قبیصہ بن عقبہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت قبیصہ بن عقبہؒ
معلومات شخصیت

حضرت قبیصہ بن عقبہؒ کا شمار تبع تابعین میں ہوتا ہے۔

نام ونسب[ترمیم]

قبیصہ نام اورابو عامر کنیت تھی [1]نسب نامہ یہ ہے،قبیصہ بن عقبہ بن محمد بن سفیان بن عقبہ بن ربیعہ بن جنید بن رثاب بن حبیب بن سواءۃ بن عامر بن صعصعہ [2] جیسا کہ اس شجرہ نسب سے ظاہر ہے،ان کا نسبی تعلق بنو سواۃ سے تھا، اسی باعث سوائی کہلاتے ہیں۔ [3]

ولادت اوروطن[ترمیم]

ان کے سنہ ولادت کے بارے میں کوئی تصریح تذکروں میں نہیں ملتی،لیکن بعض قرائن کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ: 138ھ یا 140ھ میں ان کی ولادت ہوئی،حافظ ابن حجر نے یحییٰ بن یعمر کا یہ قول نقل کیا ہے کہ امام قبیصہ یحییٰ بن آدم سے دو ماہ بڑے تھے [4]اورقاضی یحییٰ بن آدم کے سالِ ولادت کے بارے میں علما کا قوی قرینہ مذکور ہ بالا سنین ہیں،بہرحال اتنا تو شک سے بالا ہے کہ قبیصہ کو امام ابن آدم کی معاصرت حاصل تھی،وہ کوفہ کے رہنے والے تھے۔

علم و فضل[ترمیم]

علمی کمالات کے اعتبار سے ممتاز اتباع تابعین کی جماعت میں داخل تھے انھوں نے تابعین عظام سے شرف لقا کے حصول کے ساتھ ان سے استفاضہ کی سعادت بھی حاصل کی تھی اوراکابر علما کے فیض تربیت نے انھیں بلند علمی منصب عطا کر دیا تھا۔ زہد وورع، حفظ وذہانت،عبادت وریاضت اوراس کے ساتھ ثقاہت وعدالت،تمام اوصاف سے متصف تھے، یوں توحدیث ان کا اصل تمغا امتیاز تھی،لیکن اس کے علاوہ بھی دوسرے علوم میں دسترس ومہارت رکھتے تھے،امام احمد فرمایا کرتے تھے کہ کونسا علم ہے جو قبیصہؒ کے پاس نہیں [5]اسحاق بن یسار بیان کرتے ہیں: مارأیت شیخا احفظ منہ [6] میں نے ان سے بڑھ کر حافظِ حدیث نہیں دیکھا۔ ابن عماد الحنبلی "العابد الثقۃ احد الحفاظ"اورحافظ ذہبی "الحافظ الثقہ المکثر" لکھ کر ان کے علم و فضل کا اعتراف کرتے ہیں۔ [7]

حدیث[ترمیم]

اوپر مذکور ہوا کہ امام قبیصہؒ کے فکر ونظر کی اصل جو لانگاہ حدیثِ نبویﷺتھی اس کی تحصیل انھوں نے نہ صرف عالی مرتبہ تبع تابعین سے کی تھی ؛بلکہ متعدد تابعین کے دامنِ فیض سے وابستہ رہ کر اس فن کے نکات واسرار میں مہارت پیدا کی تھی، اس کا اندازہ ان کے شیوخ حدیث کی درجِ ذیل فہرست سے بخوبی ہوجاتا ہے: مسعر بن کدام، عیسیٰ بن طہمان(تابعین) امام شعبہ،جراح بن ملیح (امام وکیع کے والد)سفیان ثوری،اسرائیل بن یونس، حماد بن سلمہ، یونس بن اسحاق،عبد العزیز ابن الماجشون یحییٰ بن سلمہ ،حمزہ بن حبیب الزیات اوروہب بن اسماعیلؒ۔ [8]

تلامذہ[ترمیم]

خود امام قبیصہؒ سے مستفیض ہونے اورسماعِ حدیث کرنے والے تشنگانِ علم کا دائرہ بہت وسیع ہے ان کے آفتابِ علم کی کرنوں سے امام بخاری اورابوزرعہ جیسے اعیان حفاظِ حدیث کے قلوب بھی منور ہوئے،کچھ نامور علما کے نام یہ ہیں: ابوبکر بن ابی شیبہ حارث بن اسامہ،یحی بن بشر البلخی،ھناد بن السری، محمود بن غیلان،عثمان بن ابی شیبہ،محمد بن خلف،محمد بن یونس النسائی، بکر بن خلف،ابو عبید القاسم بن سلام، احمد بن حنبل، عباس الدوری، جعفر بن محمد الصائغ،اسحاق بن یسارؒ [9]

مرویات کا پایہ[ترمیم]

