کرامت علی جونپوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
کرامت علی جونپوری
معلومات شخصیت
پیدائش 1800ء
جونپور ضلع، اترپردیش، بھارت
وفات 1873ء
رنگ پور ضلع ،  عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
نسل صدیقی
مذہب اسلام
مکتب فکر حنفی
عملی زندگی
پیشہ مصنف ،  فقیہ ،  داعی اسلام   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

کرامت علی جونپوری (پیدائش: 11 جون 1800ء— وفات: 31 مئی 1873ء) ایک بھارتی حنفی فقیہ، عالم دین، عظیم داعی و مصلح اور چالیس سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔ جونپور میں ولادت ہوئی، مختلف علما سے علم حاصل کرنے کے بعد سید احمد بریلوی سے بیعت ہوئے اور ان کے حکم سے جونپور، سلطان پور، اعظم گڑھ، غازی پور اور فیض آباد میں دعوت و تبلیغ اور اشاعت اسلام کے بعد بنگال و آسام میں اکیاون (51) برس تک دعوت و تبلیغ اور اشاعت اسلام کرتے رہے۔ دوران سفر بنگلہ دیش کے رنگ پور میں وفات پائی۔

نام اور مولد و مسکن[ترمیم]

کرامت علی بن ابو ابراہیم شیخ امام بخش بن شیخ جار اللہ کی ولادت 18 محرم 1215ھ مطابق جون 1800ءکو محلہ ملا ٹولہ شہر جونپور میں ہوئی۔ کرامت علی جونپوری کا اصل نام علی تھا، مگر ان سے بکثرت سے ظہور ہونے والی کرامات کی وجہ سے عام طور پر لوگ ان کو "کرامت علی" کہنے لگے تھے۔[1] اپنی کتاب مفتاح الجنۃ کے شروع میں لکھا ہے کہ "خاکسار علی حنفی جونپوری مشہور بہ کرامت علی"۔[2]

سلسلہ نسب[ترمیم]

ان کا سلسلہ 35 واسطوں سے خلیفہ اول ابو بکر صدیق سے جا ملتا ہے۔[3]

تعلیم و تربیت[ترمیم]

کرامت علی جونپوری کی ابتدائی تعلیم و تربیت جونپور ہی میں ہوئی۔ سب سے پہلے اپنے والد سے بسم اللہ کی اور فارسی و عربی کی تکمیل کے بعد علم دینیہ مولانا قدرت اللہ ردولوی سے، علم حدیث احمد اللہ انامی سے، علم معقولات احمد اللہ چریا کوٹی سے، علم تجوید قرآن قاری سید ابراہیم مدنی اور قاری سید محمد اسکندر سے حاصل کیا۔[4] بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی سے بھی استفادہ کیا تھا۔[5] اس کے علاوہ فن خوشنویسی کو حافظ عبد الغنی سے حاصل کیا اور اتنی مہارت حاصل کر لی کہ ایک چاول پر پور سورہ اخلاص مع بسم اللہ کے لکھتے تھے اور آخر میں اپنا نام بھی لکھ لیتے تھے۔[6] اس کے علاوہ فن سپہگری و پہلوانی اور لاٹھی و بنوٹ چلانے کا ہنر بھی ماہرین فن اساتذہ سے سیکھا۔[7]

سید احمد بریلوی سے بیعت و حصول سلوک و احسان[ترمیم]

اٹھارہ سال کی عمر میں اصلاح باطن کا شدید تقاضا پیدا ہوا، سید احمد بریلوی کا نام عرصہ سے سن رہے تھے، جب معلوم ہوا کہ سید احمد بریلوی دہلی سے اپنے وطن رائے بریلی آ گئے ہیں تو ا پنے والد سے اجازت لے کر سید احمد بریلوی کی خدمت میں پہنچے اور سید صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اول ہی ہفتہ ان کے شیخ نے کہہ دیا کہ اب ہدایت کے کام میں لگ جاؤ اور خلافت نامہ مع شجرہ بتوسط شاہ اسماعیل دہلوی عطا کیا ۔[8]

