نرسی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نرسی
(Pahlavi میں: 𐭭𐭥𐭮𐭧𐭩 (Nrshy) ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 3ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 302ء (1–2 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن نقش رستم   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ساسانی سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد ہرمز دوم   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد شاپور اول   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
خاندان خاندان ساسان   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
ساسانی سلطنت کا بادشاہ   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
293  – 302 
بہرام سوم  
ہرمز دوم  
دیگر معلومات
پیشہ شاہی حکمران   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

شہنشاہ نرسی کا تعلق خاندان ساسان سے تھا۔ وہ دوسرا ساسانی بادشاہ شاہ پور کا بیٹا تھا۔ اس کا دور حکومت آٹھ سالوں پر مشتمل ہے۔

تخت نشینی[ترمیم]

بہرام دوم کی وفات 293ء میں ہوئی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا بہرام سوم تخت نشین ہوا لیکن وہ ابھی چار ماہ ہی حکومت کر پایا تھا کہ شاہپور اول کے بیٹے نرسی نے بغاوت کر دی۔ اس بغاوت میں نرسی کو کامیابی ملی۔ چنانچہ 293ء میں ہی نرسی کی تاج پوشی کی گئی۔

آرمینیا کی فتح[ترمیم]

نرسی تخت و تاج سنبھالتے ہی آرمینیا کی طرف متوجہ ہوا۔ آرمینیا اردشیر کے زمانے سے ایرانی حکومت کے تحت تھا لیکن بہرام دوم کے زمانے میں تیرداد نے حکومت روم کی مدد سے وہاں کی حکومت سنبھال لی تھی۔ چنانچہ اس طرح آرمینیا براہ راست رومیوں کی تسلط میں آ گیا۔ نرسی کو یہ تسلط کسی صورت گوارا نہ تھا۔ اس نے 296ء میں آرمینیا پر حملہ کر دیا۔ تیرداد نے مقابلے کی تاب نہ پا کر راہ فرار اختیار کی اور روم چلا گیا۔

رومیوں کی شکست[ترمیم]

تیرداد روم پہنچ کر اپنے محسن ڈیو کلیشن سے مدد کا خواستگار ہوا۔ ڈیو کلیشن نے اپنے ایک سپہ سالار گیلیرئس کو جو ڈینیوب میں مقیم تھا حکم دیا کہ شام جائے اور شاہی لشکر کی کمان سنبھال کر ایران پر چڑھائی کر دے۔ شہنشاہ نرسی بھی غافل نہ تھا۔ اسے خیال تھا کہ رومیوں سے جنگ کرنی پڑے گی اس لیے صورت حال کا مقابلہ کرنے کو تیار تھا۔ گیلیرئس شامی لشکر لے کر بین النہرين آیا۔ حران کے قریب دونوں لشکروں کا آمنا سامنا ہوا۔ دو دن تک پورے جوش وخروش سے لڑائی ہوئی جس سے دو دریاؤں کی سرزمین میں انسانی خون کی ندی بہہ نکلی لیکن جنگ کا کوئی فیصلہ نہ ہوا۔ آخر تیسرے روز کی جنگ میں رومیوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ اس جنگ میں رومیوں کو سخت جانی اور مالی نقصان اٹھنا پڑا۔ گیلیرئس اور تیرداد بچ کھچے رومیوں کو ساتھ لے کر دریائے فرات میں کود پڑے اور اسے عبور کر کے اپنی سرحد پر پہنچ گئے۔

ایرانیوں کی شکست[ترمیم]

اہل روم آرمینیا کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔ چنانچہ ڈیوکلیشن نے 297ء میں پھر گیلیرئس کو ایک بہت بڑا لشکر دے کر بھیجا تا کہ وہ اپنی شکست کے دھبے کو دور کرے۔ گیلیرئس کو تجربے نے بتایا تھا کہ ایرانوں کا کھلے میدانوں میں مقابلہ کرنا آسان نہیں اس لیے اس نے مناسب سمجھا کہ آرمینیا کے پہاڑوں سے ہوتا ہوا ایران پر حملہ کرے۔ یہ دشوار گزار راستہ طے کر کے اس نے ایک رات اچانک رات کی تاریکی میں ایرانی لشکر پر حملہ کر دیا۔ ایرانی غافل پڑے سو رہے تھے۔ بہرحال جیسے بھی بن پڑا وہ مقابلے کو آئے لیکن اس میں بری طرح کٹے اور مرے۔ شہنشاہ نرسی خود بھی زخمی حالت میں اپنی جان بھاگ کربچائی۔ اس افراتفری کے عالم میں شہنشاہ کے خاندان کے افراد اور بعض امرا کو رومیوں نے اسیر کر لیا۔

رومیوں سے صلح[ترمیم]

رومیوں سے شکست کے بعد شہنشاہ نرسی اول نے اپنا سفیر گیلیرئس کے پاس مصالحت کی غرض سے بھیجا۔ ایرانی سفیر نے اپنی فصیح و بلیغ تقریر میں روم اور ایران کو انسان کی دو آنکھوں سے تشبیہ دی اور کہا کہ دونوں آنکھیں باہم مل کر انسان کی بصارت میں مدد دیتی ہیں اور دونوں ایک دوسری کی قدر جانتی ہیں۔ ان دونوں حکومتوں کو بھی دو آنکھوں کی طرح ہونا چاہیے۔ گیلیرئس کو ویلیرین کا ذلت آمیز انجام نہ بھولا تھا۔ بجائے اس کے کہ ایرانی سفیر کی تقریر اسے مصحت پر آمادہ کرتی وہ اور زیادہ برہم ہوا اور یہ کہہ کر ایرانی سفیر کو لوٹا دیا کہ جن شرائط پر حکومت کے ساتھ مصالحت ہو سکتی ہے وہ بعد میں شاہ ایران پر واضح کردی جائیں گی- آخر صلح کے لیے گیلیرئس نے اپنے سفیر کے ذریعے مندرجہ ذیل شرائط پیش کیں۔

