مولانا مرزا احمد علی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مولانا مرزا احمد علی
معلومات شخصیت
پیدائش فروری1884ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
امرتسر  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 11 جون 1970ء (85–86 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (مارچ 1884–اگست 1947)
پاکستان (اگست 1947–11 جون 1970)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ ثناء اللہ امرتسری  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم،  محقق،  مبلغ،  مصنف،  خطیب  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی،  فارس،  اردو،  انگریزی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مولانا مرزا احمد علی ،(پیدائش: مارچ 1884ء – وفات: 11 جون 1970ء) پاکستان میں شیعہ عالم، محقق اور مصنف تھے۔مولانا مرزا احمد علی پاکستان کے مایہ ناز شیعہ عالم تھے جنھوں نے اپنی مناظرانہ زندگی سے اکثریت کو متاثر کیا۔ آپ نے پچاس سے زائدکتب تصانیف کیں اور تمام عمر تبلیغ میں سرگرداں رہے۔

سوانح[ترمیم]

پیدائش[ترمیم]

مولانا مرزا احمد علی کی پیدائش مارچ 1884ء میں امرتسر میں ہوئی۔

تعلیم[ترمیم]

مولانا احمد علی کی عمر ابھی دس برس کی ہی تھی کہ اُن کے والد کا اِنتقال ہو گیا مگر آپ نے تعلیم جاری رکھی۔ عربی اور فارسی کی تعلیم آپ نے مولانا خلیفہ عبد الرحمٰن مدرسِ اعلیٰ مدرسہ تائید الاسلام (امرتسر)، مولانا عبد الباقی، مولانا نجم الدین، مولانا فیض اللہ اور مولانا عبد الصمد سے حاصل کی۔ اِن اساتذہ کے علاوہ شیعہ علما میں سے مفسر قرآن مولانا ابو القاسم (متوفی 1906ء) اور مولانا سید علی الحائری (متوفی 1940ء) سے بھی تلمذ رہا۔ آپ نے جماعت اہل حدیث کے امیر مولانا ثناء اللہ امرتسری سے عربی پڑھی اور خود مولانا موصوف کوانگریزی زبان سکھائی۔ تعلیم مکمل کرلینے کے بعد آپ نے ملازمت اختیار کرلی۔[1]

بطور مبلغ و مصنف[ترمیم]

مولانا کو ہروقت تبلیغ مذہب کی فکر لاحق رہا کرتی تھی۔ اُن کی یہی فکر تقریری و  تحریری مناظروں اور تالیفات کی تصنیف میں کامیاب ہوئی۔  آپ نے پچاس سے زائد کتب تصنیف کیں۔ مقالات اِن کے علاوہ ہیں۔ تصانیف یہ ہیں:

  • لوامع القرآن (ترجمہ و تفسیر قرآن)۔
  • شیعہ پاکٹ بک (مناظرہ)۔
  • مرآۃ القادیانیہ ـ یہ ردِ قادیانیت پر لکھی گئی ہے۔
  • دلیل العرفان ـ یہ کتاب بھی ردِ قادیانیت پر لکھی گئی ہے۔
  • لوح باب و بہا۔
  • سلک الجواہر : یہ کتاب آغا خانیوں کے لیے دروسِ ہدایت پر تحریر کی گئی ہے۔
  • پرواز قیاس : یہ کتاب غلام احمد پرویز کے قیاس پر مبنی خودساختہ نظریات کے رد میں لکھی گئی ہے۔
  • سیر الاولین یعنی تاریخ امویین ـ یہ کتاب ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور سے شائع کردہ کتاب’’ تہذیب تمدن اسلامی‘‘ کے جواب میں لکھی گئی ہے جس کے مصنف رشید اختر ندوی تھے۔ اثر الولاء بجواب اسرار روایات کربلاء ـ یہ کتاب خادم حسین قادیانی کے جواب میں لکھی گئی۔
  • فتح حیدری در مناظرۂمنٹگمری ـ ساہیوال میں ایک منعقدہ مناظرہ کی تحریر۔
  • ظفر المبین در مناظرہ معین الدین : یہ بھی ایک مناظرہ کی تحریر ہے۔
  • فتح المبین بجواب ملا کرم دین: یہ مناظرہ مولانا اور مولوی کرم دین بھیں کے درمیان کندیاں، ضلع میانوالی میں پیش آیا تھا جس میں مولانا کو فتح حاصل ہوئی۔ تعجب ہے کہ مولانا عبد الحکیم شرفِ قادری نے اپنی کتاب میں اِس کے برعکس بات لکھ دی۔[2]
  • میزان المقال در مناظرۂ چکوال : چکوال میں ایک مناظرے کی تحریر۔
  • مفاتح البرکات بجواب شوائظ البرقات: نواب محسن الملک نے جو کتاب ’’آیاتِ بَیِّنَات‘‘ کے عنوان سے اہل تشیع کے خلاف لکھی تھی، اُس کا ایک جواب ’’رمی الجمرات‘‘ کے عنوان سے مولانا سید قطب علی شاہ (متوفی 1327ھ) نے ’’شوائظ البرقات‘‘ نامی کتاب سے دیا تھا جس کا جواب مولانا مرزا نے مفاتح البرکات کے نام سے دیا۔
  • ماھیہ المعاویہ۔
  • الانصاف فی الاستخلاف مرزا غلام احمد قادیانی: فرقہ قادیانیہ کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کے ایک مرید قاضی اکمل نے خلفائے ثلاثہ کے حق میں ایک رسالہ بنام ’’ استخلاف الانصاف‘‘ لکھا تھا جس کا مولانا نے جواب اِس کتاب کے ذریعہ سے دیا ۔[3]

