کنشک

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
کنشک اول راجپوت
کشان سلطنت کا بادشاہ
کنشک کا Gold coin، برٹش میوزیم میں
کشان سلطنت: 78 عیسوی
پیشروVima Kadphises
جانشینHuvishka
مکمل نام
کنشک (اول)
وفات151ء
مذہببدھ مت

کنشک کڈفائسس دوم کے بعد 78ء اس خاندان کا سب سے نامور حکمران کنشک، کشن یا کشان سلطنت کا بادشاہ ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کنشک کا یوچی قوم کے کشان سے تعلق تھا اور بلاشبہ کشان یا کشن ہیں۔ اس طرح دونوں کڈ فائسس سے کا اس سے تعلق تھا۔ اس کے باپ کا نام وجہشک یا وجہشت بتایا جاتا ہے۔ کڈ فائسس دوم اور کنشک کے سکے جو اکثر ایک جگہ پائے گئے ہیں اور ایک ہی قسم کے نشانات ہیں اور الٹی طرف اور بہت سی مشابہتوں کے علاوہ وزن اور دھات کے خالص ہونے میں بالکل یکساں ہیں۔ ان باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دونوں بادشاہ ایک دوسرے سے بہت قریب یا ایک دوسرے کے جانشین تھے۔ یہ بات یقینی ہے کہ کڈفائسس دوم کڈفائسس اول کا جانشین بلکہ بیٹا بھی تھا۔ کڈفائسس دوم ایک طویل عرصہ حکومت کرنے کے بعد اسی برس کی عمر میں فوت ہوا۔ اس لیے اگر کنشک کا تعلق کڈ فائسس دوم تھا تو یقیناً اس کا جانشین ہوگا۔ اس کے زمانے کی روایتں اور آثار اور کتبات سے ثابت ہوتا ہے اس کی سلطنت تمام شمالی مغربی برصغیر پر ایک طرف جنوب میں سلسلہ کوہستان بندھیا چل تک اور دوسری طرف پامیر کی سطح مرتفع کے دور افتاوہ دروں تک پھیل گئی تھی۔ ہیونگ سانگ نے اپنی سیاحت کے دوران کپس میں اس نے اس تاریخ یا روایات کو جو اس نے سنی تھیں قلمبند کیا ہے۔ اس کے مطابق جب کنشک گندھارا میں حکمران تھا تو اس کی طاقت گرد و نواح کی ریاستوں میں پھیلی ہوئی تھی اور اس کا اثر دور افتادہ علاقوں علاقوں پر چھایا تھا، وہ ایک وسیع علاقے پر جو تسنگ لنگ کے پہاڑوں کے مشرق تک پھیلا ہوا تھا جہاں وہ حکومت کرتا تھا۔ یعنی وہ جنوبی علاقہ جو مشرق کی طرف پامیر کی حد ہے اور اس کو تاریم کے علاقہ سے جدا کرتا ہے۔ برصغیر میں اس کے سکے کڈفائسس کی معیت میں کابل سے لے کر غازی پور کے شہر تک برابر پائے جاتے ہیں اور ساتھ ہی تعداد میں کثرت اور اختلافات کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے اس کا عہد حکومت خاصہ طویل تھا۔ سندھ کا بالائی علاقہ اس کی سلطنت میں شامل تھا۔ مگر فاتح کی حثیت سے جو شہرت اس کو حاصل ہوئی ہے اس سے اغلب ہے اس کی فتوحات کا سلسلہ دریائے سندھ کے دھانوں تک بڑھا ہوا تھا اور اگر اس کے وقت میں وہ لوگ موجود تھے تو انھوں نے پارتھیوں کا بالکل صفایا کر دیا تھا، جو اس علاقہ میں پہلی صدی سے حکومت کر رہے تھے، مگر اس کے بعد ان کا نام سنے میں نہیں آتا ہے۔

روم سے تعلقات[ترمیم]

