لوک نیتی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

لوک نیتی پروگرام برائے تقابلی جمہوریت (انگریزی: Lokniti Programme for Comparative Democracy) کا قیام 1997ء میں دہلی کے سنٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز کے تحقیقی پروگرام کے طور ہوا تھا۔ یہ پروگرام چناؤ اور عوامی رائے شماری کا مطالعہ کرتا ہے۔ [1]

انسانی ڈی این اے خاکہ بل پر فعالیت[ترمیم]

2012ء میں اس غیر سرکاری تنظیم نے بھارت کے سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ درخواست حکومت ہند کے خلاف دائر کی تھی، جو رِٹ پیٹیشن نمبر 491 سال 2012ء کے طور پر جانی جاتی ہے۔ اس میں یہ استدعا کی گئی ہے کہ بھارت کے پاس کوئی قومی ڈی این اے ڈیٹا بیس نہیں ہے جس سے کہ ہزاروں غیر مطلوبہ مردہ لاشوں کے مسسائل کو سلجھایا جا سکے، جیسا کہ ہر سال دیکھنے میں آتے ہیں۔ اس پر سپریم کورٹ نے حکومت کو ایک لائحہ عمل پیش کرنے کو کہا کہ کس طرح بھارت کا مجوزہ انسانی ڈی این اے خاکہ بل (Human DNA Profiling Bill) غیر مطلوبہ مردہ لاشوں کی لازمی ڈی این اے خاکہ نگاری کے نفاذ میں معاون ہوگا۔ [2]

حکومت نے اس استفسار کے جواب میں یہ بیان دیا کہ اس بل کے ذریعے ایک قومی ڈیٹا بیس بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو غیر مطلوبہ لاشوں کی شناخت میں معاون ہوگا اور چُنگل سے چھُٹنے والے بچوں اور بالغوں کو ان کے خاندانوں کو واپس کرے گا۔ یہ ڈیٹا بیس ڈی این اے خاکوں کو جمع کرے گا جو گم شدہ لوگوں کے رشتے داروں سے جمع کیے جائیں گے اور اسے سزایافتگان، ملزمان اور رضاکاروں کی جانب سے بھی جمع کیا جائے گا۔[3]

حکومت نے یہ بھی ایک حلفنامے میں واضح کیا کہ بھارت میں تربیت یافتہ پیشہ ور لوگوں کی کمی ہے جو اس کی عمل آوری کر سکیں۔[4] یہ بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ حیدرآباد، دکن میں قائم سنٹر فار ڈی این اے فنگر پرنٹنگ اینڈ ڈیاگنوسٹکس ریاستہائے متحدہ امریکا کی ایف بی آئی سے مخصوص سافٹ ویئر حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ڈی این اے کی خاکہ نگاری کے ڈیٹا کو مقابلتًا جوڑا جا سکے۔ بھارت کے پاس 30-40 ڈی این اے کے مُمتحنین ہیں جو سالانہ 100 معاملات کو دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم بھارت میں سالانہ 40,000 غیر مطلوبہ لاشیں پائی جاتی ہیں، جس کے لیے کم از کم 400 مُمتحنین کی ضرورت پڑے گی۔ چونکہ ایک واحد معاملے کے لیے 20,000 کی ضرورت ہوگی اور یہ بڑھ کر سالانہ 80,000 کی ضرورت کا ہندسہ بنے گا، جس سے کہ 40,000 معاملوں کو نپٹایا جا سکے۔ اس میں مُمتحنین اور معاون عملے کی تنخواہوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔[5]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "ABOUT US"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 15 جولائی 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2015 
  2. "SC wants roadmap for DNA profiling of all unclaimed bodies"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 15 جولائی 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2015 
  3. "DNA bank plan unveiled"۔ دی ٹیلی گراف (بھارت)۔ 22 ستمبر 2014۔ 29 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2015 
  4. "Bill stuck so cannot create DNA data bank: Centre to SC"۔ دی انڈین ایکسپریس۔ 15 ستمبر 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2015 
  5. "Centre's ambitious DNA Profiling Bill hits privacy roadblock"۔ انڈیا ٹوڈے۔ 15 ستمبر 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 جنوری 2015