محمد عاکف ارصوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد عاکف ارصوی
Mehmet Âkif Ersoy
پیدائش20 دسمبر 1873(1873-12-20)
سلطنت عثمانیہ کا پرچم استنبول، سلطنت عثمانیہ[1]
وفات27 دسمبر 1936(1936-12-27) (عمر  63 سال)
ترکیہ کا پرچم استنبول، ترکی
پیشہشاعر، مصنف، سیاست دان
قومیتترکی
ادبی تحریکتحریکِ جمہوریت
نمایاں کامصفحات
ویب سائٹ
www.mehmetakifersoy.com

محمد عاکف ارصوی (ترکی زبان: Mehmet Akif Ersoy) ترکی کے معروف شاعر، ادیب، دانشور، رکن پارلیمان اور ترکی کے قومی ترانے "استقلال مارشی” کے خالق تھے۔[2] اپنے وقت کے بہترین دانشوروں میں شمار کیے جانے والے ارصوی ترکی زبان پر اپنے عبور اور حب الوطنی اور ترک جنگ آزادی میں مدد کے باعث بھی شہرت رکھتے ہیں۔

ان کا تخلیق کردہ ترانہ ترکی کے ہر سرکاری و نجی تعلیمی ادارے کی دیوار پر، ترکی کے قومی پرچم، بابائے قوم مصطفیٰ کمال اتاترک کی تصویر اور نوجوانوں سے کی گئی ایک تقریر کے متن کے ساتھ، آویزاں کیا جاتا ہے۔

بردور میں ان کے نام سے ایک جامعہ بھی قائم ہے۔ ارصوی کی تصویر اور قومی ترانہ 1983ء سے 1989ء تک 100 ترک لیرا کے بینک نوٹ پر موجود رہی۔

سوانح حیات[ترمیم]

83ء سے 89ء تک رائج 100 ترک لیرا کے بینک نوٹ پر عاکف کی تصویر

محمد عاکف 1873ء میں سلطنت عثمانیہ کے شہر قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا گھرانہ انتہائی مذہبی تھا اور آپ کے والد طاہر آفندی ایک مدرسے میں مدرس تھے۔ انھوں نے آپ کا نام محمد رغیف رکھا تھا۔ یہ عربی نام کیونکہ ترکی میں زیادہ معروف نہ تھا اس لیے وہ محمد عاکف کہلائے لیکن والد تمام عمر ان کو رغیف ہی پکارتے تھے۔ والد کی وفات اور آگ لگنے سے گھر کی تباہی کے باعث آپ کو تعلیمی سلسلہ منقطع کرنا پڑا اور ملازمت کرنی پڑی۔ لیکن وہ اپنے پیشہ ورانہ دور کا آغاز جلد از جلد کرنا چاہتے تھے اور انھوں نے مُلکیہ بیطار مکتبی (علاجِ مویشیاں کی درس گاہ) میں داخلہ لیا اور 1893ء میں اعزازی سند کے ساتھ فارغ ہوئے۔

اسی سال محمد عاکف نے سرکاری ملازمت حاصل کی اور اناطولیہ میں مختلف مقامات پر متعدی امراض پر تحقیق کیں۔ اپنے مذہبی پس منظر کے باعث وہ مسلمانوں کے زوال پر بہت پریشان تھے اس لیے انھوں نے اس عرصے کے دوران مختلف مساجد میں خطبے بھی دیے اور منبر کے ذریعے عوام میں شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ ہم عصر ادیبوں رضا زادہ محمود اکرم، عبد الحق حامد اور جناب شہاب الدین کے ہمراہ انھوں نے "مدافعِ ملیِ حیاتی" کے جریدے "سبیل الرشاد" میں کام کیا۔ بعد ازاں سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کی شاعری اور مضامین "صراط مستقیم" نامی جریدے میں بھی شایع ہوتے تھے۔

