پاکستان میں بہائیت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

پاکستان میں بہائیت یا امر بہائی کا آغاز اس ملک کی آزادی سے پہلے شروع ہوا تھا جب وہ ہندوستان کا حصہ تھا۔ بہائیت کی جڑیں 1844ء[1][2] کے ابتدائی ایام تک پہنچتی ہیں اور اس میں شیخ سعید ہندی کا نمایاں کردار تھا جن کا تعلق ملتان سے تھا۔ بہاء اللہ کی زندگی میں، انھوں نے اس مذہب کے بانی کے طور پر اپنے کچھ عقیدت مندوں کو اس بات کی تاکید کر چکے تھے کہ وہ اس علاقے میں جا کر قیام پزیر ہوں جو موجودہ طور پر پاکستان کے نام سے موسوم ہے۔ [3]

1921ء میں کراچی کے بہائیوں نے اپنی اولین بہائی مقامی محفل روحانی کا انتخاب کیا۔[2] 1923ء میں جب موجودہ پاکستان ہندوستان ہی کا حصہ تھا، اس وقت ایک مقامی محفل روحانی ملی کا قیام عمل میں آیا جس میں پورے ہندوستان (بشمول موجودہ پاکستان) اور برما کا احاطہ کیا گیا تھا۔ 1956ء تک کئی شہروں میں مقامی محفلیں پھیل چکی تھیں[4] [5] اور 1957ء میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں الگ قومی بہائی محفلوں کا انتخاب عمل میں آیا، جن کا بھارت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ 1979ء میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے اور ایران پر اسلامی انقلاب کے بعد بھاری تعداد میں پناہ گزیں آنے لگے۔[4][6][7]

پاکستان میں بہائیوں کو عوامی جلسے کرنے، تعلیمی مراکز بنانے، اپنے عقائد کو سکھانے اور خود کے انتظامی کونسل بنانے کا حق حاصل ہے۔[8] تاہم حکومت انھیں اپنے اسرائیل کا اپنے مذہبی حج کے فریضے کی ادائیگی پر روک لگاتی ہے۔[9]

ابتدائی دور[ترمیم]

جیسا کہ اس مضمون کی تمہیدی سطور میں مذکور ہے، بر صغیر ہند و پاک میں بہائی فرقے کی جڑیں بابی مذہبی کے اولین ایام سے جا کر ملتی ہیں۔[1] ہندوستان سے کم سے کم چار بہائی آغاز کے دور سے جانے جاتے ہیں[10] — یہ پتہ نہیں چلا کہ ان کی اکثریت کس ذیلی علاقے سے تعلق رکھتے تھے مگر ان میں سے کچھ کو صوفی کے طور پر جانا جاتا تھا اور کچھ کو سید کہا جاتا تھا۔ ان میں سے اول الذکر شیخ سعید ہندی تھے — وہ اس وقت کے باحیات لوگوں میں سے ایک تھے جو ملتان سے تعلق رکھتے تھے۔ بصیرِ ہندی جلالیہ فرقے سے تعلق رکھنے والے رکن تھے جو اسی موجودہ پاکستان کے علاقے سے تعلق رکھتے تھے اور اسی ابتدائی دور میں نوخیز مذہب کو قبول کر چکے تھے۔[2][11] بہائی مذہب قبول کرنے کے بعد بصیرِ ہندی ایران کے لیے روانہ ہوئے مگر انھیں اس بات کا علم ہوا کہ باب اللہ کو آذربائیجان کی پہاڑیوں میں قید کر دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے وہ قلعہ طبرسى پہنچے جہاں وہ 318 بہائیوں کی فہرست شامل 4 ہندوستانیوں میں سے ایک تھے جنھوں نے قلعہ طبرسى کی جنگ لڑی۔[2][12] اس کے بعد وہ نور گئے اور بہاء اللہ سے ملے اور بعد میں لورستان منتقل ہوئے جہاں وہ لورستان کے گورنر یلدرم مرزا کی دربار میں کام کیے۔ جب گورنر کے علم میں یہ بات آئی کہ وہ ایک بہائی ہیں، تو ان کا قتل کر دیا گیا۔[2]

بہائیت کا ابتدائی دور[ترمیم]

بہاء اللہ کی زندگی میں، وہ بہائی فرقے کے بانی کے طور اپنے کچھ پیرو کاروں کو ہندوستان جانے کے لیے ابھارتے تھے۔[3] ممبئی کا پہلے دورہ کرنے کے بعد، جمال آفندی 1875ء میں کراچی کا دورہ اپنے جنوبی ایشیا کے دورے کے حصے کے طور پر کیے۔[2] ان کے دوروں میں لاہور، سیالکوٹ، جموں، کشمیر اور لداخ شامل تھے۔[2] بہاء اللہ کے گذر جانے کے بعد مذہب کی قیادت عبد البہاء کے کندھوں پر آ گئی اور اسی وجہ سے انھوں نے اس علاقے میں اپنے مزید نمائندوں کو بھیجا— دورہ کنندے پیرو کاروں میں اہل فارس اور امریکی، دونوں شامل تھے اور اس فہرست دو اہم نام سیڈنی اسپراگ اور مرزا محمود زرغنی تھے۔[2][13]