وہ ہندی سفارت جس نے 99ء میں روم کے شہنشاہ ٹراجن Tarajen کے روم سے آنے کے بعد اس کی خدمت میں غالباً اس کو کنشک نے اپنی فتوحات کو مشتہر کرنے کے روانہ کیا ہوگا۔ ٹراجن کے 116ء میں دریائے دجلہ و فرات کے درمیان کے علاقہ الجریرہ پر عارضی قبضہ کرنے سے روما لکبریٰ کی سرحد اور یوچی مملکت کے درمیان صرف 600 میل کا فاصلہ رہے گیا تھا اور اگرچہ دریائے فرات کے مشرقی صوبے کو اس کی فتح کے دوسرے سال ہی ہڈرین نے واگزشت کر دیا تھا۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس زمانے میں شمالی اور مغربی برصغیر کے اس راجا اور اس مغربی سلطنت کی عظمت اور شہرت سے بخوبی واقف تھے۔

کشمیر کی فتح[ترمیم]

یہ غالباً کنشک کا کام ہی تھا کہ اس نے کشمیر کی دور افتادہ وادی کو زیر نگین اور سلطنت کے ساتھ ملحق کیا۔ یہ یقینی ہے کہ اس نے اس خوشگوار علاقے کو اپنے اور تمام مقبوضات میں ہمیشہ مرجح سمجھا اور یہاں اس نے بہت سی عمارتیں تعمیر کرائیں اور ایک شہر بھی بسایا جو اب محض ایک ہی گاؤں رہ گیا ہے، مگر کنشک کا نام اب بھی باقی ہے۔ اس نے کشمیر بھی فتح کیا اور عمارتوں کے علاوہ کنشک پورہ شہر تعمیر کرایا۔

پاٹلی پتر[ترمیم]

روایت کے مطابق بیان کیا جاتا ہے کہ کنشک اندرون ملک بہت دور تک چلا گیا تھا اور اس نے اس راجا پر حملہ کیا تھا جو اس وقت پاٹلی پتر پر حکمران تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس شہر سے اس نے ایک بزرگ اشواگہوش Asvaghochکو ہمراہ لایا تھا۔

دارلسلطنت[ترمیم]

کنشک کا پایہ تخت پرش پور Purshapura موجودہ پشاور تھا۔ جب کنشک بدھ مت کا پر جوش حامی اور پیرو ہو گیا تو یہاں اس نے ایک بڑا مینار جو تیرہ منزلہ تھا، جو بلندی میں 004 فٹ بند تھا جس پر لوہے کا ایک زبردست کلس تھا۔ جب چینی یاتری ہیون سانگ چھٹی صدی میں یہاں آیا تو یہ مینار تین دفعہ جل کر خاکستر ہو چکا تھا اور ہر دفعہ کوئی نہ کوئی زاہد و عابد راجا پھر اس کو قائم کردیتا تھا اور ایک شاندار خانقاہ تعمیر کروائی تھی جو نویں صدی تک بدھ مت کے علوم کے مرکز کی حثیت سے مشہور تھی۔ آخر زمانے میں مشہور بدھ عالم دیر دیو بھی یہاں آیا تھا۔ اس مشہور عمارت کی آخری بربادی محمود غزنوی اور اس کے جانشینوں کے حلوں سے ہوئی۔

پارتھیوں سے جنگ[ترمیم]

کنشک کی اولولعزمی برصغیر کی سرحد تک نہ محدود نہ تھی۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے پارتھیوں کے مقابلے میں ایک کامیاب جنگ کی تھی۔ یہ پارتھی بادشاہ ممکن ہے کہ خسرو یا اس کے رقیب شہزادوں میں سے کوئی ہو۔ کنشک کی سب سے تعجب خیز اور حیرت انگیز فوجی مہم کاشغر، یار قند اور ختن کی فتح تھی۔ یہ چینی ترکستان کے نہایت وسیع صوبے ہیں جو تبت کے شمال اور پامیر کے مشرق میں واقع ہیں۔ جب چینی جنرل پن چو کا انتقال ہو گیا تو اور اس نے ہندوستان کے مقبوصات کو مستحکم کر لیا تو اس نے ایک زبر دست فوج کو پامیر کے دشوار گزار پہاڑوں کے پار روانہ کیا۔ یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جو برصغیر کا کوئی بھی حکمران انجام دینے کی ہمت نہیں کرسکا۔ کنشک اس مہم میں کامیاب ہو اور اس نے نہ صرف خراج کی ادائیگی سے گلو خلاصی کرلی بلکہ ایک ایسی ریاست سے یرغمال حاصل کیے جو چین کی سلطنت کی باج گزار تھی۔

