لطف الله خان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
لطف الله خان

معلومات شخصیت
پیدائشی نام لطف الله خان
پیدائش 25 نومبر 1916ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
چنئی،  برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 3 مارچ 2012ء (96 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی،  پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
صنف ادیب
پیشہ محافظ دستاویزات،  مصنف،  سفرنامہ نگار  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
باب ادب

لطف الله خان (پیدائش: 25 نومبر 1916ء - وفات: 3 مارچ 2012ء) پاکستان کے مشہورمصنف ، کلکٹر ، آرکائیوسٹ تھے۔ آپ پاکستان اور جنوبی ایشیا کے نامور فنکاروں ، شاعروں ، مصنفین اور دیگر نامور شخصیات کی آواز کی ریکارڈنگ کے نایاب مجموعہ کے لیے مشہور تھے۔[2] لطف اللہ خان 25 نومبر 1916 کو مدراس (برطانوی بھارت) میں پیدا ہوئے تھے ، جسے اب چنئی کہا جاتا ہے۔ ان کے والد ساؤتھ انڈین ریلوے کمپنی میں ملازمت کرتے تھے۔ لطف اللہ نے اپنی بنیادی تعلیم مدراس میں حاصل کی لیکن وہ نو عمر ہی میں تھے جب کام کی تلاش میں حیدرآباد چلے گئے۔ 1938 میں ، وہ برطانوی ہندوستان میں محکمہ راشن کے لیے کام کرنے بمبئی پہنچے۔لطف اللہ خاں نے تقسیم ہند کے بعد 17 اکتوبر 1947 کو پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں سکونت اختیار کی جہاں انھوں نے اشتہاری کاروبار میں شمولیت اختیار کی اور 50 سال سے زیادہ عرصے تک اس پیشے میں رہے۔[3]

موسیقی کیریئر[ترمیم]

لطف اللہ خان نے سن 1933 میں آل انڈیا ریڈیو کے ساتھ کلاسیکی گانے کے معاہدے پر دستخط کیے۔[4] انھوں نے 1935 میں 19 سال کی عمر میں عوامی طور پر پرفارم کیا ، جب انھوں نے مدراس میں دو گھنٹے کے ریڈیو کنسرٹ میں پرفارم کیا اور کرناٹک موسیقی بھی چلائی۔[5] جنوری 1939 میں مدراس ریڈیو آرٹسٹ کے نام سے انھوں نے سینٹ زیویئرس کالج کی مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے ایک پروگرام میں غزلیں گائیں اور اسی سال دسمبر میں بمبئی میں کلاسیکی گائیکی پیش کی۔ 1963 سے 1988 کے درمیان ، انھوں نے کرانہ گھرانہ کے عبد الشکور خان کے ساتھ گانے کی مشق کی اور صرف ایک راگ درباری کی پیچیدگیوں کی کھوج کی۔[6]

آوازوں کا مجموعہ[ترمیم]

