محمد مصطفٰی اعظمی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد مصطفٰی اعظمی
(عربی میں: محمد مصطفى الأعظمي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1932ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مئو[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 20 دسمبر 2017ء (84–85 سال)[3][4]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ریاض  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سعودی عرب
بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام[1]  ویکی ڈیٹا پر (P140) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم مئو  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ پرنسٹن،  مشی گن یونیورسٹی،  یونیورسٹی آف کولوراڈو بولڈر،  شاہ سعود یونیورسٹی  ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
عالمی شاہ فیصل اعزاز برائے مطالعہ اسلامیات  (1980)  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محمد مصطفیٰ اعظمی (پیدائش: 1932ء — وفات: 20 دسمبر 2017ء) ایک ممتاز بھارتی نژاد سعودی محدث تھے جنہیں سنہ 1980ء میں فن حدیث میں ممتاز خدمات کی بنا پر عالمی شاہ فیصل اعزاز سے نوازا گیا۔ مصطفی اعظمی کا آبائی وطن بھارت کے صوبہ اترپردیش میں واقع مئو شہر ہے۔ سنہ 1955ء ميں دار العلوم دیوبند سے عالمیت کی تکمیل کے بعد مصر کے جامعہ ازہر میں داخلہ لیا، ایم اے مکمل کرنے کے بعد سنہ 1966ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔ مصطفی اعظمی ایگناز گولڈزیہر، ڈیوڈ مارگولیوتھ اور جوزف شاخت کے نظریات پر تحقیقی تنقید کے لیے مشہور تھے۔

زندگی اور تعلیم[ترمیم]

وہ 1930ء کے آس پاس ضلع مئو میں پیدا ہوئے۔ دار العلوم دیوبند سے 1952ء میں فراغت حاصل کرنے کے بعد انھوں نے جامعہ الازہر سے 1955ء میں شهادة العالمية مع الإجازة بالتدريس کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد کچھ دنوں تک قطر میں غیر عربی داں حضرات کو عربی زبان کی تعلیم دی اور قطر کی پبلک لائبریری میں لائبریرین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اس مدت میں انھوں نے متعدد مخطوطات کی تحقیق بھی کی۔ 1964ء میں وہ برطانیہ چلے گئے اور 1966ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے Studies in Early Hadith Literature کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد پھر واپس قطر چلے گئے جہاں انھوں نے مزید دو سال تک قطر کی پبلک لائبریری میں کام کیا۔ 1968ء میں ان کا تقرر جامعہ ام القریٰ میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ پر ہوا جہاں وہ 1973ء تک تدریس سے وابستہ رہے۔ 1973ء سے ریٹائرمنٹ (1991ء) تک جامعہ شاہ سعود میں پروفیسر کے عہدہ پر رہے اور تدریس و تعلیم اور علم حدیث کے میدان میں اہم خدمات انجام دیں۔ اس دوران ان سے بے شمار علمائے حدیث اور طلبہ نے فائدہ اٹھایا اور ان کی نگرانی میں علوم حدیث میں تحقیقی کام سر انجام دیے۔ اس کے علاوہ وہ یورپ اور عالم عرب کی متعدد جامعات میں وزٹنگ پروفیسر کے عہدہ پر بھی رہے۔[5] جامعہ شاہ سعود میں انھوں نے بحیثیت پروفیسر خدمات سر انجام دیں اور اس جامعہ کے شعبۂ اسلامیات میں ہیڈ رہے۔ وہ قطر کے قومی و عوامی عجائب گھر کے مہتمم، جامعہ ام القریٰ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر، یونیورسٹی آف مشی گن کے وزٹنگ اسکالر، سینٹ کراس کالج، آکسفورڈ کے وزٹنگ فیلو، جامعہ پرنسٹن میں اسلامیات کے شاہ فیصل وزٹنگ پروفیسر اور جامعہ کولوراڈو بولڈر کے وزٹنگ اسکالر رہے۔[6] وہ یونیورسٹی آف ویلز ٹرینیٹی سینٹ ڈیوڈ میں بھی اسلامیات کے امتیازی فیلو رہے۔[7]