عبد البہاء کی ہدایات کے مطابق زرغنی لاہور میں 1904ء کا بیشتر حصہ گزارے اور بعد میں اطراف و اکناف کے مقامات کا دورہ کیے۔[2] اپنے قیام کے دوران زرغنی محمد اقبال کے ربط میں بھی آئے۔ ایسی اطلاع موجود ہے کہ ایک امریکی بہائی لاہور میں 1905ء میں موجود تھے؛ تاہم اس کے بارے میں زیادہ اطلاع نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ ہیضے سے بیمار ہو گئے تھے مگر بہاء اللہ کی زیر نگرانی شفایاب ہوئے تھے اور ان کے علاج کے لیے بمبئی سے (جیسا کہ جگہ کا اس وقت نام تھا) ڈاکٹر کیخسرو آئے تھے، مگر طبیب موصوف خود اس مہلک مرض میں گرفتار ہو کر انتقال کر گئے۔[14]


قیاس لگایا گیا ہے کہ پہلے بہائی جو موجودہ دور کے پاکستان میں سکونت پزیر ہوئے شاید محمد رضا شیرازی تھے جو بمبئی میں 1908ء بہائی بن چکے تھے اور کراچی میں قیام پزیر ہوئے[2]۔ اولین دور میں یعنی 1910ء کے لگ بھگ ہندوستان/ برما کی قومی برادری کو امریکا کے بہائی اداروں کی جانب سے اسلام سے خود کو الگ ظاہر کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔[15][2] جمشید جمشیدی ایران سے کراچی منتقل ہوئے اور مرزا قلیچ بیگ نے کلمات مکنونہ (Hidden Words) کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا۔ ہندوستان بھر میں قومی مربوط سرگرمیاں اپنے نقطۂ عروج پہنچ چکی تھی جب اولین کل ہند بہائی کنونشن بمبئی میں تین دنوں کے لیے 1920ء میں ہوا تھا۔[13] ہندوستان کے سبھی اہم مذاہب کے نمائندے موجود تھے اور اسی طرح ملک بھر سے بہائی وفود شریک تھے۔ 1921ء میں کراچی کے بہائیوں نے اپنی پہلی بہائی مقامی روحانی اسمبلی منتخب کی۔[2]

تعداد میں اضافہ اور مسائل[ترمیم]

1923ء میں جب پاکستان برطانوی ہند کا حصہ تھا، ایک مقامی قومی روحانی اسمبلی ہندوستان اور برما کے لیے تشکیل دی گئی - جس میں وہ سارا علاقہ موجود تھا جسے اب پاکستان کہا جا رہا ہے۔[4] ایک امریکی بہائی خاتون مارتھا روٹ کراچی اور لاہور کا 1930ء[14] اور 1938ء میں دورہ کر چکی ہے۔ اپنے دوسرے دورے میں وہ تین مہینے تک یہاں رہ چکی ہے اور اپنی ایک کتاب طاہریہ (پاک) کی اشاعت کو دیکھ چکی ہے۔[2] وہ اس کتاب کے چھپنے کے ایک سال بعد انتقال کر گئی۔ 1931ء میں کراچی کے بہائیوں نے ایک قبرستان کے لیے زمین حاصل کی۔[16][17] مرزا ترازک اللہ سمرقندی، جنہیں آگے چل کر ایادی امر اللہ (Hand of the Cause) کا عہدہ دیا گیا، جو اس مذہب میں جلیل القدر مرتبہ تھا، وہ اس علاقے کا کئی بار دورہ کیے؛ ان کا اولین دورہ 1930ء میں تھا، پھر وہ 1963ء، 1964ء، 1966ء اور 1983ء میں آئے، جب انھوں نے کئی شہروں کا دورہ کیا۔ 1931ء سے 1933ء تک پروفیسر پریتم سنگھ، جو پہلے بہائی تھے جن کا سابق میں تعلق سکھ فرقے سے رہا تھا۔ وہ لاہور میں قیام پزیر ہوئے اور ایک انگریزی ہفتہ وار جاری کیے جس کا نام بہائی ویکلی تھا۔ وہ اس کے علاوہ کچھ اور اقدامات بھی اٹھائے۔ 1935ء میں ایک بہائی پبلشنگ کمیٹی بھی کراچی میں قائم کی گئی۔ یہ ادارہ کچھ ارتقائی مناہج طے کرتے ہوئے جدید دور میں بہائی پبلشنگ ٹرسٹ آف پاکستان کے نام سے موسوم ہے۔ 1937ء میں جان ایسلیمونٹ کے تحریر کردہ بہاء اللہ اور دی نیو ایرا (نیا زمانہ) کا کراچی میں اردو اور گجراتی میں ترجمہ کیا گیا۔[2][18] اس کمیٹی نے بیسیوں بہائی کتابوں اور ورقیوں کو اردو، انگریزی، عربی، فارسی، سندھی، پشتو، بلوچی، گوجری، بلتی اور پنجابی میں چھاپا یادگار بنوائے جن میں باب اور بہاء اللہ کی یادگاریں شامل ہیں۔[19]

کوئٹہ میں مقامی مجلس روحانی کا قیام 1943ء میں ممبئی اور ایران کے بہائیوں کے ذریعے ممکن ہوا۔ ایک مجلس روحانی پہلی بار جموں میں 1943ء میں تشکیل پائی۔ کراچی کے بہائیوں نے سُکور اور راولپنڈی میں مقامی مجالس روحانی کے 1948ء میں انتخاب میں مدد کی تھی۔ اس کے اگلے سال مقامی مجلس ملتان میں قائم ہوئی تھی۔ چٹاگانگ اور ڈھاکا میں 1950ء میں، فیصل آباد میں 1952ء میں، سرگودھا میں 1955ء میں، ایبٹ آباد، گجراں والا، جہاں آباد، میر پور خاص، نواب شاہ اور ساہیوال میں 1956 اسمبلیاں قائم ہو چکی تھی، جس سے مقامی مجلسوں کی تعداد 20 تک پہنچ گئی تھی۔ ایادی امراللہ ڈوروٹھی بیچر بیکر کئی تقاریب کو بھارت میں مخاطب کی– اس کی آخری مخاطبت کراچی میں 1954ء کے اوائل میں تھی۔ اس دوران ایک مسلمان تارک وطن فاضل (فرینک) خان جس کا تعلق لاہور کے کسی قریبی مقام سے تھا، جو آسٹریلیا منتقل ہو گیا تھا، وہاں اسے اسلام کے بارے میں ایک بہائی اسکول میں مخاطب ہونے کا موقع دیا گیا تھا۔ وہ اس کلاس کے بچوں سے اس درجے متاثر ہوئے کہ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہائی مذہب میں 1947ء میں داخل ہوئے۔[20] دو مواقع پر فاصل اپنے آبائی گاؤں پہنچے اور نو منتخب مذہب کی تعلیم دینے کی کوشش کی۔ پہلے دورے کے موقع پر کوئی رد عمل نہیں ہوا۔ مگر دوسرے دورے کے موقع پر وہ سیالکوٹ میں اپنے ایک رشتوں کے بھائی کو بہائیت میں داخل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ دوسری جانب بہائیت کے خلاف سیالکوٹ میں فتوی جاری ہوا۔[19].[21][22]

پاکستان کے لیے آزادانہ قومی اسمبلی کے منصوبہ جات کا آغاز 1954ء میں ہوا۔[23] کراچی میں ایک مقامی کنونشن 1956ء میں منعقد ہوا جس میں 17 مندوبین شریک تھے۔[24][2][4][25] چونکہ بھارت سے آزادی عملًا وقوع پزیر ہو چکی تھی، مشرقی اور مغربی پاکستان کے بہائیوں نے الگ بہائی قومی اسمبلی کا انتخاب 1957ء میں کیا جس کا وجود بھارت سے جدا گانہ تھا۔ اس کا مشاہدہ ید السبب شعاع اللہ علائی نے کیا تھا۔[26] پہلی قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والے بہائیوں میں اسفندیار بختیاری، چودھری عبد الرحمان، فریدوں یازدمی، اے سی جوشی، ایم ایچ علمی، عبد العباس رضوی، ایم اے لطیف، نوازش علی شاہ اور محبوب الٰہی قریشی تھے۔ ان میں بطور خاص جوشی قومی اسمبلی کے صدر نشین تھے اور وہ اسمبلیوں کے لیے 1947ء سے منتخب ہوتے آ رہے تھے۔ [25] نئی قومی اسمبلی کے زیر اہتمام پاکستان میں بہائیت کی تاریخ کو 1957ء میں شائع کیا گیا۔[27] 1960ء میں جب میسن ریمی نے قیادت کا ناکام دعوٰی پیش کیا، تب بہائیوں کا ایک چھوٹا گروہ ان کے دعوے کو قبول کیا اور 1965ء سے 1972ء کچھ مواد چھپوایا، تاہم یہ گروہ اس کے بعد سے فعال نہیں ہے۔[28] یہ وراثتی گروہ کبھی بھی دنیا میں قابل لحاظ گروہ بن کر ابھر نہیں سکا۔[3] 1961ء میں قومی اسمبلی میں ایک عشائیے کا اہتمام کیا جس کا مقصد آسٹریلیا میں بہائی عبادت گھر کے معنون ہونے کا جشن منانا تھا۔[29] اس میں آسٹریلیائی اور دیگر سفارت کاروں اور پاکستانی عدالتوں کے ججوں، کاروباری قائدین اور کالج کے پروفیسروں کو مدعو کیا گیا تھا، جب کہ سکور کی مقامی اسمبلی نے مقامی گرمائی اسکول کا اہتمام کیا۔[30] 1962ء میں ایسا ہی اہتمام کویٹہ کی اسمبلی کی جانب سے کیا گیا تھا۔[31] 1963ء میں بیت العدل اعظم (Universal House of Justice) جو بہائیوں کا بین الاقوامی نگراں کار ادارہ ہے، اس کا انتخاب عمل میں آیا اور پاکستانی قومی مجلس روحانی کے سبھی نو ارکان نے رائے شماری میں حصہ لیا۔[32] 1964ء میں ایادی امراللہ تراز اللہ سمرقندی دھاکا کے بہائی اور سماجی قائدین سے ملے تھے، جو اس وقت مشرقی پاکستان تھا۔ 1946ء سے 1980ء کے بیچ بہائی پبلشنگ ٹرسٹ نے نوجوانوں کو مرکوز کرتے ہوئے کافی مواد چھاپا۔[33][34]

مطمح نظر کی بلندی، تعداد میں اضافہ اور پناہ گزیں[ترمیم]

1980ء میں پاکستان اور اس کے اطراف و اکناف کے علاقہ جات میں رہائش پزیر نسلی گروہ۔

اپنے آغاز کے دور سے یہ مذہب سماجی و معاشی ترقی میں شامل رہا ہے جس میں خواتین کو زیادہ آزادی دینا[35]، خواتین کی تعلیم کو فکری اولیت قرار دینا[36]، عملی اظہاریے میں شمولیت دی گئی تھی، جس کے لیے اسکولوں اور زرعی تعاون باہمی کے ادارے اور مطبوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔[35] 1967ء کا سال سرگرمیوں میں اضافے کا سال تھا۔ کراچی کے نوجوان بہائیوں نے ایک نوجوانوں کا مذاکرہ عالمی امن پر کیا[37]، وسیع پیمانے پر دیکھا جائے تو برادری نے ایک خاتون کو قومی اسمبلی کے لیے منتخب کیا[38]، پہلی مرتبہ رحیم یار خان میں ایک مقامی اسمبلی کا انتخاب کیا[39] اور سوکوئن زرعی یونیورسٹی، موروگو سے آمد شدہ بہائی کے اعزاز میں ایک دعوت رکھی جس میں مدعوئین میں کئی ایگزیکیٹیو انجینئر، اٹارنی، تجارت پیشہ افراد اور صنعت کار، ڈاکٹر، صحافی نمائندے، بینکر اور یونیورسٹی طلبہ شامل تھے۔[40] 1972ء میں کراچی کی اسمبلی نے یوم اقوام متحدہ کا جشن منایا جس میں سو سے زائد افراد نے شرکت کی۔[41] اس میں پیش کردہ مقالے نسلی امتیازات کے خاتمے پر مرکوز تھے۔ اسی سال حکومت پاکستان نے بہائیوں کی قومی روحانی اسمبلی کو مدعو کیا کہ وہ ایک مندوب کو مذہبی اقلیتوں کی کانفرنس میں بھیجے۔[42] 1974ء تک کچھ بہائی ایسے بھی رہے جو ٹھٹہ میں بھیل قبیلے کے رکن رہے تھے۔[43] 1975ء میں بہائیوں نے بین الاقوامی خواتین کے سال کے ضمن میں اجلاسوں کا اہتمام کیا اور ایک سمینار "پاکستان میں تعلیم" کے عنوان سے منعقد کی۔[44][45] 1976ء میں بہائیوں کو ہفتہ بھر اقلیتوں کی تقریب میں مدعو کیا گیا تھا۔[46] بعد میں بہائیوں اور غیر بہائیوں نے مل کر حروف حی طاہرہ کے جشن میں شامل ہوئے[47] اور ایک بہائی کو اس وفد کا حصہ بنایا گیا جو پاکستان سے مذہب اور امن پر ایشیائی کانفرنس میں شامل ہوا تھا، جس کی صدارت ایک مسلمان شخص نے کی تھی۔[48] 1977ء میں بہائیوں کی رکنیت خانیت قلات اور ضلع تھرپارکر پہنچ گئی۔[49][50] اس سال کے سرمائی اسکول میں 250 بہائی شامل ہوئے[50]، جب کہ اس کے اگلے ہی سال یہ تعداد 350 ہو گئی۔[51] 1978ء میں افغانستان کے حالات بدلنے لگے، بالخصوص کئی افغان بہائی اس ملک میں گرفتار ہو گئے اور کئی فرار ہو گر پاکستان آ گئے۔[6] ایرانی بہائی بھی اس کے اگلے ہی سال پاکستان کا رخ کیے، جس کی وجہ ایران میں آیت اللہ خمینی کا لایا ہوا انقلاب تھا جسے انھوں نے اسلامی انقلاب کا نام دیا تھا۔[7] اسی پر آشوب سال میں نیو مونٹیسوری اسکول کی بنیاد رکھی گئی جس میں صرف دس طلبہ شامل تھے مگر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تعداد 300 تک پہنچ گئی اور بیش تر طلبہ غیر بہائی تھے۔[2][52][53] ایک جائزے کے مطابق اس وقت تک 83 اسمبلیاں ان سیکڑوں مقامات میں قائم ہو گئی تھی جہاں بہائی رہتے تھے، ان میں تین ضلعی مراکز تھے اور قومی کنونشن کے کیے 47 مندوبین موجود تھے۔[54] 1979ء–80ء کی سرما میں زاہدہ حنا نے طاہریہ کی زندگی اور کاموں پر خواتین کی ایک کانفرنس میں تقریر کی۔[55] 1980ء میں موسم بہار کے دوران بچوں کے بین الاقوامی سال کی مناسبت سے حیدرآباد سندھ کی مقامی مجلس نے ایک اجلاس منظم کیا جس میں بچوں کی فن کاری، انشائیوں، گلو کاری، کوئز مقابلوں[56] اور نسلی امتیاز کو دور کرنا اہم موضوعات تھے، جو کئی اور شہروں میں دیکھنے آیا۔ 1981ء کے موسم بہار میں کراچی کے نوجوانوں نے ایک کانفرنس منظم کی جس میں کئی اندرون خانہ کھیل کے موضوعات، کوئزوں، پوسٹر مقابلہ اور عبادت کے دور کو شامل کیا گیا۔[57] اپریل اور مئی میں ایک وسیع کوشش کی گئی کہ کئی با ذوق زمروں کو ابتدائی اور ثانوی اسکولوں، یونیورسٹیوں، کالجوں، پیشہ ورانہ ناشرین اور عوام الناس سے مشغول کیا جائے، جس کے لیے ریڈیو نشریات کا سہارا لیا گیا تھا۔[58] اسی دوران پاکستان کے صدر اور اپنے وقت کے آمر حکمران جنرل محمد ضیاء الحق نے ایک مرکزی حکمنامہ جاری کیا جس میں بہائی عقیدے کو غیر مسلم مذہب قرار دیا گیا۔