ان یرغمالیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا جو ان کے شایان کی شان کے مطابق تھا۔ ان کی بہت کچھ خاطر مدارت کی گئی اور تینوں موسموں میں ان کے لائق مختلف بدھ خانقاہوں میں ان کو رہنے کی جگہ دی گئی۔ گرمی کے موسم میں جب کہ برصغیر کے میدان ذوزخ کا نمونہ ہوتے تو وہ ہنیان کی ایک خانقاء شالوکا میں ٹھنڈی ہوائیں کھاتے۔ یہ کپس یعنی کابل کے اس طرف موجودہ کافرستان میں واقع تھا اور خاص کر ان کے لیے تعمیر کی گئی تھی۔ موسم بہار و خزاں کے دوران میں جس میں برسات کا موسم بھی شامل تھا، یہ لوگ گندھارا خاص دارلسطنت میں زندگی بسر کرتے تھے۔ موسم سرما میں ان کا قیام مشرقی پنجاب کے کسی نامعلوم مقام پر ہوتا تھا۔ جس کا نام اس کی نسبت سے چینی بھگتی پڑھ گیا تھا۔ ان میں ایک نے وطن جانے سے پہلے سونے اور جوہرات کا ایک بڑا ذخیرہ کپس کی خانقاء کو بطور عطیہ دیا تھا اور وطن جانے کے بعد ہر ایک نے اس اس نیک سلوک کو یاد رکھا اور ہمیشہ وہاں سے خانقاء کے پجاریوں کے نام رقوم بیجھتے رہے۔ اس خزانے کو خانقا میں بدھ کے قدموں کے قریب دفن کرا دیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی راجا نے اور بعض راہبوں نے خزانہ پر قبضہ کرنے کی کوششیں کیں، مگر انھیں کامیابی نہیں ہوئی، لیکن ہونگ سانگ کی موجودگی میں اور اس کے تقدس کی بدولت مزدوروں کو اس کے کھودنے میں کامیابی ہوئی اور انھوں نے ایک برتن نکالا جو سونے اور موتیوں سے بھرا ہوا تھا اور بعد میں اس دولت کو خانقا کی مرمت کے لیے استعمال کیا گیا۔

مذہب[ترمیم]

کنشک کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ابتدا میں اس کو بری یا بھلی کسی بات کا عقیدہ نہیں تھا اور وہ اوائل زندگی می بدھ مذہب کو پوچ اور لچر سمجھتا تھا اور بدھ روایات میں کنشک کو اشوک کی طرح بدھ مت قبول کرنے سے پہلے ایک ظالم شخص بتایا گیا ہے اور بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے عقیدے میں تبدیلی اس خیال سے پیدا ہوئی کہ ہزاروں آدمیوں کا خون اس کی گردن پر ہے، مگر دوسرے ذرائع اس کی تصدیق نہیں کرتے ہیں۔ اس کے عقیدے کی تبدیلیوں کی سب سے اچھی سند اس کے کثیر التعداد اور مختلف سکوں سے ملتی ہے جو اکثر قدیم سکوں کی طرح راجا کے مذہب پر روشنی ڈالتے ہیں۔ جس نے کہ وہ سکے مضروب کرائے بلکہ ان قوموں کے مذاہب پر بھی جو اس کے زیر نگین تھیں۔ اس کے سب سے بہتر اور غالباً سب سے قدیم سکوں پر یونانی تحریر کیں عبارتیں ہیں اور ان پر سورج اور چاند کی مورتیاں بنی ہوئی ہیں، جن پر یونانی میں ہیلوس اور سیلینے کندہ ہیں۔ بعد کے سکوں پر یونانی تحریر تو باقی ہے مگر زبان یونانی نہیں فارسی ہے اور ساتھ ہی وہ دیوتا جن کی مورتیں ان پر ہیں۔ ان میں یونانی، ایرانی اور ہندی ہر قسم کے دیوتا ملتے ہیں۔ وہ نادر جن پر ساکیہ منی کی مورت اور یونانی زبان میں اس کا نام منقوش ہے، بالعموم قیاس ہے ہے اس کی حکومت کے آخری دور کے ہوں گے۔ لیکن ان کی ساخت میں کمال صناعی نمایاں ہے اور یہ ممکن ہے کہ کنشک کے مذہب کی صحیح تاریخ تعین کرنا ناممکن ہے۔ لیکن غالباً اس کی تبدیلی مذہب اس کے تخت نشین ہونے کے چند سال بعد ہوئی۔

