کعب بن زہیر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
کعب بن زہیر
(عربی میں: كعب بن زهير ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش 7ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جزیرہ نما عرب  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 662ء (-39–-38 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جزیرہ نما عرب  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد زہیر بن ابی سلمى  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر[1]،  مصنف[2]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

کعب بن زہیر اسلام کے ابتدائی دور کے شاعر جنہیں بطور انعام چادر عطا کی گئی۔

نام ونسب[ترمیم]

کعب نام، باپ کا نام زہیر تھا، نسب نامہ یہ ہے، کعب بن زہیر بن ابی سلمیٰ بن ریاح ابن قرط بن الحارث بن مازن بن خلاوة بن ثعلبہ بن ثور بن لاطم بن عثمان بن مزينہ المزنی۔[3]

شاعری[ترمیم]

کعب دو بھائی تھے، کعب اور بحیر ان کے باپ زہیر جاہلیت کے مشاہیر شعراء میں تھے، اس لیے شاعری ان دونوں کو وراثت ملی تھی۔ان کا شمار مخضرم شعرا میں ہوتا ہے۔

مدینہ روانگی[ترمیم]

ظہور اسلام کے بعد آنحضرتﷺ کا شہرہ سن کر دونوں کو آپ سے ملنے اورآپ کی باتیں سننے کی خواہش ہوئی؛چنانچہ دونوں بھائی ملنے کے لیے چلے، مقام ابرق الغراف پہنچ کر بحیر نے کعب سے کہا تم بکریاں لیے ہوئے یہیں ٹھہرے رہو، میں اس شخص کے پاس جاکر سنوں کیا کہتا ہے؟

چنانچہ کعب کو چھوڑ کر خود آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے اسلام پیش کیا ،دل میں عناد و سرکشی کا مادہ نہ تھا، اسی وقت مشرف باسلام ہو گئے، کعب کو ان کے اسلام کی خبر ہوئی تو انھوں نے جوشِ انتقام میں آنحضرتﷺ اورحضرت ابوبکرکی شان میں گستاخانہ اشعار کہہ ڈالے،آنحضرتﷺ نے یہ اشعار سنے تو آپ کو بڑی تکلیف پہنچی اورآپ نے اعلان کر دیا کہ کعب جہاں ملے اس کا کام تمام کر دیا جائے۔ بحیر اس اعلان سے بہت گھبرائے اورکعب کو لکھ بھیجا کہ رسول اللہ ﷺ نے تمھارا خون ہدر کر دیا ہے،اب تمھارے بچنے کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ تم اسلام قبول کرلو، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جو شخص بھی آکر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہدیتا ہے آپ اس کی توبہ قبول کرلیتے ہیں، اس لیے میرا خط پاتے ہی تم بلاتاخیر مشرف بہ اسلام ہوجاؤ۔

قبول اسلام[ترمیم]

کعب کو بھی اس کے سوا بچنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی، اس لیے وہ خط پاتے ہی سیدھے مدینہ پہنچے اورمسجدنبوی میں داخل ہوئے، اس وقت رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کے حلقہ میں تشریف فرما ان سے گفتگو فرما رہے تھے کعب نے آپ کو دیکھا نہ تھا، قیاس وقرینہ سے پہچان کر آپ کے پاس آکر بیٹھ گئے اوراشہدان لا الہ الا اللہ وانک رسول اللہ کہہ کر امان کے طالب ہوئے،آپ نے پوچھا تم کون ہو،عرض کیا کعب بن زہیر،فرمایا تم ہی نے وہ اشعار کہے تھے،پھر حضرت ابوبکرسے استفسار فرمایا،ابوبکر وہ کون اشعار ہیں،حضرت ابوبکرنے سنایا: سَقَاكَ أبو بكرٍ بِكَأَسِ رَويِةٍ
وَأَنَهلكَ المَأَمورُ مَنْهَا وعَلَكَا
تم کو ابوبکرنے ایک لبریز پیالہ پلایا اوراس میں سب سے زیادہ لبریز پیالہ سے بار بار سیراب کیا کعب نے کہا یا رسول اللہ میں نے اس طرح نہیں کہا تھا،فرمایا پھر کس طرح انھوں نے "مامور" کے لفظ کو "مامون" کے لفظ سے بدل کر سنادیا،رحمتِ عالمﷺ کے دربار میں اس قدر اظہار ندامت کافی تھا، آپ نے کعب کی گذشتہ خطاؤں سے درگزر فرمایا اور ارشاد ہوا ،تم مامون ہو،پھر کعب نے اپنا مشہور و معروف قصیدہ بانت سعاد سنایا،جو اسی وقت کے لیے کہہ کر لائے تھے۔

اس حسنِ تلافی سے کعب نے رضائے نبویﷺ اورشہرتِ دوام کا خلعت حاصل کیا، آنحضرتﷺ نے خوش ہوکر ردائے مبارک عطا فرمائی،امیر معاویہ نے اپنے زمانہ میں یہ چادر کعب کی اولاد سے بیش قرار رقم پر خریدی ،اسی چادر کو خلفاء عید میں اوڑھ کر نکلتے تھے۔[4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. PoetsGate poet ID: https://poetsgate.com/poet.php?pt=42 — اخذ شدہ بتاریخ: 5 اپریل 2022 — عنوان : بوَّابة الشُعراء
  2. مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.bartleby.com/lit-hub/library — عنوان : Library of the World's Best Literature
  3. الإصابہ في تمييز الصحابہ،مؤلف: أبو الفضل أحمد بن حجر العسقلانی،ناشر: دار الكتب العلمیہ بيروت
  4. السيرۃ النبویہ ابن ہشام مؤلف: عبد الملك بن ہشام،ناشر: شركۃ مكتبۃومطبعۃ مصطفى البابی مصر