[59] اس کے باوجود، اس سال بہائیوں نے کئی شہروں میں یوم اقوام متحدہ کا انعقاد کیا جسے اخبارات و رسائل اور ریڈیو پر کافی جگہ دی گئی تھی۔مسلمان، مسیحی، ہندو، پارسی اور بہائی فرقوں کے نمائندے 1982ء میں ایک سمپوزیم میں شامل ہوئے جس کا عنوان تھا "آج کی دنیا میں سماجی بے چینی اور کا حل"۔[60] اس کے ساتھ ہی ججوں اور وکلا کے آگے ایران میں بہائیوں پر مظالم پر نمائندگی پیش کی گئی۔[61] اس سال موسم خزاں میں ایک خواتین کی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ساٹھ غیر بہائی خواتین یکجا ہوئیں جو ججوں کی اہلیائیں، یونیورسٹی پروفیسر، صدر مدرسائیں اور خاتون اساتذہ تھیں جو تقاریر سننے پہنچی تھیں۔[62] جنوری 1983ء میں ایک ہمہ عقیدہ پیش کش "مذہب کی ضرورت" کے موضوع پر عالمی یوم مذہب کے موقع پر کراچی میں رکھی گئی۔[63] فروری اور اپریل میں بہائی کراچی، کوئٹہ، راولپنڈی اور سیبی کے اسکولوں میں اجلاسوں کے لیے جمع ہوئے۔[64] اگست میں اسمبلیاں پہلی بار سیالکوٹ، قرب لاہور اور ملتان میں قائم ہوئی جو حروف حیات، سعید ہندی کی جائے پیدائش ہے۔[65] ستمبر میں طاہریہ پر ایک سمپوزیم منعقد ہوئی جس میں سحر انصاری، اردو پروفیسر، کراچی یونیورسٹی اور زاہدہ حنا نے اپنے خیالات کا اظہار مشہور اردو شاعر جون ایلیا کی موجودگی میں کیا۔[66] اسی مہینے میں بہائی خواتین کے ایک گروہ نے سرکاری اسکولوں کے طلبہ کے جسمانی اور دماغی طور پر معذورین کا علاج شروع کروایا جس سے ان اسکولوں میں مدد گار رضاکاروں کا پہلا جتھا تیار ہوا۔[67] یہ مذہب ایک نئے دور میں داخل ہوا جب بیت العدل اعظم مؤرخہ 20 اکتوبر 1983ء جاری ہوا۔[68] بہائیوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ بہائی تعلیمات کے تحت لچک دار طریقوں کو اختیار کریں جن سے وہ برادریوں کی سماجی اور معاشی ترقی کا حصہ بن سکیں جن میں کہ وہ رہتے ہیں۔ 1979ء میں 129 سرکاری طور مسلمہ بہائی سماجی و معاشی ترقی کے منصوبہ جات تھے۔ 1987ء تک سرکاری طور مسلمہ ترقی کے منصوبہ جات کی تعداد بڑھ کر 1482 ہو چکی تھی۔ دسمبر 1984ء سے جولائی 1985ء تک 10 پیشہ ورانہ یا تدریسی اسکول کئی شہروں میں قائم ہوئے جنہیں یا بہائی یا پھر بہائی اسمبلیاں چلا رہی رہی تھیں۔[69] 1980ء کے ابتدائی عرصے میں پاکستان میں بہائیوں نے سماجی اور معاشی ترقی کے منصوبہ جات شروع کیے تھے جیسے کہ چھوٹے پیمانے کے طبی کیمپ۔[70] 1980ء میں جب ایرانی بہائی پناہ گزیں جو پاکستان آئے تھے[71][72]، وہ دوسرے ملکوں میں جانے لگے۔ پناہ گزینوں کی دیکھ ریکھ کرنے والا دفتر حکومتوں اور ادارہ جات کے دورہ کنندوں کا مرکز بن گیا جن میں اقوام متحدہ اعلی کمیشن برائے پناہ گزیں (انگریزی میں: United Nations High Commission for Refugees یا مختصرًا ایل ایس ایچ سی آر)، اسلام آباد اور لاہور؛ وزارت انصاف، نیدر لینڈز کا ایک عہدیدار؛ فن لینڈ کا ایک وفد جس میں وزارت خارجہ سے سفیر شامل تھے، تہران میں فن لینڈ کے سفارت خانے کے سفیر، فن لینڈ کی حکومت کے تین سر کردہ افسر؛ اور کینبرا سے آسٹریلیا کا ایک ایمیگریشن آفیسر شامل تھے۔[73] 1985ء میں بیت العدل اعظم کی جانب سے عالمی امن کا وعدہ (The Promise of World Peace) شائع ہوا۔ اس کے اگلے سال حیدرآباد کی اسمبلی نے بین الاقوامی امن کے سال سے استفادہ کرتے ہوئے ایک سمپوزیم کو اسپانسر کیا جو عالمی امن پر مرکوز تھا اور اس میں متعلقہ دستاویز کو حاضرین میں تقسیم کیا گیا تھا[74]۔ 1989ء میں کراچی کے بہائیوں نے آگے بڑھ کر مظفر آباد میں اپنی پہلی مقامی اسمبلی منتخب کی[2]۔ کوئٹہ کے بہائیوں نے ایک ہفتہ طویل طلبہ مقابلوں کو اسپانسر کیا جو بلوچستان کے گیارہ اسکولوں میں چلے تھے– ہر روز ایک نئی سرگرمی دیکھی گئی؛ تعصب کا خاتمہ، قوم پرست گیت؛ کوئز کا کھیل اور ایک ڈراما مقابلہ ان اجلاسوں کا حصہ تھے جو منعقد ہوئے تھے۔ 1998ء میں طالبان حکومت نے افغانستان نے کئی بہائیوں کو گرفتار کیا، کئی پاکستان فرار ہو گئے۔ مگر ان میں سے کئی 2002ء میں وطن واپسی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔[75] [6]

