia & Gen Suwa (21 May 1987)۔ "New partial skeleton of Homo habilis from Olduvai Gorge, Tanzania"۔ Nature۔ 327 (6119): 205–209۔ PMID 3106831۔ doi:10.1038/327205a0 
  5. Wood, Bernard (21 May 1987)۔ "Who is the 'real' Homo habilis?"۔ Nature۔ 327 (6119): 187–188۔ PMID 3106828۔ doi:10.1038/327187a0 
  6. KNM ER 1813". Human Origins Program. Smithsonian Institution. Retrieved 2006-07-14.
  7. Lieberman, Wood & Pilbeam 1996, pp. 4–6
  8. یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور