وضاح بن عبد اللہ الواسطی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
وضاح بن عبد اللہ الواسطیؒ
معلومات شخصیت

وضاح بن عبد اللہ الواسطی کا شمار تبع تابعین میں ہوتا ہے۔

نام ونسب[ترمیم]

وضاح نام، ابو عوانہ کنیت تھی، والد کا نام عبد اللہ تھا۔ [1]

وطن اورپیدائش[ترمیم]

ان کا اصل وطن واسطہ تھا، پھر قبۃ الاسلام بصرہ منتقل ہو گئے تھے، جس کی خاک سے صلحاء اوراخیارِ امت کی پوری ایک نسل آسمانِ شہرت پر نیرِ تاباں بن کر ضوفشاں ہوئی، ابو عوانہ واسطہ کے مردم خیز خطہ میں پہلی صدی کے اواخر یا دوسری صدی کے اوائل میں پیدا ہوئے، ابن حبان نے کتاب الثقات میں ابو عوانہ کا سنہ ولادت 122 ھ قرار دیا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ ابو عوانہ نے بالاتفاق ابن سیرین کے دیدار کا شرف حاصل کیا تھا، جن کی وفات 110ھ میں ہوئی، علامہ ابن کثیر کے بیان کی روشنی میں، ابو عوانہ کم وبیش 95ھ میں عالم وجود میں آئے؛چنانچہ 176ھ کے واقعات میں رقمطراز ہیں: الوضاح بن عبد اللہ قوفی فی ھذہ السنۃ وقد جاوز الثمانین [2] وضاح بن عبد اللہ کا اسی سال انتقال ہوا، ان کی عمر80 سے متجاوز ہو چکی تھی۔

غلامی[ترمیم]

ابو عوانہ کو جرجان کی کسی جنگ میں گرفتار ہوکر قیدِ غلامی کی زندگی بھی گزارنی پڑی، عطا بن یزید نے ان کو اپنے بیٹے یزید کے ساتھ رکھنے کے لیے خرید لیا تھا، عطا کی وفات کے بعد ایک عرصہ تک یزید بن عطا، الیشکری الواسطی کے غلام رہے [3]اسی نسبت ولا کی بنا پر ابو عوانہ بھی یشکری اورواسطی کی نسبتوں سے مشہور ہیں۔

آزادی کا دلچسپ واقعہ[ترمیم]

قید غلامی سے ان کی رہائی کا واقعہ بہت دلچسپ ہے جس کے سرسری مطالعہ ہی سے صاف اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس سلسلہ میں دفعۃً جو کچھ پیش آیا، یہ سب منجانب اللہ تھا۔ابن عائشہ کا بیان ہے کہ ابو عوانہ واسطہ کے یزید بن عطا نامی ایک شخص کے غلام تھے، ان کے مالک نے پارچہ فروشی کا کام ان کے سپرد کیا تھا، ایک دن ان کے پاس ایک سائل آیا اوردستِ سوال دراز کیا، ابو عوانہ نے اس کو دو یا تین درہم مرحمت فرمائے، سائل نے اظہارِ تشکر کے بعد کہا "اے ابو عوانہ بخدا میں تمھیں ضرور کوئی فائدہ پہنچاؤں گا، ؛چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد عرفہ کے دن وہی سائل مجمع عام میں کھڑے ہوکر یہ اعلان کرنے لگا کہ اے لوگو! یزید بن عطا کے لیے دُعائے خیر کرو؛ کیونکہ اس نے آج ابو عوانہ کو آزاد کرکے تقرب الہیٰ حاصل کر لیا ہے۔جب لوگ حج کی ادائیگی کے بعد واپس آئے اوریزید بن عطا کی فرودگاہ کے پاس سے گزرنے لگے تو جوق درجوق آکر انھیں ابو عوانہ کی آزادی پر ہدیہ تشکر و تبریک پیش کرنے لگے، ابن عطاء حیران کہ یہ کیا قصہ ہے، پھر جب مبارکباد کا یہ سلسلہ بہت بڑھا تو یزید بن عطاء نے کہا: من یقدر علیٰ ردّ ھٰؤلاِ وھو حرّ لوجہ اللہ [4] اتنے لوگوں کی بات رد کرنیکی کس میں مجال ہے وہ (ابو عوانہ) خدا کے لیے آزاد ہے۔ اس واقعہ کے آغاز میں محققین کا بہت معمولی سا اختلاف ہے، یعنی بعض لے یومِ عرفہ کو مزدلفہ میں ابو عوانہ کی آزادی کا ڈرامائی اعلان کرنے والا ایک سائل کو بتایا ہے اوربعض نے ابو عوانہ کے ایک مخلص دوست کو جس نے مکافات حسن سلوک کے طور پر اپنے محسن کی آزادی کے لیے یہ کار گر اورمؤثر تدبیر اختیار کی، لیکن اس کے علاوہ پورے واقعہ اوراس کے نتیجہ پر سب کا اتفاق ہے، سائل والی روایت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔

امیت[ترمیم]

ابو عوانہ لکھنے پڑھنے سے قطعی ناواقف تھے، یحیی بن معین کہتے ہیں کہ وہ لکھنے پڑھنے میں ایک شخص سے مدد حاصل کرتے تھے۔ کان ابو عوانۃ امیَّا یستعین بالنسان یکتب لہ وکان یقرأ الحدیث [5] ابو عوانہ امی تھے وہ ایک شخص سے مدد لیتے تھے، جو ان کے لیے لکھتا تھا اوروہ (ابو عوانہ) حدیث پڑھتے تھے۔ لیکن ان کے شاگرد رشید عفان بن مسلم کا بیان ہے کہ ابو عوانہ پڑھنا جانتے تھے مگر لکھنے سے ناواقف تھے، اس لیے ہمیں حدیثیں املا کرایا کرتے تھے۔ [6]

فضل وکمال[ترمیم]

اپنی امیت کے باوجود ابو عوانہ کا شمار وقت کے ممتاز حفاظِ حدیث اورائمہ اعلام میں کیا جاتا ہے، وہ علمی اعتبار سے زمرۂ اتباع تابعین میں بلند مقام رکھتے تھے، علامہ یافعی "احد الحفاظ الاعلام" خیر الدین زرکلی "من حفاظ الحدیث الثقات" اورحافظ ذہبی "الحافظ احد الثقات"کے الفاظ سے ان کے علم و فضل کو سراہتے ہیں [7]ابو حاتم کا بیان ہے کہ ابو عوانہ حماد بن سلمہ سے بھی بڑے حافظ حدیث تھے [8] یحییٰ بن معین سے دریافت کیا گیا کہ اہل بصرہ میں زائدہ کا ہم پایہ کون تھا ؟فرمایا ابو عوانہ! [9]

حدیث[ترمیم]

حدیث میں انھوں نے بکثرت ائمہ وشیوخ سے کمال حاصل کیا، جن میں معاویہ بن قرہ، اشعث بن ابی الشعثاء زیادہ بن علاقہ، سلیمان الاعمش، منصور بن المعتمر، مغیرہ، منصور بن زازان، یعلی بن عطاء، ابی اسحاق الشیبانی، عبد العزیز بن صہیب، طارق بن عبد الرحمن، زید بن جبیر، سعید بن مسروق، سماک بن حرب، سہیل بن ابی صالح، عمرو بن دینار، فراس بن یحییٰ، ابن المنکدر، قتادہ، بیان بن بشر اور اسماعیل السدی کے نام لائق ذکر ہیں۔ خود ان کے حلقہ درس سے جو کاملین فن فارغ ہو کر نکلے ان کی تعداد بھی بہت ہے جن میں نمایاں نام یہ ملتے ہیں، شعبہ، اسماعیل بن علیہ، فضل بن مسادر، عبد الرحمن بن مہدی، ابوہشام المخزومی، یحییٰ بن حماد، سعید بن منصور، مسدد، قتیبہ بن سعید، یحییٰ بن یحیی النیساپوری، محمد بن محبوب، ہشیم بن سہل التستری، ابوداؤد، وکیع، ابونعیم، ابوالولید، خالد بن خداش وغیرہم۔ [10]

جرح و تعدیل[ترمیم]

امی ہونے کی بنا پر ابو عوانہ علمائے جرح و تعدیل کا خصوصی نشانہ بنے، ان کی ثقاہت وعدالت کے بارے میں بڑی متضاد رائیں ملتی ہیں، لیکن اکثر علما کا خیال یہ ہے کہ جو احادیث انھوں نے املا کرا کے بین الدفتین محفوظ کرا دی ہیں ان میں ابو عوانہ کا پایۂ ثقاہت وعدالت نہایت بلند ہے، لیکن چونکہ ان کے حافظہ پر زیادہ اعتماد نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کتاب کے علاوہ جو روایتیں وہ بیان کریں وہ غیر مقبول قرار دی جائیں گی۔ ابو زرعہ کہتے ہیں: ثقۃ اذا احدث من کتابہ جب وہ کتاب سے روایت کریں تو ثقہ ہیں ابو حاتم کا بیان ہے: کتبہ صحیحۃ واذا حدث من حفظہ غلط کثیرا وھو صدوق ثقۃ [11] ان کی کتابیں صحیح ہیں اور جب وہ حافظہ سے روایت کریں تو بہت غلط ہوتا ہے اور وہ صدوق وثقہ تھے۔ امام احمدؒ کا قول ہے: اذا حدث ابو عوانۃ من کتابہ فھو اثبت واذا حدث من غیر کتابہ ربما وہم جب ابو عوانہ اپنی کتاب سے روایت کریں تو وہ ثقہ ترین ہیں اورجب کتاب کے علاوہ روایت کریں تو اکثر وہم ہو جاتا ہے۔ عفان جنھیں ابو عوانہ سے خصوصی تلمذ حاصل تھا کہتے ہیں کہ ابو عوانہ حدیث کو اتنی شرح وبسط کے ساتھ بیان کرتے تھے کہ ہمارے نزدیک وہ ہشام بن عروہ کی احادیث سے زیادہ صحیح ہوتی تھیں؛کیونکہ وہ احادیث کو بہت مختصر کردیتے تھے [12] ابن عبد البر کا یہ بیان ابو عوانہ کی ثقاہت کے سلسلہ میں سب سے زیادہ واضح ہے کہ: اجمعوا علیٰ انہ ثقۃ ثبت فیما حدث من کتابہ واذاحدث من حفظہ ربما غلط [13] جب ابو عوانہ کتاب سے روایت کریں تو بالاتفاق وہ ثقہ ترین ہیں اورجب حافظہ سے روایت بیان کریں تو اکثر غلط ہوتا ہے۔

وفات[ترمیم]

ماہ ربیع الاول 176ھ میں بمقام بصرہ ابو عوانہ کا انتقال ہوا [14]ابن قتیبہ نے سنہ وفات 170 ھ بیان کیا ہے [15] وفات کے وقت 80 سال سے زائد عمر ہو چکی تھی۔[16]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (تذکرۃ الحفاظ:1/213)
  2. (البدایہ والنہایہ:10/171)
  3. (تاریخ بغداد:13/461)
  4. (المعارف لابن قتیبہ:220)
  5. (تاریخ بغداد:13/461،الاعلام :3/135)
  6. (طبقات ابن سعد:6/43)
  7. (مراۃ الجنان:1/369 والاعلام:3/1135،وتذکرۃ الحفاظ:1/313)
  8. (تہذیب التہذیب:11/118)
  9. (تذکرۃ الحفاظ الذہبی:1/314)
  10. (تاریخ بغداد:13/460وتہذیب التہذیب:11/117)
  11. (تاریخ بغداد:13/460،وتہذیب التہذیب:11/118)
  12. (تاریخ بغداد:13/463)
  13. (تہذیب التہذیب:11/120)
  14. (العبر فی خبر من غبر:1/269)
  15. (المعارف لابن قیتبہ:220)
  16. (البدایہ والنہایہ لا کثیر:10/1171)