چودھری رحمت علی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(چوہدری رحمت علی سے رجوع مکرر)
چودھری رحمت علی
(Western Punjabi میں: چوہدری رحمت علی‎ ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش 16 نومبر 1897ء
بالاچور، پنجاب، برطانوی راج
وفات 3 فروری 1951(1951-20-03) (عمر  55 سال)
کیمبرج، کیمبرج شائر، برطانیہ
مدفن کیمبرج   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیگر نام خالق لفظِ پاکستان، نقاشِ پاکستان
عملی زندگی
مادر علمی امانیویل
جامعہ پنجاب
اسلامیہ کالج لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان ،  مفسرِ قانون   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان پنجابی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  پنجابی ،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں ابھی یا کبھی نہیں
تحریک تحریک پاکستان، پاکستان قومی تحریک

چودھری رحمت علی (16 نومبر 1897ء – 3 فروری 1951ء) پاكستان كا نام تجويز كرنے والے ايك مخلص سیاست دان تھے۔ انھیں دنیا کا پہلا پاکستانی کہا جاتا ہے۔

ابتدائی زندگی[ترمیم]

چودھری رحمت علی 16 نومبر، 1897ء کو مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے گاؤں مو ہراں میں ایک متوسط زمیندار جناب حاجی شاہ گجر کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے ایک مکتب سے حاصل کی جو ایک عالم دین چلا رہے تھے۔ میٹرک اینگلو سنسکرت ہائی اسکول جالندھر سے کیا۔ 1914ء میں مزید تعلیم کے لیے لاہور تشریف لائے انھوں نے اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ 1915ء میں ایف اے اور 1918ء میں بی اے کیا۔

تعلیمی زندگی[ترمیم]

1915ء میں اسلامیہ کالج میں بزم شبلی کی بنیاد رکھی کیونکہ وہ مولانا شبلی سے بہت متاثر تھے اور پھر اس کے پلیٹ فارم سے 1915ء میں تقسیم ہند کا نظریہ پیش کیا۔ 1918ء میں بی اے کرنے کے بعد جناب محمد دین فوق کے اخبار کشمیر گزٹ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنے کیئریر کا آغاز بھی کیا۔ 1928ء میں ایچی سن کالج میں اتالیق بھی مقرر ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد انگلستان تشریف لے گئے جہاں جنوری 1931ء میں انھوں نے کیمبرج کے کالج ایمنویل میں شعبہ قانون میں اعلٰی تعلیم کے لیے داخلہ لیا۔ کیمبرج اور ڈبلن یونیورسٹیوں سے قانون اور سیاست میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔

تقسیم ہند کا نظریہ[ترمیم]

اسلامیہ کالج کے مجلے "دی کریسنٹ" کے ایڈیٹر اور اور کئی دیگر طلبہ سے متعلق بزموں کے عہدیدار بھی رہے۔ اسلامیہ کالج میں بزم شبلی قائم کی، جس کے 1915ء کے اجلاس میں محض 18 برس کی عمر میں تقسیم ملک کا انقلاب آفرین نظریہ پیش کیا، جس کی مخالفت پر آپ اس بزم سے الگ ہو گئے۔ آپ نے یہ نظریہ پیش کرتے ہوئے فرمایا

"ہندوستان کا شمالی منطقہ اسلامی علاقہ ہے، ہم اسے اسلامی ریاست میں تبدیل کریں گے، لیکن یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب اس علاقے کے باشندے خود کو باقی ہندوستان سے منقطع کر لیں۔ اسلام اور خود ہمارے لیے بہتری اسی میں ہے کہ ہم ہندوستانیت سے جلد سے جلد جان چھڑا لیں"

عملی زندگی[ترمیم]

اخبار کشمیر گزٹ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنے کیئریر کا آغاز کیا۔ آپ نے "پاکستان دی فادرلینڈ آف پاک نیشن"، "مسلم ازم" اور "انڈس ازم" وغیرہ کتابچے بھی لکھے۔ چوہدری رحمت علی ایچی سن کالج لاہور میں لیکچرار مقرر ہوئے اور جیفس کالج میں بھی ملازمت کی۔ آپ نے بعض اخباروں میں ملازمت بھی اختیار کی۔