قابل ذکر یہ بات ہے کہ کنشک کا مذہب مہایان Mahayana بدھ مت تھا۔ مہایانا میں بدھ کے ساتھ مختلف دیوتا بھی شامل ہیں۔ ان میں وہ دیوتا بھی شامل ہیں، جن کے کان ایمان رکھنے والوں کی دعا سنتے ہیں اور جن کے ماتحت بہت بدھستواؤں اور دوسرے کارکنوں کا ایک سلسلہ ہے، جو ان کے اور گنہگاروں کے درمیان ایک واسطہ ہے۔ اس فرقہ میں بتوں کی پرستش بہت سی مفصل رسوم اور بذریعہ ایمان نجات پانے والوں کا عقیدہ بھی شامل ہے۔ (ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔ 251) اصل میں اس زمانے کا نیا مذہب جو مہایان کے نام سے مشہور تھا ایک بڑی حد تک بیرونی اثرات سے متاثر تھا اور اس کے ارتقا میں ہندی، زرتشتی، مسیحی، ناسٹک اور یونانی عناصر کا عمل ہوا تھا۔ اس عمل کو سکندر کی فتوحات، ہند میں موریا سلطنت کے قیام اور سب سے بڑھ چڑھ کر شروع کے قیاصرہ کے زمانے میں رومتہ الکبریٰ کے سلطنت کے اتحاد سے بہت مدد ملی تھی۔ اس نو خاستہ مذہب میں میں گوتم بدھ اگرچہ نظری طور پر نہیں لیکن عملاً ایک دیوتا بن گیا تھا اور اس کے ماتحت بدھی ستو کی کم طاقت ور قوتیں تھیں جو گناہ گار لوگوں اور اس کے درمیان بیچ بچاؤ کا کام دیتی تھیں۔ اس قسم کا بدھ ان اقوام کے کے دیوتاؤں میں شامل ہو گیا تھا جو کنشک کی وسیع سلطنت میں اس کے زیر فرمان تھیں اور غالباً بعدکے زمانے میں ہرش کی طرح جو شیو اور بدھ دونوں کا پیرو تھا، کنشک بھی اپنے نام نہاد کے تبدیل مذہب کے بعد پرانے اور نئے دیوتا کی پرستش کرتا تھا۔ گندھارا کے مشہور و معرف سنگ تراشی کے نمونے جو پشاور اور اس کے گرد و نواہ کے علاقہ میں بکثرت پائے جاتے ہیں اور جس کے بہت اچھے نمونے کنشک اور اس کے جانشینوں کے زمانے کے ملتے ہیں۔ اس نئے اور تغیر شدہ مذہب کی صورت کو بہت اچھی طرح ظاہر کرتے ہیں۔ یہ ایک نیا مذہب تھا جس میں بہت سے دیوتا شامل تھے۔

بدھ مت کی مجلس[ترمیم]

ان روایات میں جو چینی اور تبتی تصانیف میں محفوط ہیں کہ مطابق اشوک کی طرح کنشک نے بدھوں کی ایک کونسل طلب کی، اس کونسل بلانے کا مقصد یہ تھا کہ بدھ مذہب کے اختلافات کو ختم کیاجائے اور بدھ مت کے صیح مطالب بیان کیے جائیں۔ کیوں کہ کنشک بدھ مت کے مختلف فرقوں کے اختلافات کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔ چنانچہ کنشک کشمیر میں بدھ مت کے پیشواؤں کی مجلس منعقد کی۔ اس مجلس کا صدر واسومتر Vasumitra اور نائب صدر مشہور مصنف آسو گھوش Asvaghoch تھا۔ اس مجلس میں اختلافات دور کرنے کی کوشش کی گئی نیز کنشک کے ایما پر اس مجلس نے قدیم ترین مذہبی علوم کی کتابوں سے لے کر اس دور کی حاضر کتب کی چھان بین کی گئی اور گوتم بدھ کی تعلیمات پر صخیم تفسیریں تانبے کی چادروں پر کندہ کرا کے ایک خاص اسٹوپا جو اسی عرض سے تعمیر کیا گیا تھا، اس میں محفوظ کی گئیں۔ یہ قیمتی خزانہ سری نگر کے قریب کسی ٹیلے کے نیچے دفن ہے، شاید کبھی یہ مدفون کبھی مل جائے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مجلس 100ء؁ کے قریب منقد ہوئی تھی۔