سلطنت عثمانیہ کے اختتامی دور میں محمد عاکف ایک محب وطن ادیب کی حیثیت سے ابھرے۔ انھوں نے ترکی کی آزادی کی جدوجہد میں اپنا بھرپور حصہ لیا اور اناطولیہ بھر کی مساجد میں خطبوں کے ذریعے عوام میں جذبہ حب الوطنی اجاگر کیا۔ 19 نومبر 1920ء کو کستمونو کی نصر اللہ مسجد میں دیے گئے مشہور خطبے میں انھوں نے معاہدہ سیورے کی مذمت کی اور عوام سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ایمان و اسلحے کے ذریعے مغربی نو آبادیاتی قوتوں کا مقابلہ کریں۔ جب یہ تقریر سبیل الرشاد میں شایع ہوئی تو ملک بھر میں پھیل گئی اور بعد ازاں اسے پمفلٹ کے ذریعے ترک فوجیوں میں بھی تقسیم کیا گیا۔

قومی ترانہ[ترمیم]

ترک جنگ آزادی کے دوران آپ کی لکھی گئی ایک نظم “استقلال مارشی” نے بہت شہرت حاصل کی اور بعد از قیام جمہوریہ اسے ترکی کا قومی ترانہ قرار دیا گیا۔ قومی ترانے کے خالق کی حیثیت سے ترکی میں انھیں لا فانی حیثیت حاصل ہو گئی۔ استقلال مارشی کو 12 مارچ 1921ء کو مجلس کبیر ملی کے اجلاس کے دوران قومی ترانے کی حیثیت دی گئی۔

یہ ترانہ اور محمد عاکف کی تصویر 1983ء سے 1989ء تک رائج 100 ترک لیرا کے بینک نوٹ پر بھی موجود رہی۔ ترانہ سرکاری و عسکری تقاریب، قومی نمائشوں، کھیلوں کے مواقع اور اسکولوں میں پڑھا جاتا ہے جہاں 10 بندوں پر مشتمل اس ترانے کے اولین دو بند ہی گائے جاتے ہیں۔

خود ساختہ جلا وطنی و انتقال[ترمیم]

ترکی میں قیام جمہوریت کے بعد اتاترک کی لادینی پالیسیوں کے باعث 1925ء میں وہ دل شکستہ ہو کر ترکی چھوڑ گئے اور مصر کے دار الحکومت قاہرہ میں سکونت اختیار کر لی جہاں ان کا قیام 11 سال رہا۔ لبنان کے ایک دورے میں انھیں ملیریا نے جکڑ لیا اور 1936ء میں اپنی وفات سے محض 6 ماہ قبل استنبول واپس آئے۔ ان کی صحت بہت بگڑ چکی تھی، اس لیے وہ جانبر نہ ہو سکے اور بالآخر 27 دسمبر 1936ء کو انتقال کر گئے۔

انھیں استنبول کے ادرنہ قاپی قبرستانِ شہداء میں سپرد خاک کیا گیا۔ شدید سردی اور برف باری کے باوجود لاکھوں افراد نے ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ وہ جمہوریہ ترکی کی تاریخ کی پہلی شخصیت تھے جن کی آخری رسومات کے موقع پر قومی ترانہ بجایا گیا۔

ادبی کارنامے[ترمیم]

محمد عاکف روایتی مشرقی علوم میں زبردست مہارت رکھتے تھے۔ بچپن میں انھوں نے والد سے عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی تھی۔ بعد ازاں انھوں نے سرکاری ملازمت کے ایام میں دوستوں کے مشورے پر فرانسیسی زبان بھی سیکھی۔

