پنچایتی راج

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

پنچایتی راج کا نطام بر صغیر میں رائج ہے۔ بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال میں پنچایتی راج کا نظام بہت قدیم ہے اور اب بھی رائج ہے۔ یہ بر صغیر میں مقامی حکومت ہے جو 250 ق م سے رائج ہے۔[1] لفظ “راج“ کے معنی حکومت کے ہیں اور پنچایت کے معنی اسبملی کے ہیں۔ دراصل پنچ آیت سے مل کر پنچایت بنا ہے۔ پرانے زمانے میں علاقہ کے بزرگ، حکیم و دانا اور تجربہ کار افراد پنچایت کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ پنچتیں عموما آپسی جھگڑے سلجھایا کرتی تھیں۔

پنچایت کا صدر مکھیا یا سرپنچ کہلاتا ہے۔ اسے پردھان بھی کہتے ہیں۔ کسی کسی علاقہ میں سرپنچ منتخب ہوتا ہے اور کہیں نامزد کیا جاتا ہے۔ نامزد ہونے والا سرپنچ عموما قابل، تجربہ کار اور دانا ہوتا ہے۔ لوگ اس کی عزت کرتے ہیں اور اس کے مشورہ کا احترام کرتے ہیں۔ موجودہ بھارتی پنچایتی راج روایتی پنچایتی راج اور کھاپ سے یکسر مختلف ہے۔ کھاپ پنچایتیں بھارت کے کچھ علاقوں میں نسلی پنچایت یا قبائلی پنچایت ہوتی ہے۔ یہ عموما شمالی ہند میں پائی جاتی ہیں۔ کھاپ کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے۔ یہ اپنی روایات پر سکتی سے عمل کرتے ہیں اور بسا اوقات عدالتوں کے فیصلوں کو ٹال دیتے ہیں۔[2]

کھلی پنچایت، مدھیہ پردیش

موہن داس گاندھی پنچایتوں کی وکالت کرتے تھے اور انھیں بھارتی سیاسی نطام کی بنیاد مانتے تھے۔ یہ ایک طرح کی غیر مرکزی حکومت ہے جہاں ہر گاؤں میں ایک پنچایت ہوتی ہے اور وہ اپنے گاؤں کے معاملات کو فیصل کرتی ہے۔[3][4] پنچایت کو گرام سوراج یعنی گاؤں کی ترقی بھی کہا گیا۔ مگر آزادی کے بعد بھارت میں مرکز پر منحصر حکومت بنی۔[5] البتہ کئی علاقائی معاملات کو غیر مرکزی بنا دیا گیا اور علاقہ کی امتظامی اکائیوں کو وہ کام سونپ دیے گئے جس میں ایک منتخب پنچایت بھی شامل ہے۔ [6] گاندھی جی کے بتائے ہوئے روایتی پنچایتی نظام اور بھارت میں موجود جدید پنچایتی راج میں بہت زیادہ اور نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ موجودہ پنچایتی نظام 1992ء میں شروع ہوا۔ [7] پنچایت راج کا یہ نظام ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو میں بھی پایا جاتا ہے۔[8][9][10]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. P.B. Udgaonkar، Political Institutions & Administration، Motilal Banarasidass Publishers, 1986، ISBN 978-81-20-82087-6، … these popular courts are first mentioned by Yajnavalkya and then by Narada, Brishaspati, Somadeva and Sukra. These writers covered a period of about a thousand years, c. 100 to 1950 A.D.، and they could not have mechanically referred to the popular courts if they were not actually functioning … 
  2. Mullick, Rohit & Raaj, Neelam (9 ستمبر 2007)۔ "Panchayats turn into kangaroo courts"۔ The Times of India 
  3. Sisodia, R. S. (1971)۔ "Gandhiji's Vision of Panchayati Raj"۔ Panchayat Aur Insan۔ 3 (2): 9–10 
  4. Sharma, Manohar Lal (1987)۔ Gandhi and Democratic Decentralization in India۔ New Delhi: Deep and Deep Publications۔ OCLC 17678104  Hathi Trust copy, search only
  5. Hardgrave, Robert L. & Kochanek, Stanley A. (2008)۔ India: Government and Politics in a Developing Nation (seventh ایڈیشن)۔ Boston, Massachusetts: Thomson/Wadsworth۔ صفحہ: 157۔ ISBN 978-0-495-00749-4 
  6. Pellissery, S. (2007)۔ "Do Multi-level Governance Meet Local Aspirations?"۔ Asia Pacific Journal of Public Administration۔ 28 (1): 28–40 
  7. Singh, Vijandra (2003)۔ "Chapter 5: Panchayate Raj and Gandhi"۔ Panchayati Raj and Village Development: Volume 3, Perspectives on Panchayati Raj Administration۔ Studies in public administration۔ New Delhi: Sarup & Sons۔ صفحہ: 84–90۔ ISBN 978-81-7625-392-5 
  8. "The Panchayat system as an early form of conflict resolution in Trinidad. - GCSE History – Marked by Teachers.com"۔ www.markedbyteachers.com 
  9. "Carmona wants "Panchayat' system to resolve conflicts – Trinidad and Tobago Newsday Archives"۔ 30 مئی 2016 
  10. "Return of the panchayat – Trinidad and Tobago Newsday Archives"۔ 12 مئی 2005۔ 27 اگست 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2019