نسرین انجم بھٹی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نسرین انجم بھٹی
نسرین انجم بھٹی
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 1943ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 2016ء (72–73 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قومیت پاکستان
پیشہ فیمینسٹ، شاعرہ، مصورہ، ریڈیو پروڈیوسر اور براڈکاسٹر
کارہائے نمایاں ، امن اور سیاسی اور حقوق کی سرگرم کارکن اور محقق

نسرین انجم بھٹی (پیدائش: 26 جنوری 1943ء۔ وفات: 2016ء) ایک پاکستانی دو لسانی (اردو اور پنجابی) شاعرہ، مصورہ، ریڈیو پاکستان میں ریڈیو پروڈیوسر اور براڈکاسٹر ، امن اور سیاسی اور حقوق کی سرگرم کارکن اور محقق تھیں۔ وہ ایک ترقی پسند شاعرہ تھیں جنھوں نے آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔[1][2]

ولادت و تعلیم[ترمیم]

نسرین انجم بھٹی، بنیامین بھٹی کے گھر 26 جنوری 1943ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوئیں۔ نسرین انجم بھٹی کی پیدائش کوئٹہ میں ہوئی تھی لیکن ان کا بچپن سندھ کے شہر جیکب آباد میں گذرا۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ کے ایک اسکول میں حاصل کی جہاں ہزارہ لڑکیاں فارسی بولتی تھیں۔ ان کی پرورش ایسے گھر میں ہوئی جو فن دوستانہ ماحول رکھتا تھا۔ انھوں نے دو سال نیشنل کالج آف آرٹس (این سی اے) میں آرٹ کی تعلیم حاصل کی لیکن انھیں ڈپلوما نہیں ملا۔ انھوں نے 1971 میں ریڈیو پاکستان میں داخلے سے قبل لاہور میں اوریئنٹل کالج سے اردو میں ماسٹر کیا۔ بعد میں نوکری کے دوران پنجابی میں ماسٹر مکمل کیا۔ 1968ءمیں لاہور کالج فار وویمن سے فائن آرٹس میں بیچلر ڈگری حاصل کی۔ یونیورسٹی اورینٹل کالج پنجاب سے1969ء میں ایم اے اردو کیا۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے 1994ءمیں ایم اے پنجابی کیا جبکہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے 2001ء میں وویمن اسٹڈیز میں پوسٹ گریجویشن ڈپلوما حاصل کیا۔[3][4]

پیشہ ورانہ زندگی[ترمیم]

نسرین انجم بھٹی 1970 کے عشرے میں لاہور کے ادبی حلقے کا حصہ بن گئیں، جب انھوں نے مطالعاتی حلقوں میں شرکت کرنا شروع کی، جس میں سرمد صہبائی، فہیم جوزی ، شاہد محمود ندیم اور کنول مشتاق بھی شریک تھے۔ وہ نجم حسین سید کے علم و کام سے متاثر تھیں اور ان کے گھر ہونے والے ہفتہ وار پنجابی شاعری کی بیٹھکوں میں شریک ہوتی تھیں۔ انھوں نے نو سال کی عمر میں ہی شاعری لکھنا شروع کردی تھی جو بچوں کے مشہور پاکستانی رسالہ 'تعلیم و تربیت' میں چھپی تھی۔ وہ اپنے کالج میں میگزین کی ایڈیٹر تھیں اور انھوں نے اردو، انگریزی، سندھی اور پنجابی میں نظمیں لکھیں لیکن بعد میں وہ صرف پنجابی اور اردو شاعری تک ہی محدود رہیں۔ نسرین انجم بھٹی نے ایک ہنر مند مقابلے کے پروگرام کے ذریعہ 1971 میں ریڈیو پاکستان میں شمولیت اختیار کی جہاں وہ طلبہ سرگرمیوں کا اہتمام کرتی تھیں اور ادبی ریڈیو پروگراموں میں مضامین اور نظمیں پڑھتی تھیں۔[5]