ان کا سب سے مشہور ادبی کام “صفحات” ہے جو ان کی 44 نظموں پر مشتمل مجموعہ کلام ہے۔ ان کے مجموعہ کلام میں لافانی حیثیت “استقلال مارشی” کو حاصل ہے گو کہ یہ ترانہ ان کی زندگی میں “صفحات” کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا کیونکہ بقول محمد عاکف “یہ ترانہ قوم کی ملکیت ہے، اس لیے میں اسے اپنے مجموعہ کلام میں شامل نہیں کروں گا۔” تاہم ان کے انتقال کے بعد چھپنے والے مجموعوں میں استقلال مارشی کو بھی شامل کر دیا گیا۔ ترکوں کی بڑی اکثریت انھیں قومی شاعر تسلیم کرتی ہے لیکن ان کے اسلامی پس منظر اور مذہب سے والہانہ لگاؤ کے باعث انھیں سرکاری سطح پر قومی شاعر نہیں مانا جاتا۔ ان کی کتاب “صفحات” بھی حال ہی میں قبولیت عام حاصل کر پائی ہے ورنہ پہلے اسے بھی بڑے پیمانے پر شایع و فروخت نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ یہ بر سر اقتدار لا دینی عناصر کے نظریات سے متصادم تھی۔

ان کے اہم ادبی شہ پاروں میں شامل ہیں:

  • سلیمانیہ کورسو سوندہ (سلیمانیہ کے منبر پر، 1912ء)
  • حقن سیس لری (صدائے حق، 1913ء)
  • فاتح کورسوسوندہ (فاتح کے منبر پر، 1914ء)
  • خاطرہ لر (یادداشتیں، 1917ء)، عاصم (1924ء)
  • گولگہ لر (سائے، 1933ء)
  • کستمونو نصر اللہ کورسوسوندہ (کستمونو نصر اللہ کے منبر پر، 1921ء)
  • قرآن دن آیت و حدیث لر (آیات و احادیث از قرآن، 1944ء)

خاطرہ لر میں ان کی اہم نظم “صحرائے نجد سے مدینہ تک” شامل ہے۔ اس کتاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ “اسلامی ادبیات میں اس نظم سے زیادہ شاید ہی کوئی اور نظم مذہب اور رسول مقبولؐ سے عقیدت پیدا کرنے والی ہوگی۔[3]

ترکی میں قوم پرستی کی بڑھتی ہوئی لہر کے باعث عاکف کی آواز پر بہت زیادہ کان نہیں دھرا گیا اور رہی سہی کسر ترکی میں رسم الخط کی تبدیلی نے پوری کر دی لیکن 1944ء میں جب ان کے داماد عمر رضا طغرل نے “صفحات” کو لاطینی رسم الخط کی جدید ترکی میں شایع کیا تو وہ مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔

کلام عاکف سے چند اقتباسات[ترمیم]

اگر کسی دن مذہب (اسلام) کا منبع خشک ہو جائے تو نہ احساس باقی رہے گا اور نہ ہی زندگی باقی رہے گی۔ جماعت کی بقا کا انحصار دین کی بقا پر ہے
یا تو ہم قرآن کو کھولتے ہیں اور اس کے اوراق پر نظر ڈالتے ہیں یا اُسے پڑھ کر مردوں کو بخش دیتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ قرآن نہ ہی قبرستان میں تلاوت کرنے کی غرض سے اور نہ فال بینی کے لیے نازل کیا گیا ہے۔
صرف دین اسلام، دین شجاعت اور دین عزت ہے۔ حقیقی اسلام بہادری کی سب سے بڑی داستان ہے۔
فضائل اخلاق سے ہمارے پاس کیا ہے؟ رزائل اخلاق سے ہمارے پاس کیا ہے کم ہے؟ حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ حسن اخلاق کا عظیم ترین حامی ایمان ہی ہے۔
قومی اخلاق کو بچوں کا کھیل نہ سمجھو کیونکہ یہی قوم کی روح ہے۔ اخلاق کا افلاس بڑی بھیانک موت ہے اور یہ دراصل موت کلی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انسانیت کی جو خدمت کی عاکف نے اپنی مشہور نظم “ایک رات” میں اس کا اس طرح تذکرہ کیا ہے:

وہ کمزور جس کے تمام حقوق پامال ہی ہونے کے لیے تھے زندہ ہو گیا۔ رستم جس کے زوال کے متعلق سوچا بھی نہیں جا سکتا ، اپنی موت آپ مر گیا۔ ہاں آپ کی شرح مبین اہل عالم کے لیے ایک رحمت تھی جس نے ہر داد خواہ کے گھر پر اپنے بازوؤں سے سایہ کیا۔ دنیا میں جو کچھ بھی ہے سب ان ہی کی دہش ہے۔ تمام اہل جہاں ان کے مرہون منت ہیں۔ تمام دنیائے انسانیت اس معصوم کی مقروض ہے۔ الٰہی! قیامت کے دن مجھے اسی اقرار کے ساتھ اٹھائیو۔

اپنی ایک نظم “اذانیں” میں اذان کے بارے میں عاکف کہتے ہیں

یہ اللہ کی آواز ہے جو آسمانوں کو معمور کر دیتی ہے۔ کیا اس آواز کے لیے یہ کوئی بڑی بات ہے کہ یہ ساری دنیا کو ہلا دے۔

سلطنت عثمانیہ سے علیحدگی کے خواہش مند البانوی اور عرب قوم پرستوں کو مخاطب کرتے ہوئے آپ نے کہا

علیحدگی کا خیال تمہارے دلوں میں کیسے پیدا ہوا؟ کیا نظریہ قومیت کو شیطان نے تمہارے دلوں میں ڈال دیا ہے۔ ان تمام اقوام کو ایک ہی ملت کے جھنڈے کے نیچے اکٹھا کرنے والے اسلام کو جڑ بنیاد سے تباہ وہ برباد کرنے والا زلزلہ قومیت ہے۔ اس حقیقت کو ایک لحظہ بھی بھول جانے کا نتیجہ ابدی محرومی ہے۔ عربیت اور البانی تعصب کے ساتھ یہ ملت آگے نہیں بڑھ سکتی۔

ایک اور نظم میں کہتے ہیں:

ارے تجھے معلوم نہیں کہ تیری قومیت اسلام ہے۔ یہ قومیت کیا ہے؟ تو اپنی ملت سے کٹ کر استحکام و مضبوطی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے؟ کیا عرب کو ترک پر، لاز کو چرکس یا کرد پر اور ایرانی کو چینی پر کوی ترجیح دی گئی ہے؟ کیا اتحاد اسلامی میں جداگانہ عناصر کا جواز ہے؟ ہر گز نہیں پیغمبر اسلاام تصور قومیت پر لعنت بھیجے تھے۔ [4]

عاکف اور اقبال[ترمیم]

اگر فکری ہم آہنگی اور نظریاتی مماثلت و مشابہت کو دیکھا جائے تو اقبال اور عاکف کے کلام میں اتنی زیادہ ہے کہ اسلامی دنیا کا کوئی شاعر اقبال سے اتنی فکر قربت نہیں رکھتا۔[5]

ترکی اور پاکستان میں ایک دوسرے کے ممالک کے جن دو شعرا کا زیادہ ذکر کیا جاتا ہے اور جن کا حوالہ بھی دونوں ممالک میں شائع ہونے والے جرائد و رسائل میں دیا جاتا ہے وہ جلال الدین رومی (مولانائے روم) اور علامہ محمد اقبال ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ علامہ اقبال نے مولانائے روم کو پیر رومی قرار دیا ہے اور خود کو مرید ہندی تاہم کلام اقبال اور کلام عاکف کا مطالعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ترکی اور اردو شاعری میں جن دو اسلامی شاعروں کے کلام میں حد درجہ مشابہت پائی جاتی ہے وہ عاکف اور اقبال ہی ہیں۔

عاکف اقبال ہی کی طرح عظیم محب وطن تھے لیکن وہ بھی مغربی قومیت کے سیاسی نظریہ کے خلاف تھے اور اتحاد اسلامی کے علمبردار تھے۔ اقبال وطنیت کو مذہب کا کفن سمجھتے تھے اور عاکف وطنیت کو شیطانی تصور خیال کرتے تھے۔ جس کا ہلکا سا اظہار بالا میں قومیت کے حوال سے ان کے خیالات سے ہوتا ہے۔