جدید برادری[ترمیم]

اس مذہب کے مقلدین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا آیا ہے۔ 1990ء میں کئی افراد احمدیہ فرقے سے بہائیت کے دائرے میں داخل ہوئے اور ایک اسمبلی قائم کیے۔[76] پاکستانی بہائی برادری کو موجودہ طور پر عوامی جلسے کرنے، تعلیمی مراکز قائم کرنے، مذہب کا درس دینے اور اپنے انتظامی کونسل منعقد کرنے کا حق حاصل ہے۔[8] در حقیقت سرکاری عہدیدار گاہے گاہے بہائی مراکز پر تقاریب کا حصہ رہے ہیں۔[77] تاہم حکومت بہائیوں کو حج کے لیے اسرائیل روانہ ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔[9] مزید یہ کہ حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کے خلاف ووٹ کیا جو اسلامی جمہوریہ ایران میں انسانی حقوق کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کر رہی تھی۔[78] یہ 19 دسمبر 2001ء کا واقعہ ہے اور یہ فوری طور ایران میں بہائیوں پر مظالم سے متعلق تھی۔ تقریبًا 1000 افراد روحی تربیت میں 2004ء تک حصہ بنے ہیں[79] اور یہ تدریس 2007ء تک جاری رہی۔[80] 2004ء میں لاہور کے بہائی ایک نئے بہائی قبرستان کا مطالبہ کرنے لگے۔[81]

آبادیات[ترمیم]