عملی و تحریری خدمات[ترمیم]

مولانا مرزا احمد علی نے پاکستان میں قائم ہونے والے متعدد مدارس کے ساتھ عملی تعاون بھی کیا۔ آپ روزانہ ڈائری لکھا کرتے تھے، اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک بار فرقہ قادیانیہ کے کچھ افراد نے مولانا کو پانچ صد روپیے ماہانہ کی پیشکش کی تھی تاکہ وہ قادیانی مبلغ بن سکیں مگر مولانا نے اُسے پائے حقارت سے ٹھکرادیا تھا[4]۔مولانا سید غلام عباس نقوی (بھکر) نے آپ سے علمی استفادہ کیا ہے۔[5]ہفت روزہ ’’اخبار شیعہ‘‘ کی طرف بھی قوم کو آپ ہی نے متوجہ کیا۔ [6]

محمد بن عبد الوہاب سے تحریری مناظرہ[ترمیم]

مقام تعجب ہے کہ مولانا مرزا احمد علی کے فرزند ڈاکٹر عسکری نے مولانا کی سوانح میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک مرتبہ مولانا مرحوم کا مناظرہ محمد بن عبد الوہاب نجدی سے بھی ہوا۔ یہ بات درست نہیں ہو سکتی کیونکہ محمد بن عبد الوہاب نجدی کا سنہ وفات 1792ء ہے جبکہ مولانا مرزا کا سنہ پیدائش 1884ء ہے۔[7]

وفات[ترمیم]

تمام عمر تبلیغ میں بسر کرنے اور تصنیف و تالیف میں مصروف رہنے میں آپ علیل رہنے لگے اور بالآخر 6 ربیع الثانی 1390ھ مطابق 11 جون 1970ء کو وفات پاگئے۔ آپ کی تاریخ وفات ابوظفر نازش رضوی مرحوم کے اِس مصرعے سے نکلتی ہے:’’بولا ہاتف دیکھ ـ— وہ ہے ساکنِ باغ اِرم‘‘۔[8]

کتابیات[ترمیم]

  • مولانا عبد الحکیم شرف قادری: تذکرۂ اکابر اہلسنت۔
  1. تذکرہ علما امامیہ پاکستان، صفحہ 28۔
  2. تذکرۂ اکابر اہلسنت، صفحہ 410۔
  3. تذکرہ علما امامیہ پاکستان، صفحہ 28-30۔
  4. ڈاکٹر حسن عسکری: مرگِ باشرف۔
  5. ماہنامہ معارف اسلام: صفحہ 29، مضمون ہم عصر ہمہ اثر مولانا غلام عباس، جون 1971ء
  6. تذکرہ علما امامیہ پاکستان، صفحہ 30۔
  7. تذکرہ علما امامیہ پاکستان، صفحہ 30۔
  8. تذکرہ علما امامیہ پاکستان، صفحہ 29-30۔