محمد قائم بامراللہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
القائم بامراللہ
سلطنت فاطمیہ کا خلیفہ
934 – 946
پیشروعبیداللہ مہدی
جانشینالمنصور باللہ
نسلالمنصور باللہ
مکمل نام
کنیت: ابو القاسم
دیا گیا نام: محمد
لقب: القائم بامراللہ
والدعبیداللہ مہدی
والدہ؟
پیدائش893
وفات17 مئی 946
مذہباہل تشیع

ابو القاسم محمد القائم بامراللہ 322ھ میں اپنے باپ عبید اللہ المہدی کی موت کے بعد فاطمی خاندان کا دوسرا خلیفہ اور اسماعیلی مسلک کا بارھواں امام بنا۔ اس کا نام ابو قاسم محمد تھا اور اس نے قائم بامراللہ کا لقب اختیار کیا۔ اس کی پیدائش سلمیہ (شام) میں 572ھ میں ہوئی۔ قائم ایک دلیر جنرل تھا۔ اس نے اپنے والد کے زمانے میں سیاسی اور جنگی معاملات میں نمایاں حصہ لیا تھا۔ اس کی خلافت اور امامت کا اعلان مہدی کی موت کے سوا سال کے بعد ہوا۔ اس کو اپنے باپ کی موت کا اس قدر صدمہ تھا کہ باقی ماندہ زندگی میں صرف دو دفعہ قیصر سے وہ بھی سوار ہو کر نکلا۔

طالوت قریشی کا فتنہ[ترمیم]

قائم کے ابتدائی دنوں میں ایک عراقی کاتب ابن طالوت قریشی نے دعویٰ کیا کہ میں مہدی کا لڑکا ہوں شروع میں اس کے ساتھ ایک جماعت ساتھ ہو گئی اور اس نے طرابلس کا محاصرہ کر لیا۔ لیکن جب انھیں معلوم ہوا کہ اس کا دعوی غلط ہے تو اس کے ساتھیوں نے خود اس کو قتل کر دیا۔

روم سے لڑائی اور جنوہ پر قبضہ[ترمیم]

322ھ میں یعقوب بن اسحٰق تمیمی نے ایک بیڑا لے کر سواحل روم کو روانہ ہوا اور جنواہ پر حملہ کرے کے اس پر قبضہ کر لیا۔ پھر جزیرہ سردانیہ اور قرقیسا پر حملہ کیا اور خوب لوٹ مار کی۔

بلاد مغرب کی تسخیر[ترمیم]

بلاد مغرب میں ایسے شہر رہ گئے تھے جن پر بنو فاطمہ کا قبضہ نہیں ہوا تھا۔ قائم نے اپنے صلیبی غلام میسور کو اس مہم پر روانہ کیا۔ جس نے فاس مغرب اقصی تک کے تمام شہر فتح کر لیے۔ کہا جاتا ہے کہ فاس پر بھی اس کے قبضہ میں آگیا تھا اور وہاں کا والی گرفتار ہو گیا تھا۔

مصر پر حملہ[ترمیم]

قائم مصر پر اپنے باپ کے دور میں دو دفعہ حملہ کیا اور ناکام رہا تھا۔ اس دفعہ خود اپنے عہد میں مصر کو فتح کرنے کی کوشش کی۔ اس دفعہ اس کا غلام ریدان اسکندریہ کو مسخر کرنے میں کامیاب ہو گیا، لیکن اخشید ( حاکم مصر ) کے بھائی عبید اللہ نے اس شہر کو واپس لے لیا اور فاطمیوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔

ابو یزید خارجی کی بغاوت[ترمیم]

ابو یزید خارجی جو زناتہ قبیلہ سے تھا اور اس کا نام مخلد بن کیدار تھا اور قسطیلیہ کا رہنے والا تھا۔ مذہباً ہخوارج تھا۔ اس کے پاس کافی لشکر جمع ہو گیا اور اس نے نے قوت حاصل کر کے بغاوت کر دی۔ یہ لوگوں کو الناصر الدین ) خلیفہ اندلس ( کی دعوت دیتا تھا۔ اس کو صاحب الحمار بھی کہتے تھے، کیوں کہ یہ گدھے پر نکلتا تھا اور یہ بہت سادہ زندگی بسر کرتا تھا۔ اس کی قائم کے والیوں سے کئی لڑائیاں ہوئیں جن میں یہ اکثر کامیاب رہا۔ اس نے باغایہ، قسطنطیہ، سبتہ، اربس کو فتح کرتا ہوا آگے بڑھا۔