  1. ایرانی حکومت دریائے دجلہ کے دائیں ساحل کے پانچ صوبوں سے دست بردار ہو جائے۔
  2. روم و ایران کے مابین فرات کی بجائے دجلہ کو مشترکہ سرحد تسلیم کر لیا جائے۔
  3. آرمیمیا سے لے آذربائیجان کے قلعہ زبنتا تک کا علاقہ رومیوں کے تسلط میں رہے۔
  4. آئی بیریا (گرجستان) پر روم کا تسلط تسلیم کیا جائے۔
  5. نصیبین ہی صرف ایسا مقام ہو گا جہاں روم و ایران کے تجارتی مال کا تبادلہ ہو سکے گا۔

شہنشاہ نرسی کے اصرار پر آخری شرط معاہدہ سے حذف کر دی گئی اور باقی مان لی گئی۔ [1] یہ صلح 298ء میں ایران و روم کے درمیان ہوئی تھی۔ یہ صلح تقریبا چالیس سال تک قائم رہی۔ [2]

دستبرداری[ترمیم]

شہنشاہ نرسی نے خود ہی جنگ کا آغاز کیا تھا لیکن اس کا انجام جس صورت میں ہوا وہ ایران کے لیے رسوا اور مہلک کن تھا۔ اس ذلت آمیز معاہدے کے بعد شہنشاہ نرسی نے اپنے آپ کو حکومت کے قابل نہ سمجھا اور اپنے بیٹے ہرمز کو جانشین نامزد کر کے تخت و تاج سے 301ء میں دست برادر ہو گیا۔ اس کا بیٹا ہرمز دوم کے طور پر تخت نشین ہوا۔

کردار و خصائل[ترمیم]

ثعالبی لکھتا ہے کہ شہنشاہ نرسی موسم گرما استخر میں اور موسم سرما مدائن میں بسر کیا کرتا تھا- وہ ہر روز نیا لباس پہنا تھا۔ صرف وہی لباس دوبارہ پہنتا تھا جوانتہائی نفیس اور گراں بہا ہوتا تھا۔ نرسی اپنے قریبی حلقوں کی بہت عزت کرتا تھا۔ کھانا اس کے لیے مخصوص نہ ہوتا تھا بلکہ جو کھانا مہمانوں کے لیے ہوتا خود بھی وہی کھاتا۔ وہ کبھی اپنی برتری کا اظہار نہ کرتا سواے دربار کے اوقات کے جب شہنشاہ ہونے کی حیثیت سے اس کی شان امتیازی ہوتی تھی۔ اس کا حرم دو بیگمات اور دو لونڈیوں پر مشتمل تھا۔ وہ کبھی عبادت کی غرض سے آتش کدے میں نہیں جاتا تھا۔ جب اس سے سوال کیا گیا کہ ایسا کیوں ہے تو اس نے جواب دیا کہ خدا کی پرستش مجھے اتنی مہلت نہیں دیتی کہ میں آگ کی پرستش کر سکوں۔

نرسی کی یادگار[ترمیم]

نقش رستم کی چٹان پر ایک برجستہ تصویر نرسی کی یادگار ہے۔ اس میں پادشاه حلقہ سلطنت ایک دیوی کے ہاتھ سے لے رہا ہے۔ موسیو زارہ کا خیال ہے کہ وہ اناہیتا ہے۔ اس کے سر پر اس قسم کا تاج ہے جیسا اس کے عہد کے سکوں پر ہے۔ یہ تاج ایک تنگ ٹوپی کی شکل کا ہے۔ اس کے اوپر کپڑے کی گیند سی ہے۔ سر کے گھنگریالے بال کندھوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ گلے میں موتیوں کا ہار ہے۔ دیوی نے ایک دیوار دار تاج پہنا ہوا ہے۔ بال کندھوں پر لٹک رہے ہیں۔ گلے میں موتیوں کے ہار ہیں۔ قبا اوڑھے ہوئے ہے۔ اس کے اوپر کمربند ہے۔ دیوی اور بادشاہ کے درمیان ایک لڑکا ہے جو شاید شہنشاہ کا بیٹا ہے۔

وفات[ترمیم]

شہنشاہ نرسی اول کا دور حکومت 293ء سے 301ء تک ہے۔ اس نے 8 سال حکومت کرنے بعد رومیوں سے ذلت آمیز معاہدہ کے نتیجے میں دستبردار ہو گیا تھا۔ [3] شہنشاہ نرسی اول نے 302ء میں وفات پائی۔ [4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تاریخ ایران جلد اول (قوم ماد تا آل ساسان) مولف مقبول بیگ بدخشانی صفحہ 333 تا 335
  2. تاریخ ایران قدیم (زمانہ قدیم تا زوال بغداد) مولف شیخ محمد حیات صفحہ 41
  3. تاریخ ایران جلد اول (قوم ماد تا آل ساسان) مولف مقبول بیگ بدخشانی صفحہ 336
  4. تاریخ ایران قدیم (زمانہ قدیم تا زوال بغداد) مولف شیخ محمد حیات صفحہ 41