ملک غلام محمد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ملک غلام محمد
تفصیل= ملک غلام محمد (1895–1956)
تفصیل= ملک غلام محمد (1895–1956)

تیسرا گورنر جنرل پاکستان
مدت منصب
17 اکتوبر 1951 – 7 اگست 1955
حکمران جارج ششم (1951-52)
ایلزبتھ دوم (1952-55)
وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین (1951–53)
محمد علی بوگرہ (1953–55)
خواجہ ناظم الدین
اسکندر مرزا
وزیر خزانہ پاکستان
مدت منصب
15 اگست 1947 – 19 اکتوبر 1951
وزیر اعظم لیاقت علی خان
تحریک پاکستان
چوہدری محمد علی
معلومات شخصیت
پیدائش 20 اپریل 1895ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 12 ستمبر 1956ء (61 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت آل انڈیا مسلم لیگ
آزاد سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی علی گڑھ یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سرمایہ کار ،  سیاست دان ،  چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت انڈین سول سروس   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 کمپینین آف دی آرڈر آف دی انڈین ایمپائر
 نائٹ بیچلر    ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملک غلام محمد

قیام پاکستان کے بعد ملک غلام محمد نے پہلے وزیر خزانہ کے طور پر کام کیا۔26 نومبر1949ء میں پاکستان نے بین الاقوامی اسلامی معاشی کانفرنس کا انعقاد کیا اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملک صاحب نے اسلامی ممالک کا معاشی بلاک قائم کرنے کی تجویز پیش کی۔

ملک غلام محمد25 اپریل 1895ء میں موچی دروازہ لاہور کے ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئے انھوں نے ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی جبکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ تشریف لے گئے جہاں سے انھوں نے بی اے کا متحان پاس کیا۔ انھوں نے انڈین اکاؤنٹ سروس میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی حیثیت سے کام کیا اس کے بعد ریلوے بورڈ میں ذمہ دار عہدہ پر کام کرتے رہے۔ جنگ عظیم دوم کے دوران انھوں نے کنٹرولر آف جنرل سپلائی اینڈ پر چیز کی ذمہ داریاں سر انجام دیں۔ پہلی گول میز کانفرنس میں آپ نے نواب آف بہاول پور کے نمائندے کے طور پر کام کیا۔ آپ نے نظام حیدرآباد کے مشیر خزانہ کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دیں۔ تقسیم ہند سے قبل آپ نواب زادہ لیاقت علی خان کے معاون کے طور پر کام کرتے رہے ان کے تعاون سے نواب زادہ صاحب نے ایک شاندار بجٹ تیار کیا جو غریب کا بجٹ “کہلایا۔

ملک غلام محمد کی خراب صحت کے باعث نواب زادہ لیاقت علی خان نے انھیں ان کے عہدہ سے سبکدوش کرنے کا فیصلہ کیا مگر ان کی بے وقت شہادت نے ملک صاحب کے مقدر بدل دیے ۔

کابینہ نے فیصلہ کیاکہ خواجہ ناظم الدین کو وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں سونپی جائیں جبکہ ملک غلام محمد کو گورنر جنرل کا عہدہ دیاجائے۔ اس طرح ملک غلام محمد پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل بنے۔ ان کا دورِ حکومت پاکستان میں بیوروکریسی کی سازشوں اور گٹھ جوڑ کا آغاز تھا۔ غلام محمد نے ہی طاقت کے حصول کے لیے بنگالی وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر کے مشرقی پاکستان کے عوام میں مغربی پاکستان کے خلاف بداعتمادی کا بیج بویا۔ یہ برطرفی غلام محمد اور فوج کے سربراہ ایوب خان کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ممکن ہو سکی تھی کیونکہ صرف 2 ہفتے قبل ہی خواجہ ناظم الدین نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا تھا۔

1954ء میں دستور سازاسمبلی نے قانون میں ترمیم کی کوشش کی تاکہ گورنر جنرل کے اختیارات میں کمی کی جائے گورنر جنرل غلام محمد کو جب ان حالات کا علم ہوا تو انھوں نے 24 اکتوبر، 1954ء کو فوری طور پر دستور سازاسمبلی کو برخواست کر دیا ۔ دستور ساز اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین نے اس برطرفی کوسندھ چیف کورٹ میں چیلنج کیا۔ سندھ کی اعلیٰ عدالت نے مولوی تمیزالدین کے حق میں فیصلہ دیا کہ گورنر جنرل کا فیصلہ غیر آئینی تھا اس فیصلے کے خلاف حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل کی تو اس کے نتیجے میں جسٹس منیر کا وہ بدنام زمانہ فیصلہ آیا جس میں گورنر جنرل کا فیصلہ جائز قرار دیا اور اسے نظریہ ضرورت قرار دیا کہ دستور ساز اسمبلی اپنی اہمیت و افادیت کھو چکی ہے۔ اس فیصلے نے پاکستان میں فوج اور بیوروکریسی کی سازشوں کا ایک نہ رکنے والا باب کھول دیا۔ جسٹس منیر نے فیصلے میں یہ احمقانہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان نے مکمل آزادی حاصل نہیں کی ہے اور اب بھی جزوی طور پر تاج برطانیہ کا حصہ ہے۔ اس رو سے دستور ساز اسمبلی گورنر جنرل کے ماتحت ہے اور گورنر جنرل کو اسے برخواست کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس مقدمے میں صرف ایک غیر مسلم جج جسٹس کارنیلیس نے یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان مکمل طور پر آزاد مملکت ہے اور دستور ساز اسمبلی ایک خود مختار ادارہ ہے جسے گورنر جنرل برطرف نہیں کر سکتا۔ اسی مقدمے میں جسٹس منیر نے بدنامِ زمانہ نظریہ ضرورت بھی متعارف کروایا۔گورنر جنرل کے اس فیصلہ کے خلاف عوام وخواص کو سخت ناپسند کیا گیا اس پر تنقیدکی گئی ۔

بیماری وعلالت[ترمیم]

گورنر جنرل غلام محمد بلڈ پریشر،لقوے اور فالج کے مریض تھے ان کی کہی ہوئی باتیں سمجھنا مشکل اور دشوارتھا مگر اس کے باوجود وہ اتنے بڑے عہدے پر رونق افروز تھے ،ان کی علالت کی وجہ سے انھیں دوماہ کی رخصت پر بھیجاگیا ان کی جگہ سکندر مرزا کو قائم مقام گورنر جنرل کی ذمہ داریاں دی گئیں۔ ملک صاحب نے 12 ستمبر1956ء کو 61 سال کی عمر میں لاہور میں وفات پائی ۔

تدفین[ترمیم]

گورنر جنرل غلام محمد کو کراچی کے فوجی قبرستان میں دفنایا گیا، جو گورا قبرستان، کراچی کے ساتھ ہی واقع ہے۔

اقتباس[ترمیم]

قدرت اللہ شہاب گورنر غلام محمد کے پرسنل سیکریٹری تھے۔ اپنی کتاب شہاب نامہ میں وہ لکھتے ہیں:

"مسٹر غلام محمد نے کبھی یہ بات تسلیم نہ کی تھی کہ فالج کی وجہ سے ان کی زبان میں شدید لکنت ہے اور لوگ ان کی بات سمجھنے سے قاصر ہیں۔ غالباً وہ اسی خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ ان کی باتوں کا معیار اتنا بلند ہوتا ہے کہ کم فہم لوگ انھیں آسانی سے سمجھ نہیں پاتے یا کبھی کبھی وہ سمجھتے تھے کہ دوسرے لوگوں کو سماعت میں کوئی فتور ہے۔ ایک روز ایک جائنٹ سیکرٹری اپنے وزیر کے ہمراہ گورنر جنرل کے پاس آیا ہوا تھا۔ اس بیچارے کی سمجھ میں گورنر جنرل کی کوئی بات نہ آ رہی تھی۔ تنگ آ کر مسٹر غلام محمد نے پوچھا ” کیا تم بہرے ہو؟"
جان بچانے کی خاطر جائنٹ سیکرٹری نے بہانہ بنایا۔ ”جی ہاں سر۔ آج کل میرے کانوں میں بڑی تکلیف ہے۔" اب کیا تھا۔ گورنر جنرل نے ڈسپنسری سے کمپاؤنڈر کو بلوایا اور وہیں بیٹھے بیٹھے بیچارے جائنٹ سیکرٹری کے کانوں میں پچکاری لگوا کر صفائی کر دی!
ایک بار عید کے موقع پر مسٹر غلام محمد کے سر پر یہ بھوت سوار ہو گیا کہ وہ قوم کے نام اپنا پیغام خود براڈ کاسٹ کریں گے۔ ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل زیڈ۔ اے۔ بخاری کو یہ ترکیب سوجھی کہ پیغام ریکارڈ کر کے پہلے گورنر جنرل کوسنا دیا جائے۔ وہ عقل مند آدمی ہیں۔ یہ اشارہ خود سمجھ جائیں گے کہ ان کی آواز اس قابل نہیں ہے کہ ریڈیو پر براڈ کاسٹ کی جائے۔ چنانچہ بخاری صاحب کی سرکردگی میں بڑے اہتمام سے مسٹر غلام محمد کی تقریر ریکارڈ کی گئی۔ اس کے بعد بخاری صاحب نے بڑے ادب سے پوچھا۔ ”حضور کیا آپ اپنی تقریر کا ریکارڈ سننا پسند فرمائیں گے ؟" ضرور۔ گورنر جنرل نے گرمجوشی سے جواب دیا۔
اب جو ریکارڈنگ کا ٹیپ چلایا گیا تو اس سے خر خر غر غر، غاں غاں کے ساتھ لپٹی ہوئی ایسی آوازیں برآمد ہونے لگیں جیسے پھٹے ہوئے پائپ سے بہت سی گیس بہ یک وقت خارج ہونے کی کوشش کر رہی ہو۔ آدھا ٹیپ سن کر مسٹر غلام محمد آپے سے باہر ہو گئے اور انھوں نے بخاری صاحب کا ٹیٹوا لیا کہ ریڈیو کا یہ کیسا اناڑی ڈائریکٹر جزل ہے جو ایک تقریر بھی صحیح طور پر ریکارڈ نہیں کر سکتا؟ اس روز ہم لوگوں نے بڑی مشکل سے بخاری صاحب کو گورنر جنرل ہاؤس سے صحیح سلامت باہر نکلا اور مسٹر غلام محمد کافی عرصہ تک اپنے ملنے والوں سے ان کی نااہلی اور اناڑی پن کا رونا روتے رہے۔
کابینہ کے وزیر غیر ملکی سفیر اور دوسرے ملاقاتی جب گورنر جنرل سے ملنے آتے تھے تو انھیں مسٹر غلام محمد کی گفتگو سمجھنے میں بڑی دشواری پیش آتی تھی۔ ایسے موقعوں پر کوئی اے۔ ڈی۔ سی یا مس بورل یا میں موقع پر موجود ہو کر ترجمانی کے فرائض ادا کیا کرتے تھے۔ ایک بار مصر کے صدر جمال عبدالناصر کسی دورے پر جاتے ہوئے ایک رات کے لیے کراچی میں رکے۔ انھیں گورنر جنرل ہاؤس میں مہمان ٹھہرایا گیا۔ رات کو ان کے اعزاز میں عشائیہ تھا۔ ڈنر سے پہلے دونوں صاحبان کچھ دیر کے لیے ایک دوسرے سے ملے تو ان کے درمیان انگریزی میں گفتگو ہونے لگی۔ بات چیت کا آغاز اس طرح ہوا:
مسٹر غلام محمد: پچھلے سال میں بڑا شدید بیمار ہو گیا تھا۔
صدر ناصر:( کچھ نہ سمجھے۔ بلکہ یہ قیاس کیا کہ رسم کے مطابق وہ ان کی خیریت دریافت کر رہے ہیں) یس۔ ایکسیلنسی۔ گڈ ویری گڈ۔
مسٹر غلام محمد: میں اتنا سخت بیمار ہو گیا تھا کہ مرنے کے قریب تھا۔
صدر ناصر: یس، ایکسیلنسی۔ گڈ۔ ویری گڈ!
اس مرحلے پر ہمارے عملے کا ایک آدمی وہاں پہنچ گیا اور اس نے ترجمانی کا فریضہ سنبھال کر صورت حال کو مزید پیچیدگی سے بچا لیا۔
اس زمانے میں ترکی کے صدر جلال بیار نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ وہ انگریزی بالکل نہ سمجھتے تھے اور ان کا ذاتی ترجمان ہمیشہ ان کے ساتھ رہتا تھا۔ گورنر جنرل کے سرکاری ڈنر کے دوران ترجمان دونوں کے پیچھے کرسی پر بیٹھ گیا تا کہ مسٹر غلام محمد کی گفتگو کا ترجمہ ترکی میں اور جلال بیارر کی باتوں کا ترجمہ انگریزی میں کرتا جائے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پسینہ پسینہ ہو گیا اور سر پکڑ کر وہاں سے غائب ہو گیا کیونکہ مسٹر غلام محمد کی کوئی بات اس کی سمجھ میں نہ آ رہی تھی۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا میں اس کی کچھ مدد کروں؟ اس نے جواب دیا کہ صدر جلال بیار نے کہا ہے کہ ہ ترجمان کے بغیر ہی صورت حال سے بخوبی نپٹ لیں گے۔ چنانچہ اس کے بعد کھانے کے دوران مسٹر غلام محمد مسلسل بولتے رہے اور ترکی کے صدر کبھی مسکرا کر، کبھی سر ہلا کر، کبھی آنکھیں گھما کر ان باتوں کا جواب اشاروں ہی اشاروں میں دیتے رہے۔ کھانے کی میز پر دو سربراہان مملکت کے درمیان اس قدر طویل یکطرفہ مکالمہ اور کہیں نہیں ہوا ہو گا۔"