قیوم نظر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
قیوم نظر
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 1914ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 1989ء (74–75 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

اردو اور پنجابی زبان کے ممتاز شاعر کے علاوہ نقاد، ڈراما نویس اور مترجم تھے

پیدائش[ترمیم]

قیوم نظر کا اصل نام اصل نام عبد القیوم ہے، وہ 8 مارچ 1913ء کو لاہور میں پیدا ھوئے۔

عملی زندگی[ترمیم]

پاکستان بن گیا تو ایم اے اردو کیا اور لیکچرر ہو گئے۔ کئی سال محکمہ تعلیم سے وابستہ رہے، پھر ٹیکسٹ بک بورڈ میں ماہرِ مضمون کی حیثیت سے کام کیا، اس کے بعد پاکستان نیشنل سنٹر لاہور کے ڈائریکٹر بن گئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ اردو میں تدریس کی، آخر میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ پنجابی میں صدرِ شعبہ کی حیثیت سے کام کیا۔[1][2]

ادبی تعارف[ترمیم]

انھوں نے حلقہِ اربابِ ذوق کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا اور اس کے اوّلین جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔وہ 1944ء سے 1955ء تک حلقہِ اربابِ ذوق کے سیکرٹری رہے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہِ اردو اور پنجاب یونیورسٹی میں شعبہِ پنجابی میں تدریس کے شعبے سے منسلک رہے۔1933ء میں ان کی پہلی غزل شایع ہوئی تھی۔ انھوں نے اردو غزل کو ایک نیا مزاج، نیا آہنگ عطا کیا۔قیوم نظر کی تصانیف میں "پون جھکولے"، "قندیل"، "سویدا"، "اردو نثر اُنیسویں صدی میں"، "واسوخت"، "زندہ ہے لاہور "اور "امانت "کے نام شامل ہیں۔ان کے فن اور شاعری پر درجنوں مقالات لکھے جا چکے ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے ایک کتاب "بلبل کا بچہ " بھی لکھی[3] وہ اردو کے ان لکھنے والوں میں شامل ہیں جنھوں نے حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد رکھنے میں اہم حصہ لیا جن میں میرا جی، ن م راشد، حفیظ ھوشیار پوری، سید نصیر احمد جامعی، انجم رومانی، اختر ھوشیارپوری، حمید نظامی، میر اقبال احمد، سید امجد حسین، آفتاب احمد خان، حمید شیخ، صفدر میر، تابش صدیقی، یوسف ظفر اور مختار صدیقی وغیرہ کے اسمائے گرامی اہم ہیں۔ انھوں نے وہ حلقہ ارباب ذوق کے اولین متعمد عمومی منتخب ھوئے۔ گورنمنٹ کالج میں اردو اورپنجابی کے شعبہ جات میں درس و تدریس سے متعلق رہے اور پروفیسر کی حیثیت سے سبک دوش ھوئے۔۔ قیوم نظر کی شاعری میں اردو کی کلاسیکی شاعری کا گہرا اثر ہے۔ انھوں نے اردو غزل کو نیا مزاج عطا کیا۔ وہ میر تقی میر اور فانی بدایونی کے غزلیہ روایت سے متاثر رہے۔ سیاحت کا شوق تھا۔ ان کی شاعری میں فطرت کے تجربات اچھوتے نوعیت کے ہیں۔ انھوں نے اپنی اردو غزلوں اور نعتوں کو پنجابی میں منتقل کیا۔[4]

تصانیف[ترمیم]

  • "پون جھکولے“
  • ”قندیل“
  • “ سویدا“
  • “واسوخت“
  • “زندہ ہے لاہور“
  • “اردو نثر انیسویں صدی میں“
  • “ امانت“
  • قلب و نظر کے سلسلے“ (کلیات)
  • ۔بلبل کا بچہ (بچوں کے لیے/ جس کی نظم بلبل کا بچہ کھاتا تھا کھچڑی پیتا تھا پانی بہت مشہور ہوئی۔)[5]

وفات[ترمیم]

قیوم نظر کا انتقال 23 جون 1989ء میں کراچی میں ہوا جہاں اپنی ایک بیٹی کے پاس مقیم تھے، بمطابق وصیت لاہور کے تاریخی قبرستان میانی صاحب میں پیوند خاک ھوئے۔[6]

حوالہ جات[ترمیم]