شمشاد بیگم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شمشاد بیگم
 

معلومات شخصیت
پیدائش 14 اپریل 1919ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 23 اپریل 2013ء (94 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ممبئی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ گلو کارہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
IMDB پر صفحہ  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

شمشاد بیگم (ولادت: 14 اپریل 1919ء - وفات: 23 اپریل 2013ء) [2][3] ایک ہندوستانی گلوکارہ تھیں جو ہندی فلم انڈسٹری کے پہلے پس پردہ گلوکاروں میں سے ایک تھیں۔ شمشاد بیگم ہندوستانی فلموں میں پس پردہ گلوکاروں کی صف اول کی کلاسیکل گلوکارہ تھیں اور وہ اپنی منفرد آواز کے لیے جانی جاتی تھیں۔ وہ 1919ء میں 'پنجابی مان جاٹ مسلم' خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔[4] انھوں نے ہندی، بنگالی، مراٹھی، گجراتی، تمل اور پنجابی زبانوں میں 6000 سے زیادہ گانے گائے تھے اور ان میں سے 1287 گانے ہندی فلمی گانے تھے۔[5] 1940ء کی دہائی سے لے کر 1970ء کی دہائی کے اوائل تک کے ان کے گانے کافی مقبول رہے ۔

ذاتی زندگی[ترمیم]

شمشاد بیگم 14 اپریل 1919ء کو برطانوی ہند کے امرتسر میں پیدا ہوئیں[4] اوہ ممبئی میں اپنی بیٹی اوشا رترا اور داماد کے ساتھ رہتی تھیں۔ انھوں نے گنپت لا بٹّو سے شادی کی تھی جن کا 1955ء میں انتقال ہو گیا تھا۔

پیشہ وارانہ زندگی[ترمیم]

شمشاد بیگم نے آل انڈیا ریڈیو سے اپنے فنی سفر کا آغاز 16 دسمبر 1937 میں کیا۔ ان کی صاف اور واضح آواز کو سامعین نے بہت پسند کیا جس کی وجہ سے جلد ہی انھیں سارنگی نواز استاد حسین بخش والے نے اپنی شاگردی میں لیا۔ شمشاد بیگم کی آواز سے تو سامعین کی شناسائی تھی ہی مگر لوگوں کو ان کا چہرہ دیکھنے کا موقع 1970 کی دہائی میں ملا، کیونکہ وہ اپنی تصاویر کھنچوانے سے ہمیشہ کتراتی تھیں۔ انھوں نے برصغیر کے نامور موسیقاروں او پی نیر اور نوشاد علی کے ساتھ کام کیا اور ان کے ساتھ گانے والوں میں لتا منگیشکر، آشا بھونسلے اور محمد رفیع شامل تھے۔ لاہور میں موسیقار ماسٹر غلام حیدر نے ان کی آواز کو مہارت کے ساتھ چند ابتدائی فلموں میں استعمال کیا جن میں 1941 میں بننے والی فلم خزانچی اور 1942 میں بننے والی فلم خاندان شامل ہیں۔ انھیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے پہلا مغربی طرز کا گانا ’میری جان سنڈے کے سنڈے‘ گایا۔ ان کے گانے آج بھی اتنے ہی مقبول ہیں جتنے آج سے 50 سال قبل تھے اور کئی گلوکاروں اور موسیقاروں نے ان کے گانوں کے ری مکس تیار کیے جو بے حد مقبول ہوئے۔ انھیں 2009 کے دوران پدم بھوشن اعزاز سے نوازا گیا۔ شمشاد بیگم 1944 میں ممبئی منتقل ہو گئیں جہاں انھوں نے کئی شہرہ آفاق فلموں میں گانے گائے اور آج بھی وہاں اپنی بیٹی کے ساتھ قیام پزیر ہیں۔ شمشاد بیگم کی 94ویں برس کو پہنچنے کی خبر جب عام ہوئی توشائقین حیران رہ گئے کہ شمشاد بیگم تو28فروری 2007کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئی تھیں۔ دراصل راگنی کے نام سے مشہور ماضی کے مقبول اداکارہ شمشاد بیگم نے طویل علالت کے بعد لاہور کے ایک اسپتال میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔ خوبصورت آنکھوں کی وجہ سے راگنی کو آہو چشم کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ انھوں نے 1940میں اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا اور قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں متعدد فلموں میں مرکزی اور کریکٹر رول کیے۔ ان کی مشہور فلموں میں انار کلی، گمنام، صاعقہ اور دیگر کئی شامل ہیں جبکہ’ شاہجہان‘ میں گلوکار اور اداکار سہگل کے ساتھ ممتاز محمل کا کردار ادا کیا نیز’ انار کلی‘ میں نورجہاں کے مقابل ویمپ کے کردار نے بھی بھر پور مقبولیت پائی۔ اسے فلمی صنعت کی لعنت کہئے یا حالات کی مار‘کہ راگنی طویل عرصہ سے فردوس مارکیٹ گلبرگ کی ماڈل کالونی میں اکیلی رہ رہی تھیں۔ ان کے جواں سال اکلوتے بیٹے کا نیویراک میں کینسر سے انتقال ہو گیا تھا جبکہ اکلوتی صاحبزادی شوہر اور بچوں کے ساتھ کراچی رہتی ہیں۔ راگنی نے داماد یا مرحوم بیٹے کی اولاد کے پا س نیو یارک رہنے کی بجائے اس کمرے میں آخری دن گزارنے کا فیصلہ خود کیا تھا۔ اس کے علاوہ شمشاد بیگم ایک کلاسیکل گلوکارہ کا نام بھی تھا جو سائرہ بانو کی نانی تھیں جن کا انتقال 1998 میں ہوا تھا۔ اس موقع پر بہت سوں نے سمجھا کہ اِن شمشاد بیگم کا انتقال ہو گیا ہے جبکہ شمشاد بیگم جو فلمی گلوکارہ تھیں وہ آج 94 برس کی ہو گئی ہیں۔ اپنے آخری ایام تنہا گذارنے والی یہ تنہا شخصیت نہیں ہیں بلکہ ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ گلوکارہ شمشاد بیگم کا ممبئی میں انتقال ہو گیا آ ’مغل اعظم‘، ’مدر انڈیا‘، ’سی آئی ڈی‘ اور’قسمت‘ جیسی فلموں میں آواز کا جادو جگانے والی گلوکارہ شمشاد بیگم کا 94 سال کی عمر میں ممبئی میں انتقال ہو گیا ۔

