لونگ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اضغط هنا للاطلاع على كيفية قراءة التصنيف
اضغط هنا للاطلاع على كيفية قراءة التصنيف

لونگ

 

اسمیاتی درجہ نوع  ویکی ڈیٹا پر (P105) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت بندی  ویکی ڈیٹا پر (P171) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مملکت اعلی  حیویات
عالم اعلی  حقیقی المرکزیہ
مملکت  نباتات
ذیلی مملکت  ویریدیپلانٹے
ذیلی مملکت  سٹرپٹوفیٹا
جزو گروہ  ایمبریوفائیٹ
تحتی گروہ  نباتات عروقی
ذیلی تقسیم  تخم بردار پودا
سائنسی نام
Syzygium aromaticum[1]  ویکی ڈیٹا پر (P225) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ایلمر ڈریو مرلی اور Lily May Perry ، 1929  ویکی ڈیٹا پر (P225) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سابق سائنسی نام Caryophyllus aromaticus  ویکی ڈیٹا پر (P566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
  ویکی ڈیٹا پر (P935) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

لونگ (انگریزی: Clove) لونگ ایک درخت کے خوشبودار پھولوں کی کلیاں ہیں۔ یہ جزائر ملوک، انڈونیشیا کا مقامی پودا ہے اور عام طور پر ایک مصالحے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ لونگ تجارتی طور پر انڈونیشیا، بھارت، مڈغاسکر، زنجبار، پاکستان، سری لنکا اور تنزانیہ میں کاشت کیا جاتا ہے۔لونگ برصغیر میں پکوان میں شامل کے جانے والے مصالحوں کا خاص جزو ہے۔

نام[ترمیم]

نباتانی نام Syzygium aromaticum، عربی میں قَرَنْفُل، سنسکرت میں لَونگم، ہندی میں کَرَن پھول یا لونگ اور بنگالی میں لونگ، گجراتی میں لوینگ اور انگریزی clove میں کہتے ہیں۔

درخت و کاشت[ترمیم]

اِس کا درخت چھوٹے قد کا ہوتا ہے۔اِس کے پتے لمبے، نوکیلے اور خوشبودار ہوتے ہیں۔ درخت کو نو سال کی عمر کے بعد پھول آنے لگتے ہیں اور اِنہی پھولوں کی کلیوں کو کِھلنے سے پہلے ہی توڑ کر خشک کر لیا جاتا ہے اور پھر خشک حالت میں یہ لونگ کہلاتے ہیں۔ لونگ کا پھول آدھ اِنچ کے قریب لمبا اور خوشبودار ہوتا ہے۔[2]

تاریخ[ترمیم]

لونگ کی تاریخ کا قدیمی ثبوت 1721 قبل مسیح سے ملتا ہے جب شام کے کھنڈروں میں سے ایک جار کے اندر محفوظ شدہ لونگ دریافت ہوئے۔[3] چین میں تیسری صدی قبل مسیح میں ہان سلطنت کے دور میں لونگ کا تذکرہ ملتا ہے جب عوام میں لونگ چبانے اور منہ کی تازگی کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔[4]

قرون وسطی کے زمانہ میں مسلم تاجروں نے بحیرہ ہند کی تجارت کے راستے سے بھی لونگ کی فراہمی وسطی ایشیائی ممالک اور افریقی ممالک تک ممکن بنائے رکھی۔ ابن بطوطہ نے بھی لونگ کی تجارت کا ذِکر کیا ہے۔ عربی کے ادبی شاہکار الف لیلہ میں بھی مذکور سندباد جہازی کے واقعے میں پتا چلتا ہے کہ وہ ہندوستان سے عرب ممالک میں لونگ کی تجارت کیا کرتا تھا۔[1] ماہرین نباتات کا خیال ہے کہ لونگ کا درخت دنیا میں آباد قدیمی درختوں میں سے ایک ہے اور اِس کی موجودگی کے آثار 2000 قبل مسیح سے بھی ملتے ہیں۔ 1770ء میں فرانسیسی ماہر نباتات پیئرے پوئیور نے لونگ کا ایک درخت جو اُس نے بڑی احتیاط سے چرا لیا تھا، جزائر ملوک سے آئل دی فرانس (ماریشس) پہنچایا جہاں سے وہ درخت زنجبار پہنچا دیا گیا اور زنجبار میں اِس درخت کی موجودگی اٹھارہویں صدی کے ساتویں عشرے سے قبل نہیں ملتی اور اِسی نایاب درخت کے باوجود زنجبار لونگ کی تجارت کرنے والا بڑا ملک بنا۔1602ء سے 1799ء تک ولندیزی ایسٹ انڈیا کمپنی بھی جزائر ملوک، انڈونیشیا، ملائیشیا سے لونگ کی تجارت یورپ اور ہالینڈ سمیت یورپی ممالک میں کرتی رہی۔ولندیزی ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں جزائر ملوک کے تمام علاقوں میں لونگ کی کاشت کے لیے ہر علاقے میں لونگ کے درخت بکثرت لگائے گئے۔

کیمیائی تجزیہ[ترمیم]

لونگ کے تیل میں یوجینول 72–90 فیصد ہوتا ہے جسے جسمانی امراض کے لیے بہترین تصور کیا جاتا ہے۔

فوائد[ترمیم]

لونگ مقویٔ معدہ ہے۔ دردِ شکم کو نافع ہے۔یوجینول سانس کے امراض، اِسہال اور ہرنیہ کے مرض میں مفید ثابت ہوتا ہے ۔ اِس کے استعمال سے مریض چند منٹ میں افاقہ محسوس کرتا ہے۔ لونگ کے اندر فربہ مائل خلیے پیدا کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہوتی ہے اور اِسی لیے اِسے بدن فربہ کرنے والی نعم البدل قدرتی خوراک خیال کیا جاتا ہے۔ذیابیطس کے مرض میں لونگ کارگر ثابت ہوا ہے،   لونگ انسولین میں تحریک پیدا کرتے ہوئے کولیسٹرول اور گلوکوز کی سطح کو10 سے 30 فیصد تک کم کر دیتا ہے۔ لونگ قوتِ مدافعت میں اِضافہ کردیتا ہے، سرطان سے بچاتا ہے اور سرطان کے پھیلاؤ کو روکتا ہے۔ لونگ کا تیل یادداشت کو بہتر بناتا ہے اور دانتوں کے امراض میں مفید ثابت ہوا ہے۔ اعصاب کو طاقت دیتا ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1.   ویکی ڈیٹا پر (P830) کی خاصیت میں تبدیلی کریں"معرف Syzygium aromaticum دائراۃ المعارف لائف سے ماخوذ"۔ eol.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 مارچ 2024ء 
  2. لچھمن پرشاد: ہندوستانی جڑی بوٹیاں، صفحہ 270۔ مطبوعہ لاہور، 1940ء
  3. Turner, Jack (2004). Spice: The History of a Temptation. Vintage Books. pp. xxvii–xxviii
  4. Andaya, Leonard Y. (1993). "1: Cultural State Formation in Eastern Indonesia". In Reid, Anthony. Southeast Asia in the early modern era: trade, power, and belief. Cornell University Press