جونپور کو واپسی اور دعوت و اصلاح[ترمیم]

رائے بریلی میں اٹھارہ روز ٹھہرنے کے بعد اپنے وطن جونپور واپس آ گئے۔ دعوت و تبلیغ کا سلسلہ سید صاحب سے بیعت سے قبل ہی شروع کر چکے تھے، رائے بریلی سے واپسی کے بعد جونپور آ کر اور سر گرم عمل ہو گئے، محلہ محلہ گھر گھر پھرتے اور نماز، پردہ اور دیگر ارکان اسلام کی تلقین کرتے،[9] اس وقت جونپور میں دن کو اذان نہیں ہوتی تھی، صرف صبح و شام کو طلوع و غروب کی پہچان کی غرض سے ہوتی تھی، انھوں نے اس جاہلانہ رسم کی اصلاح کی اور بڑی کوششوں سے اذان و جماعت مسجدوں میں جاری کی، اسی کے ساتھ جونپور کی شاہی مسجد جس کو سلطان ابراہیم شرقی نے تعمیر کرایا تھا، کی تطہیر اور اس میں جمعہ و جماعت قائم کرنے کی بھی فکر ہوئی، اس وقت یہ مسجد اہل بدعات کے تصرف میں تھی، اذان و نماز جمعہ و جماعت کی بجائے وہ دنیاوی مجالس اور شادی بیاہ کے تقاریب کے کام میں لائی جاتی تھی، بارات ٹھہرانے کے لیے اس کو استعمال کیا جاتا تھا،تعزیہ داری بھی اس میں خوب ہوتی تھی، اسی طرح مسجدوں میں ہندوؤں کی بارات اترتی اور وہ شراب پیا کرتے تھے اور ان مسجدوں کو بطور کلب گھر اور ناچ گھر کے استعمال کیا جاتا تھا، جامع مسجد کے بعض حصے میں مویشی بھی باندھے جاتے تھے، کرامت علی جونپوری نے بڑی کوششوں سے جامع مسجد میں پانچ وقت اذان و جماعت کو قائم کیا، اسی طرح جامع مسجد جونپور میں بعد نماز جمعہ وعظ کا سلسلہ قائم کیا جو ان کی وفات کے بعد بھی کئی سال تک مسلسل جاری رہا۔ ان کی تبلیغی کوششوں کی وجہ سے ان کو کئی مرتبہ ہلاک کرنے کی بھی کوشش کی گئی لیکن وہ اپنے فن سپہ گری کی وجہ سے بچ گئے۔ نیز علم دین کی اشاعت کے لیے جونپور میں مدرسہ حنفیہ اورمدرسۃ القرآن قائم کیے۔ مدرسہ حنفیہ کے پہلے استاد عبد الحلیم فرنگی محلی (والد عبد الحی لکھنوی) ہوئے۔[10][11][12]

بنگال اور آسام میں دعوت و تبلیغ کا کام[ترمیم]

جونپور، اعظم گڑھ، غازی پور، فیض آباد اور سلطان پور میں تبلیغ و اشاعت اور دعوتی و اصلاحی کام کرنے کے بعد اپنے مرشد سید احمد بریلوی کے حکم کے مطابق بنگال و آسام کا رخ کیا۔ کرامت علی جونپوری کو جہاد بالسیف کا بہت شوق تھا اور اس کے لیے فنون سپہ گری و شمشیر زنی کو محنت سے حاصل کیا تھا، جب ان کے مرشد نے جہاد کا ارادہ کیا تو کرامت علی جونپوری نے بھی جہاد پر آمادگی ظاہر کی اور ساتھ چلنے کو کہا، سید احمد بریلوی کو بذریعہ کشف پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا کہ کرامت علی جونپوری سے کچھ اور ہی کام مقدر ہے، چنانچہ ان سے کہا کہ تم سے خدا کو وراثت نبوی اور تبلیغ دین کا کام لینا منظور ہے اور تمھارے اندر اس کی استعداد ودیعت فر مادی ہے، تمھارے لیے یہی جہاد اکبر ہے اور تمھاری زبان و قلم میری ہدایت کی توسیع و ترجمانی کریں گے۔[13][14]