1933ء میں آپ نے لندن میں پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی۔ 28 جنوری، 1933ء، جب وہ کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھتے تھے "اب یا پھر کبھی نہیں" (Now OR Never) کے عنوان سے چار صفحات پر مشتمل شہرہ آفاق کتابچہ جاری کیا۔ جو تحریک پاکستان کے قلعے کی آہنی دیوار ثابت ہوا۔ اور برصغیر کے مسلمانان و دیگر اقوام لفظ "پاکستان" سے آشنا ہوئے۔ آپ کے مطابق آپ نے یہ نام پنجاب (پ) افغانیہ (ا) کشمیر (ک) سندھ (س) اور بلوچستان (تان) سے اخذ کیا جہاں مسلمان 1200 سال سے آباد ہیں۔ 1935ء میں آپ نے ایک ہفت روزہ اخبار "پاکستان" کیمبرج سے جاری کیا۔ اور اپنی آواز پہنچانے کے لیے جرمنی اور فرانس کا سفر کیا اور جرمنی کے ہٹلر سے انگریزوں کے خلاف مدد کا وعدہ لیا۔ اس کے علاوہ اسی سلسلہ میں امریکا اور جاپان وغیرہ کے سفر بھی اختیار کیا۔

ایسے وقت میں جب ہندو و مسلم قائدین لندن میں جاری گول میز کانفرنسوں کے دوران وفاقی آئین کے بارے میں سوچ رہے تھے، یکم اگست، 1933ء کو جوائینٹ پارلیمینٹری سلیکٹ کمیٹی نے چودھری رحمت علی کے مطالبہ پاکستان کا نوٹس لیتے ہوئے ہندوستان وفد کے مسلم اراکین سے سوالات کیے۔ جواباً سر ظفر اللہ، عبداللہ یوسف علی اور خلیفہ شجاع الدین وغیرہ نے کہا کہ یہ صرف چند طلبہ کی سرگرمیاں ہیں، کسی سنجیدہ شخصیت کا مطالبہ نہیں جس پر توجہ دی جائے۔ 1938ء میں آپ نے بنگال، آسام اور حیدرآباد دکن کی آزادی کے حق میں بھی آواز بلند کی اور "سب کانٹیننٹ آف براعظم دینیہ " کا تصور پیش کیا۔ جن میں پاکستان، صیفستان، موبلستان، بانگلستان، حیدرستان، فاروقستان، عثمانستان وغیرہ شامل تھے۔ جن میں جغرافیائی محل وقوع کا تعین کیا گیا تھا اور با قاعدہ نقشے دیے گئے تھے۔ اور 8 مارچ، 1940ء کو کراچی میں پاکستان نیشنل موومنٹ کی سپریم کونسل سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے حیدرآباد دکن کے لیے "عثمانستان" کے نام سے آزاد اسلامی ریاست کا خاکہ پھر پیش کیا۔

آپ لاہور میں ہونے 23 مارچ 1940ء کے مسلم لیگ کے تاریخ ساز جلسے میں شرکت نہ کر سکے کہ خاکسار تحریک اور پولیس میں تصادم کے باعث اس کشیدہ صورت حال میں پنجاب حکومت نے آپ پر پنجاب میں داخلے کی پابندی عائد کر دی۔ جبکہ بعض حلقوں کے مطابق اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی وجہ "مسلم لیگ" کے ساتھ "آل انڈیا" کے لفظ کا استعمال تھا۔ کیونکہ آپ اس کے سخت مخالف تھے اور اس خطے کا ذکر برصغیر یا دینیہ کہہ کرکرتے تھے۔ آپ مسلمانوں کو برصغیر کے اصل وارث سمجھتے تھے کیونکہ انگریزوں نے مسلمانوں سے ہی حکومت چھینی تھی اور تمام برصغیر کو ایک ریاست میں متحد کرنے والے بھی مسلم ہی تھے۔ اس جلسے میں اگرچہ آپ کا تجویز کردہ نام "پاکستان" شامل نہیں تھا مگر برصغیر کے ہندو پریس نے طنزاً اسے قرارداد پاکستان کہنا شروع کیا اور بالاخر یہ طنز سچ کا روپ دھار گیا۔

