مسلم بن یسار

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مسلم بن یسار
معلومات شخصیت
عملی زندگی
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مسلم بن یسارؒ تابعین میں سے ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

مسلم نام، ابو عبد اللہ کنیت، مشہور صحابی حضرت طلحہؓ بن عبید اللہ تمیمی کے غلام تھے۔

فضل وکمال[ترمیم]

حضرت طلحہؓ عشرۂ مبشرہ میں ہیں، ان کی ذات علم وعمل کا مجمع البحرین تھی،ان کی غلامی کے فیض اورمدینۃ الرسول کے قیام سے مسلم کا دامن علم وعمل کی دولت سے معمور ہو گیا تھا [1] علامہ ابن سعد لکھتے ہیں "کان مسلم ثقۃ فاضلا عابدا اوردعا مسلمن")ثقہ فاضل عبادت گزار اورورع تھے، ابن عون کا بیان ہے کہ اس زمانہ میں مسلم پر کسی کو فضیلت نہیں دی جاتی تھی۔ [2]

حدیث[ترمیم]

مدینہ کے قیام کی وجہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس اورابن عمر جیسے اکابرامت اور ابی الاشعث صنعانی،حمران بن ابان وغیرہ سے حدیث میں استفاد کا موقع ملا تھا۔ [3] ثابت البنانی، یعلی بن حکیم،محمد بن سیرین ،ایوب سختیا نی، ابو نضرہ بن قتادہ، صالح ابو الخلیل ،محمد بن واسع، عمرو بن دینار،اور آبان بن ابی عیاش جیسے علما ان کے زمرۂ تلامذہ میں تھے۔ [4]

فقہ[ترمیم]

فقہ میں ان کا پایہ نہایت بلند تھا، ان کا شمار بصرہ کے ان پانچ فقہا میں تھا جو اپنے زمانہ کے امام سمجھے جاتے تھے ۔ [5]

فضائل اخلاق[ترمیم]

ان کے علم سے زیادہ ان کا عمل تھا، ابن سعدان کو عابد اورمتورع لکھتے ہیں۔ [6] ابن حبان کا بیان ہے کہ وہ بصرہ کے عبادت گزار بزرگوں میں تھے۔ [7]

شرط ایمان[ترمیم]

آپ کے نزدیک ایمان باللہ کے لیے یہ ضروری تھا کہ اس کی تمام ناپسندیدہ چیزوں کو ترک کر دیا جائے؛چنانچہ فرماتے تھے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بندہ کا ایمان کس کا م آسکتا ہے،اگر وہ خدا کی ناپسندیدہ باتوں کو نہیں چھوڑتا۔ [8]

نماز میں ذوق واستغراق[ترمیم]

ان کی نماز بڑے کیف اوراستغراق کی ہوتی تھی،جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ان کو نور القاء ہورہا ہے،ابن عون کا بیان ہے کہ جب وہ نماز میں ہوتے تھے،تو بے جان لکڑی معلوم ہوتے تھے،بدن اور کپڑے میں ذرا حرکت نہ ہوتی تھی ،نماز کی حالت میں کیسے ہی خطرہ کی اور گھبرادینے والی صورت پیش آجاتی ان پر اس کا مطلق اثر نہ ہوتا تھا،ایک مرتبہ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کے پہلو ہی میں آگ لگی اورلگ کر بجھ بھی گئی؛ لیکن ان کو مطلق خبر نہ ہوئی۔ [9]

مرض کے علاوہ جب کہ انسان بالکل مجبور ہوجاتا ہے اور کسی حالت میں خدا کے حضور میں بیٹھ کر تضرع پسند نہ تھا،ایک مرتبہ کسی نے کشتی میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کے متعلق پوچھا، فرمایا میں اسے پسند نہیں کرتا کہ خدا مجھے مرض کے علاوہ اپنی نماز میں بیٹھا ہوا دیکھے دعوت الی الصلوٰۃ کا اتنا لحاظ تھا کہ اگر دور سے کانوں میں اذان کی آواز آجاتی تو اسی مسجد میں جاکر نماز پڑھتے، ایک مرتبہ کسی مسجد سے واپس جا رہے تھے کہ کچھ دور جاکراذان کی آواز سنی اسے سُن کر پھر مسجد لوٹ گئے،مؤذن نے پوچھا آپ لوٹ کیوں آئے،فرمایا تم نے لوٹا دیا۔ [10] مسجد کی خدمت ان کا خاص مشغلہ تھا،مسجدوں میں چراغ جلایا کرتے،اس مشغلہ کی وجہ سے مسلم المصبح یعنی چراغ جلانے والے مسلم، ان کا لقب ہو گیا تھا۔