ان کی بیٹی اوشا رترا نے بھارتی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’گذشتہ کئی مہینوں سے ان کی طبیعت ناساز تھی اور انھیں ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔گذشتہ رات ان کا انتقال ہو گیا۔‘ انھوں نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کی موجودگی میں ان تجہیز و تکفین کی رسم ادا کر دی گئی۔‘

انھوں نے لاہور ریڈیو سے 1937 میں اپنی گائیکی کے کیریئر کا آغاز کیا تھا جو آل انڈیا ریڈیو کا حصہ ہوا کرتا تھا۔

ان کی صاف اور واضح آواز کو سامعین نے بہت پسند کیا جس کی وجہ سے جلد ہی انھیں سارنگی نواز استاد حسین بخش والے نے اپنی شاگردی میں لیا۔

شمشاد بیگم کی آواز سے تو سامعین کی شناسائی تھی ہی مگر لوگوں کو ان کا چہرہ دیکھنے کا موقع 1970 کی دہائی میں ملا، کیونکہ وہ اپنی تصاویر کھنچوانے سے ہمیشہ کتراتی تھیں۔

انھوں نے برصغیر کے نامور موسیقاروں او پی نیر اور نوشاد علی کے ساتھ کام کیا اور ان کے ساتھ گانے والوں میں لتا منگیشکر، آشا بھونسلے اور محمد رفیع شامل تھے۔

لاہور میں موسیقار ماسٹر غلام حیدر نے ان کی آواز کو مہارت کے ساتھ چند ابتدائی فلموں میں استعمال کیا جن میں 1941 میں بننے والی فلم ’خزانچی‘ اور 1942 میں بننے والی فلم ’خاندان‘ شامل ہیں۔

انھیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے پہلا مغربی طرز کا گانا ’میری جان سنڈے کے سنڈے‘ گایا۔

