سید محمد کاظم یزدی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(محمد کاظم یزدی سے رجوع مکرر)
سید محمد کاظم یزدی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 1831 ایران
یزد  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 1919 عراق
نجف  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ایران  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
مکتب فکر شیعہ
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان،  آخوند،  الٰہیات دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی[1]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

آیۃ اللہ العظمی ٰسید محمد کاظم طباطبائی یزدی ( 1831–1919) نجف میں مقیم ایک شیعہ مرجع تھے ، جوفقہی مسائل کے معروف مجموعے، العروۃ الوثقی ٰ، کو مرتب کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ [2][3]

ایران کے جمہوری انقلاب میں کردار[ترمیم]

آیۃ اللہ العظمی ٰسید محمد کاظم یزدی

وہ غیر سیاسی آدمی تھے لہذا ایران کے جمہوری انقلاب کے دوران وہ زیادہ تر غیر جانبدار رہے اور شاذ و نادر ہی کوئی سیاسی بیان جاری کیا۔ [4] آخوند خراسانی کے برعکس، ان کا خیال تھا کہ اصولی شیعیت میں سیاست میں کوئی کردار ادا کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ ان کے خیال میں ان کا تخصص فقہ میں تھا اور سیاست میں رائے دینے کے لیے درکار مہارت ان کے پاس نہیں تھی اس لیے انھوں نے اس میں حصہ لینے سے گریز کیا۔ [3] اگرچہ آخوند خراسانی نجف میں سب سے بڑے مرجع تھے کہ جن کا اصول فقہ کا درس خارج مشہور تھا، سید کاظم یزدی کا احکام (فقہ) کادرس خارج مشہور تھا۔ [5] دوسرے لفظوں میں محمد کاظم اور خراسانی دونوں نے نجف کو فقہ و اصول کے حوالے سے تحقیق کی اوج پر پہنچا دیا تھا اگرچہ وہ سیاست میں مختلف نظریات رکھتے تھے۔ [6]

آیات ثلاث: (دائیں سے بائیں) آیۃ اللہ العظمی ٰشیخ عبد اللہ مازندرانی، آیۃ اللہ العظمی ٰمرزا حسین تہرانی اور آیۃ اللہ العظمی ٰآخوند خراسانی

آخوند خراسانی اور باقی مراجع سے اختلاف کے باوجود وہ ایرانی بادشاہ محمد علی شاہ قاجار یامولوی فضل اللہ نوری کے مکمل حمایتی نہیں تھے اور ان کی کوششوں کے باوجود انھوں نے ان کی مکمل حمایت نہیں کی۔ اسی لیے جب پارلیمنٹ نے آئین کے حتمی مسودے کو جائزہ لینے نجف میں مراجع کے پاس بھیجا تو انھوں نے بھی کچھ تبدیلیاں تجویز کیں اور تائیدی دستخط کر دیے۔ [7] نوری گروپ کے پروپیگنڈے کے برعکس انھوں نے کہا کہ جدید صنعتیں لگانا جائز ہے جب تک کہ ان میں بنائے گئے مال کے بارے میں شریعت کی طرف سے واضح طور پر ممانعت نہ آئی ہو۔ [8] انھوں نے جدید علوم کی تعلیم سے بھی اتفاق کیا لیکن مذہب اور سیاست میں جدائی کے قائل ہونے کی وجہ سے کہا کہ ریاست کو مذہبی تعلیم کے مراکز (حوزہ) میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ وہ ایسی تنظیموں اور معاشروں کی تشکیل کے خلاف نہیں تھے جو افراتفری پیدا نہ کریں اور اس سلسلے میں ان کے نزدیک مذہبی اور غیر مذہبی تنظیموں میں کوئی فرق نہیں تھا۔ [8] قانون سازی میں، نوری کے برعکس، انھوں نے مذہبی قوانین (شریعت) اور عوامی قانون (عرفیہ) کے دائرے کو الگ قرار دیا۔ ان کی رائے یہ تھی کہ ذاتی اور عائلی معاملات کو مذہبی عدالتوں میں فقہا کے ذریعے طے کرنا چاہیے اور حکومتی امور اور ریاست کے معاملات جدید عدلیہ کو سنبھالنا چاہیے۔ پارلیمنٹ نے ان کی رائے کی بنیاد پر آئین میں آرٹیکل 71 اور 72 کا اضافہ کیا۔ [9] آیت اللہ یزدی نے کہا کہ جب تک جدید جمہوری آئین لوگوں کو شریعت کی طرف سے حرام کام کرنے اور مذہبی فرائض سے باز رہنے پر مجبور نہیں کرتا، جمہوری نظام کی مخالفت کی کوئی وجہ نہیں ہے اور حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غلط کام کرنے والوں کے خلاف مقدمہ چلائے۔ [10]

