محمد فواد کوپرولو

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد فواد کوپرولو
(ترکی میں: Mehmet Fuat Köprülü ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 5 دسمبر 1890ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استنبول[2]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 28 جون 1966ء (76 سال)[3][1][4]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استنبول  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات ٹریفک حادثہ  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات حادثاتی موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت عثمانیہ
ترکیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت جمہوری خلق پارٹی (1935–1945)  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن اکیڈمی آف سائنس سویت یونین  ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی مکتب حقوق السطانی  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سفارت کار،  سیاست دان،  مورخ،  اکیڈمک،  استاد جامعہ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان ترکی  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان ترکی[5]،  فرانسیسی،  فارسی،  عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ انقرہ،  دار الفنون،  استنبول یونیورسٹی،  گالاتسرائے ہائی اسکول  ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محمد فواد کوپرولو 5 دسمبر 1890ء کو پیدا ہوئے- ان کا انتقال 28 جون 1966ء کو ہوا۔ انھیں کوپرولو زادہ محمد فواد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ وہ ایک انتہائی بااثر ترک ماہر معاشیات، ماہر ترکیات، عالم، وزیر برائے امور خارجہ اور جمہوریہ ترکی کے نائب وزیر اعظم تھے۔ وہ نامور البانوی کوپرولو خاندان کے ایک فرد تھے جس نے 1656ء سے 1711ء کے درمیان سلطنتِ عثمانیہ کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں خاندانِ آلِ عثمان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔وہ 20 ویں صدی کے اوائل میں ترکی میں اسکالرشپ اور سیاست کے حوالے سے اہم شخصیت گردانے جاتے تھے۔

بچپن اور تعلیم[ترمیم]

1890ء میں استنبول میں محمد فواد کے نام سے پیدا ہوئے۔ ان کے دادا ، احمد ضیا بے ، بخارسٹ کے سابق سفیر تھے اور دیوانِ ہمایوں کے سابق سربراہ ، کوپرولو زادہ عارف بے کے بیٹے تھے۔کوپرولو زادہ عارف بے 17 ویں صدی کے کوپرولو خاندان سے تعلق رکھتے تھے ، جن کے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں کی گئی اصلاحات اور فتوحات سے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے میں تاخیر ہوئی تھی۔ ان کا نام کوپرولو دور کے پہلے وزیر اعظم ، کوپرولو محمد پاشا کے نام پر رکھا گیا تھا۔

مصطفٰی کمال اتاترک سے تعلق[ترمیم]

فواد کوپرولو کو صدر اتاترک کی درخواست پر وزیر تعلیم کا سیکریٹری مقرر کیا گیا اور وہ آٹھ ماہ تک اس عہدے پر رہے۔ مزید برآں ، فواد کوپرولو کو صدر اتاترک کے حکم پر قائم کردہ ادارہ برائے ترکیات کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا اور انھوں نے ترکیات مجموعہ سی (مجلہ برائے ترکیات) کی اشاعت شروع کی۔ 1950ء کے انتخابات میں جب خلق پارٹی بر سر اقتدار آئی تو یہ وزیر برائے خارجہ امور بنے اور 1955ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ [6] 1953 میں ، یوگوسلاویہ کے صدر ٹیٹو اور فواد کوپرولو کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت البانیوں کی یوگوسلاویہ سے اناطولیہ ہجرت کو فروغ ملا۔ [7] انھوں نے مختصر طور پر 1955ء میں نائب وزیر اعظم کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ 6 ستمبر 1957ء کو پارٹی کی طرف سے ظاہر کردہ آمرانہ رحجانات سے اختلاف رائے کے بعدانھوں نے خلق پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Mehmed-Fuat-Koprulu — بنام: Mehmed Fuat Koprulu — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — عنوان : Encyclopædia Britannica
  2. https://www.dailysabah.com/portrait/2015/05/29/mehmet-fuat-koprulu-doyen-of-modern-historians
  3. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12055379s — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  4. Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000003350 — بنام: Mehmed F. Köprülü — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  5. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12055379s — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  6. Reem Abou-El-Fadl (2018-12-13)۔ Foreign Policy as Nation Making: Turkey and Egypt in the Cold War (بزبان انگریزی)۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 126–127۔ ISBN 978-1-108-47504-4 
  7. Arben Qirezi (2017)۔ "Settling the self-determination dispute in Kosovo"۔ $1 میں Leandrit I. Mehmeti، Branislav Radeljić۔ Kosovo and Serbia: Contested Options and Shared Consequences۔ University of Pittsburgh Press۔ صفحہ: 50۔ ISBN 978-0-8229-8157-2