ان کے گانے آج بھی اتنے ہی مقبول ہیں جتنے آج سے پچاس سال قبل تھے اور کئی گلوکاروں اور موسیقاروں نے ان کے گانوں کے ری مکس تیار کیے جو بے حد مقبول ہوئے۔

شمشاد بیگم 1944 میں ممبئی منتقل ہو گئیں جہاں انھوں نے کئی شہرہ آفاق فلموں میں گانے گائے۔

ان کے نغمے آج بھی لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔

ان کے گیتوں میں ’لے کر پہلا پہلا پیار‘، ’میرے پیا گئے رنگون‘، ’ کبھی آر کبھی پار لاگا تیر نظر‘، ’کجرا محبت والا انکھیوں میں ایسا ڈالا‘ یا پھر’ کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ‘ شامل ہیں۔

ان کے نغموں میں ’مدر انڈیا‘ کا ہولی کا گیت ’ہولی آئی رے کنہائی‘ کے ساتھ ’مغل اعظم‘ کی قوالی ’تیری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں‘ گے جیسے مقبول خاص و عام گیت بھی ہیں۔

وفات[ترمیم]

شمشاد بیگم کا 23 اپریل 2013 کو طویل علالت کے بعد ممبئی کی رہائش گاہ پر انتقال ہو گیا۔ وہ 94 سال کی تھیں۔[6][7] ان کو ایک چھوٹے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔[8]

وزیر اطلاعات و نشریات منیش تیواری نے کہا، "فلم انڈسٹری نے اپنے ایک انتہائی ہمہ گیر گلوکارہ کو کھو دیا ہے۔ شمشاد جی کے گانے کے انداز نے نئے معیارات قائم کیے۔ ان کی مدھر آواز نے طاقتور بول کے ساتھ ہمیں ایسے گانوں سے نوازا جو آج بھی مقبول ہیں۔"[9] وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا کہ "وہ غیر معمولی صلاحیتوں اور قابلیت کی مصور تھیں اور انھوں نے اپنے طویل کیریئر میں جو گانوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ، جو انھوں نے 1937ء میں اے آر کے ساتھ شروع کیا تھا ، وہ محبت کرنے والوں کو راغب کرتے رہیں گے۔"[10]

ایوارڈ[ترمیم]

2009ء میں شمشاد بیگم کو بھارت کا تیسرا بڑا شہری اعزاز پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا تھا[11] اسی سال انھیں موسیقی کی دنیا میں ان کی بیش قیمت خدمات کے لیے او پی نیّر اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔[12]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Singer Shamshad Begum, Unseen Singer of Indian Film, Dies at 94
  2. Shamshad Begum, The Legendary Singer آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ indianmelody.com (Error: unknown archive URL). بھارتی ڈاک. August 1998
  3. "Shamshad Begum dies at 94 – The Times of India"۔ The Times of India۔ 26 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اپریل 2013 
  4. ^ ا ب Shamshad Begum was born in Lahore, not Amritsar: Daughter | The Express Tribune. Tribune.com.pk. Retrieved on 6 November 2018.
  5. BBC News: India singing legend Shamshad Begum dies. Bbc.co.uk (24 April 2013). Retrieved on 2018-11-06.
  6. "Veteran Bollywood Singer Shamshad Begum passes away at 94"۔ Biharprabha News۔ 24 اپریل 2013 
  7. "Shamshad Begum dies at 94 – The Times of India"۔ The Times of India 
  8. Manmohan Singh condoles passing away of Shamshad Begum. Yahoo. 24 اپریل 2013
  9. Shamshad Begum's singing style had set new benchmarks: Manish Tewari – India – DNA. Dnaindia.com (24 April 2013). Retrieved on 2018-11-06.
  10. Shamshad Begum had extraordinary talent: Prime Minister Manmohan Singh | NDTV.com. Archive.is. Retrieved on 6 November 2018.
  11. Yesteryears' playback singer Shamshad Begum named for Padma Bhushan. Twocircles.net (25 جنوری 2009). Retrieved on 2018-11-06.
  12. "O P Nayyar award for Shamshad Begum"۔ The Times of India۔ 24 ستمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جنوری 2009