نظام الدین احمد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نظام الدین احمد
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 1551ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 7 نومبر 1594ء (42–43 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مورخ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مرزا خواجہ نظام الدین احمد بخشی (پیدائش: 1551ء – وفات: 7 نومبر 1594ء ) قرون وسطی ہندوستان کے مسلمان مؤرخ تھے۔ نظام الدین احمد کی وجہ شہرت طبقات اکبری ہے جو مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے عہد حکومت تک کی تاریخ ہے۔

سوانح[ترمیم]

خواجہ نظام الدین احمد کی پیدائش 958ھ/ 1551ء میں ہوئی۔ اُن کے والد خواجہ مقیم ہروی جو ہرات کے باشندے تھے، مغل شہنشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے دیوان تھے اور ہمایوں کے عہد حکومت میں وزیر کے منصب پر فائز کیے گئے اور عسکری مرزا کے ہمراہ گجرات چلے گئے اور اکبر کے عہد حکومت میں اُن کا انتقال ہو گیا۔ خواجہ نظام الدین احمد معاملہ فہمی میں یدطولیٰ رکھتے تھے اور اکبر اِن کی قابلیت کا قدردان تھا۔ دوست پرستی میں ضرب المثل کے طور پر مشہور تھے۔ خواجہ نظام الدین اولاً گجرات اور پھر جونپور میں بخشی گری کی خدمات سر انجام دینے کے بعد آصف خان کے ہمراہ مرزا جعفر جلال روشنائی کی بغاوت فرو کرنے کے لیے روانہ کیے گئے لیکن دریائے راوی کے کنارے 45 سال کی عمر میں 23 صفر 1003ھ/ 7 نومبر 1594ء کو خواجہ نظام الدین کا انتقال ہو گیا۔ خواجہ نظام الدین کے انتقال پر اکبر کو بہت ملال ہوا اور ملا عبدالقادر بدایونی نے ماتمی قصیدہ لکھا۔[1]

رفت مرزا نظام الدین احمد سوئے عقبیٰ و چست زیبا رفت
جوہر او زبس کہ عالی بود در جوارِ ملک تعالی رفت
قادری یافت سال تاریخش گوہر بے بہا ز دنیاء رفت

ملا عبدالقادر بدایونی اِن کے بہت معتقد تھے اور منتخب التواریخ میں لکھتے ہیں کہ: "جہتہ یگانگت دینی"، یعنی مجھے اُن سے بڑی محبت تھی۔[2] خواجہ نظام الدین احمد اور شیخ محدث دہلوی کے تعلقات بھی خوشگوار رہے، شیخ محدث دہلوی ابتدائی زمانہ میں فتح پور سیکری میں خواجہ نظام الدین کے پاس ہی ٹھہرے تھے اور جب وہ سفر حجاز کے لیے روانہ ہوئے تو خواجہ نظام الدین نے ہی اُن کے زادِراہ کا انتظام کیا تھا اور نہایت خاطر و مدارت سے اُن کو احمد آباد میں اپنے پاس ٹھہرایا تھا۔[3]

تالیفات[ترمیم]

طبقات اکبری[ترمیم]

طبقات اکبری ہندوستان کی عام تاریخ ہے جس کی ابتدا ابو منصور سبکتگین کے عہد حکومت یعنی 367ھ/977ء سے ہوتی ہے اور اختتام 1002ھ/ 1594ء کے واقعات پر ہوتا ہے۔ملا عبدالقادر بدایونی نے اِس کتاب کو طبقات اکبرشاہی کے نام سے یاد کیا ہے۔ مصنف روضۃ الطاہرین نے اِس کا نام سلطان نظامی بھی لکھا ہے لیکن تاریخی نام طبقات اکبری ہی مشہور ہے۔ طبقات اکبری کا ماخذ 26 معتبر و مستند کتب ہائے تواریخ ہیں اور اِس کے علاوہ میر محمد معصوم بکھری بھی اِس کی تدوین میں شریک رہے۔ بعد ازاں جن مؤرخین نے عہد اکبری کی تواریخ مرتب کی ہیں، اُن کا ماخذ طبقات اکبری ہی رہا ہے۔[4] مؤرخ رومیش چندر مجمدار کی تحقیق کے مطابق طبقات اکبری کا ماخذ 29 کتب ہیں۔[5]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. نبی احمد سندیلوی: تذکرہ مورخین،  صفحہ 45، مطبوعہ مطبع سلیمانی، بنارس۔ 1936ء
  2. ملا عبدالقادر بدایونی: منتخب التواریخ، جلد 3، صفحہ 397۔
  3. خلیق احمد نظامی: حیات شیخ عبدالحق محدث دہلوی، ص 241/242، مطبوعہ لاہور۔
  4. نبی احمد سندیلوی: تذکرہ مورخین،  صفحہ 43، مطبوعہ مطبع سلیمانی، بنارس۔ 1936ء
  5. Majumdar, R.C. (ed.) (2006). The Delhi Sultanate, Mumbai: Bharatiya Vidya Bhavan, p.757