کرامت علی جونپوری کے عہد میں بنگال کی معاشرتی اور دینی و اخلاقی صورت حال[ترمیم]

اس زمانہ میں بنگال میں گمراہی اور بے دینی اپنے شباب پر تھی، بے شرع پیروں، شعبدہ باز فقیروں اور جوگیوں کا دور دورہ تھا، مسجدوں میں مویشی باندھے جاتے تھے، پردہ نام کو نہ تھا، مسلمان ہندوانہ مراسم و تہوار جیسے ہولی، دیوالی اور بسنت وغیرہ کھلے عام منایا کرتے تھے، ستر عورت اور لباس کی کوئی قید نہ تھی، قرآن و حدیث ،وعظ و نصائح کا سننا موقوف ہو چکا تھا، بت پوجنا، فال کھلانا، اوجھے کے پاس جانا، تاڑی شراب پینا کچھ عیب نہ تھا۔ کرامت علی جونپوری نے اپنی کتاب "مکاشفات رحمت" میں ان حالات کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔[15][16]

دعوتی کام کا آغاز[ترمیم]

مولانا نے کلکتہ پہنچ کر کچھ روز قیام کیا، اس کے بعد بنگال و آسام کا دورہ بذریعہ کشتی شروع کر دیا۔ اس وقت سواری کی سہولتیں زیادہ نہ تھیں اور بنگال میں ندیاں اور نہریں زیادہ ہونے کی وجہ سے بوٹ سے سفر کیا کرتے تھے۔ ہر طرح کی پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے پورے اکیاون (51) برس تک بنگال میں دعوت و تبلیغ اور اشاعت کا کام کرتے رہے، رد شرک و بدعت صبح سے شام تک کا مشغلہ تھا، جا بجا مساجد و مدرسے قائم کیے، چونکہ خود بوٹ پر سفر کرتے تھے، اس لیے اپنے ہمراہ سفری مدرسہ قائم کرکے وہاں کے لوگوں کو تعلیم دی، ان کے اخراجات کو برداشت کیا اور ان کو تعلیم دے کر بنگال و آسام میں دعوت و تبلیغ اور تدریس کے لیے مقرر کر دیا۔[17][18] مولانا نے پورے بنگال اور آسام میں دعوت و تبلیغ کا کام کیا، مگر خصوصیت سے ڈھاکہ، میمن سنگھ، رنگ پور، دیناج پور، فرید پور، بریسا اور آسام میں گوالپاڑہ، کامپروپ، دھوپڑی و نواکھالی میں ان کا کام سب سے زیادہ نمایاں تھا۔

سفری مدرسہ[ترمیم]

کرامت علی جونپوری کا سارا وقت اور سارا مال چونکہ دورہ و سیاحت میں صرف ہوتا تھا، اس لیے ضرورت وقت کی بنا پر اپنے ہمراہ ایک بوٹ پر سفری مدرسہ قائم کیا جس میں مقامی باشندوں کو تعلیم و تدریس کے ذریعہ پابند عمل و عقائد بنا کر اور احکام شریعت سے خوب واقف کرا کر اطراف و جوانب میں اعلائے کلمۃ اللہ اور دعوت حق کے لیے بھیجتے۔ اس سفری مدرسہ کے سارے اخراجات نیز طلبہ کے مصارف خکوراک کے مولانا خود خفیل ہوتے۔ مدرسہ کے لیے ایک بوٹ مخصوص تھا جس پر ظاہری تعلیم، تزکیہ و اخلاص اور ذکر و اذکار کا طریقہ اور سلوک کی بھی تعلیم ہتی تھی۔ اس سفری مدرسہ سے جو حضرات فارغ ہو کر نکلے وہ خود ایک زبردست داعی و مبلغ ثابت ہوئے اور انھوں نے بنگال کے گوشہ گوشہ میں اسلام کی تبلیغ کی اور لوگوں کی اصلاح کی۔[18][19]