صوفیا کی نجاست کا فتویٰ[ترمیم]

آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم یزدی (متوفیٰ 1919ء) نے اپنی کتاب العروۃ الوثقی میں بصورت مشروط ان صوفیوں کی نجاست کا فتویٰ دیا ہے جو وحدت الوجود کے قائل اور اس کے بعض لوازمات سے ملتزم ہوں:

القائلین بوحدۃ الوجود من الصوفيّۃ إذا التزموا بأحکام الإسلام، فالأقوی عدم نجاستہم إلّا مع العلم بالتزامہم بلوازم

ترجمہ: ”وحدت الوجود کے قائل صوفیا اگر احکامِ اسلام کے پابند ہوں تو بہتر یہی ہے کہ ان کو نجس نہ سمجھا جائے، مگر یہ کہ ان کے اس کے لوازمات میں مبتلا ہو جانے کا علم ہو جائے۔“ [11]

لوازمات کی وضاحت کرتے ہوئے آیۃ اللہ العظمیٰ خمینی حاشیے میں لکھتے ہیں کہ:

إن كانت مستلزمۃ لإنکار أحد الثلاثۃ [12]

ترجمہ: ”اگر یہ عقیدہ تین چیزوں (الوہیت، توحید یا رسالت) میں سے کسی ایک کے انکار کا موجب ہو تو صوفی نجس سمجھا جائے گا۔“

ورثہ[ترمیم]

ان کی اہم کتابوں میں سے ایک العروۃ الوثقی ہے۔ [13] یہ کتاب جو عربی زبان میں ہے 1919 میں شائع ہوئی اور یہ ذاتی زندگی کے بارے میں فقہ جعفریہ کے احکام کے مجموعہ پر مشتمل ہے۔ [14] اب تک ان کتاب کی متعدد شروحات لکھی جا چکی ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb15555057x — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. Hermann 2013, p. 433.
  3. ^ ا ب Farzaneh 2015, p. 214.
  4. Arjomand, Said Amir (16 November 1989). The Turban for the Crown: The Islamic Revolution in Iran. Oxford: Oxford University Press. p. 52. ISBN 978-0-19-504258-0.
  5. Mottahedeh, R. (2014)۔ The Mantle of the Prophet۔ Oneworld Publications۔ ISBN 9781780747385۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2017 
  6. Hann, G.، Dabrowska, K.، Greaves, T.T. (2015)۔ Iraq: The ancient sites and Iraqi Kurdistan۔ Bradt Travel Guides۔ صفحہ: 292۔ ISBN 9781841624884۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2017 
  7. Farzaneh 2015, p. 215.
  8. ^ ا ب Farzaneh 2015, p. 216.
  9. Farzaneh 2015, p. 217.
  10. Farzaneh 2015, p. 218.
  11. سید محمد کاظم یزدی، العروۃ الوثقی، باب نجاسات
  12. آیۃ اللہ العظمیٰ خمینی، تعلیق بر عروةالوثقی، ص 37، باب نجاسات، موسسة تنظيم و نشر آثار الإمام الخمينى، تهران، 1422 ہجری قمری۔
  13. Urwa al-Wuthqa آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ hawzah.net (Error: unknown archive URL) hawzah.net Retrieved 27 Oct 2018
  14. Buchan, J. (2013)۔ Days of God: The Revolution in Iran and Its Consequences۔ Simon & Schuster۔ صفحہ: 377۔ ISBN 9781416597773۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2017 

مزید دیکھیے[ترمیم]

کتابیات[ترمیم]