ان کی تصنیفات میں زیادہ تر زور مستشرقین کی حدیث کے متعلق کوتاہیوں کو درست کرنا تھا۔ خاص طور پر اس حقیقت کو نمایاں کرنے پر کہ پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے دوران (ان کی حمایت سے ) احادیث کی کتابت کا کام عروج پر تھا۔[8]

تصنیفات[ترمیم]

انھوں نے عربی اور انگریزی میں متعدد اہم کتابیں لکھیں جن میں سے اکثر کا اردو اور دیگر عالمی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ عربی میں ان کی اہم کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:

  1. دراسات في الحديث النبوي وتاريخ تدوينه: یہ کتاب دراصل ان کی پی ایچ ڈی کی تھیسس کا بعض اضافوں کے ساتھ عربی ترجمہ ہے، اس کے متعدد ایڈیشن نکل چکے ہیں۔
  2. منهج النقد عند المحدثين - نشأته - تاريخه
  3. كتاب النبي صلى الله عليه وسلم
  4. المحدثون من اليمامة إلى 250 هـ[5]

مرتب شدہ کام[ترمیم]

انھوں نے حدیث کی متعدد اہم کتابوں کو ایڈٹ کرکے شائع کیا جن میں مندرجہ ذیل کتب سر فہرست ہیں:

  1. العلاج از ابن المدنی
  2. کتاب التمييز از مسلم بن الحجاج
  3. مغازي رسول اللہ از عروہ بن زبیر
  4. موطأ الإمام مالك
  5. صحيح ابن خزيمة

اعزاز[ترمیم]

حدیث اور علوم حدیث کے میدان میں ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے 1980ء میں شاہ فیصل عالمی اعزاز ملا۔ نیز ان کے علمی کارناموں کو دیکھتے ہوئے 1981ء میں ان کو سعودی شہریت دی گئی۔[5]

وفات[ترمیم]

20 دسمبر 2017ء کو ریاض میں ان کی وفات ہوئی۔[9]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب http://www.deoband.net/blogs/category/ulama
  2. http://www.deoband.net/blogs/dr-muhammad-mustafa-azmi-his-contributions-to-hadeeth
  3. بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb122220507 — بنام: Muḥammad Muṣṭafā al- Aʿẓamī — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  4. Diamond Catalogue ID for persons and organisations: https://opac.diamond-ils.org/agent/68410 — بنام: Muhammad Mustafa al-Azami
  5. ^ ا ب پ ت شیخ ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی قاسمی دامت برکاتہم اور ان کی خدماتِ حدیث، از محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ماہنامہ دار العلوم، شمارہ 5، جلد: 98، رجب 1435 ہجری مطابق مئی 2014ء۔ اخذ کردہ بتاریخ 20 دسمبر 2017ء
  6. Azami, M. M. (2003). The History of the Qur'anic Text from Revelation to Compilation: A Comparative Study with the Old and New Testaments. Leicester: UK Islamic Academy. آئی ایس بی این 1-872531-66-0.
  7. "Visiting and Honorary Staff, School of Theology, Religious Studies and Islamic Studies, Faculty of Humanities, Departments; University of Wales Trinity Saint David"۔ 18 مئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 دسمبر 2017 
  8. Herbert Berg, The Development of Exegesis in Early Islam: The Authenticity of Muslim Literature from the Formative Period. Routledge Studies in the Qur'an. Transferred to digital publishing in 2005. he died in 20 December 2017 Routledge, 2013. آئی ایس بی این 9781136115226
  9. "عظیم محدث اور شاہ فیصل عالمی ایوارڈ یافتہ مولانا مصطفی اعظمی کا انتقال، پوری علمی دنیا سوگوار۔ ملت ٹائمز۔ اخذ کردہ بتاریخ 20 دسمبر 2017ء۔"۔ 27 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 دسمبر 2017 

بیرونی روابط[ترمیم]