کرامت علی جونپوری کی دعوتی و اصلاحی جدوجہد کے اثرات[ترمیم]

کرامت علی جونپوری نے 75 برس کی عمر پائی جس میں تقریباً اکیاون (51) سال بنگال اور آسام اور قرب وجوار میں دعوت و تبلیغ کا کام کرتے ہوئے گزارے۔ ان کی بعض کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بعض جزائر تک بھی گئے۔ اس درمیان ایک دو بار جونپور بھی آنا ہوا لیکن زیادہ مدت تک قیام نہ رہ سکا۔ ان کی دعوتی و تبلیغی کوششوں کی پوری تفصیل کتابوں میں مذکور نہیں ہے، مگر بعض تذکرہ نگاروں اور بعض دوسرے بیانات سے ان کے کام کی وسعت اور تبلیغی مساعی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔[12] صوبۂ بنگال جو مغلیہ سلطنت کے زمانہ میں بھی مسلم اکثریتی نہ ہو سکا، مسلم سلطنت کے زوال کے بعد اس کے مسلم اکثریتی صوبہ ہونے میں کرامت علی جونپوری اور ان کے خلفاء کی کوششوں کا بڑ ادخل ہے۔[20] الحاج محمد اجمل خاں اپنی کتاب "سوانح حیات خواجہ معین الدین چشتی" میں لکھتے ہیں:

اور زوال سلطنت اسلامیہ کے باوجود بلکہ اس کے بعد کثرت سے مسلمان ہونا شروع ہوئے کہ مشرقی بنگال پورا پورا مسلمان ہو چکا ہے، یہ کوشش صرف جونپور کے ایک بزرگ کی تھی جنہوں نے تھوڑے ہی دنوں میں ایک کروڑ سے زیادہ غیر مسلموں کو مسلمان بنا دیا۔ آپ کا نام مولانا کرامت علی صاحب جونپوری تھا۔[21]

سید ابو الحسن علی ندوی نے نواب بہادر یار جنگ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ

میری معلومات یہ ہیں کہ جن لوگوں کو مولانا کرامت علی صاحب جونپوری کے ذریعہ مشرقی بنگال میں ہدایت نصیب ہوئی یا ان کی اصلاح ہوئی ان کی تعداد دو کروڑ تک پہنچتی ہے۔[22][23]

خلفا[ترمیم]

ان کے خلفاء کی تعداد کئی سو سے متجاوز ہیں، جن میں سے 69 کے اسماء عبد الباطن جونپوری نے اپنی کتاب میں لکھے ہیں۔[24] ان کا سلسلہ ابھی بھی مشرقی اتر پردیش اور بنگال میں جاری ہے۔

وفات[ترمیم]

ان کا انتقال حالت سفر میں شہر رنگ پور(برطانوی ہند، حال واقع بنگلہ دیش) میں3 ربیع الثانی 1290ھ مطابق 31 مئی 1873ء میں ہوا اور وہیں تدفین عمل میں آئی۔[25][26][27]

اولاد[ترمیم]

ان کو 6 لڑکے اور 8 لڑکیاں تھیں، ان کے دو صاحبزادے زیادہ مشہور ہوئے:

  1. مولانا حافظ احمد (وفات – 1316ھ) : کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ علم و فضل، زہد و تقوی اور تبلیغ و دعوت میں اپنے والد کے نقش ثانی تھے اور ان اوصاف کی وجہ سے عوام میں حد درجہ مقبول تھے۔ ان کے عقیدت مندوں میں مسلمان، ہندو اور مسیحی سب ہی شامل تھے۔ ان کا انتقال ڈھاکہ میں ہوا اور وہیں چوک والی مسجد میں ان کا مزار ہے۔
  2. مولانا حافظ عبد الاول (وفات – 1349ھ): مشہور داعی ومبلغ اور عالم و مصنف ہیں، کلکتہ میں وفات پائی اور ان کا مزار مانک تلہ میں ہے۔[28]