پا بندی سنت میں اہتمام[ترمیم]

سنت کی پابندی میں بڑا اہتمام تھا،معمولی معمولی سنتیں بھی نہ چھوٹنے پاتی تھیں ،محض سنت کے خیال سے جوتا پہن کر نماز پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ جوتا اتارنا میرے لیے آسان ہے،لیکن محض پابندی سنت کے خیال سے جوتوں میں نماز پڑھتا ہوں،آنحضرت ﷺ خرمے سے روزہ افطار کرتے تھے،اس لیے ان کا افطار بھی خرمے ہی سے ہوتا تھا۔ [11]

کتاب اللہ کا احترام[ترمیم]

کتاب اللہ کا اتنا احترام ملحوظ رہتا تھا جس ہاتھ سے قرآن پکڑتے تھے اس کو محلِ نجاست سے مس نہ کرتے تھے اورفرماتے تھے کہ میں داہنے ہاتھ سے شرمگاہ کو مس کرنا برا سمجھتا ہوں؛کیونکہ اس سے قرآن پکڑنا پڑتا ہے۔ [12]

ریا،جہل اورشیطان کا آلہ[ترمیم]

ریا اوردکھاوے کو جہالت اورشیطان کا آلہ سمجھتے تھے فرماتے تھے کہ تم لوگ نمایش سے بچو؛کیونکہ وہ عالم کی جہالت کی ساعت ہے،اسی کے ذریعہ سے شیطان لغزش پیدا کرتا ہے۔ [13]

حلم ومتانت[ترمیم]

نہایت متین اورحلیم الطبع تھے،اشتعال کے موقع پر بھی زبان سے کوئی ناروا کلمہ نہ نکلتا تھا، کبھی کسی کو گالی نہیں دی،غیظ وغضب کے موقع پر جو سب سے زیادہ سخت لفظ ان کی زبان سے نکلتا تھا، وہ یہ تھا کہ اب مجھ سے قطع تعلق کرلو جب وہ یہ الفاظ کہہ دیتے تو لوگوں کو معلوم ہوجاتا کہ اس کے بعد غصہ کا کوئی درجہ باقی نہیں رہ گیا ہے۔ [14]

فتنہ اشعث کے ابتلا پر تاسف[ترمیم]

اس متانت طبع کا نتیجہ یہ تھا کہ شوروشر اورجنگ وجدال کو سخت ناپسند کرتے تھے،لیکن محمد بن اشعث کی شورش میں جس میں متعدد اکابر تابعی مبتلا ہو گئے تھے ،ان کا دامن بھی محفوظ نہ رہ سکا اور اس میں وہ شریک ہو گئے تھے، گو اس میں بھی انھوں نے تلوار نہیں اٹھائی، لیکن محض شرکت پر سخت متاسف تھے، ابو قلابہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ مکہ کے سفر میں میرا اورمسلم کا ساتھ ہوا انھوں نے اشعث کے فتنہ کا ذکر کرکے کہا الحمد للہ میں نے اس فتنہ میں نہ کوئی تیر پھینکا ،نہ نیزہ مارا،اورنہ تلوار چلائی،میں نے کہا لیکن یہ بتائیے کہ ان لوگوں کا کیا انجام ہوگا جنھوں نے آپ کو صف میں کھڑا دیکھ کر کہا کہ مسلم بن یسار اس جنگ میں ہیں اور وہ ناحق کسی معاملہ میں شریک نہیں ہو سکتے، یہ خیال کر کے وہ لڑے اورمارے گئے،یہ سُن کر وہ بے تحاشا رونے لگے ،ان کی یہ حالت دیکھ کر مجھے ندامت ہوئی کہ میں نے ایسا کیوں کہا۔ [15]

وفات[ترمیم]

عمر بن عبد العزیزؓ کے عہد خلافت 100 یا 101 میں وفات پائی۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (ابن سعد،ج7،ق اول،ص137)
  2. (تہذیب التہذیب:1 /140)
  3. (تہذیب التہذیب ایضاً)
  4. (ایضاً)
  5. (تہذیب الاسماء،جلد اول،ق اول،ص93)
  6. (ابن سعد،ج 7،ق اول،ص137)
  7. (تہذیب التہذیب:10/141)
  8. (تہذیب التہذیب:10/141)
  9. (تہذیب التہذیب ایضاً:136)
  10. (ایضاً:126)
  11. (ابن سعد،ج 7،ق اول،ص136)
  12. (ابن سعد ایضاً)
  13. (ابن سعد ایضاً)
  14. (ابن سعد ایضاً)
  15. (ابن سعد،ک7،ق اول،ص132)