قیام پاکستان کے بعد آپ دو بار پاکستان تشریف لائے مگر نامناسب حالات اور رویوں کے باعث آپ دل برداشتہ ہو کر دوبارہ برطانیہ چلے گئے اسی دوران آپ کا 20 مئی 1948ء کو پاکستان ٹائمز میں انٹرویو بھی شائع ہوا۔

آراء[ترمیم]

مورخ ڈاکٹر راجندر پرشاد اپنی کتاب India Divided میں رقمطراز ہیں کہ

"جہاں تک مجھے علم ہے چوہدری رحمت علی پاکستان نیشنل موومنٹ کے بانی صدر ہیں۔ وہ واحد شخص ہیں جو ہندوستان کی وحدت کو تسلیم کیے جانے کی مخالفت کرتے ہیں اور اسے مسلمانوں کو ظلم و بربریت میں مبتلا کرنے کے مترادف قرار دیتے ہیں"

مشہور ترک ادیبہ خالدہ خانم کی مشہور کتاب Inside India کا ایک باب چوہدری رحمت علی کے انٹرویو پر مشتمل ہے جو 1937ء میں پیرس میں شائع ہوئی۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ

"پاکستان نیشنل موومنٹ کا منصوبہ فرقہ واریت سے الگ بات ہے۔ تحریک کے مطابق ہندوستان موجودہ حالت میں ایک ملک نہیں۔ بلکہ برصغیر ہے جو دو ملکوں ہندوستان اور پاکستان پر مشتمل ہے۔ تحریک کا بانی چوہدری رحمت علی کو قرار دیا جاتا ہے، وہ قابل ترین قانون دان ہے لیکن وکالت ترک کر کے انھوں نے پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی۔ اس وقت ان کی زندگی کا غالب مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل ہے۔ میں نے ملاقات کے دوران یہ محسوس کیا ہے کہ یہ تلخی جو ان کے دل میں ہے ہندوؤں کی معتصبانہ اور اسلام دشمن ذہنیت سے جوانی میں پیدا ہو گئی تھی ہرگز ان کے نظریہ پاکستان پر اثر انداز نہیں ہوئی اور وہ اس تحریک کی بنیاد ہندو عداوت پر نہیں رکھتے"

لفظ پاکستان و نقشہ پاکستان[ترمیم]

اس طرح 1933ء میں انھوں نے برصغیر کے طلباءپر مشتمل ایک تنظیم پاکستان نیشنل لبریشن موومنٹ کے نام سے قائم کی۔ اسی سال چودھری رحمت علی نے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنا مشہور کتابچہ Now or Never۔۔ ابھی یا کبھی نہیں۔۔۔ شائع کیا جس میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان استعمال کیا۔ اسی طرح انھوں نے پاکستان، بنگلستان اور عثمانستان کے نام سے تین ممالک کا نقشہ بھی پیش کیا۔پاکستان میں کشمیر، پنجاب، دہلی سمیت، سرحد، بلوچستان اور سندھ شامل تھے۔ جبکہ بنگلستان میں بنگال، بہار اور آسام کے علاقے تھے اس کے علاوہ ریاست حیدرآباد دکن کو عثمانستان کا نام دیا۔ 1935ء میں انھوں نے کیمبرج سے ایک ہفت روزہ اخبار نکالا جس کا نام بھی پاکستان تھا۔ چودھری رحمت علی 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے چونتیسویں سالانہ اجلاس میں لاہور تشریف لانا چاہتے تھے لیکن چند روز قبل خاکساروں کی فائرنگ کی وجہ سے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب جناب سکندر حیات نے چودھری رحمت علی کے پنجاب میں داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ وہ 1947ء میں اقوام متحدہ گئے اور کشمیر پر اپنا موقف بیان کیا۔۔

قیام پاکستان کے بعد[ترمیم]