قائم نے اپنے دو غلاموں میسور اور بشریٰ کو لشکر دے کر اس کا ،قابلہ کرنے کے لیے بھیجا۔ پہلا رقادہ اور قیروان اور دوسرا باجا کی طرف روانہ ہوا۔ ابو یزید نے باجا میں شکست کھائی اور بھاگ کر رقادہ پہنچا۔ رقادہ میں میسور سے اس کی لڑئی ہوئی اور قائم کے لشکر کو شکست ہوئی اور میسور مارا گیا۔ پھر ابویزید قیروان کی طرف بڑھا اور اس پر قبضہ کر لیا۔ رقادہ اور قیروان نکل جانے کے بعد قائم کو مہدیہ میں پناہ لینی پڑی۔ باشندے شہر چھوڑ کر چلے گئے اور صرف قائم کی فوج رہے گئے۔ رسد بند ہونے کی وجہ سے قحط کی صورت حال ہو گئی۔

ابو یزید نے مہدیہ فتح کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا۔ آخر اس کو محاصرے سے دست بردار ہونا بڑا۔ اس کے دو بڑے سبب تھے۔ پہلا تو خود ابو یزید کے بعض پیرو کسی خانگی وجہ سے قائم کی طرف ہو گئے اور خود اس سے لڑنے لگے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ابو یزید کے اخلاق میں بڑا تغیر پیدا ہو گیا اور وہ تعیش کی طرف مائل ہو گیا تھا اور وہ محرمات شریعہ علانیہ کرنے لگا۔ اس وجہ سے بربر آہستہ آہستہ اس سے منحرف ہو گئے اور اس کی قوت کمزور ہو گئی۔ مجبوراً اسے مہدیہ کا محاصرہ اٹھا کر قیروان واپس جانا پڑا۔ قیروان کے لوگ بھی اس کے خلاف ہوئے اور دوبارہ قائم سے رجوع کر لیا اور اس کی اطاعت قبول کرلی۔ میلہ سے علی بن حمدون بھی لشکر لے کر پہنچ گیا۔ اس نے دوسرے کتامی سرداروں نے مل کر کوشش کی اور تونس کو ابو یزید کے قبضہ سے چھرا لیا۔ کچھ عرصہ کے ابو یزید سوسہ گیا اور اس شہر کا محاصرہ کر لیا۔ دوران محاصرہ ہی قائم کا انتقال ہو گیا۔

وفات[ترمیم]

قائم نے 334ھ میں وفات پائی۔ اس نے وفات سے بیشتر اپنے لڑکے منصور پر نص کی اور اسے اپنا جانشین قرار دیا۔ اس کی موت کی خبر چھپائی گئی کیوں کہ ابھی ابو یزید خارجی کی بغاوت کا زور ٹوٹا نہیں تھا اور وہ ابھی سوسہ کا محاصرہ کیے ہوئے تھا۔

یہ بعض اوقات نرمی سے پیش آتا لیکن شیعی عقائد کی پابندی کے معاملے میں بہت سخت تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ابو طاہر قرمطی سے ملا ہوا تھا اور اسی کے حکم سے بحرین اور ہجر میں مسجدیں اور کلام مجید کے نسخے جلادیئے گئے تھے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ڈاکٹر زاہد علی۔ تاریخ فاطمین مصر

بیرونی روابط[ترمیم]

  • Imam al-Qaaim, the 12th Fatimi Imam.آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ archive.mumineen.org (Error: unknown archive URL)
  • Michael Brett (2001)۔ The Rise of the Fatimids: The World of the Mediterranean and the Middle East in the Fourth Century of the Hijra, Tenth Century CE۔ The Medieval Mediterranean۔ 30۔ Leiden: BRILL۔ ISBN 9004117415 
  • Heinz Halm (1996)۔ The Empire of the Mahdi: The Rise of the Fatimids۔ Handbook of Oriental Studies۔ 26۔ transl. by Michael Bonner۔ Leiden: BRILL۔ ISBN 9004100563 
  • J. J. Saunders۔ "The Turkish Irruption"۔ A History of Medieval Islam۔ Routledge۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2007 
محمد قائم بامراللہ
پیدائش: 893 وفات: 17 مئی 946
شاہی القاب
ماقبل  خلیفہ
3 اپریل 934ء– 17 مئی 946ء
مابعد