کنشک کی موت[ترمیم]

کنشک کی موت کے متعلق ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ اس کے خود آدمی اس کی جنگجویانا پالیسی سے اس قدر دل برداشتہ ہو گئے تھے کہ تنگ آ کر خود انھوں نے ہی اسے قتل کر ڈالا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کنشک نے 54 سال حکومت کی اور یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ اس زندگی کا خاتمہ 123ء؁ کے لگ بھگ ہوا۔

کنشک کے جانشین[ترمیم]

کنشک Kanshaka کے دو بیٹے واسشک Vasishka اور ہوشک Huvishka غالباََ اپنے باپ کی زندگی میں شمالی صوبوں کے گورنر تھے۔ واسشک کے نام کے سکہ نہیں ملتے ہیں، اس سے قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے باپ کی زندگی میں مرگیا تھا۔ کنشک کا جانشین اس کا دوسرا بیٹا ہوشک ہوا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ طوہل عرصہ تک حکومت کرتا رہا۔ ہوشک کے بعد واسیودیو Vasudivaکا نام ملتا ہے، جو اس کا جانشین بتایا جاتا ہے۔ چونکہ اس کا نام خالص ہندی ہے اور اس کے سکوں پر شیو Shiva کی تصویر پائی جاتی ہے، اس سے گمان کیا جاتا ہے کہ اس کا تعلق گو کشان خاندان سے ہی تھا، مگر یہ ہندمت کا پیرو تھا۔ واسیویو نے نے تقریباََ پچیس سال حکومت کی اور دوسری صدی عیسوی کے بعد یہ فوت ہوا تھا۔ واسیو دیوکی موت کے بعد کشان سلطنت چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں بٹ گئی۔ ایک طرف وادی جمنا کے ناگاؤں Nagas نے وسطہ ہند تک اپنی سلطنت کو وسعت دی، دوسری طرف ان کی ایک شاخ نوا ناگاہ Nava Nagas نے ایک بہادر کو جنم دیا، جس نے یوپی بہار کے متصل اضلاع پر اپنی حکومت قائم کی اور ایک نئے خاندان بھرسیوا Bhrsiva کی بنیاد رکھی۔ اس طرح بالائی دکن پر ایک خاندان وکٹک Vakataks نے قبضہ جمالیا، شاید واسیویوکے زمانے میں ہی سوراشٹرکے شتریوں نے خود مختیاری کا اعلان کر دیا تھا۔ اس بٹوارے کے بعد کشن خاندان کے قبضہ میں صرف افغانستان اور پاکستان کا شمالی علاقہ ہی رہے گیا تھا۔ جہاں وہ سنبھلنے کی توقع کرسکتے تھے، مگر ان کی بدنصیبی تھی عین سی وقت ایران میں ایک نیا خاندان ابھر رہا تھا، جو ساسانی کے نام سے مشہور ہوا اور اس کا نامور بادشاہ اردشیر اول اپنی حثیت کو مستحکم کرنے کے لیے اپنی سلطنت وسیع کر رہا تھا۔ کشان سلطنت کی کمزوری نے اسے یہ موقع فراہم کیا۔ چنانچہ اپنے ہمسایہ سلطنت کے انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے کشن سلطنت پر حملہ کر دیا اور کشان حکمرانوں کو ایران کی بالادستی پر مجبور کر دیا۔ اس واقع کے بعد کشان حکمران سٹراپ کی حثیت سے ان علاقوں میں حکومت کرتے رہے،یہاں تک پانچویں صدی عیسویں میں سفید ہنوں With Huns نے ان کی حکومت کا نام و نشان مٹادیا۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ کشن حکومت کے زوال کی رفتار 127ء؁ کے پلیگ نے جو بابل میں شروع ہوا تھا اور جس نے سلطنت روم اور پارتھیاکو کئی سال تک تباہ کیا تھا اور بھی تیز کردی تھی۔

حوالہ جات[ترمیم]

  • ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی
  • ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم
  • ویسنٹ اے سمتھ۔ قدیم تاریخ ہند

بیرونی روابط[ترمیم]

پیشرو:
Vima Kadphises
کشان حکمران جانشین:
Huvishka