اسلامی دنیا کی زبوں حالی کا جو نقشہ اقبال نے کھینچا تھا بالکل اسی طرح عاکف نے بھی عالم اسلام کے مصائب اور اس کی زبوں حالی کی منظر کشی کی ہے۔

آنحضورؐ سے محبت کلام اقبال کی نمایاں حصوصیت ہے عاکف کے کلام میں بھی یہی خصوصیت نمایاں ہے۔ ان کی کتاب “خاطرہ لر” کی نظم “صحرائے نجد سے مدینہ تک” نبی مہربانؐ سے ان کی محبت کی عکاس ہے۔

علاوہ ازیں ملائیت، پردہ، جدید ادب اور استبداد وغیرہ پر بھی دونوں شعرا یکساں سوچ کے مالک ہیں۔[6]

عاکف نے علامہ اقبال کے فارسی کلام کا مطالعہ کیا اور عربی کے معروف مترجم و شارح عبد الوہاب عزام بے کو کلام اقبال سے متعارف کروایا۔[7] عبد الوہاب عزام کہتے ہیں کہ:

اقبال کے بارے میں میری منتشر معلومات میں اس وقت تک اضافہ نہیں ہوا جب تک کہ میری ملاقات میرے شاعر دوست محمد عاکف مرحوم سے نہ ہوئی۔ وہ میرے دوست، رفیق اور مونس تھے اور ہماری رہائش گاہ حلوان کے علاوہ جامعہ قاہرہ میں بھی میرے ساتھی تھے۔ ایک روز انھوں نے مجھے اقبال کا ایک دیوان پیام مشرق دکھایا۔ میں نے اس سے قبل اقبال کا کوئی شعر، نہ کم نہ زیادہ، نہ پڑھا تھا اور نہ سنا تھا۔

محمد عاکف نے بتایا کہ ایک دوست نے جو ان دنوں غالباً افغانستان کے سفیر تھے یہ کتاب مجھے بھیجی ہے۔ ہم دونوں نے اس دیوان کو پڑھنا شروع کیا۔ اس کے اشعار اور افکار ہم کو بہت ہی پسند آئے۔ ہم اس گلشن میں گھومتے رہے تھے جو روح اور نگاہوں کو بار بار اپنی چمک اور پھولوں کی طرف متوجہ کرتا تھا اور جو رنگ رنگ کے پھولوں، طرح طرح کے نمونوں، رونق اور خوبصورتی کا سنگم تھا۔

اب میں نے اقبال کو براہ راست ان کے کلام کے ذریعے پہنچانا لیکن یہ علم صرف ایسا تھا جیسا کسی بھی ایسے شخص کا ہو سکتا ہے جس نے بہت تھوڑا سا پڑھا ہو۔ میں ان کی مخصوص عبارتوں سے بے خبر، ان کے رموز سے نا آشنا، ان کے فلسفہ اور افکار سے کافی حد تک بے بہرہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی دعوت اور مقصد سے بھی کچھ زیادہ واقفیت نہیں رکھتا تھا۔

پیام مشرق کا یہ نسخہ جو دوست محمد عاکف نے مجھے دیا تھا اب تک میرے پاس ہے۔ اس پر ان تمام مقامات پر نشانات لگے ہوئے ہیں جن کو ہم نے پسند کیا تھا یا بقول فرزوق “مقامات سجدہ” پر۔ یہ نسخہ میرے پاس پیامِ مشرق کے ذریعے اقبال سے پہلی ملاقات کی یادگار ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر اسلام محمد عاکف کی بھی یادگار ہے

عاکف سب سے پہلے جنگ آزادی کے ایام میں انقرہ میں کلام اقبال سے واقف ہوئے۔ یہ تعارف اقبال کے کسی کتابچے سے ہوا جو کسی نے سبیل الرشاد کے دفتر میں پہنچایا تھا۔ عاکف نے اس کتابچے سے یہ رائے قائم کی کہ ان کے اور اقبال کے کلام میں مشابہت پائی جاتی ہے۔[8]

