ہلال نقوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ہلال نقوی
پیدائش18 فروری 1950(1950-02-18)ء
راولپنڈی، پاکستان
قلمی نامہلال نقوی
پیشہتدریس، تحقیق، شاعر
زباناردو
شہریتپاکستان کا پرچمپاکستانی
مادر علمیجامعہ کراچی
اصنافمرثیہ گوئی، تحقیق
نمایاں کام
مقتل و مشعل

بیسویں صدی اور جدید مرثیہ ( مقالہ )

جوش ملیح آبادی کی نادر و غیر مطبوعہ تحریریں

مسدس فریاد و جوابِ فریاد ( جمیل مظہری )

نسیم امروہوی کے مرثیے

ڈاکٹر یاور عباس کے مرثیے

ڈاکٹر ہلال نقوی کا شمار اگرچہ نظم گو شعرا میں ہوتا ہے تاہم وہ پاکستان کے جدیدمرثیہ نگاروں اور رثائی ادب کے محقیقن میں ایک بہت معتبر حوالہ مانے جاتے ہیں ۔

حالات زندگی[ترمیم]

نسب نامہ: سید ہلال رضا نقوی ابن سید مزمل حسین ابن سید مہدی حسن ابن سید محمد کاظم ابن سید مہر علی ابن سید روشن علی ابن سید غلام حسن عرف رمضانی ابن سید محمد مراد ابن سید آعظم ابن سید فتح مراد ابن سید محمد صادق ابن قاضی سید علی‌ اکبر ابن قاضی سید بہا الدین سالار ابن قاضی سید حسین ثانی ابن قاضی سید خادم عرف ظھیر ابن قاضی سید ظہور الدین عرف اشرف ابن قاضی سید حسین عرف منیر ابن قاضی سید محمود سالار عرف بدھہ ابن قاضی سید امیر علی ابن سید شرف الدین شاہ ولایت ابن سید علی بزرگ ابن سید مرتضیٰ ابن سید ابو المعلی ‌ابن سید حسن ابو الفضل ابن سید داؤد ابن سید حسین ابن سید علی‌ ابن‌سید ہارون ابن سید جعفر زکی ابن امام‌‌ علی نقی علیہ السّلام


سید ہلال رضا نقوی المعروف ہلال نقوی 18 فروری 1950 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سید مزمل حسین نقوی تھا۔ سات سال کی عمر میں کراچی آ گئے۔ اور یہیں تعلیمی منازل کراچی میں طے کیں۔ کراچی میں ہی راجا صاحب محمود آباد کے قائم کردہ کالج سراج الدولہ کالج سے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ اور پھر جامعہ کراچی سے 1973 میں ایم اے اردو کیا۔ ڈاکٹر ہلال نقوی نے 1985 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔[1]انکا پی ایچ ڈی مقالہ بیسویں صدی اور جدید مرثیہ کے عنوان سے تھا ۔[2]

ڈاکٹر ہلال نقوی نے 1974 سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور ان کی تعیناتی جن مختلف کالجز میں بطور استاد شعبہ اردو کے رہی۔ ان میں گورنمنٹ کالج گھوٹکی سندھ، گورنمنٹ سراج الدولہ کالج کراچی، گورنمنٹ اسلامیہ کالج کراچی اور گورنمنٹ کالج گلشن اقبال کراچی شامل ہیں۔ وہ گورنمنٹ ڈگری کالج، گلشن اقبال ،کراچی میں شعبہ اردو کے سربراہ بھی رہے ہیں اورجامعہ کراچی کے مطالعہ پاکستان کے شعبہ میں وزٹنگ پروفیسر کی خدمات پرمامور ہیں۔ نیز اردو میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کی رہنمائ اور نگرانی بھی فرماتے ہیں۔ آج کل کراچی میں ہی مقیم ہیں۔ ڈاکٹر ہلال نقوی رثائ ادب اور دیگر ادبی موضوعات پر لیکچرز کے لیے اور بالخصوص مرثیہ پیش کرنے کے لیے ناروے اوسلو، کنیڈا، عرب امارات، انڈیا اور دیگر کؑئ ممالک بھی با رہا مدعو کیے جا چکے ہیں ۔[3]

آغازِ شاعری[ترمیم]

شاعری کا آغاز 1967 میں غزل گوئی سے ہوا۔ اس کے بعد نظم کی طرف توجہ رہی۔ البتہ وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں۔ زیادہ شہرت ان کو نئی طرز کے مرثیوں کے سبب ملی، جن میں انھوں نے مسدس کے تیسرے مصرعے کو غیر مقید کر دیا۔ اور اس کا بہت چرچا رہا۔ ڈاکٹر ہلال نقوی جدید مرثیہ نگاری کے بہت معتبر شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ جوش ملیح آبادی کے مرثیے سن کر مرثیہ گوئی کی جانب آئے اور 1970 میں پہلا مرثیہ کہا۔ جب وہ بی اے کے طالبِ علم تھے۔ اور جوش ملیح آبادی سے اصلاح لی۔ جوش صاحب نے اپنے ایک خط میں ان کو اپنا شاگردِ اولین لکھا ہے۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر ہلال نقوی نے مرثیہ میں جناب نسیم امروہوی کی بھی شاگردی اختیار کی۔ مرثیئے کے علاوہ انھوں نے غزل، نظم، رباعیات اور آزاد نظموں پر بھی طبع آزمائی کی[4]ڈاکٹر ہلال نقوی جوش کی تمام قلمی نگارشات بشمول فنِ مرثیہ کے بہترین ناقدین میں سے ہیں اور وہ اس موضوع پر اب تک چھ کتب لکھ چکے ہیں