بہائی ذرائع کے مطابق، پاکستان میں بہائی آبادی 2001ء میں تقریبًا 30,000 تھی۔ [9] حکومت پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 33,734 اندراج شدہ بہائی 2012ء میں موجود تھے۔[82] 2017ء میں 31,543 بہائی ووٹر موجود تھے۔[83]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب "The Bahá'í Faith -Brief History"۔ Official Website of the National Spiritual Assembly of India۔ National Spiritual Assembly of the Bahá'ís of India۔ 2003۔ 14 April 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اپریل 2009 
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر​ ڑ​ ز ژ "History of the Bahá'í Faith in Pakistan"۔ Official Webpage of the National Spiritual Assembly of the Bahá'ís of Pakistan۔ National Spiritual Assembly of the Bahá'ís of Pakistan۔ 2008۔ 22 فروری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2009 
  3. ^ ا ب پ Moojan Momen، Smith, Peter۔ "Bahá'í History"۔ Draft A Short Encyclopedia of the Baha'i Faith۔ Bahá'í Library Online۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اپریل 2009 
  4. ^ ا ب پ ت Graham Hassall۔ "Notes on Research on National Spiritual Assemblies"۔ Research notes۔ Asia Pacific Bahá'í Studies۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2008 
  5. Compiled by ایادی امر اللہ Residing in the Holy Land۔ "The Bahá'í Faith: 1844–1963: Information Statistical and Comparative, Including the Achievements of the Ten Year International Bahá'í Teaching & Consolidation Plan 1953–1963"۔ صفحہ: 47, 51, 107۔ 23 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2018 
  6. ^ ا ب پ "Bahá'í Faith in Afghanistan"۔ Unofficial Website of the Bahá'ís of Afghanistan۔ Afghan Bahá'ís۔ 16 جولا‎ئی 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2009 
  7. ^ ا ب Lisa Chun (2008-07-16)۔ "Message of Persecution – Fairfax doctor recalls Iranian persecution of father, members of Bahá'í faith."۔ Arlington Connection۔ 28 ستمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  8. ^ ا ب Youssef Wardany (2009)۔ "The Right of Belief in Egypt: Case study of Baha'i minority"۔ Al Waref Institute۔ 15 مارچ 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اپریل 2009 
  9. ^ ا ب پ Ralph D. compiled by Wagner۔ "Pakistan"۔ Synopsis of References to the Bahá'í Faith, in the US State Department's Reports on Human Rights 1991–2000۔ Bahá'í Academics Resource Library۔ 14 مارچ 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2009 
  10. Sepehr Manuchehri (April 2001)۔ مدیر: John Walbridge۔ "Historical Accounts of two Indian Babis: Sa'in Hindi and Sayyid Basir Hindi"۔ Research Notes in Shaykhi, Babi and Baha'i Studies۔ 05 (02)۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اپریل 2009 
  11. Sepehr Manuchehri (September 1999)۔ مدیر: John Walbridge۔ "The Practice of Taqiyyah (Dissimulation) in the Babi and Bahai Religions"۔ Research Notes in Shaykhi, Babi and Baha'i Studies۔ 03 (03)۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اپریل 2009 
  12. Moojan Momen (2000)۔ "Jamál Effendi and the early spread of the Bahá'í Faith in Asia"۔ Baha'i Studies Review۔ Association for Baha'i Studies (English-Speaking Europe)۔ 09 (1999/2000)۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اپریل 2009 
  13. ^ ا ب William Garlington (1997)۔ مدیران: Juan R.I. Cole، Susan Maneck.۔ "The Baha'i Faith in India: A Developmental Stage Approach"۔ Occasional Papers in Shaykhi, Babi and Baha'i Studies۔ Humanities & Social Sciences Online۔ June, 1997 (02)۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اپریل 2009 
  14. ^ ا ب "Miss Martha Root in India"۔ Bahá'í News (45): 7–8۔ October 1930 
  15. "Letter from the House of Spirituality of Bahais, Chicago, Ill., U. S. A. to the Assembly of Rangoon Burma"۔ Star of the West۔ 01 (11)۔ 1910-02-10 
  16. "Cablegram from Shoghi Effendi"۔ Bahá'í News (131): 2۔ November 1939 
  17. "Letter from the Spiritual Assembly of the Bahá'ís of Karachi"۔ Bahá'í News (51): 16۔ April 1931 
  18. Bahá'í International Community۔ ""Bahá'u'lláh and the New Era" editions and printings held in Bahá'í World Centre Library Decade by decade 1920 -2000+"۔ General Collections۔ International Bahá'í Library۔ 04 ستمبر 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اپریل 2009 
  19. ^ ا ب Denis MacEoin، William Collins۔ "Memorials (Listings)"۔ The Babi and Baha'i Religions: An Annotated Bibliography۔ Greenwood Press's ongoing series of Bibliographies and Indexes in Religious Studies۔ Entry #45, 56, 95, 96۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اپریل 2009 
  20. Graham Hassall۔ "Yerrinbool Baha'i School 1938 – 1988, An Account of the First Fifty Years"۔ Published Articles۔ Bahá'í Library Online۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولا‎ئی 2008 
  21. Graham Hassall (1999)۔ "Fazel Mohammad Khan"۔ The Bahá'í World۔ Bahá'í World Centre۔ XX: 839–843 
  22. "India, Pakistan and Burma"۔ Bahá'í News (227): 11–12۔ January 1950 
  23. "Sixteen New National Assemblies by Ridvan, 1957"۔ Bahá'í News (291): 4–5۔ May 1955 
  24. "Pakistan Regional Convention"۔ Bahá'í News (291): 12۔ May 1956 
  25. ^ ا ب Universal House of Justice (1986)۔ In Memoriam۔ The Bahá'í World۔ XVIII۔ Bahá'í World Centre۔ صفحہ: 795–797۔ ISBN 0-85398-234-1۔ 17 مئی 2004 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2018 
  26. "National Assembly formed in Karachi"۔ Bahá'í News (318): 9–10۔ August 1957 
  27. "International News; Paksitsan; NSA publishes Souvenir Booklet"۔ Bahá'í News (291): 7۔ November 1957 
  28. Denis MacEoin، William Collins۔ "Schismatic Groups"۔ The Babi and Baha'i Religions: An Annotated Bibliography۔ Greenwood Press's ongoing series of Bibliographies and Indexes in Religious Studies۔ Entry #24, 27, 30, 61, 90, 101, 108۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اپریل 2009 
  29. "Two Asian National Communities Celebrate Dedication of Sydney Temple"۔ Bahá'í News (369): 15۔ December 1961 
  30. "Pakistan Believers Hold Their Fifth Summer School in Sukkur"۔ Bahá'í News (370): 5۔ January 1962 
  31. "Summer School h.e~d in Quetta"۔ Bahá'í News (392): 11۔ November 1963 
