قاضی عبد الوحید فردوسی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
قاضی عبد الوحید فردوسی
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 30 ستمبر 1872ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 21 اپریل 1908ء (36 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش پٹنہ شہر  ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
فقہی مسلک حنفی
عملی زندگی
تعلیمی اسناد ایف اے
پیشہ عالم،  مدیر،  مصنف،  ناشر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

قاضی عبد الوحید فردوسی عظیم آبادی (27 رجب 1289ھ – 19 ربیع اولاول 1326ھ)[1] ایک ہندوستانی مسلمان مبلغ و عالم دین تھے۔ تحریک ندوہ کے شدید ناقد تھے، اپنے معاصر ڈھائی سو علما سے ندوہ کی مخالفت میں خطوط منگوا کر مجوعہ شائع کیا،[2] کئی جلسے کیے،[3] امام اہل سنت امام احمد رضا خان محدث بریلوی کو ایک خط لکھا جس میں ندوہ کے رد کے لیے اخبار ندوہ حنفیہ کا آغاز کرنے کے لیے علمی اعانت چاہی۔[4] ندوہ و وہابیت کے رد کے لیے مجلس عالی حمایت سنیت محمدی (1315ھ) میں قائم کی اور ایک مطبع مطبع اعوان اہل سنت و جماعت کا قیام عمل میں لائے، یہ تحریک ممتاز علما و مشائخ مولانا شاہ اکبر داناپوری، امام احمد رضا خاں، شیخ امین احمد فردوسی اور شاہ محسن داناپوری جیسے نامور ہستیوں کے ساتھ شروع کی گئی، جمادی الاول 1315ھ ہی میں ایک ماہنامہ رسالہ مخزن تحقیق ملقب بہ تحفۂ حنفیہ نکالنا شروع کیا۔ 1318ھ میں مدرسہ حنفیہ کی بنیاد رکھی۔

تعلیم[ترمیم]

قاضی عبد ہلوحید نے مروجہ نصاب کے مطابق مشرقی تعلیم حاصل کی ساتھ ہی انٹرنس اور ایف اے کے امتحانات بھی پاس کیے۔ ان کے والد قاضی عبد المجید ان کو مزید حصول تعلیم کے لیے انگلستان بھیجنا چاہتے تھے لیکن انھوں نے صاف انکار کر دیا۔[5]

خدمات[ترمیم]

تحفۂ حنفیہ[ترمیم]

ماہنامہ رسالہ تحفۂ حنفیہ کا آغاز 1315ھ بمطابق 1898ء میں شروع کیا۔ رسالے کا تاریخی نام مخزن تحقیق اور اشاعتی نام تحفۂ حنفیہ تھا۔ رسالے کے سرورق پر

حمایت اسلام و تائید شرع و اصحاب سنت و نکایت کفر و بدعت و تہدید ارباب ضلالت و بطالت

کی عبارت موقوم ہوتی۔ امام احمد رضا خان کا نعتیہ دیوان حدائق بخشش حصہ اول پہلی مرتبہ تحفۂ حنفیہ ہی میں محرم 1325ھ سے 1326ھ تک شائع ہوا۔

مدرسہ حنفیہ[ترمیم]

1318ھ بمطابق 1900ء میں مدرسہ حنفیہ کے نام سے مدرسہ قائم کیا۔ مدرسہ ایک بڑے گھر میں قائم کیا گیا تھا، جسے مولانا کے والد نے وقف کے طور پر پیش کیا تھا۔ اس مدرسے میں تقریباً سو طلبہ تھے، جن میں سے اکثر کا تعلق سرحدی علاقوں سے تھا۔[6] افتتاحی جلسے کی صدارت شاہ محمد کمال ریئس اعظم پٹنہ نے کی اور سید سلیمان اشرف بہاری نے علم دین کے موضوع پر تقریر کی۔ اس مدرسے کے صدر مدرس بدایوں کے مولانا فضل حق تھے، کچھ عرصہ سید دیدار علی شاہ نے بھی اس عہدہ پر خدمات سر انجام دیں۔[7] تدریس کے لیے چھ سات اساتذہ تھے، مدرسے کے اخراجات رضاکارانہ تعاون اور زکوۃ کے طور پر حاصل ہونے والی چندے کی رقم سے پورے ہوتے تھے۔ لیکن ابتدائی سالوں ہی سے اسے مالی دشواریوں کا سامنا لاحق ہو گیا۔[8]

وفات[ترمیم]

فقط 37 سال کی عمر پائی، 19 ربیع اولاول 1326ھ[1] بمطابق[9] 21 اپریل 1908ء کو وفات پائی، شیخ المحدثین مولانا وصی احمد محدث سورتی نے غسل دیا اور امام احمد رضا خان بریلوی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ کچی درگاہ موضع جمٹھلی شریف ضلع پٹنہ میں شیخ شہاب الدین عرف پیر جگ جوت کے مزار کی داہنی جانب مدفون ہوئے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب مقالات قاضی عبد الودود بیگ مرتبہ پروفیسر کلیم الدین احمد، صفحہ 1
  2. سوالات حق نما برؤس ندوۃ العلماء 1303ھ
  3. فک فتنہ از بہار و پٹنہ، مرتبہ حکیم مومن سجاد چشتی، 1314ھ
  4. مکتوبات علما و کلام اہل صفا، مدتبہ مولانا سید عبد الکریم بریلوی
  5. مقالات قاضی عبد الودود مرتبہ پروفیسر کلیم الدین احمد، صفحہ 3
  6. عقیدت پر مبنی اسلام اور سیاست اعلیٰ حصرت مولانا احمد رضا خان اور ان کی تحریک 1870-1920، ڈاکٹر اوشا سانیال، کتاب محل، مترجم، ڈاکٹر وارث مظہری، صفحہ 93
  7. روداد مدرسہ 1320ھ، از قاضی عبد الوحید عظیم آبادی
  8. عقیدت پر مبنی اسلام اور سیاست اعلیٰ حصرت مولانا احمد رضا خان اور ان کی تحریک 1870-1920، ڈاکٹر اوشا سانیال، کتاب محل، مترجم، ڈاکٹر وارث مظہری، صفحہ 93
  9. https://habibur.com/hijri/1326/3/