نمونہِ کلام[ترمیم]

مرثیہ کا بند

اٹھا نہیں ہے غیر شعوری میرا قلم میدانِ مرثیہ میں رکھا سوچ کر قدم
ہر موڑ پر خیال یہی ہے کہ بیش و کم رکھنا ہے حسنِ فکر سے تعمیر کا بھرم
شاید سخن وری کو اک آھنگ دے سکوں
ممکن ہے مرثیئے کو نیا رنگ دے سکوں

مرثیہ کا بند

جس ہاتھ میں قلم ہے ، حشم اسکے ہاتھ ہے جو ہاتھ خود قلم ہے ، علم اسکے ہاتھ ہے
ہر عہدِ تشنگی کا تمدن لکھے جو ہاتھ آثار و ارتقا کا بھرم اسکے ہاتھ ہے
برہم کرے صفوں کو جو ترتیب کے لیے
وہ ہاتھ اک سبیل ہے تہذیب کے لیے

تصانیف[ترمیم]

  1. چشمِ نم 1970
  2. گلدستہِ اطہر پر ایک نظر 1977
  3. جدید مرثیئے کے تین معمار 1977
  4. امانتِ غم ( باقر امانت خانی کے مرثیے ) 1982
  5. مقتل و مشعل (1976 )
  6. پسِ تاریخ ( ڈاکٹر ہلال کا مرثیہ ) 1982
  7. جمیل مظہری کے مرثیئے 1988
  8. عرفانیاتِ جوش ( 1991 / 2011)
  9. مثنوی آب و سراب (جمیل مظہری ) 1988
  10. ارمغانِ نسیم (مقالات ) 1992
  11. جوش ملیح آبادی کی نادر و غیر مطبوعہ تحریریں (1992)
  12. مسدس فریاد و جوابِ فریاد ( جمیل مظہری ) 1993
  13. اذانِ مقتل ( ڈاکٹر ہلال کے مرثیے ) 1993
  14. بیسویں صدی اور جدید مرثیہ ( مقالہ ) 1994
  15. جوش ملیح آبادی، شخصیت و فن (2007)
  16. جوش کے انقلابی مرثیئے (2010)
  17. اوراقِ جوش ( 2010)
  18. مرثیئے کی نایاب آوازیں (2011)
  19. جدید بیاضِ مرثیہ (2012)
  20. نسیم امروہوی کے مرثیے (2012)
  21. ڈاکٹر یاور عباس کے مرثیے (2012)
  22. جوش ملیح آبادی [5]
  23. یادوں کی برات کا قلمی نسخہ
  24. صابر تھاریانی کے گجراتی قطعات
  25. انتقادیاتِ جوش ( 2017 )
  26. کلیات جوش (2020)

ان تصانیف کے علاوہ ڈاکٹر ہلال نقوی نے اردو ادب میں مرثیہ کے حوالے سے پہلا معتبر ادبی رسالہ '''رثائی ادب '''کے نام سے ایک جاری کیا۔ اب تک اس کے چھتیس شمارے شائع ہو چکے ہیں۔ اور ان میں بارہ بارہ سو صفحات کے انیس و دبیر نمبر بھی مرتب کیے گئے ہیں ۔

نیز اردو شاعروں میں اب تک غالب اور اقبال کے نام سے ہی باقاعدہ رسالے جاری ہوئے تھے۔ ڈاکٹر ہلال نقوی نے جوش شناسی کے عنوان سے باقاعدہ رسالہ جاری کیا ہے۔ جو صرف جوش ملیح آبادی کی تحریروں اور ان سے متعلق تحقیقات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اب تک اس کے سات شمارے آ چکے ہیں۔ جوش ملیح آبادی کے ناقدین اس بات کے معترف ہیں کہ جوش سے متعلق ڈاکٹر ہلال نقوی کی مسلسل تحقیق و تحریر کے باعث ان کا نام برصغیر میں جوش ملیح آبادی پر تحقیق کے حوالے سے اٹھارتی کا درجہ رکھتا ہے ۔

تنقید و آرا[ترمیم]

ڈاکٹر ہلال نقوی کے پہلے مرثیہ مقتل و مشعل کی بھی علمی، ہنری اور آفاقی قوت کا اندازہ ڈاکٹر احسن فاروقی کے ان الفاظ سے ہوتا ہے ۔

انھوں نے نہ صرف اس مسدس کو ' جدید نظم میں ایک اہم اضافہ قرار دیا ہے بلکہ وہ کہتے ہیں۔اس مسدس میں مسدسِ حالی کی طرح عصر، جدید پر تنقید کی گئی ہے۔

جو حالی کی سمجھ سے بہت دور ہے۔اور جن کی مثال اقبال کے ایسے مسدس میں ملتی ہے جیسے شکوہ و جوابِ شکوہ ۔

جوش ملیح آبادی نے ڈاکٹر ہلال نقوی کے مرثیہ میں انقلابی اور آفاقی پیغام کے ابلاغ کو ان الفاظ میں سراہا ہے ۔[6]

میں اس صنفِ سخن یعنی مرثیئے کے میدان میں ان کی روایت شکنی کی داد دیتا ہوں۔انھوں نے لوگوں کو رلایا نہیں بلکہ جگایا ہے ۔

حسین (ع) ان کے ہاں ایک مخصوص فرقے یا گروہ کے رہبر نہیں بلکہ پوری کائنات کے رہنما ہیں ۔

حوالہ جات[ترمیم]