مسجد منزل گاہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سکھر کی مسجد منزل گاہ کا سانحہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک اہم واقعہ ہے جس کا تذکرہ ماضی کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مسجد منزل گاہ سکھر میں دریائے سندھ کے کنارے پرانے اور نئے سکھر کے درمیان میں جزیرہ سادھو بیلہ کے عین سامنے واقع ہے۔ مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے ایک نواب میر معصوم بکھری نے اس کی تعمیر کرائی تھی۔ سکھر شہر کے بالکل سامنے دریائے سندھ کے عین وسط میں ایک ہندو سادھو نے 1800ء کے لگ بھگ ایک مندر ’’شری سادھو بیلہ ‘‘ کے نام سے تعمیر کرایا۔[1] 1839ء میں جب برطانوی فوج نے سکھر پر قبضہ کیا توانگریز افسران نے اپنی رہائش اور دفاتر کے لیے مساجد اور مزارات کو منتخب کر لیا۔ رچرڈ برٹن کے کہنے کے مطابق جو اولین افسران ان مقامات پر پہنچے انھوں نے مزارات کی دیواروں کو توڑ کر کھڑکیاں بنا لیں۔ برآمدوں کو مٹی اور کیچڑ سے بھر دیا اور ان کو بنگلوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ مسجد منزل گاہ کا میدان اور اس کی عمارتیں بھی کئی برس تک ان کے استعمال میں رہیں اور وہ ریزیڈنسی کہلاتی تھی۔ 1882ء میں سکھر کے کلکٹر نے رپورٹ دی کہ اس عمارت کو دریائے سندھ کی طغیانی کی وجہ سے خطرہ لاحق ہو گیا ہے لہٰذا ان میں قیام پزیر تمام افسران کو وہاں سے ہٹا دیا گیا ہے۔[2] پھر 1883ء میں سپرنٹنڈنٹ انجینئر نے کمشنر سندھ کو رپورٹ دی کہ ریزیڈنسی کو دوبارہ قابل رہائش نہیں بنایا جا سکتا اور سفارش کی کہ اس کو منہدم کر دیا جائے۔ بالآخر اس عمارت کو گرا کر برطانوی افسروں کو وہاں سے دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا۔ 1884ء میں ایسی تمام عمارتوں کو برطانوی افسر خالی کر گئے لیکن مسجد منزل گاہ مسلمانوں کو واپس نہیں کی اور مسلمان اس کی بجائے ایک دوسری عمارت میں نمازکی ادائیگی کرتے رہے۔ مسلمانوں نے مسجد کے قبضے کو انگریزوں سے واگزار کرانے کے لیے کوششیں جدوجہد شروع کیں۔۔ 1940ء میں پہلی بار برطانوی سرکار سے باضابطہ طور سے اسے مسلمانوں کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ جب مسلمانوں نے اس کی بازیابی کے لیے جدوجہد شروع کی تو ہندوئوں نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ چونکہ یہ مسجد سادھوبیلہ کی حدود میں واقع ہے اس لیے اسے مسلمانوں کو واپس نہیں کرنا چاہیے۔ بہرحال انگریزوں نے اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا۔ انھوں نے مسجد کے گرد ایک کمپائونڈ وال تعمیر کی تاکہ ہندوؤں کے جذبات مجروح نہ ہوں۔[3] ہندو اس فیصلے سے مطمئن نہ تھے اور انھوں نے مخالفت برقرار رکھی، 1932ء میں انگریزوں نے مسلمانوں کے مطالبے کو تسلیم کرنے اور اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کی بجائے مسجد پر تالا ڈال دیا اور چابی اپنے پاس رکھی۔ جب مسلمانوں نے دیکھا کہ کراچی میں ہندوئوں کی جانب سے طاقت کا مظاہرہ کرنے کے بعد انھیں ہنومان مندر واپس دیا گیاہے تو اس سے مسلمانوں کے ذہن میں بھی یہی تاثر ابھرا کہ اگر انھوں نے بھی اپنی مذہبی عبادت گاہ کی واپسی کے لیے جدوجہد کا راستہ نہ اپنایا تو انگریزوں کے قبضے سے مسجد کی واپسی ناممکن ہے۔ 1932ء تا 1936ء تک سکھر کے مسلمانوں کی طرف سے بنائی گئی مسلم ایسوسی ایشن نے مسجد کا تالا کھلوانے کے لیے جدوجہد کی۔ 1935ء کے ایکٹ کے تحت سندھ میں پہلی صوبائی اسمبلی کے انتخابات1937ء میں منعقد ہوئے۔ اس وقت دو پارٹیاں آپس میں نبرد آزما تھیں، مسلم پولیٹیکل پارٹی جس کے سربراہ سر غلام حسین ہدایت اللہ تھے اور دوسری یونائٹڈ پارٹی تھی۔ سکھر کے مسلمانوں نے سندھ کی صوبائی حیثیت بحال ہونے کے فوراً بعد مسجد منزل گاہ کے مسئلے پر اپنی تحریک شروع کی۔ اپریل 1937ء میں انتخابات میں کامیابی کے بعد سر غلام حسین ہدایت اللہ کی سربراہی میں صوبائی کابینہ تشکیل دی گئی۔ سکھر کے مسلمانوں کا ایک وفد جنوری، فروری 1938ء میں سر غلام حسین ہدایت اللہ سے ملا اور مسجد کی بازیابی کے لیے درخواست کی مگر اس کا کوئی خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔جبب مسلمانان سکھر نے دیکھا کہ ان کی مستقل جدوجہد نتیجہ خیز نہیں ہو گی تو انھوں نے کسی سیاسی تنظیم کے ذریعے اپنی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ ہندو تھے کہ وہ ہر قدم پر مسلمانوں کی مخالفت کر رہے تھے۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی تمام تنظیمیں مل کر بھی اپنا مطالبہ نہیں منوا سکیں۔ 23 مارچ 1938ء کو سر غلام حسین ہدایت اللہ کی کابینہ توڑ دی گئی اور خان بہادر اللہ بخش سومرو کو 13 اپریل 1938ء کو ان کا جانشین نامزد کیا گیا۔ انھوں نے قلمدان سنبھالنے کے بعد ایک نوٹ لکھا جس میں انھوں نے مسجد کی عمارت کو مسلمانوں کی تحویل میں دینے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔اپریل 1938ء کے وسط میں جمعیت العلماء کا ایک وفد سکھر گیا اور حکومت سندھ کے چیف سیکرٹری کا خط سکھر کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے حوالے کیا۔ سکھر میں قیام کے دوران میں وفد کے اراکین نے سکھر میں تقاریر کیں جن میں انھوں نے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ نئی کابینہ نے مسجد کی بحالی کا وعدہ کیا ہوا ہے لیکن اپریل 1938ء اور مئی 1939ء کے درمیان میں تک کچھ بھی نہیں ہوا۔ اب سکھر کے مسلمانوں نے بحالی مسجد کمیٹی تشکیل دی اور اس کے ذریعے مسلم لیگ پر مسئلہ حل کرنے کے لیے دبائو ڈالنا شروع کر دیا۔ اس کمیٹی نے حکومت کو الٹی میٹم دیا کہ مسجد منزل گاہ کے معاملے میں ایک مقررہ تاریخ تک حتمی فیصلہ کر دیا جائے ورنہ اپنی عبادت گاہ کی بازیابی کے لیے بھرپور طریقے سے احتجاجی تحریک چلائی جائے گی، 2 ستمبر 1939ء میں مسلم لیگ کے صوبائی سربراہ، سر عبداللہ ہارون بدات خود سکھر آئے اور ہندوئوں سے مفاہمت کی کوشش کی لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ مقررہ تاریخ تک مسجد کے بارے میں کسی بھی قسم کے فیصلے تک پہنچنے میں برطانوی سرکار ناکام رہی جس سے مایوس ہوکر بالآخر مسلمانوں نے یکم اکتوبر 1939ء سے احتجاج شروع کر دیا۔ ادھر مسلمانوں کا ایجی ٹیشن شروع ہوا، ادھر حکومت نے مسجد منزل گاہ پر پولیس متعین کر دی۔ احتجاج کے پہلے روز تقریباً 1000 مسلمان کارکن گرفتار کیے گئے۔13 اکتوبر 1939ء کو سکھر کے کلکٹر نے تمام نظربندوں کو رہا کرنے کا حکم دیا نیز یہ بھی حکم دیا کہ مسجد پر متعین فورس کو ہٹا یا جائے۔ 14 اکتوبر سے 18 اکتوبر تک مسجد مسلمانوں کے قبضے میں رہی۔ اس دوران میں ہندوؤں نے ایک کانفرنس منعقد کی جس کی صدارت آل انڈیا ہندو مہاسبھا کے صدر ڈاکٹر مونجے نے کی اور اس کاانعقاد دانستہ طور پر سکھر میں کیا گیا۔ اس کانفرنس میں بھگت کنور رام کے قتل کے خلاف ایک قرارداد منظور کی گئی جب کہ منظور کی جانے والی دوسری قرارداد میں مسجد منزل گاہ کے معاملے پر حکومت کی پالیسی کو کمزور قرار دیتے ہوئے سخت مذمت کی گئی۔اس کے ساتھ ہی یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ حکومت اس مسجد کو فوراً اپنی تحویل میں لے۔ مزید برآں ہندو وزراء، ہندو پارلیمانی سیکرٹریوں اور اسپیکر سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مستعفی ہو جائیں۔ اس کانفرنس میں یہ بھی طے پایا کہ 17 نومبر تک مسجد کو خالی نہ کرایا گیا تو ہندو ممبر وزیر اعلیٰٰ کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں گے۔ سب سے بڑھ کر مسلمانوں کے سماجی و معاشی بائی کا فیصلہ کرتے ہوئے ان سے تمام کاروباری تعلقات منقطع کردیے، ۔جواب میں مسلمانوں نے اپنی تحریک کو جہاد قرار دے کرجدوجہد شروع کر دی جس میں کارکنان بڑی تعداد میں شرکت کے لیے آنے لگے۔19 نومبر 1939ء کو مسجد منزل گاہ پر پولیس فورس تعینات کردی گئی۔ ہر کونے پر 20 غیر مسلح سپاہیوں کی 5 چوکیاں، 20 مسلح سپاہیوں کی 3 چوکیاں بنائی گئیں۔ ایوان میں 60 مسلح سپاہی تعینات کر دیے گئے اور 60 سپاہیوں کو الرٹ رکھا گیا۔ اس پولیس فورس کی تعیناتی کا مقصد مسجد کے رضاکاروں کو حدود سے باہر رکھنا تھا۔ 19 نومبر 1939ء کو 12 بجے دوپہر کو پولیس فورس کی معیت میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مسجد پہنچے اوروہاں موجود رضاکاروں کو حکم دیا کہ وہ منتشر ہو جائیں ورنہ ریاستی طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ اس وقت سکھر کا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، ٹی ٹی کوٹھا والا تھا۔ رضاکاروں نے حکم ماننے سے انکار کر دیا جس کے جواب میں اہلکاروں نے پہلے لاٹھی چارج کیا۔ 8 منٹ کے لاٹھی چارج کے بعد ایوان تو خالی ہو گیا لیکن اندر بھی مظاہرین موجود تھے، ان میں سے کئی ایک کو گرفتار بھی کیا گیا جن میں جی ایم سید بھی شامل تھے، جو مسجد کی بحالی کمیٹی کے رکن تھے۔[4] گرفتار شدگان میں نعمت اللہ پٹھان، ڈاکٹر محمد یامین، آغا نظر علی خان اور کئی دوسرے کارکن شامل تھے۔ جب پولیس اپنی چوکیوں پر واپس چلی گئی تو فوج آ گئی جس نے آتے ہی تمام علاقے کے گرد خاردار تاروں کی باڑھ کھڑی کر دی۔یہ کام شام 5 بجے مکمل ہوا اس وقت سکھر کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے رضاکاروں سے پھر کہا کہ وہ عمارت خالی کر دیں ورنہ طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ ان کے انتباہ کے بعد اکا دکا آدمی وہاں سے چلے گئے جب کہ باقی تمام کے تمام اندر ہی رہے۔ ڈسٹرکٹ مجبٹریٹ نے آنسو گیس استعمال کرنے کا حکم دیا جس پر فوری طور پر تعمیل کی گئی۔آنسو گیس کے گولے پھینک کر مسجد کی عمارت خالی کرا لی گئی اور اسے خاردار باڑھ سے بند کر کے سپاہیوں کو متعین کر دیا۔ اب تقریباً ڈیڑھ سو افراد عمارت کے اندر اور تین سو کے قریب کمپاؤنڈ میں موجود تھے۔اس تمام کارروائی کے دوران میں 14 مسلمان شہید ہوئے اور 4 زخمی ہوئے۔اس وقعے کے بعد سکھر سمیت دیگر علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے جن میں12مسلمان شہید اور 11 زخمی ہوئے جب کہ دو آدمی ضلع کے باقی حصوں میں رونما ہونے والے واقعات کے دوران میں شہید ہوئے اور ایک زخمی ہوا۔ اس کے مقابلے میں ترتیب وار33 ہندو سکھر شہر کے اندر اور120 افراد ضلع کے دیگر علاقوں میں مارے گئے جب کہ، 29 زخمی ہوئے جن میں کئی رہنماؤں کو بھی گرفتار کیا گیا اور انھیں حیدرآباد سینٹرل جیل میں رکھا گیا۔بالآخر 19جنوری 1940ء کو انھیں رہا کیا گیا۔ یوں ایک معرکہ آرا واقعہ اختتام کو پہنچا جسے ہندوؤں کی ہٹ دھرمی نے جنم دیا تھا اور جس کی وجہ سے درجنوں افراد مارے گئے۔ اس سانحہ کے بعد مسلمان مسجد کا قبضہ واگزار کرانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ مسجد آج بھی سکھر کے بندر روڈ پر واقع ہے۔ اس مں 1940ء میں جامعہ حمادیہ کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا گیا تھا جو آج بھی مذہبی درس و تدریس کا کام کررہا ہے۔[5] یاد رہے کہ جی ایم سید کی گرفتاری کے بعد نہ صرف مسجد منزل گاہ کے دفاع کی ذمہ داری بلکہ مسلم لیگ سندھ کی قاٸم مقام صدارت مجاہد فی سبیل اللہ حضرت پیر آقا غلام مجدد سرہندی فاروقی ؒ آف مٹیاری کو سونپی گٸی آپ مٹیاری سندھ سے ٣١٣ حفاظ و علما کے جتھے کے ہمراہ مسجد منزل گاہ پہنچے اور آخر تک مسجد میں ہی تشریف فرما رہے آپ کی زندگی تمام معلومات (بشمول تحریک ترک موالات تحریک خلافت تحریک ریشمی رومال جوہر برادران کی والدہ بی اماں صاحبہ کی مٹیاری شریف آمد تحریک خلافت کے پہلے شہید سے لے کر خالقڈینہ ہال کیس جناح صاحب سے ملاقات اور مسلم سندھ کے ناٸب صدر بننے نوابشاہ کے نزدیک ہزاروں ایکڑ زمین کا انگریز کے ہاتھوں ضبط ہونا لاکھوں کتب پر مشتمل لاٸبریری کو نذرآتش کرنا جوہر برادران کے ساتھ دوسال قید بامشقت ٢٤ دن تک جیل کے اندر بھوک ہڑتال کرنا) ان کے پوتے سجادہ نشین دربار پیر سرہندی مٹیاری حضرت پیر غلام مجدد سرہندی مجددی فاروقی ثانی مرکزی صدر پاکستان مشاٸخ اتحاد کونسل سے لی جا سکتی ہے

حوالہ جات[ترمیم]