تصور پاکستان کے حوالے سے چودھری رحمت علی اگرچہ ایک بڑا نام تھے لیکن انھوں نے بلوغت کے بعد اپنی زندگی کازیادہ تر حصہ برطانیہ میں گزارا۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد وہ 6 اپریل 1948ء کو لاہور واپس آئے۔لاہور آنے کے بعد وہ قیام پاکستان پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کرتے رہے۔وہ 1933 میں اپنے پمفلٹ کے مطابق پاکستان، جس کا انھوں نے تصور کیا تھا، برعکس آزاد ہونے والے چھوٹے سے پاکستان سے ناخوش تھے۔ وہ چھوٹا سا پاکستان قبول کرنے پر قائد اعظم کی مذمت کرتے تھے۔اس مذمت میں وہ اس حد تک چلے گئے کہ قائد اعظم کو ”غدار اعظم“ (Quisling-e-Azam) کہنے لگے.[1][ا] رحمت علی پاکستان میں رہنا چاہتے تھے لیکن وزیر اعظم لیاقت علی خان نے انھیں ملک بدر کر دیا۔اُن کی ملکیتی چیزیں ضبط کر لی گئیں۔ اکتوبر 1948 میں انھیں خالی ہاتھ برطانیہ جانا پڑا۔[3]

بیماری و وفات[ترمیم]

آپ کا آخری پتہ 114 ہیری ہٹن روڈ تھا اور آپ مسٹر ایم سی کرین کے کرائے دار تھے۔ مسٹر کرین کی بیوہ کے مطابق چوہدری رحمت علی اپنا خیال ٹھیک سے نہیں رکھتے تھے۔ جنوری کے مہینے میں سخت سردی کے دوران ایک رات آپ ضرورت کے کپڑے پہنے بغیر باہر چلے گئے اور واپسی پر بیمار ہو گئے۔ 29 جنوری نمونیہ میں مبتلا ہو کر شدید بیماری کی حالت میں آپ کو ایولائن نرسنگ ہوم میں داخل کرایا گیا لیکن صحت یاب نہ ہو سکے اور وہیں پر 3 فروری1951ء ہفتے کی صبح انتقال ہوا۔

ایمنوئیل کالج، کیمبرج شہر کے قبرستان اور کیمبرج کے پیدائش و اموات کے ریکارڈ کے مطابق 3 فروری، 1951ء بروز ہفتہ کی صبح اس عظیم محسن نے کسمپرسی کی حالت میں برطانیہ میں اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کر دی۔

چودھری رحمت علی کے مزار کا کتبہ

تدفین[ترمیم]

17 روز تک کولڈ اسٹوریج میں ہم وطنوں، ہم عقیدوں، ہم مذہبوں کا انتظار کرتے کرتے بالاخر 20 فروری، 1951ء کو دو مصری طلبہ کے ہاتھوں اس غریب الوطن کے جسد خاکی کو انگلستان کے شہر کیمبرج کے قبرستان کی قبر نمبر بی - 8330 میں لا وارث کے طور پر امانتاً دفن کر دیا گیا (کیمبرج سمیٹری، مارکٹ روڈ – کیمبرج - برطانیہ) ۔

وزراتوں، الاٹمنٹوں، کلیموں، ہوس اقتدار کے ماروں کو خبر بھی نہ ہوئی کہ ان کے ملک کی تحریک کے صف اول کا مجاہد 200 پونڈ کا قرض اپنی تجہیز و تکفین کی مد میں کندھوں پر لے چلا ہے۔ مگر سات دہائیوں کے بعد بھی یونہی دیار غیر میں چند گمنام مقبروں کے درمیان ابھی تک امانتاً دفن ہے۔

اعزاز[ترمیم]

حکومتِ پاکستان نے ان کی یاد میں ہیروز آف پاکستان سیریز میں یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔

مآخذ[ترمیم]

  • کاروان شوق۔ مولف حکیم آفتاب قرشی
  • تحریک آزادی کے بے لوث قائد چوہدری رحمت علی۔ مولف عبد السلام سلامی
  • نقاش پاکستان۔ مولف یوسف عزیز
  • چوہدری رحمت علی کی زندگی کے آخری ایام۔ مولف ڈاکٹر غازی مجاہد
  • لفظ پاکستان کے خالق۔ مولف محمد شریف بقاء (صدر مجلس اقبال۔ لندن)
  • تحریک پاکستان کا ایک مظلوم اور عظیم رہنما۔ مولف حاجی نذیر تبسم گورسی
  • چوہدری رحمت علی تحریک پاکستان کے مجاہد۔ مولف چوہدری طارق محمود

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب Kamran (2015), p. 82.
  2. Jyoti Bhusan Das Gupta (2012)، Jammu and Kashmir، Springer، صفحہ: 72–، ISBN 978-94-011-9231-6 
  3. Aziz (1987), pp. 303, 316.