لطف اللہ خان کو ادب، فنون لطیفہ، موسیقی، شاعری اور شخصیات کے مطالعے کا گہرا شغف تھا۔ وہ اشتہار سازی کے سلسلے میں جب ٹیپ ریکارڈر سے پہلی بار متعارف ہوئے توانھیں اپنی والدہ محترمہ کی گفتگو کو محفوظ کرنے کا خیال ہوا۔ اس کے بعد وہ کلاسیکی موسیقی مشاعرے، تقاریر، شخصیات کے انٹرویو وغیرہ کی ریکارڈنگ کی طرف متوجہ ہوئے۔ رفتہ رفتہ ایک ایسا بے مثال خزانہ فراہم ہو گیا جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ خدا نے انھیں ایک طویل عمر دی اور وہ ساری زندگی نہایت مستقل مزاجی سے کسی صلے کی پروا کیے بغیر آنے والی نسلوں کے لیے یہ بے مثل آواز خزانہ جمع کرتے رہے۔ وہ اس فن میں ذاتی محنت، جاں کاہی اور تکمیلیت کا اعلیٰ معیار قائم رکھتے تھے۔ آپ نے کتابیں بھی تصنیف کی ہیں جن میں موسیقی، یادداشتیں، سفرنامے اور بعض اہم شخصیات کے خاکے شامل ہیں۔[7] موسیقی میں ، اس کا مجموعہ بہت سی ذیلی زمرے میں ترتیب دیا گیا ہے انسٹرمینٹل میوزک جس میں سرود (نمایاں طور پر حافظ علی خان اور علی اکبر خان) ، ستار (خاص طور پر عنایت خان ، ولایت خان ، روی شنکر اور شریف خان پونچھ والے) ، شہنائی (خاص طور پر بسم اللہ خان) ، بانسری (خاص طور پر پنہ لاہ گھوش) ، طبلہ شامل ہیں۔ خاص طور پر احمد جان تھرکوا ، اللہ رکھا) اور سارنگی (خاص طور پر استاد بندو خان) کلاسیکل میوزک جس میں بڑے غلام علی خان ، فیاض حسین خان ، معیز الدین خان ، چاند خان ، ذاکر برادرز وغیرہ شامل ہیں۔ نیم کلاسیکی موسیقی جس میں ٹھمری ، پہاڑی ، دادرا ، کیفی ، بھجن وغیرہ شامل ہیں۔ خاص طور پر بیگم اختر ،سہگل ، شمشاد بیگم،رؤف دکھنی ، مختار بیگم ، مشتاث بائی ، سلامت علی خان ، امانت علی خان اور روشن آرا بیگم سمیت غزلوں میں مہدی حسن کی 318 غزلیں بھی شامل ہیں۔ لوک موسیقی قوالی دوسری انواع کے گانے اردو ادب کا حصہ شعر و نثر میں تقسیم ہے۔ شاعری میں 800 شاعروں کا کلام شامل ہیں۔ فیض احمد فیض اور اختر الایمان نے اپنی لائبریری کے لیے اپنے پورے کام کو ریکارڈ کیا۔ دوسرے نام کچھ اس طرح سے ہیں: جگن ناتھ آزاد ، صوفی غلام مصطفی تبسم ، پروین شاکر ، جوش ملیح آبادی ، جگر مراد آبادی ، خطیر غزنوی ، علی سردار جعفری ، کیفی اعظمی ، احمد فراز ، عصمت چغتائی ، ن م راشد ، ذوالفقار علی بخاری و دیگر۔نثر میں آل احمد سرور ، ابراہیم جلیس ، پطرس بخاری ، امتیاز علی تاج ، حیات اللہ انصاری ، راجندر سنگھ بیدی ، جوگندر پال ، چراغ حسن حسرت ، انور سعید ، خدیجہ مستور ، رشید احمد صدیقی ، ذاکر حسین اور بہت سی چیزیں شامل ہیں۔ اسکالرز اور تقریر کے طبقات میں مہاتما گاندھي محمد علی جناح ، لیاقت علی خان،سر محمد ظفر اللہ خان ، حسین شہید سہروردی ، ڈاکٹرسلیم الزماں صدیقی ، کراہ حسین ، بہادر یار جنگ ، عبدالحمید خان بھاشانی ، ذوالفقار علی بھٹو ، راجندر پرساد۔جیسے نام شامل ہیں۔ مذہب کے حصے میں سید محمد رضی ، زہین شاہ تاجی ، مفتی محمد شفیع ، علامہ رشید ترابی وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں احتشام الحق تھانوی کی آواز میں قرآن کی ایک تفسیر بھی شامل ہے۔ چھوٹا لیکن ایک انوکھا سیکشن جمی انجینئر، اقبال مہدی ،بشیر مرزا، صادقین، شاکر مرزا وغیرہ جیسے فنکاروں کے انٹرویوز پر مشتمل ہے۔اس سفر کی کہانی تمشاء الاحل ذوق میں قلمبند کی گئی ہے جو ان کوششوں کو بصیرت فراہم کرتی ہے جو انھیں ریکارڈ کرنے کے لیے رکھی گئی تھیں۔ خاص طور پر فیض کو ریکارڈ کرنے کی جدوجہد جو 20 سال کے عرصے میں پھیلا ہوا ہے۔اپنے آخری سالوں میں ، وہ ڈی وی ڈی پر ٹیپ منتقل کرکے اور کیٹلاگ کو کمپیوٹرائزڈ کرکے اپنی آڈیو لائبریری کو ڈیجیٹلائز کر رہے تھے۔

ادبی خدمات[ترمیم]

لطف اللہ خاں نے اردو میں متعدد کتابیں تصنیف کیں۔ جو ذیل میں ہیں:

  • پہلو (افسانوی مجموعہ،1941)
  • بچپن کے واقعات (یاداشتیں، 1991)
  • تماشائے اہلِ قدیم (1996)
  • سر کی تلاش (1997)
  • ہجرتوں کے سلسے (خودنوشت، 1998)
  • زندگی اک صفر (سفرنامہ، 2000)[8]

اعزازات[ترمیم]

1999ءمیں انھیں ان کی کتاب ہجرتوں کے سلسلے پر وزیر اعظم ادبی ایوارڈ بھی عطا کیا گیا تھا۔ 7 ستمبر 2010ءکو اکادمی ادبیات پاکستان نے انھیں کمال فن ایوارڈ برائے 2009ء دیے جانے کا اعلان کیا جبکہ 2011 ءمیں انھیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا گیا ۔

وفات[ترمیم]

لطف اللہ خاں کی وفات 95 سال کی عمر میں 3 مارچ 2012 کو کراچی میں ہوئی۔[9] وہ کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آ سودہ خاک ہوئے۔

حوالہ جات[ترمیم]