تصنیفات[ترمیم]

کرامت علی جونپوری ایک کثیر التصانیف عالم دین تھے، ان کو جیسے جیسے ضرورت محسوس ہوئی، اس کے مطابق انھوں نے کوئی کتاب تصنیف کر دی، عام طور سے کسی علاقہ میں جب کوئی مسئلہ در پیش ہوتا تو اس سلسلہ میں موضوع سے متعلق رسالہ لکھ دیتے تھے۔ ان کی سب سے مقبول کتاب مفتاح الجنۃ ہے جس کے سیکڑوں ایڈیشن شائع ہوئے، اس کتاب میں فقہ کے مسائل بہت سہل انداز میں لکھے گئے ہیں۔ ان کی اکثر کتابیں فقہ اور تصوف کے موضوع پر ہیں۔ رحمان علی نے تذکرہ علمائے ہند میں ان کی 49 تصنیفات کا ذکر کیا ہے، [29] جبکہ عبد الباطن جونپوری نے ان کی 42 تصنیفات کا ذکر کیا ہے۔[30]

ان کی اہم تصنیفات یہ ہیں:

  • مفتاح الجنۃ
  • زینت المصلی
  • زینت القاری
  • شرح ہندی جزری
  • کوکب دری
  • ترجمہ شمائل ترمذی
  • ترجمہ مشکوۃ شریف
  • عقائد حقہ
  • تزکیۃ العقائد
  • قول الثابت
  • مقامع المبتدعین
  • حق الیقین
  • بیعت و توبہ
  • قول الامین
  • مراد المریدین
  • اطمینان القلوب
  • مکاشفات رحمت
  • فیض عام
  • حجت قاطعہ
  • نور الہدی
  • کتاب استقامت
  • نور علی نور
  • زاد التقوی
  • راحت روح
  • قوت الایمان
  • رفیق السالکین
  • تنویر القلوب
  • تزکیۃ النسواں
  • نسیم الحرمین
  • براہین قطعیہ
  • مولود خیر البریہ ﷺ
  • کرامت الحرمین
  • قرۃ العیون
  • دعوات مسنونہ
  • ذخیرۂ کرامت – ان کے 19 رسائل کا مجموعہ، جو تین جلدوں میں شائع ہوا ہے۔ پہلے حصے میں آٹھ (مکاشفات رحمت، فیض عام، تزکیۃ العقائد، حجت قاطعہ، نور الہدی، کتاب استقامت، زینۃ المصلی، عقائد حقہ)، دوسرے میں چھ رسالے (قول الثابت، دعوات مسنونہ، مقامع المبتدعین، حق الیقین، بیعت توبہ، قول الامین) اور تیسرے میں پانچ رسالے (مراد المریدین، ملخص، قول الحق، مرآۃ الحق اور اطمینان القلوب) ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. عبد الباطن جونپوری: سیرت مولانا کرامت علی جونپوری، صفحہ 4۔
  2. کرامت علی جونپوری: مفتاح الجنۃ ، اشاعت اعظم گڑھ، صفحہ 60۔
  3. مجیب اللہ ندوی: تذکرہ حضرت مولانا کرامت علی جونپوری، سید احمد شہید اکیڈمی، رائے بریلی، 2009ء، صفحہ 19۔
  4. عبد الباطن جونپوری: سیرت مولانا کرامت علی جونپوری، صفحہ 13۔
  5. مجیب اللہ ندوی، تذکرہ مولانا کرامت علی جونپوری، صفحہ 20۔
  6. ایضا، صفحہ 16۔
  7. ایضا، صفحہ 18-19۔
  8. یہ خلافت نامہ ابھی تک ان کے خاندان میں محفوظ ہے۔ مجیب اللہ ندوی کی کتاب"تذکرہ مولانا کرامت علی جونپوری" کے آخر میں یہ خلافت نامہ درج ہے۔
  9. ابو الحسن علی ندوی: کاروان ایمان و عزیمت، سید احمد شہید اکادیمی، لاہور، 1980ء، صفحہ 113۔