  32. Rabbani, R. (Ed.) (1992)۔ The Ministry of the Custodians 1957–1963۔ Bahá'í World Centre۔ صفحہ: 411, 431۔ ISBN 0-85398-350-X 
  33. "Summer School held in Quetta"۔ Bahá'í News (403): 5۔ October 1964 
  34. Denis MacEoin، William Collins۔ "The Babi and Baha'i Religions: An Annotated Bibliography Children/education (Listings)"۔ The Babi and Baha'i Religions: An Annotated Bibliography۔ Greenwood Press's ongoing series of Bibliographies and Indexes in Religious Studies۔ Entry #228, 229, 304, 370۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اپریل 2009 
  35. ^ ا ب Moojan Momen۔ "History of the Baha'i Faith in Iran"۔ draft "A Short Encyclopedia of the Baha'i Faith"۔ Bahai-library.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اکتوبر 2009 
  36. Geeta Gandhi Kingdon (1997)۔ "Education of women and socio-economic development"۔ Baha'i Studies Review۔ 7 (1) 
  37. "Youth Symposium in Pakistan"۔ Bahá'í News (435): 11۔ June 1967 
  38. "Eleventh annual Baha'i convention"۔ Bahá'í News (435): 11۔ July 1967 
  39. "First Local Spiritual Assembly of..."۔ Bahá'í News (443): 13۔ February 1968 
  40. "Pakistan"۔ Bahá'í News (444): 6۔ March 1968 
  41. "Bahá'í United Nations Reports; Karachi, Pakistan"۔ Bahá'í News (491): 10۔ March 1968 
  42. "Faith recognized in Pakistan"۔ Bahá'í News (502): 10۔ January 1973 
  43. "Tribe practices Faith"۔ Bahá'í News (516): 4۔ March 1974 
  44. "Around the World; Pakistan; Women's Year event held in Karachi"۔ Bahá'í News (536): 11۔ November 1975 
  45. "Around the World; Pakistan; Education is theme of public meeting"۔ Bahá'í News (537): 18۔ December 1975 
  46. "Around the World; Pakistan; Baha'is active in Minority Week"۔ Bahá'í News (550): 5۔ January 1977 
  47. "Around the World; Pakistan; 3-day proclamation honors Táhirih"۔ Bahá'í News (545): 12۔ July 1976 
  48. "Around the World; Pakistan; Baha'fs attend Asian Conference on Religion and Peace"۔ Bahá'í News (549): 5۔ December 1976 
  49. "Around the World; Pakistan; Baluchistan site of teaching trip"۔ Bahá'í News (554): 5۔ May 1977 
  50. ^ ا ب "Around the World; Pakistan; Winter School held"۔ Bahá'í News (566): 8۔ May 1978 
  51. "Around the World; Pakistan"۔ Bahá'í News (580): 10۔ July 1979۔ ISSN 0043-8804 
  52. "Building a Just World Order"۔ BIC Statements۔ Bahá'í International Community۔ 1985-03-29۔ 04 ستمبر 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2009 
  53. "Around the World; Pakistan"۔ Bahá'í News (582): 13۔ September 1979۔ ISSN 0043-8804 
  54. "Victory Messages; Asia"۔ Bahá'í News (581): 8۔ August 1979۔ ISSN 0043-8804 
  55. "Around the World; Pakistan"۔ Bahá'í News (581): 14۔ March 1980۔ ISSN 0043-8804 
  56. "IYC report; Celebration of the lYC"۔ Bahá'í News (592): 8۔ July 1980۔ ISSN 0043-8804 
  57. "Around the World; Pakistan"۔ Bahá'í News (593): 10۔ August 1980۔ ISSN 0043-8804 
  58. "The World; Faith is proclaimed widely in Pakistan"۔ Bahá'í News (603): 12۔ September 1981۔ ISSN 0195-9212 
  59. "The World; Pakistan"۔ Bahá'í News (607): 17۔ October 1981۔ ISSN 0195-9212 
  60. "The World; Pakistan"۔ Bahá'í News (612): 15۔ March 1981۔ ISSN 0195-9212 
  61. "The World; Pakistan Baha'is host large symposium"۔ Bahá'í News (624): 15۔ March 1983۔ ISSN 0195-9212 
  62. "The World; Pakistan Baha'is host large symposium"۔ Bahá'í News (623): 16۔ February 1983۔ ISSN 0195-9212 
  63. "The World; Pakistan"۔ Bahá'í News (626): 17۔ May 1983۔ ISSN 0195-9212 
  64. "The World; Pakistan"۔ Bahá'í News (629): 15۔ August 1983۔ ISSN 0195-9212 
  65. "The World; Pakistan"۔ Bahá'í News (634): 16۔ January 1984۔ ISSN 0195-9212 
  66. "The World; Pakistan"۔ Bahá'í News (634): 17۔ May 1984۔ ISSN 0195-9212 
  67. "The World; Pakistan"۔ Bahá'í News (649): 15۔ April 1985۔ ISSN 0195-9212 
  68. Moojan Momen، Smith, Peter (1989)۔ "The Baha'i Faith 1957–1988: A Survey of Contemporary Developments"۔ Religion۔ 19 (1): 63–91۔ doi:10.1016/0048-721X(89)90077-8 
  69. "Social/economic development; Part II of our world-wide survey; Pakistan"۔ Bahá'í News (661): 10۔ April 1986۔ ISSN 0195-9212 
  70. Lawrence Arturo۔ "Implementing Agenda 21 – Sustainable Development and World Citizenship"۔ Implementing Agenda 21۔ United Nations Non-Governmental Liaison Service۔ 15 ستمبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2009 
  71. "The World; Republic of Ireland"۔ Bahá'í News (666): 15۔ September 1986۔ ISSN 0195-9212 
  72. "The World; Belgium"۔ Bahá'í News (669): 17۔ December 1986۔ ISSN 0195-9212 
  73. "The World; Pakistan"۔ Bahá'í News (697): 14۔ May 1989۔ ISSN 0195-9212 
  74. "The World; Pakistan"۔ Bahá'í News (676): 16۔ July 1987۔ ISSN 0195-9212 
  75. "The World; Pakistan"۔ Bahá'í News (705): 16۔ January 1990۔ ISSN 0195-9212 
  76. Cameron, G.، Momen, W. (1996)۔ A Basic Bahá'í Chronology۔ Oxford, UK: George Ronald۔ صفحہ: 467۔ ISBN 0-85398-404-2 
  77. Christopher Buck (2003)۔ "Islam and Minorities: The Case of the Bahá'ís"۔ Studies in Contemporary Islam۔ 05 (2003): 1–2, 83–106 
  78. Bahá'í International Community (2008)۔ "UN General Assembly Resolution 2001"۔ Bahá'í International Community۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اپریل 2009 
  79. "Events during October 2003"۔ Website of the National Bahai Institute for Human Resource Development, Pakistan۔ National Bahai Institute for Human Resource Development, Pakistan۔ 2004-07-17۔ 26 دسمبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2009 
  80. "Courses Offered (2007)"۔ Website of the National Bahai Institute for Human Resource Development, Pakistan۔ National Bahai Institute for Human Resource Development, Pakistan۔ 2007-07-03۔ 28 اگست 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2009 
  81. Ayesha Javed Akram (2004-06-07)۔ "The Bahai community: Lying low: the need for a new graveyard"۔ Daily Times (Pakistan)۔ 17 اکتوبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  82. "Over 35,000 Buddhists, Baha'is call Pakistan home"۔ The Express Tribune۔ 2 ستمبر، 2012 
  83. "Pakistan elections: Non-Muslim voters up by 30%, Hindus biggest minority"۔ www.hindustantimes.com/۔ 28 مئی، 2018 

بیرونی راوابط[ترمیم]