ماہرین جرح و تعدیل نے ان کی ثقاہت اورتثبت واتقان کو کثرتِ رائے سے تسلیم کیا ہے ،امام احمد فرماتے ہیں۔ کان قبیصۃ ثقۃ صالحاً لابأس بہ [10] قبیصہ ثقہ صالح تھے ان کی روایات قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ابن خراش کا قول ہے "صدوق صالح" امام نسائی " لیس بہ باس" کہتے ہیں۔ جو بعض علما ان کی مرویات کے قابلِ حجت ہونے پر کلام کرتے ہیں،وہ بھی علی الاطلاق انھیں ناقابلِ استناد نہیں قرار دیتے ؛بلکہ صرف مرویات سفیان ثوری کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ چونکہ قبیصہؒ نے امام ثوریؒ سے نہایت صغر سنی میں حدیث کا سماع کیا تھا اس لیے خاص امام سفیانؒ سے ان کی روایات کا پایہ ثقاہت اتنا بلند نہیں جتنا دوسرے شیوخ سے ان کی مرویات کا ہے؛چنانچہ ابن معین کا بہت صریح بیان ہے کہ: قبیصہ ثقۃ فی کلی شیئی الا فی حدیث سفیان فانہ سمیع منہ وھو صغیرٌ [11] قبیصہ امام سفیان ثوری کی حدیث کے علاوہ ہر باب میں ثقہ ہیں ہاں سفیان سے انھوں نے صغر سنی میں سماعت کی تھی،(اس لیے وہ معتبر نہیں) لیکن خود امام قبیصہ کا بیان ہے کہ انھوں نے امام سفیان ثوری سے جس وقت شرفِ صحبت حاصل کیا ان کی عمر سولہ سال تین ماہ تھی[12]اگر یہ صحیح ہے تو پھر ان کی سفیان ثوری سے روایت کردہ حدیثوں کے قابلِ حجت نہ ہونے کا کوئی سوال نہیں ہے ؛کیونکہ اس عہد میں سولہ سال کی عمر میں طالبانِ علم نہ صرف مسند نشین درس وافتاء ہوجاتے تھے ؛بلکہ ان کے فضل وکمال کا شہرہ چاردانگِ عالم میں پھیل جاتا تھا،مثال کے لیے امام شافعی کا نام کافی ہے۔ علامہ ابن سعد قبیصہ کی ثقاہت کے بارے میں رقمطراز ہیں: کان ثقۃ صدوقاً کثیرا الحدیث عن سفیان الثوری [13] وہ ثقہ صدوق اورامام ثوری سے بکثرت روایت کرنے والے تھے۔ حافظ ابن اثیر الجزری لکھتے ہیں کہ وہ ثقہ اورکثیر الروایت تھے۔ [14]

مناقب وفضائل[ترمیم]

وہ علم و فضل میں بلند پایہ ہونے کے ساتھ گوناگوں اخلاقی اور عملی محامد کا مجموعہ بھی تھے،عبادت وصالحیت،زہد وتقوی اورتواضع وانکسار ان کے خاص جوہر تھے،اسی باعث زاہد اورراہب کوفہ کے لقب سے ملقب ہو گئے تھے[15] ان کے تلمیذ رشید ہناد السری جب بھی اپنے شیخ کا ذکر کرتے تو ان کی آنکھیں اشک آلود ہوجاتیں اورفرماتے کہ وہ نہایت صالح انسان تھے۔ [16] حق گوئی اوربے باکی میں بھی اپنی مثال خود تھے، اربابِ سطوت وشوکت کے سامنے حق بات کہنے سے باز نہ رہتے تھے،جعفر بن حمدویہ اس سلسلہ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار امیر ابودلف کا لڑکا دلف خدم وحشم کے ساتھ امام قبیصہ سے ملاقات کرنے ان کے گھر گیا،لیکن امام صاحب باہر نہیں نکلے،کسی نے حاضر ہوکر عرض کیا،حضرت! جبل کا شاہزادہ باہر کھڑا ہے اورآپ گھر سے نہیں نکلے ،راوی کا بیان ہے کہ شیخ اس عالم میں باہر تشریف لائے،کہ ان کی لنگی سے ایک خشک روٹی کا ٹکڑا لٹک رہا تھا اورفرمایا: من رضی بھذا ما یصنع بابن ملک الجبل وَاللہ لا احدثہ [17] جو اس (روٹی کے ٹکڑے)پر راضی اورخوش ہے اسے شاہزادہ جبل سے کیا غرض بخدا میں اس سے ہرگز روایت بیان نہ کروں گا۔

وفات[ترمیم]

بروایتِ صحیح صفر215ھ میں بمقام کوفہ وفات پائی،اس وقت مامون رشید اورنگ خلافت پر دادِ حکمرانی دے رہا تھا [18] ابن اثیر نے صفر کی بجائے محرم کا ذکر کیا ہے۔ [19]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (المعارف لابن قتیبہ :229)
  2. (تہذیب التہذیب:8/347)
  3. (اللباب فی تہذیب الانساب:1/574)
  4. (تہذیب :8/348)
  5. (تذکرۃ الحفاظ:1/342)
  6. (العبر فی خبر من غبر:1/368)
  7. (شذرات الذہب:2/35،وتذکرۃ الحفاظ:1/342)
  8. (تہذیب التہذیب:8/347،وتذکرۃ الحفاظ:1/342)
  9. (تہذیب التہذیب:8/348)
  10. (تذکرۃ الحفاظ:1/342)
  11. (تہذیب التہذیب:8/348)
  12. (ایضاً:346)
  13. (طبقات ابن سعد:1/281)
  14. (اللباب فی تہذیب الانساب:1/574)
  15. (شذرات الذہب:2/35)
  16. (العبر فی خبر من غبر :1/368)
  17. (تذکرۃ الحفاظ:1/343)
  18. (طبقات ابن سعد:2/281)
  19. (اللباب فی تہذیب الانساب:1/575)