  10. ابو الحسن علی ندوی: کاروان ایمان و عزیمت، سید احمد شہید اکادیمی، لاہور، 1980ء، صفحہ 113-114۔
  11. عبد الباطن جونپوری: سیرت مولانا کرامت علی جونپوری، صفحہ28-32 و 35۔
  12. ^ ا ب مجیب اللہ ندوی: تذکرہ حضرت مولانا کرامت علی جونپوری، سید احمد شہید اکیڈمی، رائے بریلی، 2009ء، صفحہ34-35۔
  13. عبد الباطن جونپوری: سیرت مولانا کرامت علی جونپوری، صفحہ38-40
  14. ابو الحسن علی ندوی: کاروان ایمان و عزیمت، سید احمد شہید اکادیمی، لاہور، 1980ء، صفحہ 114۔
  15. عبد الباطن جونپوری: سیرت مولانا کرامت علی جونپوری، صفحہ41-43
  16. ابو الحسن علی ندوی: کاروان ایمان و عزیمت، سید احمد شہید اکادیمی، لاہور، 1980ء، صفحہ 115-117
  17. عبد الباطن جونپوری: سیرت مولانا کرامت علی جونپوری، صفحہ46-48۔
  18. ^ ا ب ابو الحسن علی ندوی: کاروان ایمان و عزیمت، سید احمد شہید اکادیمی، لاہور، 1980ء، صفحہ 117۔
  19. مجیب اللہ ندوی: تذکرہ حضرت مولانا کرامت علی جونپوری، سید احمد شہید اکیڈمی، رائے بریلی، 2009ء، صفحہ39-40۔
  20. مجیب اللہ ندوی: تذکرہ حضرت مولانا کرامت علی جونپوری، سید احمد شہید اکیڈمی، رائے بریلی، 2009ء، صفحہ34-46۔
  21. محمد اجمل خان: سوانح حیات خواجہ معین الدین چشتی، صفحہ 84 بحوالہ مجیب اللہ ندوی: تذکرہ حضرت مولانا کرامت علی جونپوری، سید احمد شہید اکیڈمی، رائے بریلی، 2009ء، صفحہ37۔
  22. ابو الحسن علی ندوی: کاروان زندگی، جلد سوم، مکتبہ اسلام، لکھنؤ، 1988ء ، صفحہ 54۔
  23. ابو الحسن علی ندوی: تحقیق و انصاف کی عدالت میں ایک مظلوم مصلح کا مقدمہ، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، لکھنؤ، 1979ء، صفحہ 62 (حاشیہ)
  24. دیکھیے: عبد الباطن جونپوری: سیرت مولانا کرامت علی جونپوری، صفحہ 150-155۔
  25. مجیب اللہ ندوی: تذکرہ حضرت مولانا کرامت علی جونپوری، سید احمد شہید اکیڈمی، رائے بریلی، 2009ء، صفحہ28۔
  26. رحمان علی : تذکرہ علمائے ہند، مرتبہ و مترجمہ ڈاکٹر محمد ایوب قادری، پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی، کراچی، 2003ء، صفحہ 141۔
  27. محمد اسحاق بھٹی: فقہائے ہند، جلد ششم، کتاب سرائے، لاہور، 2013ء، صفحہ 510۔
  28. مجیب اللہ ندوی: تذکرہ حضرت مولانا کرامت علی جونپوری، سید احمد شہید اکیڈمی، رائے بریلی، 2009ء، صفحہ 55-56
  29. رحمان علی : تذکرہ علمائے ہند، مرتبہ و مترجمہ ڈاکٹر محمد ایوب قادری، پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی، کراچی، 2003ء، صفحہ 142۔
  30. دیکھیے: عبد الباطن جونپوری: سیرت مولانا کرامت علی جونپوری، صفحہ 146-149۔

بیرونی روابط[ترمیم]