ڈان کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں، انھوں نے کہا کہ ادب کی طالبہ ہونے کے ناطے، عبداللہ حسین، انیس ناگی، انتظار حسین، کشور ناہید اور عزیز الحق جیسے ادبی ناموں کی ہمراہی نے ان کی مدد کی۔ وہ منیر نیازی، امانت علی خان، جی اے چشتی، ناصر کاظمی، ظہیر کشمیری، وزیر افضل اور صوفی تبسم جیسے لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے ایک فنکار کی حیثیت اختیار کر گئیں۔ انھوں نے بطور پروڈیوسر، براڈکاسٹر اور ڈپٹی کنٹرولر، ریڈیو پاکستان میں کام کیا۔ انھوں نے شاکر علی میوزیم کی ریذیڈنٹ ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کیا۔ انھیں 2011 میں تمغا امتیاز سے نوازا گیا تھا۔[6][7][8]

نسرین انجم بھٹی 1971ء میں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئیں اور 1977ء میں معروف صحافی زبیر رانا کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ گئیں جس کے بعد ان کی زندگی کا نیا دور شروع ہوا ۔ زبیر رانا بائیں بازو کی سوچ کے حامل صحافی اور مصنف تھے اور دونوں کے درمیان میاں بیوی کے علاوہ اُس انقلابی سوچ کا رشتہ بھی موجود تھا جس کے سہارے انھوں نے انتہائی مشکلات کے باوجود پوری زندگی ایک چھت کے نیچے گزار دی۔

ایوارڈز و اعزازات[ترمیم]

نسرین انجم بھٹی ایک نسوانی پنجابی شاعر اور حقوق پسند کارکن تھیں۔ [9][10][11]

1991 ءمیں بیگم نصرت بھٹو نے ان کو جمہوریت ایوارڈ دیا۔ بیگم شہناز وزیر علی نے 1993ء میں قومی ادبی ایوارڈ دیا۔ شاعری میں شاہ حسین، استاد عشق لہر ، امیر خسرو ایوارڈز جبکہ 2010ء میں مسعود کھدر پوش ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ان کی ادبی خدمات کے پیش نظر پنجابی کانفرنس پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ، بھارت نے ان کو کلچرل ایوارڈ جبکہ 2006ء میں جالندھر میں ہنس راج مہیلا مہا ایوارڈ بھی دیا گیا۔ پاکستان میں قومی ثقافتی ایوارڈ اور پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی طرف سے مزاحمتی شاعری کے حوالے سے سراہا گیا۔ 2009ء میں پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کی طرف سے بے نظیر بھٹو شہید کی زندگی پر دستاویزی فلم کے لیے اسکرپٹ لکھا۔ سید ممتاز عالم کی طرف سے بینظیر میڈل دیا گیا جبکہ حکومت پاکستان نے 2011ء میں تمغا امتیاز سے نوازا۔

تصانیف[ترمیم]

انھوں نے چار کتابیں لکھیں، دو پنجابی اور دو اردو زبان میں۔[12][13][14]

  • نیل کرائیاں نیلکاں (1979ء/ پنجابی شاعری)
  • اٹھے پہر تراہ(2009) ( پنجابی شاعری) [15]
  • شاملاٹ (پنجابی شاعری)
  • بن باس (اردو شاعری)
  • تیرا لہجہ بدلنے تک

اس کے علاوہ انھوں نے بے شمار اہم ناول اور کتابوں کے انگریزی، اردو، سندھی اور پنجابی میں تراجم کیے۔

نسرین انجم بھٹی کو "مزاحمتی ادب" کے آخری ماہرین میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔[16][17] انھوں نے اپنے شاعرانہ اظہار کے ذریعہ وراثت میں دیے گئے ملکیت سے چلنے والے معاشرتی اور ثقافتی اصولوں اور طبقاتی بنیادوں پر سیاسی و معاشی ڈھانچے کو چیلنج کیا۔ وہ ایک معاشرتی طور پر باشعور فنکار تھیں جنھوں نے سیاسی نظام کی نوعیت کو بے نقاب کیا جو تمام بنیادی حقوق میں لوگوں کے حصہ کے استحصال پر مبنی ہے۔ ایک نسائی ماہر شاعر ہونے کے ناطے، انھوں نے اس پیچیدہ عمل کی کھوج کی کہ کس طرح پدرشاہانہ ثقافتی اقدار، معاشرتی اصولوں، رسم و رواج اور روایات نے صنفی تعصب پیدا کیا اور خواتین کو اجناس کی شکل دے دی۔[18] ان کی شاعری میں پدرشاہانہ طرز عمل اور سیاسی جبر کے مابین نامیاتی ربط دکھایا گیا ہے۔[19]

