کوٹ ڈیجی قلعہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
کوٹ ڈیجی قلعہ کا منظر جیساکہ شہر سے دیکھا گیا۔

کوٹ ڈیجی قلعہ، کوٹ ڈیجی شہر کا ایک وسیع علاقہ گھیرتا ہے جو خیرپور، پاکستان میں واقع ہے۔ یہ دریائے سندھ سے 25 میل مشرق کی جانب راجستھان صحرا کے کونے میں واقع ہے۔ اس قلعے کی تعمیر 1785 سے 1795 کے بیچ میر سہراب خان تالپرکی جانب سے کی گئی جو تالپور سلطنت کے مؤسس تھے۔ یہ 1783 میں قائم اوپری سندھ کی حکومت تھی۔ اس قلعے کے علاوہ، ایک پانچ کیلومیٹر تک پھیلی اور بارہ فیٹ وسیع مٹی کی دیوار شہر کے اطراف بنائی گئی ہے۔ اس دفاعی دیوار کا اپنا حصار اس کے پورے گھیرے علاقے پر محیط تھا اور ایک بڑی آہنی پھاٹک اس شہر کے واحد باب الداخلہ کا کام دیتا تھا۔

اس قلعے کو ناقابلِ تسخیرسمجھا جاتا تھا اور یہ امن و امان کے وقت خیرپور کے امرا کی رہائش کا کام دیتا تھا۔ جنگ کے وقت زنانہ کو شاہگڑھ قلعہ منتقل کیا جاتا تھا۔ تاہم 1843 کی سندھ کی فتح کے بعد یہ تھار صحرا کا حصہ بن گیا اور جیسلمیر صحرا اب بھارت میں ہے۔ جب زنانہ محلوں کے سکون میں داخل ہوئیں، یہ دیرینہ ماضی کے پرتشدد دور آئینہ دار بنیں۔ تاہم اپنی پوری تاریخ میں کوٹ ڈیجی پر کبھی حملہ نہیں ہوا۔

تاریخی اہمیت[ترمیم]

وقوع[ترمیم]

باب الداخلہ، رانی کوٹ قلعہ

کوٹ ڈیجی صحرا کے کونے میں واقع ہے۔ اس کی وجہ سے ان دشمنوں پر ایک سبقت حاصل تھی جو مشرق سے آ رہے تھے، کیونکہ ایک تھکی ہوئی فوج کو آسانی سے عبور کیا جا سکتا ہے، اس سے قبل کہ وہ رسد اور پانی کو زرعی زمین سے حاصل کرے۔ 1790 میں مِروہ نہر کی خصوصیت سے قلعے کے مغربی حصے میں تعمیر کی گئی تھی تاکہ مغربی جانب سے فوجی اڈوں کو پانی فراہم کیا جاسکے۔

برطانوی سلطنت کے دور میں[ترمیم]

اوپری سندھ کی بادشاہت کو برطانوی حکمرانوں نے خیرپور کی نوابی ریاست کے طور پر تسلیم تو کیا مگر اس کے اصل رقبے کو تہائی کر دیا۔ اصل علاقہ 50,000 کیلومیٹر² تھا۔

تالپور حکومتوں کا نقشہ سندھ

۔ قلعے کو مرکزی فوجی اڈے کے طور استعمال کیا جانے لگا، خاص طور پر افغان حملوں سے نمٹنے کے لیے۔ یہ تالپور کے قریب بیس قلعوں میں سب سے طاقتور تھا اور ایرانی معمار احمد کے نام پر تھا، جس نے اس کا نقشہ اتارا۔ لوک کہانیوں کے مطابق اسے تیس سال میں بنایا گیا؛ مگر حقیقتًا شاید یہ فوجیوں اور دہقانوں کی بڑی تعداد کو لگاکر ان کی مدد سے کم وقت میں بنایا گیا۔

حالیہ تاریخ[ترمیم]

جنگ کا مورچہ

1955 میں پاکستان میں انضمام کے بعد یہ قلعہ شاید خیرپور کے میر کی ذاتی جائداد ہوتا جیساکہ دیگر سابق نوابی ریاستوں کے حکمران آج بھی اپنے قلعے ملکیت میں لیے ہوئے ہیں۔ تاہم، میر علی مراد دوم نے اسی کومناسب جانا کہ اسے حکومتِ پاکستان کے سپرد کیا جائے کہ اس کی بہتر دیکھ ریکھ ہو۔ تب سے یہ قلعہ شدید ان دیکھی حالت میں پڑ گیا اور موجودہ لاورثی جیسی صورت حال سے دوچار ہے۔ دیواروں کا زیادہ تر پلاسٹر چھِل چکا ہے۔ ایوب خان کے دور میں 192 توپیں اور گولہ بارود یا تو چرالیا گیا تھا یا فصیل سے پھینک کر تباہ کیا گیا تھا۔ کئی ملکی توپوں کے علاوہ یہاں وہ توپیں بھی تھیں جو نادر شاہ، قاجار خاندان، کلہوڑا خاندان، مغلیہ سلطنت، صفوی سلطنت کا حصہ رہیں۔ کئی متروک الاستعمال یورپی توپیں بھی تھیں۔ مگر اس کے باوجود ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ اس قلعے کو پیر میاں آخوند خیر محمد پنہار نے کسی زور یا فوج کی مدد سے نہیں بلکہ وہ بزرگ تھے اور انھوں نے اپنے نیک اعمال سے کوٹ ڈیجی کے قیدیوں کو نجات دلائی تھی۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

خارجی روابط[ترمیم]