عاکف نے اقبال کا تفصیلی مطالعہ قیام مصر کے زمانے میں کیا جن میں پیام مشرق بھی شامل تھی۔ عاکف نے گولگہ لر میں ایک نظم کے درمیان اقبال کے ایک شعر کا ترکی ترجمہ دیا ہے:

Heyecana verdi gonulleri heyecanli nagmesi gonlumun

Bbe no nagmeden mugeheyyicim kiyokihtimali terennumen

“میرے نغموں پر ترنم کا گمان نہ کیا جائے، یہ میرے دل کی آواز ہے جس نے لوگوں کے دلوں میں ہیجان برپا کر دیا ہے۔”[9]

کتابیات[ترمیم]

  • اشرف ادیب، محمد عاکف (دو جلدیں)
  • مدحت جمال قونتائی، محمد عاکف (دو جلدیں)
  • سلیمان نظیف، محمد عاکف
  • حسن بصری چانتائی، عاکف نامہ
  • فوزیہ عبد اللہ تنسل، محمد عاکف ارصوی
  • احمد کبکلی، محمد عاکف
  • فاروق قادری تیمورتاش، محمد عاکف اور ہمارا معاشرہ
  • علی نہاد تارلان، محمد عاکف (اس کتاب کا اردو ترجمہ ڈاکٹر محمد صابرآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ abushamil.com (Error: unknown archive URL) نے کیا ہے۔ مترجم ترکیات میں ڈاکٹریٹ کی سند رکھتے ہیں)
  • ثروت صولت، ترکی اور ترک، ابواب “ترکی کا شاعر اسلام: محمد عاکف” اور “عاکف اور اقبال”، صفحہ نمبر 291 تا 342، اسلامک پبلیکیشنز لاہور فروری 1989ء
  • Ayyıldız, Esat. “Mehmed Âkif Ersoy’un ‘Hasbihâl’ Adlı Makalesindeki Arapça Öğretimine Dair Görüşleri”. Kabulünün 101. Yılında İstiklâl Marşı ve Milli Şairimiz Mehmed Âkif Ersoy 2. Uluslararası Sempozyumu Kongre Kitabı. ed. Ayşe Erkmen – Mustafa Latif Emek. İstanbul: İKSAD Yayınevi, 2022. 40-48.

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Finkel, Caroline, Osman's Dream, (Basic Books, 2005), 57; "Istanbul was only adopted as the city's official name in 1930..".
  2. Ayyıldız, Esat. “Mehmed Âkif Ersoy’un ‘Hasbihâl’ Adlı Makalesindeki Arapça Öğretimine Dair Görüşleri”. Kabulünün 101. Yılında İstiklâl Marşı ve Milli Şairimiz Mehmed Âkif Ersoy 2. Uluslararası Sempozyumu Kongre Kitabı. ed. Ayşe Erkmen – Mustafa Latif Emek. İstanbul: İKSAD Yayınevi, 2022. 40-48.
  3. علی نہاد تارلان، محمد عاکف , اردو ترجمہ از ڈاکٹر محمد صابر، لاہور 1970ء
  4. ثروت صولت، ترکی کا شاعرِ اسلام، محمد عاکف ارصوی، مطبوعہ المعارف، لاہور، جنوری-فروری 1974ء
  5. ثروت صولت، عاکف اور اقبال، سہ ماہی فکر و نظر، اسلام آباد۔ اگست 1970ء
  6. ثروت صولت، ترکی اور ترک، اسلامک پبلیکیشنز، لاہور، سن اشاعت فروری 1989ء
  7. عبد الوہاب عزام، محمد اقبال سیرتہ و فلسفتہ و شعرہ (عربی) صفحہ 4 تا 5۔ مطبوعات پاکستان، طبع 1954ء
  8. فوزیہ عبد اللہ تنسل، محمد عاکف ارصوی صفحہ 123
  9. محمد عاکف ارصوی، صفحات، صفحہ 515