بیماری و وفات[ترمیم]

المیہ دیکھیے کہ گڑھی شاہو کی یہ باسی، لاہور میں دفن ہونا چاہتی تھیں جہاں کے ریڈیو سے لے کر علمی و ادبی اور سیاسی و نظریاتی حلقوں میں انھوں نے اپنی زندگی دان کر دی تھی لیکن پورے لاہور میں انھیں کوئی سنبھالنے والا نہیں تھا سو ان کے دو بوڑھے بہن بھائی انھیں کراچی لے روانہ ہوئے جہاں بیت السکون ہسپتال میں چار و ناچار اپنی آخری سانسیں دینا پڑیں۔

نسرین انجم بھٹی کو سن 2015 میں کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اور انھیں سی ایم ایچ لاہور میں کیموتھریپی لگادی گئی تھی۔ بعد ازاں، وہ کراچی منتقل ہوگئیں جہاں وہ پی این ایس اسپتال میں زیر علاج تھیں۔ ان کے لواحقین میں ایک بیٹا ہے جو بیرون ملک رہ رہا ہے۔ 28 جنوری 2016ء کو وفات پائی۔[20][21]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "In memoriam: Nasreen Anjum Bhatti euologised"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 10 February 2016 
  2. The Newspaper's Staff Reporter (25 November 2011)۔ "`Wah wah` for poets at PU mushaira"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  3. "Nasreen Anjum Bhatti — an integral name among Urdu and Punjabi poets"۔ Daily Times۔ 28 December 2019۔ 07 ستمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 نومبر 2020 
  4. "Past in Perspective"۔ The Nation (بزبان انگریزی)۔ 5 August 2019 
  5. "Hurdles of translation | Literati | thenews.com.pk"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی) 
  6. Naeem Sadhu (19 October 2014)۔ "A poet with distinct accent"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  7. Dawn Report (27 January 2016)۔ "Punjabi poet Nasreen Anjum Bhatti is no more"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  8. "One in a thousand years"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ 26 May 2002 
  9. "Feminist theatre group gives voice to the powerless"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 6 January 2017 
  10. "Literature enthrals Federal Capital"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی) 
  11. "Nasreen Anjum Bhatti : A poet par excellence and a humble lady"۔ Daily Times۔ 27 January 2016۔ 27 نومبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 نومبر 2020 
  12. "Nasreen Anjum Bhatti"۔ Folk Punjab 
  13. "Houndstongue and gemstones"۔ The Friday Times۔ 5 February 2016 [مردہ ربط]
  14. "Nasreen's poetry wins her standing ovation"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ 24 June 2005 
  15. "Punjabi Poetry - Nasreen Anjum Bhatti"۔ apnaorg.com 
  16. Umair Khan (2 March 2014)۔ "LAHORE LITERARY FESTIVAL: Resistance and Punjabi poetry"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  17. From the Newspaper (24 February 2014)۔ "Punjabi finds its voice at LLF"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  18. Mushtaq Soofi (5 February 2016)۔ "Punjab Notes: You can hear her singing in the dark"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  19. Mushtaq Soofi (5 June 2015)۔ "PUNJAB NOTES: Nasreen Anjum Bhatti: an inimitable poetic voice"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  20. "Rebel Punjabi poet Nasreen Anjum Bhatti died after a fight with cancer"۔ Daily Pakistan Global (بزبان انگریزی)۔ 26 January 2016 
  21. Xari Jalil (2 June 2015)۔ "Nasreen Anjum Bhatti: classic case of forsaken writers"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)